میخائل باختن (Mikhail Bakhtin): ایک مطالعہ

 میخائل باختن( پیدائش:سترہ نومبر 1895،وفات:سات مارچ 1975)کا شمار روس کے ممتازادیبوں میں ہوتا ہے۔ادبی تنقید و تحقیق ،فلسفۂ لسانیات،علم بشریات،ادبی تھیوری،علامتی ابلاغیات اور اخلاقیات کے شعبوں میں اس کے فکر پرور اور خیال افروز مباحث سے جمود کا خاتمہ ہوا اور افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجو کا ولولہ ٔتازہ دلوں میں لیے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کا جذبہ نمو پانے لگا۔میخائل باختن نے اپنے ذو قِ سلیم اور ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اشہبِ قلم کی جولانیوں سے علم و ادب کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ جرأت اظہار کی مظہراسلوبیاتی تازگی،موضوعاتی تنوع،اظہار و ابلاغ کی ہمہ گیری اور نُدرت و جدت اس کی گُل افشانیٔ گفتار کے امتیازی اوصاف سمجھے جاتے ہیں۔ اپنی وسیع النظری کو بروئے کار لاتے ہوئے میخائل باختن نے سوشیالوجی،تاریخ،فلسفہ،علم بشریات،نفسیات،تنقید اور تخلیق ادب کو نئے اور ارفع معائر سے آ شنا کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ادب اور جمالیات جیسے اہم موضوعات پر اس کے فکر پرور اور خیال افروز تصورات کو سال 1920 کے عشرے میں روسی ادبیات میں فکری منہاج کو نئی جہت عطا کرنے کی اہم کوشش سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔فرانسیسی زبان سمجھنے والے ممالک اور یورپ میں میخائل باختن کے افکار کے تجزیاتی مطالعہ کا سلسلہ سال 1960میں شروع ہوا ۔اس کے ساتھ ہی اس کی پزیرائی کے ایک غیر مختتم دور کا بھی آغاز ہو گیا ۔ میخائل باختن کی وفات کے بعد جن ممتاز نقادوں نے کثیر اللسانی ممالک اور فرانسیسی زبان سمجھنے والے علاقوں میں اس کے افکار کی تشریح پر توجہ دی ان میں جو لیا کر سٹیوا ( Julia Kristeva)اور تزویتان تودوروف(Tzvetan Todorov) کے نام قابل ذکر ہیں۔ہوائے جور و ستم میں بھی شمع ِ وفا کو فروزاں رکھتے ہوئے حق و صداقت کا علم تھام کرمظلوم انسانیت کے وقاراور سر بُلندی کے لیے سینہ سپر ہو جانا حریت ضمیر سے جینے والوں کا شیوہ ہوتا ہے ۔حریت فکر و عمل اور جرأتِ اظہار کا تقاضا یہ ہے کہ جب لبِ اظہار پر تالے لگا دئیے جائیں تو فسطائی جبر ،شقاوت آمیز نا انصافیوں اور مکر و فریب کی اساس پر استوار فصیل کو تیشۂ حرف سے منہدم کرنے کی مقدور بھر سعی کی جائے۔کسی بھی مصلحت کے تحت جبر اور نا انصافی کے سامنے سپر انداز ہو جانا بہ جائے خود ایک اہانت آمیز فعل اورصریح ظلم ہے جس کے باعث کینہ پرور ،حاسد اور جابر قوتوں کو کُھل کھیلنے کو مو قع مِل جاتا ہے ۔ سال 1980کے بعد یورپ میں میخائل باختن کی مقبولیت میں قابل قدر اضافہ ہوا ۔جدید دور میں تصوریت اور واقعیت کے تصادم نے ذاتی مخاصمت ،اختلافِ رائے اور نظریاتی کج بحثی کی دبیز گرد میں زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات اس طرح نہاں ہو گئی ہیں کہ کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔حساس تخلیق کار محو حیرت ہیں کہ ہوس نے نشاطِ کار کے کیا ڈھنگ سیکھ لیے ہیں؟
معاصر یورپی مفکرین کے تصورات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے دیارِ مغرب میں فکر و خیال کی دنیا میں ایک اضطراری اور ہیجانی کیفیت کا غلبہ ہے۔وہاں بہ یک وقت کئی فکری بحران سر اُٹھا رہے ہیں جن میں تصوریت اور واقعیت میں پیہم بڑھتے ہوئے فاصلے ،متضاد سوچ،متصادم اور متحارب روّیے ایسی گتھی اور ڈور کی شکل اختیار کر گئے ہیں کہ جس کو سلجھانے والوں کو اس کا سرا کہیں نہیں ملتا۔فکر و خیال کی حسین وادیوں پر تشکیک کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ان حالات میں ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس کے بارے میں کیسے لب کشائی کی جائے اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس تمام صورتِ حال کو کس طرح احاطۂ تحریر میں لایا جائے۔ یہاں یہ امر وضاحت طلب ہے کہ کیافکر و نظر کے اس لرزہ خیز بحران سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد دستیاب ہے ؟میخائل باختن نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے :
"We believe that only dialectical materialism can be this basis.The task of uniting a wide synthesis and general philosophical orientation with a mastery of the material diversity and historical generation of ideological phenomena is resolved and even contradictory on any other basis.Between the insipid empiricisim of positivism and the abstract disinterestedness of idealism tertium non datur for the bourgeois world view.A semi-mystical"philosophy of life" whic only exists because it is enigmatic and incomplete,can only provide a seeming solution to crisis." (1)
