حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار و مولانا مفتی عبد السمیع کی شہادت
ہوئی تو راقم کا جامعہ بنوریہ عالمیہ (سائٹ ایریا کراچی) میں پہلا سال تھا
اور دینی تعلیم کی جانب بھی پہلا قدم، مارچ میں میں نے جامعہ بنوریہ عالمیہ
(سائٹ ایریا کراچی) میں درجہ اولیٰ میں داخلہ لیاتھا اور نومبرمیں یہ روح
فرسا واقعہ پیش آیا، ذہن پر بہت زور دینے کے بعد بھی بس اتنایادآتاہے کہ
جامعہ میں تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے جامعہ کے تمام اساتذہ اور بڑے طلباء جن
میں درجہ ثالثہ اوراس سے اوپرکے درجات کے طلباء شامل ہیں، شہداء کے جنازے
میں شرکت کے لیے گئے تھے، جب کہ چھوٹے طلباء کے جامعہ سے باہر نکلنے پر
پابندی لگادی گئی تھی، یوں ہم ان عظیم شہدائے کرام کے جنازے میں بھی شرکت
سے محروم رہے۔ تعلیمی سال کے اِختتام پرجامعہ بنوریہ عالمیہ میں ختم بخاری
و تقسیم انعامات کی تقریب میں مولانا بشیراحمد نقشبندی کوبھی خصوصی طور پر
مدعو کیا گیا تھا، ان کا تعارف کراتے ہوئے اسٹیج سیکریٹری نے جب سانحۂ
بنوری ٹاؤن کا تذکرہ کیا تو شہداء کے ذکر سے محفل پرایک سوگ کی سی کیفیت
طاری ہوگئی تھی اور جب درجہ ثانیہ کا ایک طالب علم مولانا نقشبندی سے جامعہ
کے امتحانات میں اوّل آنے کا انعام وصول کر رہا تھا، تو وہ خود کو اس حوالے
سے خوش قسمت تصور کر رہا تھا کہ حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار
صاحب و مفتی عبد السمیع صاحب رحمہمااللہ تعالیٰ کی توزیارت کاشرف حاصل نہ
ہوسکا، مگر آج ان کے ہم سفر ایک زندہ شہیدکے ہاتھ سے وہ انعامی کتابیں وصول
کررہاہے،جو معجزانہ طورپر شدید زخمی ہونے کے باوجودبچ گئے تھے۔ آج جب میرے
اور نقشبندی صاحب کے دفترمیں صرف ایک دروازے کا فاصلہ ہے اور ان کی صحبت سے
شب و روز استفادے کا موقع مل رہا ہے، توسوچتا ہوں کہاں وہ لمحات اور کہاں
یہ دن!!
اس تفصیل کو ذکر کرنے کا مقصود کسی قسم کی خود ستائی و خود نمائی نہیں، نہ
کسی ریکارڈ کی درستی مقصود ہے، بل کہ اس بات کی وضاحت مطمح نظرہے کہ جس شخص
کو ان دونوں حضرات کی زیارت کا بھی شرف حاصل نہ ہوا ہو، وہ ان کے بارے میں
کیا لکھ سکتا ہے؟ مگر ان دونوں حضرات سے بالواسطہ شاگردی کاشرف کچوکے دے
رہاہے کہ اس شرف کے بھی کچھ تقاضے ہیں، تم نے اپنے اساتذہ سے صرف و نحو اور
حدیث میں جو کچھ پڑھا ہے، اس میں ان دونوں شہیدوں کا فیض بھی شامل تھا، سو
یہ بے رخی ہے کہ تم قرطاس پر ان حضرات کے سلسلے میں کچھ رقم نہ کرو، بل کہ
یہ تمہاری محرومی ہوگی کہ ایک ایسی کتاب میں تمہیں کچھ لکھنے کاموقع
میسرآرہاہے، جس میں راہِ حق کے متعدد شہداء کے مضامین ہیں، کیا پتا اسی
بہانے کتاب کی فہرست میں ان شہداء کے ساتھ مصاحبت ربِّ قدیر کو پسند آجائے
اور وہ روزِ محشر بھی ان شہداء کے ساتھ تمہارا حشر فرمائے، بس یہ اُمید اور
تمنا ہے جومجھے آمادہ ہی نہیں بل کہ مجبور کر رہی ہے کچھ لکھنے پر، اللہ اس
امیدکوتمام اہل ایمان کے لیے یقین میں بدل دے۔ آمین۔
میں مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار کی شخصیت کے بارے میں سوچتا ہوں تو
دنگ رہ جاتا ہوں۔ یہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہی تھا کہ ایک شخص میں
اس قدر صفات جمع فرمادیں، جن کا اس قحط الرجال کے دورمیں کسی ایک شخص میں
تلاش کرناجوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔ وہ ایک کامل انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ
نے ان کی ذات میں وہ تمام صفات جمع فرمادی تھیں، جو کسی کامیاب و مثالی
انسان میں ہوسکتی ہیں۔ ایک طرف وہ ایک قابل عالم و مفتی تھے، تو دوسری طرف
ایک لائق گریجویٹ اور پی ایچ ڈی ہولڈر بھی۔ وہ ایک طرف ایک کامیاب مدرّس
تھے تودوسری طرف ایک مثالی منتظم بھی۔ وہ ایک طرف صاحب ِنسبت ولی اللہ تھے
تودوسری طرف زمانے کی نبض سے بھی واقف و آگاہ ایک بیدار مغز منتظم بھی۔ وہ
ایک طرف علومِ آلیہ میں کامل دسترس رکھنے والے استاذ تھے تودوسری طرف
محدثین کی علمی موشگافیوںکی تہ تک پہنچ کران سے موتی نکالنے کا ہنر بھی
جانتے تھے۔ انھیں تفسیر قرآن کا بھی ایک خاص ذوق حاصل تھا، قدیم و جدید
تفسیری مآخذ ہوں یا جدید تفسیری تحقیقات، ان کی دونوں پر یکساں نظر تھی۔ ان
کا ایک خاص وصف یہ بھی تھاکہ وہ اہل لسان بھی تھے اورعربی میں مہارت بھی
انھوں نے اہل لسان ہی سے حاصل کی تھی، یوں ان کے تراجم میں دونوں زبانوں کی
جوجامعیت، ادبی چاشنی اورجاذبیت نظرآتی ہے، وہ اس میں بلاشبہ یکتائے روزگار
تھے۔ ان کے قلم معجزرقم سے ہونے والاعربی سے اردو کا ترجمہ پڑھنے والا قاری
ہو یا اردو سے عربی ترجمہ پڑھنے والا کوئی صاحب ِذوق ہو، وہ ان کی تحریر کے
سحرمیں یوں کھوجاتا تھا کہ اسے ترجمے کاگمان بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ
ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ عبارت میں باریک سے باریک غلطی کو بھی
پکڑلیتے تھے۔ مولانا حسین قاسم صاحب نے ایسے متعدد واقعات لکھے ہیں۔
..................................
