حکومت کی عدم توجہی کے باعث بھوک و افلاس اور صحت کی سہولیات کے فقدان کے
سبب تھرپارکر میں ایک عرصے سے موت کا سلسلہ جاری ہے۔ بھوک و پیاس اور ناقص
انتظامات کی وجہ سے تھر کے معصوم بچے اپنی جانیں پے در پے موت کے حوالے کیے
جارہے ہیں، لیکن سندھ حکومت آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ ایک عرصے سے موت کا
عفریت تھرپارکر کے میں معصوم جانوں کونگل رہا ہے۔ لوگ صبح اپنے گھر کی میت
اٹھاتے ہیں تو شام کو پڑوسی کے بچے کو کاندھا دیتے ہیں۔ اس دوران انہیں خود
بھی اس خونخوار بلا کے ہاتھوں شکار ہونے کا خدشہ لاحق ہوتا ہے۔ ان کا حاکم
غافلِ مطلق ہے اور وزیر بے پرواہی کی حدیں پھلانگ کر بے حسی کی سرحد پار
اپنے سونے کے محلات میں محوِ استراحت ہیں۔ یہ سب کچھ اسی دنیا میں ہورہا ہے
جہاں دنیا بھر میں مختلف تنظیمیں لاوارث جانوروں کی جانیں بچانے، درختوں
اور جنگلات کی حفاظت کے لیے تو سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں، لیکن بدقسمتی سے
یہاں صاحب اقتدار طبقے کو بھوک و پیاس سے مرتے انسانوں کی جانیں بچانے سے
زیادہ اپنی کرسیاں اور اقتدار بچانے کی فکر دامن گیر ہے۔ تھر میں بھوک اور
پیاس سے معصوم بچوں کی اموات حکومت کے لیے شاید صرف اعداد وشمار ہوں، مگر
یہی تلخ زندگی گزارنا تھرکے غریب باسیوں کا مقدر ہے۔ تھرپارکر میں خوراک کے
قحط کے ساتھ ساتھ صاحب اقتدار طبقے میں احساس ذمے داری کا قحط بھی حد درجہ
شدید ہے، کیونکہ ان ہلاکتوں کی وجہ محض غذائی قلت، ضروریاتِ زندگی کا فقدان،
افلاس، پسماندگی اور غربت ہی نہیں، بلکہ سیاسی ذمہ داروں کی مسلسل دانستہ
بے رغبتی و بے اعتنائی ہے۔ حکومت کی جانب سے سندھ فیسٹیول وغیرہ کے لیے
کروڑوں روپے تو ہوا میں اڑا دیے جاتے ہیں، لیکن ہسپتالوں میں سہولیات کے
فقدان اور بھوک و پیاس سے مرتے تھری باشندوں کی جان بچانے کے لیے کچھ نہیں
کیا جاتا، بلکہ حکومت بھوک و افلاس سے مرتے باسیوں کی اموات کی ذمہ داری
لینے کو تیار ہی نہیں ہے۔ تھرپارکر میں غذائی قلت، بیماریوں اور صحت کی
سہولیات کے فقدان کے نتیجے میں گزشتہ 21 روز میںبچوں کی ہلاکتوں کی تعداد94
ہوگئی ہے، مگر وزیرِ اعلیٰ سندھ سمجھتے ہیں کہ ان اموات کو بڑھا چڑھا کر
پیش کیا جا رہا ہے اور ان کی حکومت کو ان اموات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا
سکتا۔ تھرپارکر میں 2015ءمیں 376 بچوں سمیت لگ بھگ ایک ہزار افراد غذائی
قلت سے لقمہ اجل بن گئے تھے، لیکن صوبائی حکومت نے گزشتہ سال ہونے والی
ہلاکتوں سے کوئی سبق نہ سیکھا اور ایک مرتبہ پھر تھرپارکر کے باشندوں کو
حکومتی نااہلی کے سبب غذائیت کی کمی اور صحت کی سہولیات کے فقدان کا سامنا
ہے، جس کی وجہ آئے روز معصوم بچے اپنی جان جان آفریں کے حوالے کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز اسلام کوٹ ہسپتال میں گاﺅں سینگارو میںآپریشن کی سہولت نہ ہونے
کے باعث ایک ماں اپنے بچے سمیت جاں بحق ہو گئی ہے۔ اسلام کوٹ کی تعلقہ
ہسپتال میں گزشتہ 2 ماہ سے آپریشن تھیٹر بند ہے، جبکہ سنگین حالات کے
باوجود محکمہ صحت نے آپریشن تھیٹر کو چلانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔
جبکہ ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت نے تعلقہ ہسپتالوں اور بچوں کے وارڈز
سمیت دیہاتوں میں مطلوبہ طبی عملے تعینات نہیں ہے۔ تھر پارکر کے دیہاتوں
میں سردی کی لہر میں اضافے کے باعث کم وزن کے پیدا ہونے والے بچے دم توڑ
رہے ہیں اور ہلا کتو ں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ مگر ایسی صورتحال کو کنٹرول
کرنے کے لیے حکومت اور سماجی تنظیموں کی جانب سے کھلی طور پر کوئی امداد
ہوتی نظر نہیں آرہی، جس سے تھری مکین کچے جھونپڑوں میں سردی سے ٹھٹھرتے