سال 1920میں میخائل باختن نے تین حصوں پر مشتمل انسانی سائیکی کا ایک ماڈل پیش کیا جسے آرکیٹکٹونک ماڈل ( Architectonic Model ) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔انسانی سائیکی کا یہ ماڈل اس کی جدت پسند طبیعت اور ندرت تخیل کا نمونہ ہے۔اس میں اور سگمنڈ فرائڈ کے خیالات میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ اس ماڈل کا اہم پہلو’’میں ‘‘ ہے ۔
’’میں ‘‘(خود اپنی ذات کے لیے): کیا میں خو دبھی اپنی حقیقت کا شناسا ہوں؟’’میں‘‘ اندرونی طور پر اپنے ضمیر کی آوازسُن کر کیا محسوس کرتا ہوں؟کیامیرے ضمیر کی آواز میرے قلب کو سوز اورروح کو احساس سے متمتع کرتی ہے اور میں ضمیر کی آوازسُن کر اپنے بحرِ خیالات کے گہرے پانی کی غواصی کر کے عرفانِ ذات کے گہر ہائے آب دار تلاش کرنے پر قادر ہوں؟
’’میں‘‘(دوسروں کے لیے ): ’’میں ‘‘کسی دوسرے کو باہر سے کس انداز میں دیکھتا ہوں؟ کسی دوسرے کی ظاہری شکل و صورت اور روّیہ دیکھ کر میرا تاثر کیاہوتا ہے؟
اس کے بعد فرد اپنی روزمرہ معاشرتی زندگی اور سماجی مسائل کے بارے جو طرزِ عمل اپناتا ہے وہ اسی ’’میں‘‘کے مدار ہی میں گھو متا ہے ۔
میخائل باختن ایک کثیر التصانیف ادیب تھا سال 1990کے بعد میخائل باختن کا شمار کلاسیک مصنفین میں ہونے لگا تھا۔ اپنے عہد کے اس ممتاز ادیب پر تحقیقی کام کے لیے باختن سنٹر یونیورسٹی آف شیفلڈ برطانیہ ( The Bakhtin Centre University Of Sheffield England ( کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔یہاں میخائل باختن کی تصانیف کے تراجم اور ان کے اصل متن برقی کتب کی صورت میں ڈیجیٹل کتب خانے میں پوری دنیا مطالعہ اور تحقیق کے لیے فراہم کر دئیے گئے ہیں۔ یہاں گزشتہ پندرہ برس سے سالانہ بین الاقوامی با ختن کانفرنس کے انعقاد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں اب اس ماہر لسانیات کے کام کی طرف توجہ دی جا رہی ہے ۔ ماسکو میں بھی میخائل باختن کے اسلوب پر تحقیقی کام جاری ہے اورسات جلدوں پر مشتمل اہم تجزیاتی مطالعات کی اشاعت ہو چکی ہے۔ثقافتی تھیوری پر میخائل باختن کے کام پر پوری دنیا میں تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔اس نے اپنی تخلیقی فعالت سے عالمی ادب کی ثروت میں جو قابل قدر اضافہ کیا ،اس کا ایک عالم معترف ہے ۔تنقید اور تخلیقِ ادب میں اس کے دبنگ لہجے کی بازگشت ہر دور میں سنائی دے گی۔ اس کی تصانیف درج ذیل ہیں:
1.The Dialogic Imagination
2.Problems of Dostoesky,s Poetics
3.Rabelais an dhis work
4.Speech Geners and other Late Essays
5.Towards Philosophy o f the Act
6.Art and Answerability
7.The Formal Method in Literary Scholarship
8.The Bakhtin Reader
میخائل باختن کے خیالات سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ ہم سب ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں فکر و خیال کے تاج محل تعمیر دوسروں کے الفاظ کی اساس پر تعمیر کیے گئے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اہلِ جہاں لفظوں کے ایسے تخیلاتی مکانوں میں اپنی فکری زندگی کے دِن پورے کرنے پر مجبور ہیں جو دوسروں کے الفاظ سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اپنے ذہن و ذکاوت ،ذو قِ سلیم اوروسعت نظر کو بروئے کار لاتے ہوئے میخائل باختن نے فکشن کو ایک ایسی صنفِ ادب کے طور پر متعارف کرایا ہے جس کے ہمہ گیر ،جامع اور کثیر صوتی متنوع ڈسکورس کاکرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔تخلیقِ ادب میں براہِ راست مکالمات،گل افشانیٔ گفتار یا تحریر کی تفہیم کا موروثی تکلم کے رد ِ عمل پر مبنی ایک سلسلے سے گہرا تعلق ہوتا ہے جو لسانی روابط کو منفرد روپ میں سامنے لاتا ہے ۔ اس کا خیال تھا کہ فکشن جیسی صنفِ ادب کی جداگانہ نظریاتی کیفیات کہانی میں ایسا دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتی ہیں کہ سارا کھیل رعنائیوں اور رنگ و خوشبو کی دِل ربائیوں سے لبریز ہو جاتا ہے ۔ادب کے ناقدینکہانی اور کھیل کی جداگانہ نظریاتی کیفیات کی حتمی صورت اور نقطۂ عروج کی تفہیم میں پوری طرح کام یاب نہیں ہو سکے۔ڈرامے ہی کو لے لیں جہاں ان کیفیات کی اثر پزیری کی ممکنہ آخری حدود کا تعین نہیں ہو سکااور نہ ہی ان کی فعالیت اور جمالیاتی اثرات کی وسعت کا جائزہ لیا جا سکا ہے ۔ فکشن میں اس تمام تخلیقی فعالیت کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ فیصلہ کن ڈسکورس کی تہہ تک پہنچنے کی خاطر ان کیفیات اور ان کے پس پردہ کار فرمافعالیت اور اثر پزیری کا حتمی جائزہ لینے کی مساعی ہر چند کہیں کہ ہیں نہیں ہیں ۔وہ سمجھتا تھا کہ الفاظ کی معنویت کا تعلق سرحد ادراک سے بھی آگے نکل جاتا ہے ۔ہر لفظ گنجینۂ معانی کے طلسم کی صورت میں فکر و خیال کی ایک ایسی سرحد پر اپنے وجو دکا اثبات کرتا ہے جہاں اس کے اپنے سیاق وسباق اور اجنبی لفظ کے سیاق و سباق کے نقطۂ اتصال پر قلزم معانی کی صد رنگی کی مظہر دل کش کیفیات کا منظر نامہ فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے۔