اس قوم پرسوائے حسرت و افسوس کے کیا کیا جاسکتاہے، جس نے اس ہیرے کی قدرنہ
کی، مفادات کے اسیروں کی نظر صرف اپنے مفادات پر ہوتی ہے، خواہ اس کی بڑی
سے بڑی قیمت ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ قارئین امریکی سفیرکے وہ الفاظ یقینا نہ
بھولے ہوں گے جواس نے ایمل کانسی کی حوالگی پرکہے تھے کہ یہ پاکستانی اپنے
مفادات کے لیے اپنی ماں بہن تک غیروں کے حوالے کرنے سے نہیں چوکتے، تب اس
قوم کی رگوں میں کچھ خون تھا، سو یہ جملہ بہت برا محسوس کیا گیا، لیکن جب
ایک مطلق العنان آمر نے قوم کی آبرو ڈاکٹر حافظہ عافیہ صدیقی کو دشمن کے
حوالے کیا تو اس قوم کو پتا بھی کئی برس گزرنے کے بعد چلا، مردہ قوم کی
رگوں میں حمیت کاخون نہ دوڑا، یہاں تک کہ اس مظلوم دخترِپاکستان کو اسی برس
کی قیدبھی سنادی گئی
اس قوم کی مردہ نبضوں میں احساس کوزندہ کون کرے
جس خون سے قومیں بنتی ہیں اس خون کاسوداکون کرے
سو اتنے بڑے جبالِ علم و عمل کے خاک وخون میں تڑپائے جانے کے باوجود کوئی
ارتعاش پیدا نہ ہوسکا، اس دھرتی نے ایسے ایسے علماء کا خون پیا جن کے تقدس
کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں اورجن کے زہد و اتقاء پر مسلمانی بھی نازاں ہے،
مگر قاتل ہر واردات کے بعد نئی واردات کی پلاننگ میں لگ گیا، قوم بہ
دستورخوابِ خرگوش کے مزے لوٹتی رہی اور علماء نے امن پسندی کی پالیسی
اپنائے رکھی اوریہ وطیرہ بن گیا: لاشیں اُٹھاؤ، چند دن جانے والوںکے گن
گاؤ، پھر سب کچھ بھول کر اپنے کاموں میں مگن ہوجاؤ، اب الحمد للہ! فضاکافی
بدل چکی ہے، اس شہرسے آسیب کے سائے اب ہٹتے جارہے ہیں، قاتل پناہ گاہوں کی
تلاش میں ہیں، خونِ مسلم کی ارزانی کاسلسلہ کچھ تھم چکا ہے، کاش! کراچی کی
سرزمین پر تڑپائے جانے والے شہداء کے قاتلوں کے گریبانوں تک بھی قانون کا
آہنی ہاتھ پہنچے اوروہ اپنے کیے کی سزا کا کچھ مزا اس دارِ فانی میں بھی
چکھ لیں۔
آئیے! قاتل تک پہنچنے کے لیے اس وقت کے حالات کا ایک جائزہ لیں، تاکہ اس
سفاکی و بربریت کے اسباب و عوامل اورمحرکات و مضمرات سامنے آسکیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست وہ عنصر ہے جو ملک کے دیگر شعبۂ جات پر بلا
واسطہ یا بالواسطہ اثر انداز ہوتا ہے، اس لیے کسی بھی ملک کی ترقی اور خوش
حالی کا دار و مدار سیاسی استحکام سے وابستہ ہے۔ وطن عزیز میں تو سیاسی
تبدیلیوں کے بعد اکثر اداروں پر اس قدر اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ بعض اوقات
ان کے حلیے بگڑ جاتے ہیں، سیاسی تبدیلیوں کے فوراً بعد معاشی، اِقتصادی،
صورتِ حال کے ساتھ امن عامہ میں تبدیلیاں بھی مشاہدہ میں آتی ہیں۔ اس لیے
وطن دشمن عناصر کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام نہ ہونے
پائے۔
١٩٩٧ ء میں بھی ایسی ہی صورتِ حال تھی، عرصۂ دراز کے تجربات و مشاہدات کے
بعد پاکستانی قوم نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت کو اتنا بھاری
مینڈیٹ دیاتھا اور سیاسی عدم استحکام کی جڑ کاٹ دی تھی۔ ہر وقت کی سیاسی
رساکشی اور لوٹا کریسی کا خاتمہ ہوا تھا۔ حکومت نے آہستہ آہستہ اپنے قدم
مضبوط کرکے وطن عزیز کی ترقی کے لیے کام کا آغاز کردیا تھا، لیکن ملک دشمن
