ہم نے کروز میزائل رعد کا کامیاب تجربہ کر لیا آؤ سب مل کر بغلیں بجائیں

سنا ہے پاکستان نے دور تک مار کرنے والے کروز میزائل رعد کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے ۔ پوری قوم کو اب بغلیں بجانی چاہئیں کیونکہ اب ہم بغلیں بجانے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں بجلی، صاف پانی ، گیس اور دو وقت کا کھانا ہماری قوم سے ویسے ہی چھین لیا گیا ہے اب ہمارے پاس بغلیں بجانے کے سوا اور کام بھی کیا ہے۔ ہماری افواج ، عدلیہ ، حکومت اور سیاستدان کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے معاملے پر ایک پیج پر اکٹھے ہیں دو سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا حکومت اور فوج دہشت گردوں کو ختم کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں مگر دہشت گرد تا حال اپنی ٹوٹی ہوئی کمر سے ہمارے تعلیمی اداروں پر حملہ آور ہو رہے ہیں ہمارے عسکری ادارے اور حکمران کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کی طاقت نیست و نابود ہو چکی ہے اور اب وہ صرف تعلیمی اداروں کے معصوم طلباء پر اپنی دہشت گردی کی طبع آزمائی میں مصروف ہیں آج 20 جنوری کو باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والا دہشت گردوں کا حملہ جبکہ یہاں پر باچا خان کی یاد میں ایک مشاعرہ منعقد تھا اور انکی برسی کی تقریب تھی ایک انتہائی دلخراش اور انتہائی بزدلانہ حملہ ہے جسکی ہم اپنی پوری شدت سے پر زور مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی پر تف بھیجتے ہیں ۔ ہماری حکومت اور ہمارے با اختیار ادارے سردی سے ٹھٹھرے ہوئے اپنے اپنے بستروں میں اینڈ رہے تھے اور رعد میزائل کے کامیاب تجربے سے سر شار اپنے اپنے گن گانے میں مصروف تھے۔ تمام ٹی وی ، ریڈیو اور اخبارات میں رعد میزائل کے کامیاب تجربے پر تبصرے کئے جا رہے تھے، دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے بلند بانگ دعوے کئے جا رہے تھے اور بھانت بھانت کی بولیاں بول کر اپنے اندر کے خوف کو مسمار کرکے ملک میں ہونے والی نام نہاد ترقی کے راگ الاپے جا رہے تھے۔ بھانڈ اپنے اپنے اندازمیں ٹی وی پروگرام میں ایک دوسرے پر پھبتیاں کس رہے تھے کچھ اجرتی حکومتی مکرو فن کے ماہر اپنے ماہرانہ چٹکلوں سے قوم کو بہلانے میں مصروف تھے ۔ پارلیمینٹ میں جمعے اور اتوار کی چھٹی پر بحث ہو رہی تھی ۔ کچھ اسلام پسند جمعے کو مبارک دن قرار دیتے ہوئے اسکی چھٹی کے حق میں اپنے دلائل دے رہے تھے کچھ معیشت دان پوری دنیا میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کی اتوار کی چھٹی کو بنیاد بنا کر پاکستان میں معیشت کی ترقی کے پہئے کو عالمی سطح کے ساتھ دوڑانے میں مصروف تھے۔ شوخ و تند جملے کسے جا رہے تھے گویا دنیا و مافیا سے آزاد قومی خرچے پر گارڈز کے محفوظ اور سیسہ پلائی ہوئی ایوان کی دیواروں میں محفوظ ہمارے نام نہاد لیڈران اور اس پارلیمینٹ کے باہر بے یار و مددگار عوام اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے معصوم طلباء جنہیں ہم اس قوم کا معمار کہتے ہیں اور اپنا مستقبل کہتے ہیں ان سے ایسے لا پرواہ ہوئے کہ انہیں دہشت گردوں نے ایک بار حکومت، عسکری اداروں ، عدلیہ اور سیاستدانوں کے ایک پیج پر ہونے کی قلعی کھول کر رکھ دی جو انکے منہ پر دہشت گردوں کا زناٹے دار وہ طمانچہ ہے جسے شاید یہ دو روز بعد پھر بھول جائیں اور پھر یہ لوگ اپنی اپنی مکاریوں میں اپنے اپنے میدان میں ہاتھ صاف کرتے ہوئے دکھائی دیں۔ یہ مکار ، صیہونی طاقتوں کے آلہ کار ، مذہبی لبادہ اوڑھ کر لومڑی کی طرح عیاریاں کرنے والے جو ہر وقت اخبارات ، ٹی وی اور ریڈیو پر آ آ کر جھوٹ بولتے ہیں اور عوام سے باتوں کو چھپاتے ہیں شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ پا گل ہیں انہیں جیسے چاہو اپنی مرضی سے ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرو اور پھر ان گندے ٹیشو پیپروں کو جب چاہا استعمال کرکے پھینک دیا۔ یہ تو ایک چائے کی پیالی اور چاولوں کی پلیٹ پر بکنے والے وہ کم ظرف اور بھوکے ہیں جو 5سال تک اپنی خطاؤں کی بھینٹ ہم جیسے لوگوں کو چڑھا کر خود بھی ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور ہمیں بھی رسوا کرتے ہیں۔ ہر روز اپنی لن ترانیاں جھاڑنے والے سڑکوں اور پلوں کے جال بچھانے والے، اپنی شجاعت اور بہادری کے قصے بگھارنے والے کہ ہم ہیں جنہوں نے 28مئی 1998ء میں اپنے دشمن کا منہ کھٹا کرنے کیلئے ایٹم بم کا دھماکا کیا ۔ پوری قوم اس کہانی کی اصل حققیت کو جانتی ہے کہ کس طرح اس قوم کو کنگال کرکے رکھ دیا گیا ۔ اندھیرے، بے روزگاری، جہالت، بیماری ، گلی گلی محلے محلے ، مدرسوں اور تعلیمی درسگاہوں میں پلنے والے مکروہ دہشت گرد اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دندنانے پھر رہے ہیں اور ہماری حکومت ایک بھیگی بلی کی طرح بنی بیٹھی ہے منافقتوں ، چال بازیوں، مکاریوں، مکر و فریب اور مصلحتوں کے کانٹے میں اٹکی ہوئی یہ حکومت انکی آنکھ میں آنکھ ڈال کر تو کیا دیکھے گی انکے بارے میں اپنی زبان کھولتے ہوئے بھی کانپتی ہے کہ یہ انکے وہ پالتو کتے ہیں جو برا وقت آنے پر انکی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور انکی حکومتیں بنانے میں انکے لئے مسجدوں میں قصیدے پڑھتے ہیں ۔ یہ ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے خوف زدہ ہیں یہ اپنے بچوں کو محفوظ کرکے قوم کے بچوں کو ان کتوں کی خوراک بنا نے میں مصروف ہیں اور انہیں کھلے عام چھوڑ رکھا ہے کہ انکے پاس کوئی مضبوط دلیل یا پھر ثبوت نہیں کہ انہیں گرفتار کیاجائے۔ تف ہے تم پر۔ دہشت گرد جہاں چاہیں جب چاہیں اور جس پر چاہیں حملہ کرکے اسے مارنے کی طاقت رکھتے ہیں جبکہ آپ صرف انکے خلاف بیان بازی تک محدود رہیں، حکومت کے نشے میں مخمور رہیں، کالے دھن کو سفید کرنے میں مصروف ہیں اور اسکے بارے میں قانون بنا کر کالا دھن اکٹھا کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہیں ۔بس یہ کالا دھن دہشت گردی کیلئے استعمال ہوتا رہے اور تمہاری عیاشیاں جاری و ساری رہیں اور قوم جائے بھاڑ میں۔ جب تم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ ہ دی ہے تو وہ آئے دن تمہاری کمر توڑ دینے کے درپے کیوں ہیں تو ظاہر ہوا کا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ۔