سائنس اورٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ زمانے میں اقدار اور روایات کی کایا پلٹ گئی ہے۔تخلیقِ ادب کے معائر بھی سیلِ زماں کی تند و تیز موجوں کی زد میں آ گئے ہیں۔فکر و خیال اور دانش وحکمت کی تمام مروّج اور مقبول صورتیں منقلب ہونے لگی ہیں۔جدید دور میں عالمی ادبیات سے وابستہ جن ممتاز دانش وروں نے عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ان میں میخائل باختن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔اس کی حیات اور علمی و ادبی خدمات اور تخلیقی کامرانیوں پر تحقیقی کام کا سلسلہ جاری ہے ۔میخائل باختن کی زندگی میں اور اس کی وفات کے بعددنیا بھر میں اس کے اسلوب ،تنقیدی و تحقیقی بصیرت،منفرد اندازِفکر اور جرأتِ اظہار کو جس طرح لائق رشک و تحسین سمجھا گیا تاریخِ ادب میں ایسی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔گلشنِ ادب کی فضاؤں میں ہر طرف اس کی یادیں پھیلی ہوئی ہیں جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے اس کے پُر اعتمادلہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔عالمی ادبیات کے قارئین کی انجمنِ خیال میں اس یگانۂ روزگار ماہر لسانیات کے افکارِ تازہ کی تابانیوں اور خطر پسند طبع کی جو لانیوں سے نہ صرف اذہان کی تطہیر و تنویر کااہتمام ہوا بل کہ قارئینِ ادب کو جہانِ تازہ تک رسائی کے لیے نشانِ منزل بھی مِل گیا۔ اپنی ادبی اور لسانی تھیوری کے ذریعے میخائل باختن نے فکری جمود کا خاتمہ کر کے تقلید کی مہلک روش سے بچنے کی جو راہ دکھائی وہ ہر دور میں قارئینِ ادب کے لیے نشان منزل ثابت ہو گی۔اس نے روسی ہئیت پسندی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے فکری سیلِ رواں کے سامنے مدلل مباحث کا بند باندھنے کی جو کوشش کی وہ اس کی فکری اُپج کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔
روس میں سینٹ پیٹرز برگ (Saint Petersburg ) سے عالمی کلاسیک کی ڈگری حاصل کر نے کے بعد اس روسی دانش ور نے لسا نیات کا مطا لعہ اپنا مطمح نظر بنا یا ۔ وہ 1920 میں شعبہ تدریس سے منسلک ہوا ۔ سال 1921میں میخائل باختن نے دِل کی بات مانتے ہوئے الینا الیکزنڈرونا اوکلوچ( Elena Aleksandrovna Okolovich)سے شادی کر لی۔شادی کے بعد بھی اس کی دِل کی کلی نہ کِھل سکی اور گردشِ ایام مسلسل اس کے ساتھ رہی۔ تمام دشواریوں ، انتہائی صبر آزماحالات اور کٹھن مسائل کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہوئے اس نے حریت فکر کی شمع فروزاں رکھنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔اس کا شما ر ان ممتاز روسی دانش وروں میں ہو تا ہے جنھوں نے روسی ہیت پسندی پر گرفت کی اور اس کے خلاف مدلل مباحث کا آغاز کیا۔میخائل باختن نے اوائل عمری ہی سے روسی ہئیت پسندی کے بارے میں دبے لفظوں میں اپنے تحٖفظات کا اظہار کر دیا تھا ۔اس زمانے میں روس میں سٹالن نے تحریروں کی اشاعت پر سخت سنسر شپ عائد کررکھی تھی یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں روسی ہئیت پسندی کے خلاف اس کے جو مضامین شائع ہوئے وہ گم نام نوعیت کے تھے اور ان پر اس کا واضح نام کہیں درج نہ تھا۔ اس نے بالعموم اپنے مضامین P.N.Medvedev اور V.N.Voloshinov کے نام سے لکھے۔ فرائیڈ کے تجزیاتی مطالعہ پر اس کا مضمون سال1927میں شائع ہوا۔تنقیدی نوعیت کا ایک مضمون جو سال 1928میں:The Formal Method in literary Scholarship"‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔اس مضمون میں مصنف نے روسی ہئیت پسندی بالخصوص ان کے تصورِ تاریخ پر سخت حملے کرتے ہوئے اس پر شدید نوعیت کے اعتراضات کیے۔اس مضمون پر مصنف کا نام باختن ایسوسی ایٹ ،پی این میڈیو (Bakhtin,s Associate,P.N.Medvedev) کا نام درج تھا۔ اس کا مضمون’’ مارکسزم اور فلسفۂ زبان‘‘ بھی اس زمانے میں موضوع بحث بن گیا۔ اس کے باوجود دیدۂ بینا رکھنے والے اور باطنِ ایام سے آگاہ دانش ور اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئے کہ روسی ہئیت پسندی جیسے اہم موضوع پر چشم کشا صداقتوں سے لبریز یہ مضمون کُلی طور پر یاجزوی طور پر میخائل باختن ہی کے تنقیدی خیالات کا آئینہ دار ہے ۔جلد ہی الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کا یہ سلسلہ ختم ہو گیا اورمیخائل باختن اپنے نام سے بر ملا مضامین لکھ کر اپنے دبنگ لہجے سے قارئین کو متوجہ کرنے لگا۔ جب سال 1929میں اس کا مضمون ’’دوستو وسکی کے فن کے مسائل ‘‘Problems Of Dostoevsky,s Art))اس کے اپنے نام سے شائع ہوا تو تو قارئینِ ادب نے اس مضمون کو بے حد سراہا۔