عناصر نے ایک نئی پالیسی اختیار کی اور امن عامہ کو تباہ کرنے کی کوششیں
شروع کردیںاور نومنتخب حکومت کے ابتدائی ایام میںہی ملکی تاریخ کے متعدد
خوف ناک سانحات پیش آئے۔ مثلاً: سانحہ جامعہ خیرالمدارس ملتان، سانحہ
لاہور، سانحہ خانقاہ ڈوگراں ان واقعات کے ذریعے مصنوعی فرقہ واریت پیدا
کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب مذہبی حلقوں نے دہشت گردی کے ان واقعات کے باوجود
کسی ردِ عمل کا اظہار نہ کیا اور ملک بھر کی مذہبی فضا کو زہر آلود ہونے سے
بچالیااور مختلف مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے بھی ذمہ داریوں کو ادا کرتے
ہوئے فوراً عوام کی راہ نمائی کی اور حکومت کو دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے
تعاون کا یقین دلایا، یوں ماضی کی طرح اس باربھی دینی حلقوں اورمذہبی
قوتوںکے تعاون اوربروقت فیصلوں کی وجہ سے ملک دشمن قوتوں کو ایک مرتبہ پھر
ناکامی ہوئی۔
ملک دشمن عناصرنے اپنی چالوںکویوں ناکام اورکوششوںکویوں رائیگاں جاتے دیکھا
تو ایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے ملک میں امن و امان برباد
کرکے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہوگئے، جس کا نئے سرے سے
آغاز ملتان میں نئی دہشت گردی سے کیا گیا، ملتان کے حالات ابھی معمول پر
نہیں آئے تھے کہ کراچی میںجامعة العلوم الاسلامیہ علامہ سیّد محمد یوسف
بنوری ٹاؤن کی گاڑی پرحملہ کر کے جامعہ کے مہتمم و وفاق المدارس العربیہ کے
ناظم اعلیٰ مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار اور ان کے دست ِراست معروف
علمی شخصیت مولانا مفتی عبدالسمیع رحمہمااللہ تعالیٰ کو بدترین دہشت گردی
کا نشانہ بنایا گیا، سفاکی کی انتہاء یہ تھی کہ ان دونوں حضرات کو شہید
اوران کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے دوسرے حضرات کوشدیدزخمی کرنے پربھی سفاک قاتل
کا جوشِ درِندگی و جذبہ درندگی سرد نہ ہوا، بلکہ گاڑی پرآتش گیرمادہ پھینک
کرگاڑی کوبھی خاکستر کردیا گیا، اس کے اسباب و عوامل کچھ بھی ہوں، پشت
پناہی کرنے والی قوت کوئی بھی ہو، استعمال ہونے والا ہاتھ کسی کا بھی ہو،
مگر یہ طے شدہ بات تھی کہ اس درندگی و سفاکی کابنیادی مقصد ملک میں لوگوں
کو مذہبی دہشت گردی کی بنیاد پر سڑکوں پر لانا تھا، اس کے لیے کراچی
کاانتخاب کرنے والے اس شہر کی اہمیت سے بہ خوبی واقف تھے کہ ملک کا سب سے
بڑا شہر ہونے کی وجہ سے یہاں آنے والا عدم اِستحکام بہت جلدپورے ملک کو
اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے، یہاں کی بدامنی کے اثرات چشم زدن میں ملک بھرتک
پھیل جاتے ہیں اوریہاں کی اقتصادی ومعاشی ناہم واری پورے ملک کااقتصادی و
معاشی پہیہ جام کرکے رکھ دیتی ہے۔
علمائے کرام اور مذہبی طبقے کی دور اندیشی نے اس سازش کو بھی ناکام بنادیا
اور ملک دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل نہ کرسکا، لیکن اٹھارہ سال گزرنے
کے باوجود ہمیں اب بھی علماء اورحکومت و اداروں کے درمیان ایک ایسی خلیج
نظرآتی ہے، جسے آج تک نہ پاٹا جاسکا۔ پورے ملک کو تو ایک طرف رکھیں، صرف
کراچی ہی کی صورتِ حال میں دونوں طبقوں کے کردارکاجائزہ لیں۔ کراچی میں
مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار و مفتی عبدالسمیع رحمہما اللہ کی شہادت
سے شروع ہونے والا سفاکانہ سلسلہ علمائے کرام کی دور اندیشی، امن پسندی،
اداروں اور حکومت سے بے لوث تعاون کے باوجود علماء اور مذہبی طبقے کو صلہ
لاشوں، زخمیوں اور الزام تراشیوں ہی کی صورت میں ملا۔ عدالت نے ان دونوں
حضرات کے قاتلوں کوہی نہیں، شہیداسلام مولانامحمدیوسف لدھیانوی، امام
المجاہدین ڈاکٹر مفتی نظام الدین شامزئی، شہید ختم نبوت مفتی محمد جمیل
خان، شہید ناموسِ رسالت مولانا سعید احمد جلالپوری، شہید مظلوم مفتی عبد
المجید دینپوری، داعی قرآن مولانا مفتی عتیق الرحمن، مفسر قرآن مولانا محمد
اسلم شیخوپوری، مولانا محمد امین اور مفتی عبد الصمد سومرو سمیت متعدد
علمائے کرام کے قاتلوں کو، جب وہ تختۂ دار سے چند قدم کے فاصلے پر رہ گئے
تھے بری کردیا۔ کراچی کے تقریباً تمام ہی قابل ذکر دینی مدارس کی گاڑیوں پر
حملے ہوئے، جن کے مجرم اوران کے پشت پناہوں کو تاہنوز آئین کا آہنی شکنجے
میں کسنے کی کوئی مؤثرکوشش نہ کی جاسکی۔ ایسے ایسے علمائے کرام، جن کی ذات
اتحاد کا سمبل، جن کی مساعی کا مرکز و محور اتحاد بین المسلمین تھا، جو ہر
قسم کی مسلکی، جماعتی، عسکری سرگرمیوں کو اپنے ہی نہیں اپنے حلقہ اثرکے لیے
بھی شجرِممنوعہ سمجھتے رہے، جن کی زندگی کاایک ایک لمحہ مسلمان کوحقیقی
معنوں میں مسلمان اوراہل وطن کو سچا پاکستانی بنانے کے لیے وقف رہا، جو رب
کاقرآن سکھاتے اوراسلام کے اس مضبوط حلقے کو، جو نہ کبھی ٹوٹنے والاہے
اورنہ ہی چھوٹنے والا تھامنے کی دعوت دیتے رہے، جو بتانِ رنگ و خوں کو توڑ
کر، ہر قسم کی مسلکی و سیاسی، لسانی و علاقائی نسبتوں کوتج کر ملت میں گم
ہونے کا درس دیتے رہے، انھیں دن دھاڑے بھری پری سڑکوں پر اس بے دردی سے
نشانہ بنایا گیا کہ انسانیت منہ چھپانے پر مجبور ہوگئی، اس روح فرساظلم در
ظلم کے بعدبھی دینی طبقے نے اشتعال انگیزی اور قانون کو ہاتھ میں لینے سے
گریز کیا، مگر ملا پھر بھی کچھ نہیں۔ قابل گردن زدنی انہی کو ٹھہرایا گیا،
حوالات میں انہی کو ڈالا گیا، سرزنش انہی سے کی گئی کہ تمہارا یہ جرم ہے کہ
تم روئے کیوں؟
ہم بڑی ذمے داری سے آج یہ بات لکھ رہے ہیں کہ فرقہ واریت مذہبی ومسلکی
نہیں، سیاسی مسئلہ ہے۔ کیا پاک فوج جو بلاشبہ آج اس ملک کے عوام اور
بالخصوص شہر قائد کے عوام کے لیے مسیحا اور ابرِرحمت بن چکی ہے، وہ اس
مسئلے کے اس پہلو پر غور کرے گی؟ فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے نیشنل
ایکشن پلان سر آنکھوں پر، لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی پابندی قابل تحسین، ایک
دوسرے کی تکفیرپر قدغن بہت خوب، مگر ان سیاست دانوں کی بیٹھکوں،
اوطاقوںاورفارم ہاؤسز تک رسائی کب ہوگی، جہاں فرقہ واریت کوہوادینے کے
منصوبے ترتیب دیے جاتے، اُنھیں رُوبہ عمل لانے کے مشورے اور اسکرپٹ کے
مطابق کردار ادا کرنے کے لیے فنکار تلاش کیے جاتے ہیں۔ اصل یہ فنکار نہیں،
ان کے اسکرپٹ رائٹر اور اسپانسرز ہیں، ان کی بیخ کنی کے بغیر ماضی کی طرح
اب بھی ہر اقدام بے اثر و بے ثمرہی رہے گا۔ کیااصحابِ اختیار اس جانب بھی
توجہ دیں گے؟ |