کھاؤ پیو عیاشی کرو پکڑائی مت دو اور سب اچھا کی رپورٹ کرو تم عسکریت کا رونا رو کر کھاؤ اور ہم خزانہ خالی ہونے کا رونا رو کر کھاتے جائیں اور تم انصاف کا جنازہ نکال کر کھاتے جاؤ بس رہے نام اﷲ کا جو کرتا ہے اﷲ کرتا ہے اور جو وہ کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے؟؟اسلام کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروفیت کے راگ الاپنے والے اپنی دھنوں میں مصروف ہیں ۔ دشمن کو مار نے والے اور اسکا پیچھا کرنے والے اور اسے جہنم رسید کرنے والے اور دہشت گردوں کی کمریں توڑنے والے اپنی کمروں کی ٹکوریں کرنے میں مصروف ہیں کوئی جھنڈو بام لگا یا جا رہا ہے تو کوئی موو لگا رہا ہے ، کوئی آیو ڈیکس کی مالش کرنے میں مصروف ہے اور کچھ سندھی سدھا تیل کی مالش اور ٹکوریں کر کر کے اپنی کمر کو سیدھا کرنے کے چکروں میں ہیں۔ابھی کمر سیدھی بھی نہیں ہونے پاتی کہ دہشت گرد پھر انکی کمر پر ہتھوڑا مار کر اسے توڑ دیتے ہیں ۔ تمام ٹوٹکے اور مالشیں اپنی افادیت کھوتی ہوئی معلوم ہو رہی ہیں مگر نہ جانے دہشت گرد وہ کونسا تیل استعمال کر رہے ہیں کہ انکی کمر مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے جبکہ ہم تا حال اپنی کمر کو ہی نہ سنبھال سکے ہیں۔ اب ہم بھی اگر دہشت گردوں کے اس بزدلانہ حملے کو جس میں انہوں نے 24لوگوں کو شہید اور متعدد کو زخمی کر دیا اسکی مذمت نہیں کرتے تو یہ کہینگے کہ دیکھو جی مذمت تک نہیں کی ارے ہم تو چاہتے ہیں کہ انکی مذمت نہیں انکی مرمت کرو انہیں شتر بے مہار مت چھوڑو انہیں مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر کھلا مت چھوڑو ، ہر وہ شخص جسکے بارے میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ ہو کہ وہ دہشت گردوں کے بارے میں سوفٹ کارنر رکھتا ہے اور اندرون خانہ انکا حامی ہے اسے لٹکا دو یہ قوم تمہیں سلام پیش کریگی گویا یہ کہ تم انہیں کھلی چھٹی دے دو اور وہ مساجد اور مدرسوں اور کھلے عام دہشت گردی کو ہوا دیتے پھریں اور دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں لوگوں کے اذہان کو تبدیل کرتے پھریں۔ اخبارات ، ٹی وی اور میڈیا پر لچھے دار بیان دیکر اور اپنی تصاویر چھپوا کر اور لوگوں سے ہمدردیاں جتا کر عوام کو بے و قوف مت بناؤ عوام تو پہلے ہی بجلی کے جھٹکوں سے خوفذدہ ہے اور اب تو گیس کی بندش نے بھی عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔الفاظ نہیں قوم کو عملاً کچھ کرکے دکھاؤ اب قوم کو تمہارے بارے میں سب کچھ معلوم ہو چکا ہے کہ تم ہر میدان میں ناکام ہو اور باتیں کرتے ہو زمین اور آسمان کے قلابے ملانے کی۔ تم دہشت گردی کو ختم کرنے میں نہ صرف ناکام ہو چکے ہو بلکہ تم مصلحتوں سے کام لیکر اس قوم کے آنے والے معماروں کو مروانے کے درپے ہو۔
Syed Anees Bukhari
About the Author: Syed Anees Bukhari Read More Articles by Syed Anees Bukhari: 136 Articles with 141806 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.