اپنے اس مضمون میں میخائل باختن نے واضح کیا دوستو وسکی کے فن کو محض سادہ بیانیہ سمجھنا درست نہیں بل کہ یہ مختلف نوعیت کے کثیر صوتی انفرادی بیانیوں کا حسین گل دستہ ہے ۔مصنف کے اسلوب کے تنوع اور انفرادیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔اس نے تخلیق کار کے کثیر صوتی لہجے کو اہم قرار دیا۔دوستو وسکی کا اسلوب کئی آوازوں کا مخزن ہے جنھیں کسی واحد نقطۂ نظر میں مدغم کر کے پیش کر نابعید از قیاس ہے ۔ اس نے ہر بیانیہ کو ایک انفرادی روپ میں پیش کرکے زبان و بیان اور اسلوب پر اپنی خلاقانہ دسترس سے قاری کو حیرت زدہ کر دیا ہے ۔ دوستو وسکی کااسلوب اپنے لیے خود ہی راہیں تلاش کر لیتاہے جس کی روانی اور بے کرانی دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ مصنف کے تابع نہیں اور اقلیم سخن میں اس کی خودمختاری مسلمہ ہے ۔ہر بڑے تخلیق کار کو غیب سے موضوعات اور مضا مین کے بارے میں وجدانی کیفیت سے سب کچھ عطا ہوتا ہے اور یہ یقین ہو جاتاہے کہ یہ سب کچھ ذاتی کاوش کا ثمر نہیں بل کہ نوائے سروش ہی صریر خامہ میں ڈھل گئی ہے ۔ حیران کن بات یہ کہ دوستو وسکی کے اسلوب میں ہر بیانیہ انفرادی روپ میں جلوہ گر ہو کرگرگٹ کے مانند رنگ بدلنے پر قادر ہے ۔بیانیہ میں موسم کے مانند بدلتے روپ عجیب پر اسرار شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ان معاملات کی تہہ تک پہنچنا اور ان کے پس پردہ حقائق کی گرہ کشائی قاری کے لیے ایک کٹھن مر حلہ بن جاتا ہے ۔ ادب کی انواع کو زیر بحث لاتے ہوئے میخائل باختن نے لکھا ہے:
A literary genre, by its very nature, reflects the most stable, "eternal'
tendencies in literature's development. Always preserved in a
genre are undying elements of the archaic. True, these archaic elements
are preserved in it only thanks to their constantrenewal, which
is to say, their con temporization. A genre is always the same and yet
not the same, always old and new simultaneously. Genre is reborn
and renewed at every new stage in the development of literature and
in every individual work of a given genre. This constitutes the life of
the genre. Therefore even the archaic elements preserved in a genre
are not dead but eternally alive; that is, archaic elements are capable
of renewing themselves. A genre lives in the present, but always remembers
its past, its beginning. Genre is a representative of creative
memory in the process of literary development. Precisely for this
reason genre is capable of guaranteeing the unity and uninterrupted
continuity of this development.
For the correct understanding of a genre, therefore, it is necessary
to return to its sources. (2)
میخائل باختن نے ان کاموں کا بھی ذکر کیاہے جن کا حوالہ دیا گیا ہے اور ان کا بھی جو دوستو وسکی کے کام میں مذکور ہیں۔میخائل باختن نے ایک ہی زبان میں پائے جانے والے الفاظ کے لیے جو اصطلاح وضع کی اسے کثیر المطالب(Hetroglossia)سے تعبیر کیا جاتا ہے۔کرداروں کے مکالمات،بیانیہ کے نشیب و فرازاور جذبات کا مد وجزر سب مختلف نوعیت کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔اس طرح دوسرے کی گفتگو کسی دوسرے کی زبان میں اظہار کی راہ تلاش کر کے سماعتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔میخائل باختن نے فکشن کے عمیق تجزیاتی مطالعہ سے یہ نتائج اخذ کیے کہ صرف کردار ہی بیانیہ نہیں ہیں جو ایک دوسرے سے ہم کلام ہو کر زندگی کے ارتعاشات،گردشِ حالات، سماجی تضادات کے آئینہ دارواقعات،کہانی کے نشیب و فراز کو سامنے لاتے ہیں بل کہ ناول بہ جائے خودایک مکالمہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ایسی صورت میں وہ مصنف کی تسبیح روز وشب کے دانے دانے کو شمار کرتے ہوئے اس کے تمام افعال کے بارے میں حقیقی تناظر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے لفظی مرقع نگاری کا فریضہ انجام دیتا ہے۔میخائل باختن نے ناول کی مکالماتی کیفیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ یہ محض علامتی یا حوالہ جاتی صورت حال کی عکاسی نہیں بل کہ اس سے دو طرفہ روابط کے نمو پانے کا قوی احساس فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرتا چلا جاتا ہے۔
بعض ناقدین کی رائے ہے کہ جب روسی ہئیت پسندوں کو سٹالن کے عہد میں بدعتی قرار دیا گیا اور انھیں خود ان کے اپنے وطن میں کٹھن حالات کا سامنا تھا اور وہ نہایت بے سروسامانی کے عالم میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس وقت میخائل باختن نے(Mikhail Bakhtin,B:17-11-1895,D:07-03-1975)یہ کوشش کی کہ ر وسی ہئیت پسندی اور ما رکسزم کے مابین ربط کی کوئی راہ تلاش کی جائے ۔بادی النظر میں اس کے پسِ پردہ یہ سوچ کار فرما دکھائی دیتی ہے کہ مقتدر حلقوں کی نظر میں معتوب ٹھہرنے والی روسی ہئیت پسندی کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا ہو سکے۔ اس بات کی صداقت اس لیے محل ِ نظر ہے کہ میخائل با ختن خود بھی حکم ران طبقے کا معتوب تھا اوراس کی شخصیت خاصی متنازعہ بن گئی تھی ۔ رومن جیکب سن نے اس بات کا بر ملا اعتراف کیا کہ میخائل باختن کا شمار روسی ہئیت پسندی کے زیرک نقادوں میں ہوتا ہے ۔اس نے کسی مصلحت کی پروا کیے بغیرفسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا جس کی بنا پر ربلیس (Rabelais ) پر اس کے متنازعہ کام پر اس کی پی ایچ۔ڈی کی ڈگری روک لی گئی۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے ممتاز مصنف،ادیب اور معالج ربلیس(پیدائش:1494،وفات:نو،اپریل1554) نے نشاۃ الثانیہ کے دور میں انسانیت نوازی پر کام کیا۔ ربلیس کی کئی باتیں قاری کے دِل میں اتر جاتی ہیں۔( مثال کے طورپر اس نے کہا تھا کہ حریت ضمیر کے بغیر تو سائنس بھی روح کی موت قرار پاتی ہے ،راست گوئی کے عصا سے ہر ابلیس نما دروغ گو اژدہا کا سر کچل کر اسے پشیمان اور خجل کیا جا سکتا ہے ،محبت کے مارے سوز دروں سے جب کچھ اشارے کرتے ہیں تو یہ اشارے عام الفاظ سے کہیں بڑھ کر زود اثر ،دور رس،دل کش اور ہمہ گیر ہوتے ہیں۔)میخائل باختن نے اس امر کی طر ف توجہ مبذول کرائی کہ گزشتہ کئی صدیوں سے ربلیس کی تصا نیف کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بارے میں حقائق غلط فہمیوں کی گر د میں اوجھل ہوتے چلے گئے۔ میخائل باختن نے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک،شقاوت آمیز ناانصافیوں اور اہانت آمیز سلوک پر دِل بُرا نہ کیااور صبر کی روایت میں خاموشی اختیار کر لی۔ اسے سٹالن کے دور میں سال 1929میں سائبیریا میں اندرونی جلا وطنی کی اذیت وعقوبت کی سزا دی گئی۔کچھ عرصہ بعد اس کی علالت کے باعث جلاوطنی کم کر کے اسے قزاقستان میں چھے برس کی اندرونی جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا۔ جبر کے خلاف اس کی مزاحمت نے اسے نیک نامی عطا کی ۔ عالمی ادبیات میں جب بھی دانش و حکمت اور فکر و خیال کے ارتقا کی تاریخ رقم کی جائے گی ،اس میں میخائل باختن کا نام ان دانش وروں میں ممتاز حیثیت سے شامل ہو گا جنھوں نے فسطائی جبر کا ہر انداز لائق استرداد ٹھہراتے ہو ئے حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھا اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی۔ اپنے خیالات کی ترویج کے ا ہم مقصد کے لیے باختن سرکل (Bakhtin Circle)کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس سرکل کو سال 1930میں تحلیل کر دیا گیا۔اس میں مذہب،سیاست اورادب کے موضوع پر بحث ہوتی تھی۔اس سر کل میں جو ادیب شامل تھے ان کے نام درج ذیل ہیں :
میٹوی اسوچ کاگانMatvei Isaevich Kagan (1889-1937))
پاول نکولاوچ میڈو (1891-1938) Pavel Nikolaevich Medvedev)
لیو ویسل وچ پمپیانسکیLev Vasilievich Pumpianskii (1891-1940))
ایون ایونوچ سولر ٹنسکیIvan Ivanovich Sollertinskii (1902-1944))
ولینٹن نکلوچ ولشنوو Valentin Nikolaevich Voloshinov (1895-1936))
اگرچہ میخائل باختن نے اپنی انجمن خیال الگ سجا رکھی تھی لیکن روسی ہئیت پسند بالعموم اور رومن جیکب سن بالخصوص اسے اپنی صف میں شامل سمجھتاتھا۔میخائل باختن کے مارکسیت کے حامی ادیبوں سے گہرے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہ تھے ۔ زمانہ طالب علمی ہی سے وہ روسی ہئیت پسندی کو تنقیدی نگا ہ سے دیکھتاتھا۔اس نے سال 1928میں روسی ہیئت پسندی کے بارے میں اپنے ایک اہم مضمون میں اس کے نظریات پر کئی سوال اُٹھائے ۔مضمون ’’The Formal Method In Literary Scholarship ‘‘ اس کی وسعت نظر کا مظہر ہے ۔ میخائل باختن نے لفظ اور اُس کے کثیر صوتی پہلو کے بارے میں اپنے خیالات سے لسانیات میں جمود کا خاتمہ کرنے کی سعی کی۔ اس نے ادبی ڈسکورس کے موضوع پر بھی اپنے متنوع اور منفرد اسلوب سے ادبی حلقوں کو متاثر کیا ۔جب روسی ہئیت پسندوں نے تلخ سماجی حقائق سے چشم پوشی کو شعار بنایا تو میخائل باختن نے اس پر تنقید کی ۔ میخائل باختن نے جن موضوعات میں گہری دلچسپی لی ان میں اخلاقیات (Ethics)اور جمالیات(Aesthetics) شامل ہیں۔اس نے اخلاقیات اور جمالیات کے باہمی ربط کواپنی تحقیق کاموضوع بنایا۔ ثقافت کے سماجی پہلو پر میخائل باختن نے سیر حاصل بحث کی ۔اس نے مروّج ادبی تھیوری کے موضوع پراپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا۔میخائل باختن کا شمار بیسویں صدی کے انتہائی مؤثر نقادوں میں ہوتا ہے۔سوشل سائنسز کے اس روسی ماہر کاشمار عالمی شہرت کے حامل دانشوروں میں ہوتا ہے ۔میخائل باختن کاخیال تھاکہ تخلیقی فعالیت میں زبان کااستعمال جب مکالماتی صورت میں ہوتا ہے تو اس کی دل کشی پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہے اس لیے زبان کا استعمال ہر صورت میں مکا لماتی صورت ہی میں مستحسن ہے ۔ اس طرح مکالماتی عمل کے بعد ردِ عمل جب سامنے آتا ہے تو حقائق کی گرہ کشائی سہل ہو جاتی ہے۔ مکالمات کی ادائیگی کے دوران لہجے اور زبان کا زیرو بم جملوں کے مفہوم کو واضح ترکرتا چلاجاتا ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تکلم کے ہر سلسلے کے سوتے گزشتہ جُملوں کی ادائیگی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک سائنس دان اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کارلا کرنت نئی ایجادات سے زندگی کو متنوع اور دل کش بنا دیتا ہے ۔اس کی ایجادات کی وجہ سے زندگی کے حالات کی کایا پلٹ جاتیہے اور معاشرتی زندگی میں ایک انقلاب رونماہوتا ہے ۔ایک تخلیق کاراپنی بصیرت اور روحانیت کے امتزاج سے وہ معجزۂ فن دکھاتا ہے کہ دیکھنے والے پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں اپنی تمام بصیرتوں اور فعالیتوں کورو بہ عمل لاتے ہوئے تخلیق کار ید بیضا کا جو معجزہ دکھاتے ہیں وہ سائنس دان کے تجربات اور ایجادات سے کہیں بڑھ کر کٹھن اور محیر العقول ہوتے ہیں۔زیرک تخلیق کار کی تخلیق کا ایک ایک لفظ پارس کی حیثیت رکھتا ہے جو انسان کے فکر و خیال کو ستاروں سے بھی آگے بلند پروازی پر مائل کرتا ہے اور ذہن و شعور کو فہم و ادراک کی سد ا بہار صلاحیت سے مزین کر کے تاریخی شعو ر سے ثروت مند بناتا ہے ۔یہ ذہنی شعورنسل در نسل فکر ی بیداری اور ارتقا میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔تخلیقی فعالیت کے لمحوں میں گفتگواور پیچیدہ نوعیت کا ثقافتی ڈسکورس جو پیرایۂ اظہار کی صورت میں منصۂ شہود پر آتا ہے وہ اپنے دامن میں وادیٔ خیال کے متعد د گل ہائے رنگ رنگ سموئے ہوتا ہے ۔ان کی مسحور کُن عطر بیزی سے دامن دِل معطر ہو جاتا ہے ۔اس کے جلوے تمام اصناف ِ ادب میں دکھائی دیتے ہیں۔یہاں تک کہ ادب،سائنس ،تاریخ اور فنون لطیفہ کا کوئی بھی شعبہ ان کی ہمہ گیر اثر آفرینی سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔یہ ڈسکورس ایک کثیر صوتی نظام کے امتزاج کا ثمر ہے ۔اسی کے فیضان سے متعدد الفاظ موزوں اظہار اور مناسب ابلاغ کی صورت میں فکر و خیال کو گرفت میں لے لیتے ہیں۔یہ سب کثیر صوتی شکل میں جلوہ گر ہو کر آہنگ ،اسلوب اور اظہار کے ایسے ڈھنگ سکھاتے ہیں جن میں متنوع صورتیں، نئی آوازیں ، منفرداسالیب ، اہم حوالہ جات اور خود متکلم کے کئی مفروضے بھی شامل ہوتے ہیں۔اس طرح ایک ایک لفظ کئی کئی طرفیں رکھتا ہے جو قاری پرسوچ کے نئے در وا کرتا چلا جاتا ہے۔اپنے منفرد اسلوب سے میخائل باختن نے واضح کر دیا کہ ادائے مطلب وتاثرکی ہر سطح جو براہِ راست اظہاراور گفتگوسے متعلق ہو یا اس کا انسلاک پیچیدہ نوعیت کے ثقافتی میلانات کے اظہار کے روز افزوں سلسلے سے ہو ،سب کے سب ردِ عمل اوراظہار کی ایک وسیع دنیا کا ماحول اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔اظہار کی اس دنیاکے دستور ہی نرالے ہیں جہاں ہر لحظہ نیا طُور نئی برق تجلی کا کرشمہ دامنِ دل کھینچتا ہے ۔یہاں کی زندگی پیہم رواں اور ہر دم جواں دکھائی دیتی ہے۔اس گفتگو میں تکراری کیفیات اور حوالہ جات کی فراوانی ہے ۔اس میں دل کش گفتگو کے نئے سلسلے اور مسحور کُن بیانات کے وسیع تناظرپہلے سے موجود بیانات کے بارے میں جو قابل فہم مفروضے پیش کرتے ہیں انھیں پڑھ کر قاری حیرت واستعجاب کے قلزم کی غواصی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔اس کے علاوہ یہی کیفیات مستقبل کے ردِ عمل کے بارے میں تخمین و ظن کی صلاحیت سے بھی متمتع کرتی ہیں۔اس نے لسانی عمل کے بارے میں اس جانب متوجہ کیا کہ کسی بھی براہِ راست تقریر کی تفہیم اورایک پیہم رواں کلام کو ایک ردِ عمل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ہر تفہیم کا انسلاک ردِ عمل سے ہوتا ہے اور وہ لازمی طور پرکسی ایک یا دوسری صورت میں منصۂ شہود پر آتی رہتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ سماعتوں سے پیہم گزرنے والے مطالب کے سلسلے تکلم کا روپ دھار کر وادیٔ خیال میں گونجنے لگیں اور اس دنیا کے آئینہ خانے میں یہ عجیب صورت پیدا ہو جائے کہ سامع روپ بدل کر متکلم بن جائے اور سب کو حیرت زدہ کر دے ۔میخائل باختن نے اس جانب متوجہ کیا کہ لسانیات میں تخلیق اور اس کے لا شعوری محرکات کو پیش نظر رکھنا از بس ضروری ہے ۔تخلیقی عمل میں الفاظ کے ترک و انتخاب کا مرحلہ بہت احتیاط طلب سمجھا جاتا ہے۔ایک تخلیق کار جب قلم تھام کر تخلیقی عمل میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اشہب ِقلم کی جولانیاں دکھانے کا آغاز کرتا ہے تووہ سب سے پہلے موزوں الفاظ کا انتخاب کرتا ہے ۔یہ الفاظ وہ دیگر بیانات سے حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اپنے پسندیدہ مطلوبہ الفاظ کی جستجو میں وہ کئی بیانات کی خوشہ چینی کرتا ہے ۔ان بیانات کا زبان کی نوعیت ،مرکزی خیال ،تخلیق کی ما ہیت،اسلوب اور ساخت سے گہرا تعلق ہوتا ہے ۔
لسانی عمل میں کئی قوتیں پیہم مصروفِ عمل رہتی ہیں اور ان کی مؤثر فعالیت کے معجز نما اثر سے جہاں فکر و خیال کی نئی شمعیں فروزاں ہوتی ہیں وہاں اظہار و ابلاغ کے متعدد نئے در بھی وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ غیر محتا ط اور سطحیت پر مبنی اندازِ فکرسے لسانی عمل کی تفہیم میں کوئی مدد نہیں ملتی۔میخائل باختن کا خیال تھا کہ زبان کواس نوعیت کے غیر حقیقی اندازِ فکرسے نجات دلانا لسانیات کے ارتقا کے لیے نا گزیر ہے جس کے مطابق زبان کو بالعموم محض گرامر اور قواعدو انشاکے مختلف مدارج کا ملخص سمجھا جاتا ہے۔زبان کے بارے میں میخائل باختن کا استدلال یہ تھا کہ فکری و علمی تصورات ،فلسفیانہ مباحث،تاریخی حقائق ،تخلیق ِادب کے گنج گراں مایہ اور نت نئے تجربات سے زبان سیر شدہ ہو جاتی ہے ۔ معاشرتی زندگی میں رونما ہونے والی اجتماعی سماجی اور سیاسی کیفیات اور ثقافتی مر کزیت کی نمو کے لیے جو ربط نا گزیر ہے زبان اسے پروان چڑھانے میں خضرِ راہ کا کام کرتی ہے ۔ جو زبان افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب عازم ِسفرہونے پر مائل کرتی ہے ، اس کے فکری سرمائے اور علمی میراث کے لیے کسی قسم کے اعتذار کی ضرورت نہیں۔زبان ہمارے اسلاف کے افکار و خیالات کی امین ہے ،یہ ایک جامِ جہاں نما ہے اور اس کا ہر لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم ہے۔اس نے زبان کے بارے میں اس ٹھو س اور قابل فہم حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ زبان کے اعجاز سے اظہار و ابلاغ کے بیش تر کٹھن مراحل اور زیادہ سے زیادہ جذباتی نشیب و فراز طے کیے جا سکتے ہیں۔دل کے افسانے جب نگاہوں کی زباں تک پہنچ جائیں تو ان کی ادائیگی کے لیے الفاظ کی جستجو ناگزیر ہے ۔معاشرتی زندگی میں فرد کاواسطہ کئی تضادات اور ارتعاشات سے پڑتا ہے۔معاشرتی زندگی میں معتبر ربط استوار کرنے،باہمی تعلقات ِکار کو پروان چڑھانے،دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے،دلی جذبات و احساسات کوالفاظ کے قالب میں ڈھال کر زیبِ قرطاس کرنے میں زبان کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ میخائل باختن نے لسانی عمل کو متعدد عوامل اور قوتوں کے باہم ملاپ کا ثمر قرار دیا۔اس کا خیا ل تھا کہ زبان جن قوتوں کے زیرِاثر مطالب کی تفہیم کی خاطرٹھوس تکلمی اور نظریاتی نوعیت کا اشتراک و اتحاد قائم کر کے اظہارر و ابلاغ کی مر کزیت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے وہ قوتیں مجموعی طور پر ایک وحدانی زبان کی استعدادِ کاراور اس کی تخلیقی فعالیت کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اسلوبیاتی درجہ بندی کے پیچیدہ مراحل میں حد بندی کا مرحلہ اس وقت سامنے آتا ہے جب ان مختلف النو ع مدارج کا تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے ساتھ مشروط انسلاک کر کے اس متاعِ الفاظ کو زادِ راہ بنایا جائے جس کے بارے میں نظریاتی ڈسکورس کے پیش کیے گئے مفروضے قارئین کے لیے منفرد تجربے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔زبان میں معنی خیزی کی بات ہو یا ذاتی خیال میں تغیر و تبدل کا معاملہ،ڈسکور س کا تذکرہ ہو یا انفرادی سوچ کے مکمل انہدام کا روّیہ ہرصورت میں میخائل باختن کے خیالات بالکل انوکھے انداز میں سامنے آتے ہیں۔ان کے مطالعہ سے قاری یہ بات سمجھ جاتا ہے کہ جہاں تک متن سے مفاہیم کی جواب دہی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں قارئین ہی متن کی موزوں صورت میں ترجمانی کرنے کے بعد کوئی حتمی رائے دے سکتے ہیں۔
کسی بھی زبان کے بارے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس میں پایا جانے والا مخزنِ الفاظ ہی اس زبان کا بیش بہا اثاثہ سمجھا جاتاہے۔ زبان کے دامن میں موجوداس گنج گراں مایہ کو کسی فردِ واحد کی ذاتی ملکیت سمجھنا لسانی ارتقا کی راہ میں سد سکندری بن کر اظہار و ابلاغ کے لیے بہت بُرا شگون ثابت ہو سکتا ہے ۔ دنیا بھر میں زندہ زبانیں فیض کے ایسے اسباب بناتی ہیں جو سب کے لیے اپنے دروازے ہمہ وقت کُھلے رکھتی ہیں کہ جس کے جی میں آئے وہ اذہان کی تطہیر و تنویر کے اس منبع سے فیض یاب ہو۔تاہم یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ بعض الفاط ،تراکیب،تلمیحات اور محاورات منفرد اسالیب، خاص انفرادی پیرایۂ اظہار،سیاق و سباق اور ممتاز اندازِ بیان کی پہچان بن جاتے ہیں۔تاریخ کا مسلسل عمل اور حقیقی تاریخی قوتیں لسانی عمل کے ارتقا میں لسانی میں پیہم مصرو ف ہیں۔