کچھ دنوں سے الجھنوں نے میرے دماغ میں یوں ڈیرہ جما رکھا تھا کہ ذہن کے
تمام دروازے اور کھڑکیاں بند ہو چکے تھے۔ کوئی انوکھا،اچھوتا اور اپنی طرز
کا منفرد خیال ذہن کے دریچہ پر دستک دینے کو تیار نہ تھا بعض اوقات تو ایسا
محسوس ہوتا تھا کہ جدت بر مبنی خوبصورت خیال تو شاید مجھ سے ہمیشہ کے لیے
روٹھ گئے ہیں۔جب الجھن مذید بڑھ گئی تو سوچا مرشد کے دربار حاضر ہوتے ہیں
وہ ان الجھنوں کی گتھیاں سلجھانے میں ضرور مدد کریں گے۔مجھے کوئی بھی مشکل
درپیش ہو میں دروازہ مرشد کا ہی کھٹکھٹاتا ہوں ۔اس مرتبہ بھی میں الجھنوں
اور پریشانیوں کی چادر اوڑھ کر مرشد کے روبرو حاضر تھا ۔میں نے مرشد سے عرض
کیا حضور چند الجھنیں ہیں جو دامن گیر ہو چکی ہیں ۔آپ کا مشورہ درکار ہے کہ
ان سے پیچھا کیسے چھڑاوں۔فرمانے لگے کیا الجھن ہے۔میں نے بصد احترام کہا کہ
میں جہاں بھی جاتا ہوں لوگ مجھ سے حسد کرنے لگتے ہیں ۔ لوگ مجھ سے نفرت
کرنے لگتے ہیں ۔ کچھ تو سازشوں کا جال بننا شروع کر دیتے ہیں۔مرشد نے زیر
لب تبسم فرمایا ۔پہلے مجھے سر سے پاوں تک غور سے دیکھا اور پھر کچھ یوں
فرمانے لگے۔ برخوردار لگتا ہے ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہو۔انسان جب
ترقی کی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے تو محبت کرنے والے کم ہو جاتے ہیں اور نفرت
کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ کچھ لوگ آپ کو کامیاب
ہوتا دیکھ کر فرسٹریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ حسد کی آگ میں جلنا شروع
ہو جاتے ہیں اور کچھ کی تو فطرت ہی ایسی ہوتی ہے کہ انہیں دوسروں کا راستہ
روکنے سے راحت ملتی ہے ۔تم پریشان نہ ہوا کرو کہ نفرت کرنے والوں کی تعداد
بڑھ گئی ہے بس صرف اپنے کام پر دھیان دو ۔ بتاتا چلوں کہ میرے مرشد ایک
موٹی ویشنل سپیکر بھی ہیں ایسے مواقعوں پر اکثر وہ کوئی نہ کوئی قصہ سنا کر
مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگرچہ میں مرشد سے گاہے گاہے ملتا رہتا
تھا لیکن یہ مرشد کی محفل میں میری پہلی طویل ترین نشست تھی جس میں انہوں
نے قصے کہانیوں کا سہارا لے کر میری الجھنوں کو رفع کر دیا۔مرشد فرمانے
لگے۔ اگر کبھی تمہیں کسی جنگل میں جانے کا اتفاق ہو تو وہاں جا کر تمہیں
احساس ہو گا کہ جیسے جنگل میں تو کوئی جانور ہی نہیں رہتا ۔ایکدم سناٹا ہو
گالیکن پھر چندلمحوں بعد اچانک چاروں طرف سے جانوروں کی آوازیں آنا شروع ہو
جاتی ہیں۔بندر اچھلنا کودنا شروع کر دیتے ہیں ۔ چوہے ادھر ادھر بھاگنا شروع
کر دیتے ہیں۔ پرندے شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہاتھیوں کی دھاڑ سنائی
دینے لگتی ہے اور ایسا تب ہوتا ہے جب جنگل کا بادشاہ شیر میدان میں آتا ہے
۔ شیر جونہی دھاڑتا ہے سارا جنگل ڈسٹرب ہو جاتا ہے ۔ کچھ جانور اس کی
بادشاہت سے نفرت کرتے ہیں ۔کچھ اس کی دھماکہ دار اینٹری سے مرعوب دکھائی
دیتے ہیں۔اور کچھ اس سے ڈر کر سہم جاتے ہیں۔ اور اگر شیر کی آمد پر ایسا
کچھ نہ ہو تو وہ شیر کاہے کا۔۔ مرشد اب خاموش ہو چکے تھے اور میری ایک
الجھن ہوا ہو چکی تھی۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے مرشد کی خدمت
میں عرض کیا ۔ مرشد میں جب بھی کوئی نیا قدم اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ کسی
نئی منزل کا تعین کر کے اس جانب محو سفر ہوتا ہوں تو اک انجانا سا خوف میرا
پیچھا کرتا ہے ایسا کیوں ہے۔مرشدایک مرتبہ پھر مسکرائے اور کچھ یوں گویا
ہوے۔ یہ تمہارے والدین کا دیا ہوا ڈر ہے جو تمہارا بچپن کا ساتھی ہے اور اب
وہ بھی تمہاری ہی طرح جوان ہوکر تمہاری منزل کے راستہ میں پہاڑ بن کر کھڑا
ہے۔ تمہارے والدین تمہیں بات بات پر روکتے تھے ٹوکتے تھے ۔ اس لیے تمہارے
