بھارتی ایجنسی را کا پٹھان کوٹ ائیر بیس سے باچا خان یونیورسٹی چارسدہ تک شیطانی کھیل
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
باچا خان یونیورسٹی میں جو خونی
ڈرامہ رچایا گیا۔ اِس حوالے سے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را نے پٹھانکوٹ کے
ائیر بیس پر حملے کی ہزمیت جو اُسے اُٹھانا پڑی اُس کا بدلہ معصوموں کا لہو
بہا کر لینے کی کوشش کی ہے۔بھارت نے پہلے دن سے ہی پاکستان کے وجود کو
تسلیم نہیں کیا۔یوں پاکستانیوں کی زندگی کے چراغ گُل کرنا اُس کے لیے ثواب
کا کام ہے۔ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان بھی شودر سی زندگی گزار رہے
ہیں۔اﷲ پاک نعرہ تکبیر بلند رکھنے والی پاک فوج کا نگہبان ہے کہ پاک فوج نے
ضرب عضب کے ذریعے پاکستان میں بھارت اور بھارتی و امریکی ایجنٹوں کا قلع
قمع کیا ہے۔چین کی جانب سے پاکستان میں معاشی راہداری کے لیے کیے جانے والے
اقدامات نے درحقیقت بھارت اور امریکہ کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔اِس لیے
بھارت نے پہلے خود ڈرامہ رچایا اور پٹھانکوٹ پہ قتل و ٖغارت خود کرکے
پاکستان کو موردِالزام ٹھرایا۔اب خود پاکستان پہ اپنے نام نہاد ایجنٹوں سے
پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی صدارتی امیدوار اور سبق
وزیر خارجہ خود اقرار کر چکی ہیں کہ داعش پینٹاگان کی پیدا کردہ ہے ۔ اور
اُس کا مقصد خلیجی مسلمان ممالک کو تہہ و بالا کرنا ہے۔چین کے ساتھ بھارت
اور امریکہ کی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔پاکستان کا معاشی طور پر
مستحکم ہونا کسی طور متزکرہ بالا ہر دو ممالک کے لیے سوہان روح ہے ۔ مزید
یہ کہ پاکستانی آرمی چیف اور وزیر اعظم کی جانب سے ایران اور سعودی عرب کے
درمیان امن ڈپلومیسی نے بھی مسلمانوں کے دشمنوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
اِس لیے چارسدہ کی یونیورسٹی میں را ایجنسی نے جو ڈرامہ کیا۔اُس کی جتنی
بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ جب بھی نام نہاد دانشور اپنی عقل کے گھو ڑے دوڑانے
کے بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے سامنے کوئی اور مسلہء نہیں
ہوتا تو یہ کاغذی شیر اور لبرل فاشسٹ پاک فوج کے خلاف زبان درازی شروع
کردیتے ہیں۔زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی یہ پیاری زندگی اربوں روپے سے خریدی
نہیں جاسکتی۔ ڈالر زندگی کا نعم البدل نہیں ہیں۔صرف چند ساعتوں کے لیے غور
کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ پاکستان کے مشرق میں جو
ہمسایہ موجود ہے یہ وہ ہمسایہ ہے جو کہ اکھنڈ بھارت کا پرچار کرنے والا ہے
اور بھارت کی تقسیم کو ہنوز پاپ یعنی گناہ گردانتا ہے۔ ان حا لات میں جب
کشمیر لہو لہو ہے۔ سات لاکھ سے زائد ہندوستانی فوج نہتے کشمیریوں سے
برسرپیکار ہے تو پوری قوم نے دیکھ لیا ہے کہ امن کی آشا کسی طرح بھی اپنا
رنگ جمانے میں برُی طرح ناکام رہی ہے۔۔ثقافتی معاذ پر جس طرح سے بھارت نے
پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور پاکستانی چینل جس دھڑلے سے
ہندوستانی سوچ کو پروان چڑھانے کی کوششں میں ہیں اس کا اندازہ اس امر سے
لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لباس میں مشرقی اور اسلامی رنگ ناپید
دیکھائی دے رہا ہے۔ ہمارے پاکستانی چینلز کو تو اپنے کاروبار سے غرض ہے قوم
کی سوچ ، ثقافتی بربادی اور اسلامی اقدار سے دوری کا ان کو کیا لینا دینا۔
ان حالات میں پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کا کردار محبِ وطن اور اسلام
پسند طبقے کے لیے قابلِ طمانیت ہے۔ لیکن بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے
کرپٹ عناصر جو خود تو ناکام ہیں اور قوم ان سیاسی حکومتوں کی کارکردگی سے
اچھی طرح واقف ہے۔کہ پاکستانی قوم افراطِ زر کی چکی میں کس بُری طرح پیس
