پاکیزہ ادب کہاں گیا شاید وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو گیا جب لوگوں کے
قلم پاکیزگی سے آشنا تھے۔ وہ ادب کو عبادت کی جگہ رکھا کرتے تھے اگر آپکو
کثرت سے پاکیزہ ادب دیکھنا ہے تو اب ہمیں ماضی کی ادب کی سمت رُخ کرنا ہوگا
اور ماضی کی کتب سے خواہشِ مطالع تکمیل تک پہنچانی ہوگی کہ جن کا قلم جب
چلتا تھا تو لہو گرما دیا کرتا تھا یا جب انکی تحریریں پڑھی جاتی تھی تو
سوچوں کو مثبت رُخ ملا کرتا تھا، سوئی ہوئی قومیں بیداری کے لطف سے آشنا
ہوتی تھی، شدت سے پاکیزہ ادب دیکھنے کی خواہش ہے تو ادب کے ان روشن ستاروں
اکا ادب دیکھیئے جن کو وقت کی آندھی اپنے ساتھ بہا کر لے گئی ، ان کی کتب
اب بھی پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا رکھتی ہیں ،مگر اکثر و بیشتر دورِ
جدید کے ادب میں ادب کم ادب کی تذیل ذیادہ دکھائی دیتی ہے ، کہانی میں
دلچسپی کا عنصر ضرور رکھنا چاہیئے کہ قاری کی دلچسپی برقرار رکھی جاسکے
لیکن آج کل اکثر لکھاریوں کی تحریریں ادب سے نہ صرف عاری ہوتی ہیں بلکہ کثر
تو ایسا بھی گمان ہوتا ہے کہ وہ فلم کا اسکرپٹ لکھنے کی مشق کر رہی ہیں
انکے کردار ادب کا شہکار کم فلم کے فنکار ذیادہ لگ رہے ہوتے ہیں۔ کہانی میں
داستان، محبت اور ان سے جڑے واقعات بس یار کی زلفوں سے نکل کر اسکی بانہوں
میں کھو جانے میں تو کبھی ہیرو کی شرٹ کے بٹنوں میں کھونے سے بھی کہیں آگے
کے ہوتے ہیں؛
؎جسم کی پوجا کو کہتا ہے محبت آج کا فلسفہ
یہی دورِحاضر ہے تو ہم جاہل ہی اچھے ہیں
لگتا یوں ہے کہ جیسے یہ کہانی لکھی ان واقعات کو قاری تک پہنچانے کے لیئے
ہو۔ ادب تو غالباً وہ کہلاتا ہے جہاں ہر چیز، ہر مدعے پر لکھا جاۓ نہ کہ
کہانیوں میں رومانس کا تڑکہ اس شدت سے لگایا جاۓ کہ پڑھنے ایک بار چونک کر
اپنے کمرے یا ارد گرد پر نگاہ ڈال لے کے کوئی پاس ہے تو نہیں کہ اس میں اور
فلم میں کوئی فرق باقی دکھائی نہیں دیتا۔ بحرحال اُسے ادب میں شمار بھی
نہیں کیا جانا چاہیئے۔
لیکن جہاں ادب کو فلموں سے مشابہت دی جا رہی ہے وہیں ایسے بہت سے لکھاری
بھی ہیں جو قلم کی طاقت و حرمت کو پہچانتے ہیں، ہمارے اکثر لکھاری اس قدر
عمدہ تحریریں ہمیں دیتے ہیں کہ جنہیں پڑھ کر ادب و پاکیزگی کا احساس ہوتا
ہے لگتا ہے کہ اب بھی ایسے قلمکار موجود ہیں جن کی قلمیں شدتِ غم سے لبریز
ہیں، ہمیں ایسے ادیب اب بھی حاصل ہیں جن کی تحریریں اردو ادب کے تقدس کو
بحال رکھنے کے لیئے ازحد ضروری ہیں، جن کی تحریریں اردو ادب میں قیمتی
اضافے کی مانند منظرپر ہوتی ہیں لیکن ایسے ادیبوں کی تعداد آٹے میں نمک کے
برابر نہ سہی مگر کم ضرور ہے۔
لکھاری کا فرض بنتا ہے کہ جہاں وہ فینٹسی لکھتا ہے وہیں دوسری سمت حقیقت کو
کڑوا سچ مان کع لکھے اگر وہ محلوں کی زندگی تخلیق کرتا ہے تو وہ ان کرداروں
کو بھی لکھے جو ہمارے اردگرد سانس لیتے ہیں،اگر وہ خواب دکھاتے ہیں تو
جاگنے کے بعد کی حقیقت سے بھی آشنا کرواۓ، پاکیزہ ادب کو ہمارے ان ہی
لکھاریوں نے فروگ دینا ہے،دورِحاضر میں واقعی ہماری نوجوان جو ادب سے
وابستہ ہے کو ضرورت ہے ایسے ادب کی جو ان میں قوم کی معماری کے جذبے
کواُبھارے، ہمارے ہاں ادیبوں کی بھرمار نظر آتی ہے جن میں آدھے سے ذیادہ
فیس بُک پیجز بنا کر شہرت وصولتے پھرتے ہیں لیکن حقیقی ادیب کی پہچان اسکی
تحریریں کروا دیا کرتی ہیں، ہمارے ادیبوں کو پاکیزہ ادب کے فروغ کے لیئے
لکھنا چاہیئے تاکہ ہمیں یہ پوچھنا نہ پڑے کی پاکیزہ ادب کہاں ہے ،جب ہم
نگاہ ڈوڑائیں تو ہمیں وہ آس پاس آسانی سے دستیاب ہو۔ یہ نہ صرف ادیبوں کا
فرض ہے بلکہ قارئین کا حق بھی ہےاپنے قلم کے ساتھ انصاف کرنا اور کچے ذہنوں
کی صحیح سمت رہنمائی کرنا آپکا اہم فرض ہے کہ آپکے پاس قلم کی طاقت موجود
ہے اور معاشرے کے بگاڑ اور سدھار کا ہتھیار بھی آپکے ہی ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔ |