بھارتی آبی جارحیت اور عالمی ثالثی عدالت

بھارتی آبی جارحیت کے خلاف اعتراضات اٹھانے ہوں یا قانونی اقدامات کرنے پاکستان کی طرف سے ہمیشہ دیر کردیتا ہوں کا رویہ سامنے آتا ہے جو کہ بذات خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ تاہم بھارتی آبی جارحیت کے خلاف بعد از خرابی بسیار پاکستان نے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اگرچہ وزارت پانی و بجلی اور اٹارنی جنرل پاکستان کی زیر سربراہی قانونی ماہرین کے درمیان اندرونی بحث مباحثہ کے باعث تاخیر ہو چکی ہے، اس بحث میں ماہرین قانون کا موقف ہے کہ یک رکنی غیر جانبدار ماہر کا تقرر بڑا خطرہ ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ گلہیار ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے تنازع میں سوئس انجینئر پروفیسر ریمنڈ لیفیٹ کو عالمی بنک نے غیر جانبدار ماہر مقرر کیا تھا جنہوں نے بیشتر فیصلہ بھارت کے حق میں دیا اور سندھ طاس معاہدے کی شقیں لاتعلق کردی تھیں۔ یک رکنی غیر جانبدار ماہر کو دباؤ میں لایاجاسکتا ہے۔ ماہرین قانون کا موقف ہے کہ ثالثی عدالت عام طور پر سات ججوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ تنازع کا کوئی بھی فریق ان پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ پاکستان کے لئے بھارت کے خلاف ثالثی عدالت جانا بہتر ہوگا ۔ وزارت پانی و بجلی کے اعلیٰ حکام کا موقف ہے کہ غیر جانبدار ماہر سے رجوع کرنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ پاکستان سندھ طاس معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کے پرویژن کا بندوبست کرچکا ہے چنانچہ غیر جانبدار ماہر فیصلہ دیتے ہوئے معاہدے سے باہر نہیں جاسکتا تاہم افسران کے مطابق غیر جانبدار ماہر یا ثالثی عدالت جانے کا فیصلہ بہت جلد کرلیا جائے گا کیونکہ پاکستان مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سندھ طاس معاہدے کے پاکستانی کمشنر مرزا آصف بیگ کے مطابق پاکستان ثالثی عدالت یا غیر جانبدار ماہر سے رجوع کرنے کے حوالے سے ابھی ذہنی تیاری کے عمل میں ہے۔ پاکستان نے دریائے چناب اور دریائے جہلم پر کشن گنگا اور ریٹل ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی جاری تعمیر سے اپنے پانی کے مفادات کو بچانے کے حوالے سے بھارت کو متفقہ غیر جانبدار ماہر مقرر کرنے کی پیشکش کی تھی مگر نئی دہلی نے طے شدہ مدت میں اس کا جواب نہیں دیا جس کے باعث اسلام آباد نے بھارت کے خلاف بین الاقوامی پلیٹ فارم پر قانونی جنگ شروع کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ نواز حکومت اس قانونی لڑائی کو جیتنے کا پختہ عزم کرچکی ہے جس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اس نے اپنا مقدمہ شاندار طور پر لڑنے کے لئے دو امریکی لاء فرمز کے کنسوریشم کی خدمات حاصل کی ہیں جس میں تھری کراونز اور ولیمز کونلے شامل ہیں۔ دونوں فرمز امریکا کی معروف لابست ہیں۔ کمشنر انڈس واٹر مرزا آصف بیگ کے مطابق ہم بھارت کے ساتھ کشن گنگا اور ریٹل ہائیڈرو پراجیکٹس کے ناقص ڈیزائن کے مسئلے کو بھارت کے ساتھ حل کرنے کی ناکام کوششوں سے تھک چکے ہیں اب اگلا مرحلہ غیر جانبدار ماہر یا ثالثی عدالت جانے کا ہی رہ گیا ہے۔ اگر بھارت دریائے چناب پر اعتراض کردہ ڈیزائن کے مطابق ریٹل ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر کرلیا ہے تو ہیڈ مرالہ پر دریائے چناب کے بہاؤ میں 40فیصد تک کمی ہو جائے گی جو پاکستان کے وسطی پنجاب کی آب پاشی کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ان منصوبوں سے بجلی تیار کرکے انڈیا کے نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی پھر پاکستان کو فروخت کی جائے گی۔

دوسری طرف ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق پاکستان کو اس بات پر بھی تحفظات ہیں کہ بھارت نے وسیع پیمانے پر زیرزمین کا سروے مکمل کرلیا ہے اور اس کے لیے وہ جرمن جیو ہیلی بورن(ہیلی کاپٹر)ٹیکنالوجی استعمال کررہا ہے، جو بہت زیادہ گہرائی تقریبا 1000 نیچے زیرزمین موجود پانی کا بھی سراغ لگا دیتی ہے۔

پاکستان اس حوالے سے انتہائی خدشات کا شکار ہے۔ سرحدپار تعلقات بہتر رکھنے اور شکوک و شبہات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت ہمارے ساتھ مکمل ڈیٹا اور تمام اعدادوشمار کا تبادلہ کرے تاکہ صورت حال واضح ہو اور بداعتمادی کی فضا ختم ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ مشورہ بھی دیا کہ دونوں جانب کے سائنس داں ایک دوسرے ممالک کا دورہ کریں اور صورت حال کا جائزہ لیں۔پاکستانی وفد کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ چوں کہ ہمارے صحرا پہلے ہی بہت زیادہ ماحولیاتی شکستگی کا شکار ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے ضروری ہیں کہ زیرزمین پانی کے استعمال کے لیے کوئی قانون یا قواعد وضح کیے جاسکیں یا پھر دونوں ممالک کے مابین پہلے سے موجود سندھ طاس معاہدہ(Indus Water Treary- IWT) کے تحت اس کا احاطہ کیا جائے۔
Shumaila Javed Bhatti
About the Author: Shumaila Javed Bhatti Read More Articles by Shumaila Javed Bhatti: 15 Articles with 10632 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.