نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد …وقت کا اہم تقاضا

چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشتگردی کے واقعہ کے بعد سے ایک بار پھر میڈیا پر نیشنل ایکشن پلان کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ گزشتہ دنوں دہشتگردوں نے چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرکے ایک پروفیسر سمیت بیس افراد کی جان لے لی تھی، جس کے بعد یہ بحث چھڑ گئی کہ ملک میں ایک عرصے سے جاری آپریشن کے باوجود بھی ایک بڑے تعلیمی ادارے کا دہشتگردی کا نشانہ بن جانا نہ صرف انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے، بلکہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت بھی ہے کہ ملک سے دہشتگردی کے خاتمے سے متعلق بیانات کے بعد بھی آخر دہشتگردی اتنی آسانی سے اپنے مقصد میں کامیاب کیسے ہوگئے؟ اس حوالے سے ملک کے متعدد حلقوں نے حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ملک میں دہشتگردی کے ختم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تاحال نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوسکا ہے۔ اگر نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد ہوجاتا تو کوئی وجہ نہیں کہ دہشتگرد یونیورسٹی پر حملہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ سانحہ چارسدہ کے بعد وکلا برادری نے باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہوئے حکومت سے نیشنل ایکشن پلان پر موثر عملدرآمد اور پلان کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عناصر کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمدکیوں نہیں ہورہا؟ اور ان چہروں کو بے نقاب کیا جائے جو نیشنل ایکشن پلان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے نکات پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجوہات منظر عام پر لائی جائیں اور جن نکات پر عمل درآمد نہیں ہوااس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی حکومت پر طنز کرتے ہوئے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تعلیمی اداروں پر حملے افسوسناک ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان صرف عوام کو دکھانے کے لیے ہے، جبکہ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل درآمد کیا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان پر پورا عمل درآمد ضروری ہے، مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے سانحہ چارسدہ اور اس طرح کے سانحات پیش آرہے ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر محمد فاروق ستار نے بھی سانحہ چارسدہ کو نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر گزشتہ ایک برس میں صدق دل سے عمل نہیں کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں۔ ان کے علاوہ بھی متعدد رہنماﺅں نے حکومت سے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ خود وزیر اعظم میاں نوازشریف نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر سست روی سے کام ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ جنرل راحیل شریف نے چند ماہ قبل کور کمانڈر کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد سمیت دوسرے آپریشنز میں ممکنہ رکاوٹوں، فاٹا اصلاحات اور تمام جاری مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر منطقی انجام تک پہنچانے کی ضروت ہے، جس کے بعد وزیراعظم نے اپنے بیان میں نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد کی بات کی تھی، لیکن تاحال مکمل طور پر نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان بیس نکات پر مشتمل تھا،لیکن نیکٹا (NACTA)کو فعال اور مضبوط بنانا، انتہاپسندانہ مواد اور تقاریر کا خاتمہ، دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کے مالی وسائل کا خاتمہ، کالعدم تنظیموں کے دوسرے ناموں سے فعال ہونے کے عمل کا تدارک، انسداد دہشت گردی کے لیے خصوصی اور مستعد فورس کا قیام، مذہبی بنیادوں پر امتیاز اور استحصال کے عمل کا استحصال، فاٹا ریفارمز، دہشت گردوں کے کمیونیکیشن نیٹ ورک کا خاتمہ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھام وہ نکات ہیں، جن پر پیش رفت نہیں ہوئی، ان کے علاوہ بعض نکات پر کلی اور بعض پر جزوی طور پر عمل درآمد ہورہا ہے، جبکہ دہشتگردوں کوپھانسی، فوجی عدالتوں کے قیام، ذرائع ابلاغ میں دہشتگردوں کے بیانات اور تشہیر پر پابندی، اقلیتوں کے تحفظ، کالعدم تنظیموں کی متبادل ناموں سے سرگرمیوں پر پابندی سمیت چند نکات پر عمل درآمد ہوچکاہے۔