اندر قوت فیصلہ پروان ہی نہیں چڑھ سکی جتنی جلدی ممکن ہے اپنے خوف کو
کنٹرول کر لو۔ جونہی تم اسے اپنے قابو میں لے آو گے تمام منزلیں قدموں میں
ڈھیر ہو جائیں گی ۔ پھر تمہیں کوئی بھی فیصلہ لینے میں گھبراہٹ نہیں ہو گی
۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور تیسرا سوال پیش کر دیا۔مرشد مجھے بڑے بڑے
خواب دیکھنے کی عادت ہے لیکن مسلہ یہ ہے کہ میں جب بھی اپنا خواب کسی سے
ڈسکس کرتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ تمہارا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ ناممکن
اور فلاپ آئیڈیا ہے پھر میں اپنے اس خواب کا پیچھا چھوڑ دیتا ہوں اور کوئی
نیا خواب بننا شروع کر دیتا ہوں عرصہ دراز سے یہ سلسلہ جاری ہے میری سمجھ
میں نہیں آ رہا میں کروں تو کیا کروں۔ مرشد نے میرے اس سوال کے جواب میں
مجھے ایک کہانی سنائی جو نذر قارئین ہے۔ ضلع حافظ آباد کے نواح میں ایک
گاوں ہے جس کا نام چک چھٹہ ہے۔ اس گاوں میں دو دوست رہتے تھے ۔ایک کی عمر
بارہ سال تھی اور دوسرے کی عمر آٹھ برس تھی ۔دونوں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ۔
اکھٹے سکول جاتے اور اکھٹے ہی کھیلتے کودتے ۔ ایک دن کھیلتے کھیلتے وہ گاوں
سے تھوڑا دور نکل گئے۔اور بارہ سال والا بڑا لڑکا ایک کنویں میں گر گیا ۔
وہ زور زور سے چیخنے چلانے لگا کیونکہ اس کو تیرنا نہیں آتا تھا ۔ چھوٹے
بچہ نے آس پاس ادھر ادھر دیکھا لیکن اسے وہاں کوئی نظر نہ آیا جس کو وہ
اپنی مدد کے لیے بلا سکے۔اچانک اس کی نظر ایک بالٹی پر پڑی جس پر رسی بندھی
ہوئی تھی اور وہ کنویں کے قریب ہی موجود تھی۔اس نے ایک سینکڈ ضائع کیے بغیر
اس بالٹی کو اٹھایا اور کنویں میں پھینک دیا اور اس کے دوست نے بالٹی کو
مضبوطی سے پکڑ لیا۔چھوٹا بچہ پاگلوں کی طرح زور لگاتا رہا اور بالٹی کو
باہر کھینچتا رہا ۔ اس نے اپنی پوری جان لگا دی اور تب تک زور لگاتا رہا جب
تک کہ اس نے اپنے دوست کو باہر نہ نکال لیا۔اب جیسے ہی وہ بچہ باہر آیا
دونوں گلے لگ گئے اور کبھی روتے اور کبھی ہنستے۔پھر جب وہ گاوں پہنچے تو
انہوں نے یہ ماجرا گاوں والوں کو سنایا لیکن کسی نے بھی ان کی بات کا یقین
نہیں کیا کیونکہ بظاہر تو اس بچہ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ پانی سے
بھری بالٹی اٹھا سکتا اور وہ دعویدار تھا بارہ سال کے بچہ کو کنویں سے باہر
نکالنے کا۔۔ لیکن پورے گاوں میں ایک ایسا شخص تھا جس نے ان کی اس بات پر
یقین کر لیا ۔اسے لوگ چاچا فتح محمد کہتے تھے اوران کا شمار گاوں کے سب سے
زیرک اور دانا بزرگوں میں ہوتا تھا ۔سب کو لگا کہ اگر چاچا فتح محمد نے
بچوں کی بات پر یقین کر لیا ہے تو ضرور اس میں کوئی گہرا راز پوشیدہ ہے جو
اس چھوٹے سے بچہ نے یہ کارنامہ کر دکھایا ہے ۔گاوں کے لوگ مل کر چاچا فتح
محمد کے ڈیرہ پر پہنچے اور ان سے پوچھا کہ �آپ نے ان بچوں کی بات پر کیسے
یقین کر لیا۔ ہم تو الجھن کا شکار ہیں ۔ براہ کرم ہمیں بھی بتائیے کہ یہ
کام چھوٹا سا یہ بچہ کیسے کر پایا۔ چاچا فتح محمد کچھ دیر خاموش رہے ۔ پھر
گہری سانس لیتے ہوے بولے۔ دیکھو جب یہ بچہ اپنے دوست کو باہر نکال رہا تھا
تو اس وقت دور دور تک کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جو اس کو بتاتا کہ تم
یہ نہیں کر سکتے یہاں تک کہ اس وقت اس کا اپنا آپ بھی موجود نہیں تھا ۔ یہی
سبب ہے کہ یہ بچہ یہ سب کر گیا۔ کہانی ختم ہو چکی تھی ۔ مرشد مذید کہنے لگے
۔ جب تک تم اپنے ارد گرد کی آوازوں کی پرواہ کرتے رہو گے یونہی اپنے خواب
قربان کرتے رہو گے ۔ میری تمام الجھنیں رفو چکر ہو چکی تھیں۔ میں نے تشکر
بھری اک نگاہ مرشد کی طرف اٹھائی۔ اجازت طلب کی اور منوں ذہنی بوجھ وہیں
ڈھیر کر کے گھر کی راہ لی۔ |