کسی بھی زبان میں تکلم کے مائل بہ ارتقا ہونے اور پرورش ِلو ح و قلم کے سلسلے میں معاشرتی عوامل اور ان قوتوں کا کردار بہت اہم ہے۔ لسانی قوتو ں اور معاشرتی عوامل کے زیرِ اثر تکلم کے منفرد سلسلے سدا اپنا رنگ دکھاتے رہتے ہیں اور ان کی تابانیاں کسی عہد میں بھی ماند نہیں پڑتیں۔دنیا کی ہر زبان کی تزئین ،ترقی، استحکام ،حیات آفریں خیالات کی نمو اور بقائے دوام کے فروغ کا جب ہم بہ نظر غائر جائزہ لیتے ہیں اور اسلوب کا عمیق مطالعہ کرتے ہیں توکسی خاص انفرادی تخلیق یا ایسی مخصوص نوعیت کی تخلیقی کاوش پر نگاہ مرکوز کرتے ہیں تو ایسے فن پاروں میں یہ سب الفاظ جہاں تخلیق کار کی شخصیت کے سب اسرار و رموز کو سامنے لاتے ہیں وہاں ان کی مدد سے تخلیق کار کی انفرادی سوچ،ذوقِ سلیم اور تخلیقی وجدان کے رازہائے سر بستہ بھی آشکار ہو جاتے ہیں۔الفاظ ایک جام ِ جہاں نما کے مانند فطرت کے مقاصد کی ترجمانی کرتے ہوئے ہر عقدۂ تقدیرِ جہاں کی گرہ کشائی کر دیتے ہیں۔زبان کی تصوراتی کائنات ہی اس زبان کو اقوام عالم کی صف میں معزز و مفتخر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے ۔ایک مشترک وحدانی زبان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لسانی معائر کے کے ایک ایسے نظام کی مظہر ہوتی ہے جو ستاروں سے بھی آگے موجود کائنات کے متعدد اسرار و رموز کی تفہیم پر قادر ہے ۔الفا ظ یدِ بیضا کا معجزہ دکھا کر تخلیق کار کے انفرادی تخلیقی عمل کے دوران نمو پانے والے جذبات،احساسات،تجربات،مشاہدات اور کارِ جہاں کے بارے میں مجموعی تاثرات کو مکمل سیاق و سباق کے ساتھ جس انداز میں سامنے لاتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میخائل باختن نے واضح کر دیا کہ الفاظ کی اس معجز نما اثر آفرینی میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔میخائل باختن نے اسلوب میں مکالمات کی اہمیت کے بارے میں لکھا ہے :
"The dialogic orientation of discourse is a phenomenon that is,of course property of any discourse." (3)
میخائل باختن کے اسلوب کامطالعہ کرتے وقت قارئین اکثر اس الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ میخائل باختن کا تعلق کس مکتبۂ فکر سے تھا۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیا میخائل باختن مار کسزم پر یقین رکھتا تھا یا اس نے یاس و ہراس اور جبر کے ماحول کی عائد کردہ کڑی سنسر شپ سے بچنے کی خاطرمارکسزم کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔سماجی اعتبار سے دیکھاجائے تو میخائل باختن انسانی جسم اور ذہن و ذکاوت کے باہم ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے اور باہمی تفاعل پر یقین رکھتا تھا۔وہ معانی اور ڈسکورس کی بحث کو جس انداز میں آگے بڑھاتا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس کے خیالات پسِ ساختیات کے قریب تر ہیں۔اس نے تنقیدی تھیوری،تحلیل نفسی ،وجودیت اور فکشن کے اہم موضوعات پر جو پیرایۂ اظہار اپنایااس کا مطالعہ کرنے سے یہ تاثر پختہ تر ہو جاتا ہے کہ میخائل با ختن نو مارکسسٹوں ( neo-Marxists)کا ہم آوا ز ہے۔وہ اپنی دُھن میں مگن تخلیقی کام میں مصروف رہا اور چپکے سے زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔
ایک تحریک جب اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے توپھر اس کا احیا کسی طرح ممکن ہی نہیں اور اس کی تقلید سعیٔ لا حاصل ہے تا ہم اس تحریک کا مطالعہ عہد بہ عہد فکری ارتقا کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ میخائل باختن کی وسعت نظر نے یورپ کی ثقافتی تاریخ ،لسانیات اور ادبی جمالیات پر دُور رس اثرات مرتب کیے۔اپنی جلا وطنی کے زمانے میں وہ ہڈیوں کے سوزش اور پیپپ آور انتہائی تکلیف دہ متعدی مرض ورم نخاع العظم(Osteomyelitis)میں مبتلا ہو گیا۔ہڈیوں کے اس روگ کے باعث سال 1938میں وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا۔ جلا وطنی کی عقوبت ،ہڈیوں کی شدید تکلیف اور ایک ٹانگ سے محرومی کے نتیجے میں اس کے قویٰ اس قدر مضمحل ہو گئے کہ رفتہ رفتہ اس کے عناصر میں اعتدال عنقا ہونے لگا۔ ان اعصاب شکن مصائب و آلام اور مسموم حالات نے ا س کی تخلیقی اور تنقیدی فعالیت اور فکر و خیال کی پختگی کو بُری طرح متاثر کیا۔یہاں تک کہ اس کی تنقیدی آرا کی ثقاہت پر بھی سوالیہ نشان لگنے لگے۔
مآخذ
1.M.M.Bakhtin,P.N.Medveden:The Formal Method in Literary Scholarship ,Translated by ,Albert J-Webrle,Johns Hopkins University Press,London,1978,Page ,6-
2.Mikhail Bakhtin:Problems Of Dostovesky,s Poetics,University Of Minnesota Press ,U.S.A,1999,Page 106
3.M.M.Bakhtin:The Dialogic Imagination,University Of Texas Press,London,1981,Page, 279.
Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 257165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.