روہت وامولا کی خودکشی نے قومی سیاست میں
ہلچل مچا دی ہے ۔ماہِ اگست میں جب یوم آزادی منانے کی تیاری چل رہی تھی
حیدرآباد میں روہت سمیت امبیڈکر اسٹوڈنٹس یونین کے پانچ ارکان کو پولس نے
اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے کارکنان پر حملہ کرنےکے الزام میں گرفتار
کرلیا ۔ جنوری میں یوم جمہوریہ سے قبل روہت نے خودکشی کرلی ۔ ایسے میں
اروند کیجریوال کا اس خودکشی کو جمہوریت اور سماجی مساوات کاقتل قرار دیتے
ہوئے مرکزی وزیر بندارودتاترے کی برخواستگی اور وزیراعظم کی معافی کا
مطالبہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان دونوں طلبہ تنظیموں کے
کارکنان نے درمیان جھڑپ ہوئی تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ اے بی وی پی نے پہلےاے
ایس اے کی تقریب پر دھاوا بولا اور پھراس کے صدر نے فیس بک پرانہیں قوم
دشمن غنڈے لکھاجس کے لئےاسے تحریری معافی مانگیب پڑی تاکہ معاملہ رفع دفع
کیا جاسکے۔آگے چل کر اکھل بھارتیہ ودیا پریشد کا ایک رکن نےروہت اور اس کے
ساتھیوں پراسے زخمی کرنے کا بے بنیاد الزام لگا دیا ۔اس کی حمایت میں اس نے
اپنڈکس آپریشن کے جعلی کاغذات لگا دئیے۔
اس کے بعدمرکزی وزیر بندارو دتاترےکو جوش آیا اور انہوں نے سمرتی ایرانی
کو خط لکھا کہ یونیورسٹی نسل پرستی، انتہا پسندی اور قوم دشمن سیاست کا اڈہ
بن گئی ہے اس لئے فوراً کارروائی کی جائے ۔ بندارو نے اپنے خط میں جھوٹ کا
سہارا لیتے ہوئے کہا کہ یہ طلباء یعقوب میمن پر بنائی دستاویزی فلم دیکھ
رہے تھے حالانکہ ایسی کسی فلم کا وجود ہی نہیں ہے۔ یہ سراسر فرقہ پرستی کو
ہوا دینے والا الزام تھا۔حقیقت تو یہ ہے کہ طلباء مظفر نگر فساد پر بنی فلم
دیکھ رہے تھے جس میں بی جے پی کئی رہنما ملوث تھے جن میں سے ایک وزیر بنا
ہوا ہے۔ اس لئے اے بی وی پی کی ناراضگی قابل فہم ہے لیکن اسے یعقوب میمن سے
جوڑنا نہایت مذموم حرکت ہے۔اس واقعہ کے بعدبی جے پی کے مقامی ایم ایل سی
رامچندر راؤنے وائس چانسلر سے ملاقات کرکے یونیورسٹی انتظامیہ پر دباؤ
بنایا جس کے نتیجے میں براہمن پروفیسرس پانڈے اور شرما پر مشتمل تفتیشی
کمیٹی بنائی گئی ۔ ابتدائی رپورٹ میں تحقیقی کمیٹی نےروہت اور اس کے
ساتھیوں کو بے قصور پایا لیکن آخری فیصلہ ان کے خلاف نکلا اور پانچوں کو
معطل کرکے ہاسٹل سے نکال دیا گیا ۔
میرٹ لسٹ پر داخلہ لینے والاپی ایچ ڈی اسکالرروہت ۲۱ دسمبر کوہاسٹل سے
نکالے جانے کے بعد یونیورسٹی گیٹ کے باہر ایک ٹینٹ میں رہنے پر مجبور ہوگیا
اور بالآخر اس نے اپنے دوست کے کمرے میں آکر جان دے دی۔ روہت نے اپنی
وصیت میں ضرور کہا ہے اس کی خودکشی کیلئے وہ خود ذمہ دار ہے نیز اس کے
دوستوں یا دشمنوں کو پریشان نہیں کیا جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے معطلی کے