رہے ہیں۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ ملک میں فوجی مارشل لاء ہونا چاہیے بلکہ پاک
فوج کا کام وطن پاک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور بس۔ سیاست میں پاک فوج
کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اگر کوئی بھی طالع آزما ء کوئی بھی بھی منفی قدم
اُٹھاتا ہے تو فوج بحثیت ایک ادارہ اُس کی ذمہ دار نہیں ہے ایسا ایکٹ ایک
شخص کا ذاتی ایکٹ تصور ہوگا نہ کہ پوری فوج کے پیچھے پڑ کے اُس کا مورال
منفی جانب لے جایا جائے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ نام نہاد سیکولر
دانشور طبقہ جو خود اور ملکوں کی قومیت کا حامل بھی ہے وہ پاکستانی آرمی
اور آئی ایس آئی کے خلاف زبان درازی کرتا ہے۔ یہ امر اس ملک کے بسنے والے
99% افراد کے لیے تکلیف کا باعث ہے کہ وطن فروشی کے حاملین ہماری پاک فوج
کو اس طرح ڈسکس کریں جیسے کہ وہ کسی اور ملک کا ادارہ ہے۔ اگر کوئی آمر
آئین کو پا مال کرتا ہے تو اُس کو ایک فرد کی حثیت سے ملکی قانون کے مطابق
عبرت کا نشان بنادینا چاہیے لیکن پرویز مشرف جیسے ڈکٹیڑوں کے اعمال کی پاک
آرمی جواب دہ نہیں ہے۔ یہ ایک ادارہ ہے اور اس نے ہمیشہ پاک وطن کی آبیاری
اپنے لہو سے کی ہے یہ ملک گارئے اور مٹی سے نہیں بلکہ ان پاک فوج کے شہداء
کے لہو سے قائم دائم ہے اس کی مٹی میں راجہ عزیز بھٹی، سرور شھید، راشد
منہاس جسے عظیم شہداء کا خون ہیں اور اُس کے ساتھ ساتھ ایسے ہزاروں جانباز
ہیں جن کے ناموں کو شائد قوم نہیں جانتی لیکن وہ بھی مادر وطن کی خاطر اپنی
جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ ۔ خدانخواستہ اگر وطن پر کوئی کڑا وقت آیا
تو یہ اشرافیہ اور لبرل طبقہ تو پہلے ہی دوہری دوہری قومیتوں کا حامل ہے اس
نے تو اپنے غیر ملکی آقاوٗں کی خدمت میں پیش ہوجانا ہے وطن کا دفاع اسی پاک
آرمی اور 99% عام لوگوں نے کرنا ہے جن کا ٹھکانہ اس وطن کے سوا کہیں اور
نہیں۔ مووجودہ حالات میں نفوس پذیری کے حامل طبقے جن میں اساتذہ ، طلبہ،
وکلاء، ڈاکٹرز اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل ہیں کو آگے بڑھ کر وطن سے
محبت کے جذبے کو پروان چڑھانا چاہیے۔اشرافیہ اور لبرل فاشسٹ کے اہل وعیال
تو پہلے ہی دوسرے ممالک میں تعلیم اور شاپنگ کی غرض سے دورروں پر رہتے ہیں۔
اس وطن کے لیے یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ پڑی جو ضرورت تو ہم دیں گے لہو کا
تیل چراغوں میں جلانے کے لیے۔ لیکن ایک بات ہمیشہ پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ
جس طرح ہمارے ملک کی اشرافیہ نے ملکی وسائل کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ عوام کو
مہنگائی کی چکی میں ایسے چکر دیے ہیں کہ خدا کہ پناہ۔ بیروزگاری کی حالت یہ
ہے کہ ایم بی اے، ایم ایس سی، بی کام جیسی پیشہ ورانہ ڈگریوں کے حامل افراد
خون کے آنسو رو رہے ہیں۔لیکن ایک بات ہمیشہ ملحوظ خاطر رکی جانی چاہیے کہ
پاکستانی فوج کے مورال کو ہمیشہ بلند رکھنا چاہیے۔ پاک فوج جس طرح عیار
دُشمن کے ساتھ برسر پیکار ہے پاکستان میں رائے عامہ کے افراد کو پاک فوج کے
حوالے سے منفی تبصرے کرنے والے نام نہاد جعلی دانشوروں کو ُمنہ توڑ جواب
دینا چاہیے۔ راقم کی جانب سے پاک آرمی کو سلام۔ پاک آڑمی نے جس طرح دہشت
گردی کو ختم کرنے کی ٹھانی ہوئے ہے ۔ جس طرح آرمی پبلک سکول پر حملہ آور
ظالموں کو آرمی کی طرف سے کیفر کردار تک پہنچایا گیا اِسی طرح جناب راحیل
شریف باچا خان یونیورسٹی کے شہدا کے لہو کے پاس رکھیں گے۔ اﷲ پاک پاک فوج
کو ہمیشہ سلمات رکھے۔ پٹھانکوٹ سے لے کر باچا خان یونیورسٹی تک جس طرح
بھاری ایجنسی را نے کھیل کھیلا ہے اور پاکستان کی امن کی کوششوں کو زہر
آلود کیا ہے۔ پوری قوم کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بھارت کے عزائم کیا
ہیں۔
ُٓپاکستان زندہ باد۔ پاک فوج زندہ آباد |
|