واضح رہے کہ 16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 134 بچوں سمیت150 پاکستانیوں کی شہادت نے ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کو یکساں طور پر دہشت گردوں کے خلاف تمام اقدامات اور حکمتِ عملی کا ازسرِ نو جائزہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے مل بیٹھ کر انسدادِ دہشت گردی 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان تیار کیا۔ 24 دسمبر 2014ءکو وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب میں دہشتگردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا۔ دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے سیاسی وعسکری قیادت نے عزم کا اعادہ کیا۔ نیشنل ایکشن پلان میں چند اہداف متعین کیے گئے تھے، جن میں سے کچھ ہی حاصل ہوسکے ہیں۔ پہلا ہدف فوجی عدالتوں کا قیام تھا، جو بہترین انداز میں حاصل ہوا ہے، ان عدالتوں کے قیام کے لیے نہ صرف آئین میں ترمیم منظور کی گئی، بلکہ اس کے تحت ذیلی قوانین بنائے گئے، فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور ان عدالتوں نے متعدد مجرمان کو پھانسی کی سزائیں بھی سنا ئی ہیں۔ دوسرا ہدف ملک میں مسلح جتھوں کا خاتمہ تھا۔ اگرچہ ملک میں کوئی مسلح جتھہ دندناتا نہیں پھر رہا مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ہدف حاصل ہو گیا، کیونکہ ملک میں ایسا کوئی گروہ نہیں ہے جو نیشنل ایکشن پلان سے پہلے تو سرگرم عمل تھا، مگر نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں اسے ختم کر دیا گیا ہو۔ تیسرا ہدف قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی(نیکٹا) کو فعال اور موثر بنانا تھا۔ اس ضمن میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ نیکٹا دفترتک محدود ہے۔ متعلقہ ادارہ سوائے ایک تھکی ہوئی ویب سائٹ بنانے کے اور کچھ نہیں کر سکا۔ ظاہر ہے کہ نیکٹا کے لیے کوئی رقم جاری کی گئی ہے اور نہ ہی ایسی کوئی خبر ہے کہ یہ بحالی کی طرف گامزن ہے۔ چوتھا ہدف نفرت پر مبنی تقاریر اور مواد شائع کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا تھا، جس میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں نفرت انگیز مواد پھیلانے کے الزام میں بہت سی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ پانچواں ہدف دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کے ذرائع بند کرنا تھا۔ اس میں بھی کچھ کامیابی ملی ہے۔ ایکشن پلان میں فوجداری عدالتی نظام میں اصلاحات کی غرض سے آئین میں ترمیم کے بعد ضروری قوانین نافذ کیے جانا بھی تھا، اس ضمن میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ آئی ڈی پیز کی بحالی کے حوالے سے ترقیاتی اور انتظامی اصلاحات کا عمل تیز کیے جانے کے حوالے سے بھی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔ پلان میں یہ بھی تھا کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردوں کا پروپیگنڈا بند کیا جائے گا، لیکن اس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی ، جبکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دہشت گردوں کے بیانئے کو جگہ نہ دیے جانے کے حوالے سے میڈیا نے ذمہ داری دکھائی ہے اور دہشتگردوں کے بیانات میڈیا پر جاری نہیں کیے جاتے۔ پلان میں کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن منطقی انجام تک پہنچائے جانے کے حوالے سے بھی تھا، اس ضمن میںکارکردگی قابل تعریف ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جن شقوں پر عمل درآمد ہورہا ہے، وہ فوج سے متعلق ہیں اور جن شقوں پر عمل نہیں ہوا، اس میں حکومت کی سستی پائی جاتی ہے، کیونکہ حکومت نے متعلقہ اداروں کو اس حوالے سے فعال ہی نہیں کیا۔ ایکشن پلان مکمل طور پر کامیابی تب ہوتی اگر تمام ادارے مل کر کام کرتے، لیکن ہوا یہ کہ جو اپنی ذمہ داری ادا کررہے ہیں، وہ بھی اپنے طور پر ادا کر رہے ہیں، متعقلہ کوئی بھی ادارہ ایک دوسرے سے رابطے میں نہیں ہے۔ جبکہ اس حوالے سے یہ بھی قابل افسوس بات ہے کہ صوبائی حکومتوں نے بھی وفاق کے ساتھ تعاون نہیں کیا، حالانکہ تمام صوبائی حکومتوں کی بھی ذمہ داری تھی کہ انسداد دہشتگردی کے خاتمے کے لیے وفاق کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے۔

گزشتہ روز وفاقی حکو مت نے دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ وارنہ سر گر میوں کو ختم کر نے کے لیے پنجاب سمیت چاروں صوبوں کو 10 نکاتی ایجنڈا دے دیا ہے۔ صوبوں کو نیشنل ایکشن پلان اور دس نکاتی ایجنڈے پر عمل کے لیے فنڈز کی فراہمی کی بھی مکمل یقین دہانی کروا دی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت وفاقی وزارت داخلہ اور نیکٹا نے مشترکہ طور پر ایک لائحہ عمل تیار کیا ہے، تاکہ صوبوں سے انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تعصب ختم ہوسکے۔ لہذا 10 نکاتی ایجنڈا تیار کیا گیا ہے اور صوبوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اس پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ ان نکات کے مطابق صوبوں کو کہا گیا ہے کہ تمام مسائل اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے سیمینار منعقد کیے جائیں اور کسی مسلک سے امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ غربت کے خاتمے کے لیے مساوی پالیسیاں بنائی جائیں۔ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں، جس سے لوگوں میں فنی تعلیم کا رجحان بڑھے۔ اس کے علاوہ ایسی تمام این جی اوز پر نظر رکھی جائے جو کسی خاص مذہب یا مسلک کو فوغ دیتی ہو یا ان کا رجحان کسی خاص مسلک کی طرف ہو۔ اس حوالے سے اگر کوئی مذہبی این جی اوز ہے تو اس کی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جائے۔ تمام مسالک کے دینی مدارس کے نصاب کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور ایسے سیمینارز کرائے جائیں جس سے صوبے میں انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ اس مقصد کے لیے اگر کوئی مدرسہ فرقہ وارانہ منافرت کا باعث بنتا ہے تو اس کے منتظم کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ اس کے ساتھ دینی مدارس کی مرحلہ وار انسپکشن کو یقینی بنایا جائے اور ہر وزٹ کی رپورٹ تیار کی جائے اور ان مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھتے ہوئے انہیں بنیادی سہولیات دی جائیں۔ اس کے ساتھ دیگر صوبے پنجاب حکومت کی طرز پر دانش اسکول سسٹم کو متعارف کروائیں، تاکہ کوالٹی ایجوکیشن کا حصول ممکن ہوسکے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوسکا، لیکن جتنا بھی عمل ہوا ہے، اس سے ملک میں کافی حد تک دہشتگردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ اگر نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل ہوتو بہت جلد ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 644103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.