بعد اس نے وائس چانسلراپاراؤ کو لکھا تھا وہ ان کیلئے زہر یا خوبصورت سے
پھندے کا انتظام کردیں ۔ اس جملے سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ روہت کو
خودکشی کی جانب ڈھکیلنے کیلئے ذمہ دار کو ن ہے؟سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس
مارکنڈے کاٹجوکے نزدیک اس کی وجوہات حسب ذیل ہیں ’’ اکثر غیر دلت (اپنے ہم
جماعت دلت طلباء )کو حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں۔ ان کو انسان نہیں سمجھتے،
ان پر طنز کرتے ہیں، ان کا تمسخر اڑاتے ہیں بلکہ ان پر زیادتی سے بھی گریز
نہیں کرتے ۔ یہ قومی سطح پر شرمناک ہے ۔ جب تک کہ یہ جاگیردارانہ ذہنیت
تبدیل نہیں ہوتی ہمارا ملک ترقی نہیں کرسکتا ‘‘۔ اس ظلم میں اگر طلباء کے
ساتھ حکمراں سیاستداں اور انتظامیہ شریک کار ہوجائےتو حالات دگرگوں ہوجاتے
ہیں ۔ حیدرآباد کے اندر گزشتہ دس سالوں میں آٹھ طلباء نے خودکشی کی ہے
اور مسلسل اس طرح کا موحول بنایا جاتا رہا ہے کہ طلباء اس انتہائی اقدام
کیلئے مجبور ہوجائیں ۔
حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی میں دسمبر کے اندر طلباء نے بیف فیسٹیول
منانے کا فیصلہ کیا ۔ یوم انسانیحقوق کے موقع پر اس کا اہتمام ۲۰۱۱، ۲۰۱۲
اور ۲۰۱۴ میں ہوچکا ہے لیکن اس کی کوئی خاص مخالفت نہیں ہوئی ۔ اس سال بی
جے پی کے ایم ایل سی راجہ اسے روکنے کیلئے مرنے مارنے پر اتر آئے۔ عدالت
نے پابندی لگائی پولس کا زبردست بندوبست کیا گیا اس کے باوجود وہ تقریب
کامیاب رہی ۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے ڈاکٹر امبیڈکر ہاسٹل کے طلباء نے اس میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور اس کے بعد ہی اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے
زعفرانیوں نے اپنی سبکی پر پردہ ڈالنے کیلئے روہت اور اس کے ساتھیوں کو
معطل کروایا۔ آندھرا پردیش کا شمار ملک ان ریاستوں میں ہوتا ہےجہاں
گائےاور بچھڑے کے ذبیحہ پر تو پابندی ہے لیکن بیل اور دیگر جانوروں کو ذبح
کرنے کی اجازت ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کیلئے سزا بھی صرف ایک
ہزار روپئے ہے ۔ آندھرا سے ہزاروں ٹن بڑے جانور کا گوشت دنیا بھرکے ممالک
میں برآمد کیا جاتا ہے۔
علامہ اقبال کی معرکتہ الآراء نظم’’لب پہ آتی ہے دعا ‘‘کے بارے میںکہا
جاتا ہے کہ وہ اردو ادب کی مقبول ترین نظم ہے ۔لیکن اسکے بعد یقیناً
اسماعیل میرٹھی کی’’ہماری گائے‘‘ کا نمبر آتا ہوگا۔ اردو زبان کا کون سا
ایسا قاری ہےجو’’رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی‘‘ سے واقف
نہ ہو ۔گائے کے ایسے ایسے استعمال ہندوستانیوں نے ایجاد کررکھے ہیں کہ اگر