ہوئے اپنے بچوں کو بچاسکیں۔ تھرپارکر کے لوگوں کے حکومت سمیت سماجی تنظیموں
سے فوری ضروری امداد کی اپیل کے باوجود بھی انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب تھر میں نصب فلٹریشن پلانٹس کی تکنیکی دیکھ بھال نہ ہونے کے
باعث پانی بے ذائقہ، لوگ کڑوا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ تھرپارکر کی تحصیلوں
مٹھی، اسلام کوٹ، چھاچھرو، ڈیپلو، نگرپارکر اور ڈاہلی میں 400 کے قریب
فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب کا دعوی کیا جا رہا ہے، مگر بیشتر پلانٹس کا پانی
مقررہ معیار کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے لوگ استعمال نہیں کرتے۔ واٹر ٹینکس
کی صفائی نہ ہونے اور فلٹرز سمیت دیگر وجوہات کی بنا پر پانی کا ذائقہ بدل
جاتا ہے۔ سندھ حکومت نے دیہات میں لگے ان فلٹریشن پلانٹس کو ایک نجی کمپنی
کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، جس کا پانی لیبارٹری سے چیک نہیں کرایا جاتا۔
غیر تیکنیکی عملے کی تعیناتی کی وجہ سے کڑوے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل
کرنے کا عمل متاثر ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے دیہات کے لوگ قدرے میٹھے پانی
کے موجود قدیمی کنوﺅں سے پانی حاصل کرتے ہیں تو اکثر دیہات میں پانی کے
حصول کے لیے تین سے چار کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ تھر کے مکینوں اور
سماجی حلقوں نے سندھ حکومت سے اپیل کی ہے کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے نصب ان
فلٹریشن پلانٹس کی دیکھ بحال کی جائے، تاکہ آبادی کو پینے کا صاف پانی مل
سکے۔
افسوسناک حقیقت ہے کہ جب تک میڈیا تھر کے معاملے کو نمایاں کیے رکھتا ہے،
حکومت بھی حرکت میں دکھائی دیتی ہے، لیکن میڈیا خاموش ہوجاتا ہے تو حکومت
بھی تھر کے عوام سے کیے گئے تمام وعدوں کو بھول جاتی ہے۔ میڈیا پر اس سانحہ
کی خبریں آنے کے بعد تو یہ ہوناچاہیے تھا کہ صوبائی حکومت موثر اور مستقل
اقدامات کرتی، لیکن افسوس صوبائی حکومت نے اس حوالے سے اپنی ذمے داری پوری
نہیں کی اور رسمی اقدامات کرکے مطمئن ہوگئی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ
علاقہ اس افسوس ناک صورتحال سے دوچار ہے اور ہر روز معصوم بچے جان سے جارہے
ہیں۔ گزشتہ برس تھر میں قحط سالی اور بیماریوں سے بچوں کی ہلاکتوں کے
واقعات کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے تھر کے لیے خصوصی پیکج، ہسپتالوں کی
بہتری اور ان کے بجٹ میں اضافے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن اِن میں سے اکثر
پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ صوبائی حکومت کی غفلت وکوتاہی کی وجہ سے آج
تھریوں کو مسلسل غذائی قلت کا سامنا ہے اور سرکاری شفاخانوں میں عوام کو
علاج کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ شفاخانوں میں کوالیفائڈ ڈاکٹرز کی کمی ہے۔
اگر عوام کو بھولے سے کوئی ڈاکٹر مل جائے تو مہنگی ادویات کی پرچیاں مریضوں
کے ہاتھوں میں تھما دی جاتی ہیں، جن کو خریدنے کے لیے غریب عوام کی جیبوں
میں پیسے نہیں ہوتے۔ تھر میں ستم ظریفی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جن سرکاری
ہسپتالوں کو کروڑوں روپے کا فنڈ ملتا ہے، عوام کے لیے مفت ادویات دینے اور
علاج معالجہ کی سہولتوں کے لیے وہ ہسپتالوں میں سرے سے ہی موجود نہیں
ہوتیں، اگر کبھی کبھار میڈیا کودکھانے کے لیے ادویات خرید بھی لی جائیں تو
ان ادویات کو بازار میں اونے پونے داموں بیچ کر اپنی جیبیں بھر لی جاتی
ہیں۔ صاحب اقتدار طبقے کی نااہلی کی وجہ سے آج تھرپارکر میں معصوم اور غریب
تھری باشندے اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ |