ہیڈماسٹر سکیورٹی گارڈ!

 ہم گوجرانوالہ کے اُن ہیڈماسٹر صاحب کو چشمِ تصور سے ہی دیکھ سکتے ہیں ، جنہوں نے ازخود سکول کے سکیورٹی گارڈ کے فرائض سنبھال لئے ہیں، کیونکہ اخبار میں ان کی خبر تو آئی ہے مگر تصویر نہیں۔ ہیڈماسٹر صاحب نے کہا ہے کہ ہم محکمہ تعلیم کو لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں، مگر ابھی تک شنوائی نہیں ہوئی، ہمیں سرکاری طور پر کوئی گارڈ نہیں دیا گیا، جبکہ حکومت کی طرف سے مراسلے آرہے ہیں، جن میں سختی سے حکم دیا جارہا ہے کہ سکول میں سکیورٹی کا بندوبست مناسب ہونا چاہیے، تعمیلِ ارشاد میں کوتاہی کی صورت میں ہیڈماسٹر ہی ذمہ دار ہوگا، چنانچہ ہیڈماسٹر صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک حکومت ہمیں سکیورٹی گارڈ فراہم نہیں کرتی، میں خود ہی یہ ذمہ داری نبھاؤں گا۔ ہیڈماسٹر صاحب کا یہ جذبہ قابلِ تحسین ہے، مگر اس کے پیچھے بہت سی قباحتیں موجود ہیں، اول یہ کہ بہت سے لوگ اور سکول کے اندر سے بہت سے اساتذہ و طلبہ ہیڈ ماسٹر صاحب کو بندوق پکڑے گیٹ پر کھڑے دیکھ کر (نجی محفلوں میں) مذاق کا نشانہ بنائیں گے۔ دوم یہ کہ ہیڈماسٹر صاحب ہر کسی کی تلاشی لیتے اور ہر کسی پر نگاہ رکھتے مناسب بھی نہیں لگیں گے۔ سوم یہ کہ اگر ہیڈماسٹر صاحب سارا دن گیٹ پر کھڑے رہے تو سکول کون چلائے گا؟ کیونکہ گارڈ کی ڈیوٹی تو بہت سخت ہوتی ہے اور وہ ایک لمحہ بھی گیٹ سے اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا۔

جس ادارے کے سربراہ ہرکام خود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کام کرنے سے نہیں کتراتے ، وہ ادارے اکثر کامیاب ہی رہتے ہیں، تعلیمی ادارے کے سربراہ کو کلاس پڑھانی بھی آتی ہو، اس کی معلومات بھی نسبتاً بہتر ہوں، وہ ڈسپلن قائم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو، اسے باغبانی کی باریکیوں کا بھی ادراک ہو، وہ عمارت کی تعمیر ومرمت پر بھی گہری نگاہ رکھتا ہو، اسے کمپیوٹر اور آئی ٹی میں بھی مہارت ہو، تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بہترین سکول نہ چلا سکے۔ اور اگر ہیڈماسٹر خود ہی گارڈ بننے کی خوبی بھی اپنے اندر چھپائے پھرتا ہو، تو یہ مزید سونے پہ سوہاگہ والی بات ہو جاتی ہے۔ اداروں کے ایسے سربراہ جو تمام سکول کے تمام کاموں میں ذاتی دلچسپی لیتے اور خود نگرانی کرتے ہیں، سکول سے متعلقہ ہر فرد ان سے پریشان رہتا ہے، سب کو یہی خدشہ ہوتا ہے کہ ہیڈماسٹر صاحب اِدھر ہی نہ آجائیں، اور یہ بھی کہ وہ ہر قسم کی غلطی کو پکڑ سکتے ہیں، اس لئے ٹیچر سے لے کر مالی تک سب لوگ چوکس رہتے ہیں۔

گارڈ محکمہ تعلیم (حکومت) نے دینے ہیں یا ان کا خود بندوبست کرنا ہے، یہ ایک اہم مسئلہ ہے، مگر پیچیدہ ہر گز نہیں، بے شمار سرکاری سکول سکیورٹی گارڈ کے بغیر ہی اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ سکول انتظامیہ کی نگاہ حکومت پر ہے اور حکومت کا تکیہ خود سکول انتظامیہ پر۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سرکار کوئی ایسا حکمنامہ جاری فرما دے، جس سے سرکاری سکولوں پر یہ واضح ہوجائے کہ انہوں نے خود سکیورٹی کا بندوبست کرنا ہے یا وہ حکومت کا انتظار کریں۔ مگر چھوٹی سی بات پر گومگو کی کیفیت ہے۔ سرکاری سکولوں میں ہیڈماسٹر صاحب کے پاس بہت سے فنڈز ہوتے ہیں، اور ان میں سے بہت سے فنڈز صوابدیدی ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سے سکول سربراہان ’’فروغِ تعلیم فنڈ‘‘ میں سے رقم نکال کر اس سے سکیورٹی گارڈ کا اہتمام کرلیتے ہیں، مگر بعض لوگ ہر فنڈ کو اس کی مخصوص مد میں ہی استعمال کرتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں بھی ہیڈماسٹر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ فروغِ تعلیم فنڈ کو گارڈ کی تنخواہ پر خرچ کرتے، آخر بچے محفوظ اور ماحول پر امن ہوگا تو تعلیم کی گاڑی کو آگے بڑھایا یا چلایا جاسکے گا۔

گوجرانوالہ کے ہیڈماسٹر صاحب پر لگتا ہے وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی اور مصروفیات کے بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، کیونکہ میاں شہباز شریف ہر کام خود کرنا چاہتے ہیں، اور ہر مقام پر خود ہی پہنچ جاتے ہیں۔ اسی عمل کو بعض لوگ اُن کی گڈ گورننس قرار دیتے ہیں، جبکہ یہ کمزور حکومت کی علامت ہے، مزہ تب ہے کہ وہ ایک جگہ بیٹھ کر معاملات کو کنٹرول کریں۔ اس عمل کے پیچھے دراصل یہ نفسیات کارفرما ہے کہ وہ ہر کام اپنے ہی ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں، وہ اختیارات کو تقسیم کرنا ہی نہیں چاہتے، وہ اہم وزارتیں اور زیادہ تر اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ اگر مذکورہ بالا ہیڈماسٹر صاحب نے احتجاج کے طور پر یہ طریقہ اپنایا ہے تو انہیں کامیابی مشکل ہی ملے گی، اگر انہوں نے وزیراعلیٰ کے انداز میں کام کرنے کی کوشش کی ہے، تو ممکن ہے انہیں فائدہ ہوجائے۔ اور اگر انہوں نے خلوصِ نیت سے یہ کام شروع کیا ہے، تو اس کا اجر انہیں ضرور مل کر رہے گا۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 435672 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.