اسماعیل میرٹھی کو ان کا علم ہوتا تو ایک نظم پر اکتفاء کرنے کے بجائے اس
موضوع پر پوری کتاب تصنیف فرماتے۔ گائے کا دودھ تو ساری دنیا پیتی ہے مگر
اس کے گوبر کو آنگن و دیوار پوتنے کیلئے استعمال کرنے کی جرأت شاید ہی
کسی نے کی ہوگی ۔ اس کے علاوہ گائے کے پیشاب کے جس قدر فائدے بابا رام دیو
جانتے ہیں ان کی اگر ٹھیک سے تشہیر ہوجائے تو نہ جانے کتنی دواوں کی
کمپنیوں کو تالے لگ جائیں گے اور ہسپتال بند ہوجائیں گے اس لئے کہ لوگ گھر
بیٹھے شفایاب ہوجائیں گے ۔
بھارت میں گائے کی نہ صرف پوجا کی جاتی ہے بلکہ قدرتی آفات سے اپنے آپ کو
محفوظ رکھنے کیلئے گائے کا کسی بیل سے بیاہ بھی رچادیا جاتا ہے۔ دوسال قبل
اندور کے ایسی ہی ایک شادی میں ۵ ہزار لوگوں نے شرکت کی اور اس پر دس لاکھ
روپئے خرچ کیا گیا ۔ اس شادی میں نہ صرف منتر پڑھے گئے بلکہ دولہا اور دلہن
نے اگنی کے پھیرے بھی لئے نیز اپنی خوشحال ازدواجی زندگیکیلئے نیک خواہشات
بھی وصول کیں ۔ یہ سب تو عوام الناس کے بکھیڑے ہیں سیاستداں ووٹ حاصل کرنے
کےحرص و ہوس میں گائے تک کو نہیں بخشتے ۔ یہ اور بات ہے کہ جب گائے کوان کے
گھناونے مقاصدکا علم ہوجاتا تو حزن ملال کے شکار اس بے ضرر مویشی کے تھن
سوکھ جاتے ہیں اور اس کا استحصال کرنے والے سیاستداں ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں
۔
انتخابی مہم میں وزیراعظم گلابی انقلاب کا ذکر فرماتے تھے اور انہیں ہر بڑے
جانور کا گوشت گائے کا نظر آتا تھا ۔ اس گلابی انقلاب کو سبز انقلاب میں
بدلنے کیلئے انہوں نے عوام سے ووٹ مانگا لیکن انتخاب میں کامیاب ہوتے ہی وہ
گوشت بھینس کا ہوگیا اور پھر کیا تھا زعفرانی انقلاب گلابی گلابی ہوگیا ۔
گئو کشی پر پابندی لگاتے ہوئے اس کی نسل کو تحفظ عطا کرنے کے بہانے بیل کے
ذبیحہ پر بھی پابندی لگا دی گئی اس لئے کہ ویسے بھی گائے کے سارے مذکر رشتے
دار باپ ، بھائی اور بیٹا بیل ہی تو ہوتے ہیں ۔ اب بیل کو ناراض کرکے گائے
کو کیسےراضی کیا جاسکتا ہے؟بہار الیکشن میں جب سارے حربے ناکام ہوگئے تو بی
جے پی کے آخری پوسٹر میں گائے نمودار ہوگئی ۔ اب کی بار اس بات کی توقع
تھی کہ تمل ناڈو الیکشن کے پہلے ہی پوسٹر میں بیل نظر آجائے۔ گائے کی
تعریف و توصیف کے ساتھ مذکورہ نظم میں ایک شعر یہ بھی ہے کہ ’’بچھڑے اس کے
بیل بنائے جو کھیتی کے کام میں آئے‘‘۔
بیل کو بھی ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں کھیتی کے بجائے کھیل کے
میدان میں تفریح کا سامان بنایا جاتا ہے۔ اس پر قابو پاکر لوگ اپنی دلیری
کے جھنڈے گاڑتے ہیں جسے تمل ناڈو میں ’’جلیّ کٹو‘‘ کہا جاتا ہے اور
مہاراشٹر، کرناٹک ، گجرات، ہریانہ اور پنجاب میں بیل گاڑیوں کی دوڑ منعقد
کی جاتی ہے ۔ بیل کے اس استعمال کو مویشیوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے
لوگ ظلم قرار دیتے ہیں اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ہندوستانی پارلیمان نہ
صرف ووٹ دینے والے انسانوں کا بلکہ گونگے بہرے جانوروں کے بنیادی حقوق کا
پاس ولحاظ کرتی ہے ۔ وزارتِ ماحولیات نے ۱۹۹۱ میں ایک حکمنامہ جاری کرکے
بھالو، بندر ، شیر، تیندوہ ، چیتا اور کتے کی تربیت اور نمائش پر پابندی
لگادی۔ سرکس والوں کی تنظیم نے دہلی ہائی کورٹ میں اس کو چیلنج کیا لیکن
عدالت نے انسانوں کے دلائل کو مسترد کرکے جانوروں کے حق میں فیصلہ دیا ۔
۲۰۱۱ کے اندر اس حکمنامہ میں خاص طور پر بیل کو بھی شامل کردیا اس طرحگویا
تمل ناڈو میں پونگل کے موقع پر جلیّ کٹو کی رسم پر پابندی لگ گئی ۔
جلیّ کٹو کے خلاف اس ترمیم کو بھی عدالت میں چیلنج کیا گیا لیکن عدالت نے
مئی ۲۰۱۴ میں اپنے فیصلے کو حق بجانب ٹھہرا دیا۔ مئی ۲۰۱۴ تو خیر نئی
سرکار کے قیام کا پہلامہینہ تھا اس لئے کسی نے اس کی جانب توجہ نہیں دی
۔۲۰۱۵ گئوماتا کا سال تھا اس لئے کسی کو بیل کا خیال نہیں آیا لیکن اپریل
۲۰۱۶ کے اندر تمل ناڈو کے ریاستی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں اس لئے
اچانک پونگل اور جلیّ کٹو کے بیلوں کو اہمیت حاصل ہوگئی۔ ساری سیاسی
جماعتیں یک زبان ہوکر سیاسی طورطاقتور پسماندہ تھیور سماج کی خوشنودی میں
لگ گئیں جوتروچرا پلیّ، مدورائی ، تھنی ، پدوکوٹائی اور ڈنڈی گل ضلعوں میں
یہ تہوار زور شور سے مناتا ہے۔ ان لوگوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف
النگنالور اور پالامیدو کے شاہراہ بند کردی اور دھمکی دی کہ اگر سپریم کورٹ
اپنا فیصلہ نہیں تبدیل کرے گا تو اپنے راشن کارڈس اور ووٹرس آئی ڈی واپس
کردیں گے ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ انتخاب کا بائیکاٹ کریں گے ۔
عام دنوں میں تو اس طرح کی دھمکیوں سے سیاستدانوں پر اثر نہیں ہوتاچونکہ
انتخابات قریب ہیں اس لئے ڈیڑھ سال بعد اچانک مرکزی حکومت نیند سے بیدار
ہوگئی اور اس نے ۷ جنوری کو ایک نیا حکمنامہ جاری کرکےجلیّ کٹی میں بیلوں
کی شمولت پر لگی پابندی اٹھا دی۔ اس حکمنامہ پر روک لگانے کیلئے جانوروں کے
حقوق کیلئے کام کرنے والی مختلف تنظیموں نے مل کرعدالت میں گہار لگائی بلکہ
حکومت پر۲۰۱۴ کےسپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرنے کے سبب عدالت کی
توہین کے دو مقدمات بھی قائم کردئیے ۔ حکومت کے حکمنامہ کی حمایت میں بی جے
پی تمل ناڈو کے صدر سندر راجن نے بڑی صفائی سے اعتراف کرلیا کہ اپریل میں
ہونے والے انتخاب کے پیش نظر بی جے پی کیلئے یہ لازمی ہے کہ عوام کے ساتھ
نظر آئے ۔ انہوں نے کہا اس پابندی کا خاتمہ الیکشن میں بی جے پی کیلئے
مفید ثابت ہوگا۔ اپنی صاف گوئی کے سبب سندرراجن یقیناً مبارکباد کے مستحق
ہیں لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ عدالت عالیہ اس حکمنامہ کو حکومت کے منہ پر
دے مارے گی اور اس صورت میں فائدے کے بجائے نقصان ہوجائیگا۔
سندرراجن نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پارٹی صدر امیت شاہ نے اس پابندی کو ختم
کروانے کیلئے وزیرا ماحولیات پرکاش جاویڈیکر سے کئی ملاقاتیں کیں۔ کاش کے
امیت شاہ پرکاش جاویڈیکرپر وقت ضائع کرنے کے بجائے عدالت کے ججوں پر اپنے
اثررسوخ کا استعمال کرتے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب عدالت کو بھی ان کی بے
وزنی کا احساس ہوگیا ہے۔سابق وزیراعلیٰ کروناندھی نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ
فوراً آرڈیننس جاری کرکے تمل ناڈو میں جلیّ کٹی کے انعقاد کو یقینی بنائیں
۔وزیراعلیٰ جئے للیتا نے وزیراعظم کو یاد دلایا کہ پونگل کا تہوار ۱۴ جنوری
سے شروع ہو رہا ہے۔ اس لئے جلی کٹوّ سے متعلق تمل ناڈو کی عوام کے جذبات کا
پاس و لحاظ کرنا بہت ضروری ہے ۔ سوال یہ ہے ان عوامی جذبات کا خیال سیاسی
جماعتوں کو۴سال بعد کیوں آرہا ہے ۔عدالت جلی کٹوّ کو تہذیب کا حصہ نہیں
مانتی اس نے حکمنامہ کے خلاف کی جانے والی اپیل کا جواب دینے کیلئے حکومت
کو چار ہفتوں کا وقت دیا ہے ۔
حکومت سے اس فیصلے بی جے پی کے اندر بھی ایک مہابھارت چھڑ گئی ہے ۔ ملک میں
انسانوں سے زیادہ جانوروں سے ہمدردی والی مرکزی وزیر مینکا گاندھی نےحکومت
کے حکمنامہ کے خلاف عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مینکا کے مطابق یہ
مغربی تصور ہے میں جانور اور انسان کی جان بھی جاتی ہے ۔ مکر سنکراتی کے
موقع پر پیڑ پودوں کی پوجا ہونی چاہئے لیکن جانوروں پر ظلم کیا جاتا ہے۔
گائے بیل کسانوں کیلئے مفید جانور ہیں ان کی حفاظت ہونی چاہئے ۔ مینکا کے
اس بیان پر بی جے پی کے حلیف اور پی ایم کے کے صدر رام دوس خوب چراغ پا
ہوئے اور انہوں نے مینکا کو اس رسم کی تاریخ اور تمل ناڈو کے تہذیب و ثقافت
کا مطالعہ کرنے کی نصیحت کرڈالی ۔ انہوں بی جے پی سے وضاحت طلب کی کہ کیا
وہ مینکا کے موقف کی حامی ہے؟
رام دوس کا غم و غصہ سے قطع نظر جو لوگ جلیّ کٹو کی تفصیل جانتے ہیں وہ
عدالت کے فیصلے سے اتفاق کریں گے۔ اول تو یہ کوئی مذہبی تقریب نہیں ہے
دوسرے اس میں شامل ہونے والے بیلوں کا ذہنی توازن بگاڑنے کیلئے انہیں
زبردستی شراب پلائی جاتی ہے۔ ان کو جوش دلانے کی خاطر ماراپیٹا جاتا ہے۔ ان
کو سوئیاں چبھائی جاتی ہیں ۔ ان کی دم کو مروڈا جاتا ہے بلکہ ان کی آنکھوں
اور شرم گاہ پر مرچ رگڑنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ ۱۹۶۰ میں دستور کے
اندر ترمیم کرکے جانوروں کو انسانی سفاکی سے بچانے کیلئے قانون بنایا گیا ۔
عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں جانوروں کے پانچ بنیادی آزادیوں (حقوق ) کا
تذکرہ کیا ہے۔ اس میں سب سے پہلے بھوک ، پیاس اور ملاوٹ والی غذا سے نجات ،
اس کے بعد خوف اور تھکان، طبعی اور شدیدموسم میں بچاو، زخم و بیماری سے
تحفظ اور ان کے معمولات کے رویہ کے اظہار کی آزادی شامل ہے۔جلیّ کٹوکے
ہنگامہ میں ایک جم غفیربیلوں کو زمین پر گراکر اپنی فتح مندی پر بغلیں
بجاتا ہے۔ مذکورہ بالا تمام حقوق کو محض تفریح طبع کیلئے سلب کرکےجلیّ کٹو
میں بدترین سفاکی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
عدالت عالیہ نے اپنے حکمنامہ میں جانوروں کے حقوق کو دستوری درجہ دینے کی
سفارش کی ہے۔ دوسرے ممالک کی مثال دے حکومت سے اصرار کیا ہے کہ وہ جانوروں
کے ادب و احترام کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ ایسے میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے
کہ وہ عدالت کی سفارشات پر سنجیدگی سے غور کرے اور اس پر عمدںرآمد کی کوشش
کرے اس کے برعکس ایک طرف یہ سرکار گائے کو ماں کا درجہ دے کرقابلِ پرستش
ٹھہراتی اور دوسری جانب اس بھائی، باپ یا بیٹے کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا
راستہ ہموار کرتی ہے ۔ اگر سنگھ پریوار واقعی گائے کا ہمدرد ہوتا تو اس رسم
پر پابندی لگواتا لیکن ووٹ کی لالچ میں اس نے پابندی کو اٹھا کر اس نے اپنے
چہرے پر پڑی منافقت کی نقاب ازخود نوچ کر پھینک دی اور سپریم کورٹ کے
احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مختلف شہروں میں جلیّ کٹو کا تہوار علی
الاعلان منایا گیا ۔ کسی نے اسے روکنے ٹوکنے کی جرأت نہیں کی۔
ہمارے سماج کی یہ ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف دستور اور عدالت جانوروں تک حقوق
کے حفاظت کی ضمانت دیتی ہےنیز سیاستداں گائے جیسے جانور کو مادرِ وطن ٹھہرا
کر عوامی جذبات کا استحصال کرتےہںد دوسری جانب انسانوں کے ساتھ جانوروں سے
بھی برا سلوک کیا جاتا ہے ۔ دہلی کے نجف گڑھ میں ایک مری ہوئی گائے کو لے
جانے والے دلت نوجوان شنکر کو مسلمان سمجھ کر گئوکشی کے الزام میں ہلاک
کردیا جاتا ہے۔ اس دوغلی سیاست کے سبب حیدرآباد میں روہت راملو جیسے
ہونہار طالبعلم کی خودکشی کا دل دہلانے والا واقعہ رونما ہوتاہے ۔ اس سانحہ
میں نہ صرف وائس چانسلر بلکہ مرکزی وزیر محنت دتا ترے بنڈارو کے خلاف شکایت
درج کرائی گئی ہے۔روہت کی خودکشی کے خلاف ہونے والے احتجاج کے شعلوں کی
تپشبنڈوارو سے آگے نکل کر سمرتی ایرانی اور نریندر مودی کے دامن کو چھورہی
ہے ۔ دیکھنا یہ ہے عنقریب منعقد ہونےوالے صوبائی انتخابات پر اس کا کیا اثر
ہوتا ہے اس لئےکہ حزب اختلاف کی ساری سیاسی جماعتیں اسے اپنے حق میں بھنانے
کیلئے سرگرمِ عمل ہیں۔
|