کاشغر سے مراکش تک اقتصادی راہداری
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
پاک چین اقتصادی راہداری کیا ہے؟
اس وقت پاکستان کو استحکام درکارہے،کیونکہ پاکستان نہ صرف بجائے خود مستحکم
ضروری ہے،بلکہ خطے میں توازن کے لئے اس کا طاقتور وجود کئی ممالک کو تقویت
بخشتاہے،مغربی طاقتیں اقتصادی بحرانوں میں پھنسی ہوئی ہے،امریکہ بھی اب وہ
امریکہ نہیں رہا جو کبھی تھا،روسی روبل آئے روز گرتے ہوئے ڈالر کے مقابلے
میں 85پرآگیاہے،اسی لئے خلیجی ممالک نے بھی چین پر انحصار شروع
کردیاہے،چینی صدر کا حالیہ دورۂ سعودی عرب ،مصراور ایران بہت اہمیت کا
حامل ہے،سعودی اور مصر میں دورے کے دوران جس بات پر زیادہ زور دیاگیاہے،وہ
(طریق الحریر)یعنی شاہراہِ ریشم ہے،جو پاکستان کے گوادر سےگزر کر خلیجی
وشامی ممالک میں بحری وبری طورپرہوتاہوا مصر،لیبیا،تیونس،الجزائر اور مراکش
تک پہنچے گا،یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ ایک راہداری نہیں ہے،بلکہ یہ کئی
سڑکوں کا ایک مجموعہ ہے،اس سے پاکستان کی اہمیت کا اندازہ لگانا اب مشکل
نہیں،نیز بھارت اس عظیم منصوبے کی وجہ سے نہ صرف پیچھے رہ جائےگا،بلکہ
آئندہ ہمیں آنکھیں بھی نہیں دکھا سکے گا،اس راہداری کےجو نقشے عالم عربی
سے سامنے آرہے ہیں ان کے مطابق پورا عالم اسلام اس سے مستفید بھی ہوگا اور
مستحکم بھی۔
اس راہداری کا تاریخی نام شاہراہِ ریشم ہے،عہدِ قدیم کے ان زمینی وبری
تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم (Silk Road)یا Silk route))اور
عربی میں اسے (طریق الحریر) کہا جاتا ہے،جو چین کو ایشیا سے ہوتے ہوئے
یورپی وافریقی ممالک سے ملاتے ہیں،یہ گذر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر پر
پھیلی ہوئی تھیں، شاہراہ ریشم کی تجارت چین،برصغیر،سینٹرل ایشیا،ایران ،عراق،شام،لبنان
،فلسطین،مصر، اور روم کے آس پاس کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی
اور قدیم وجدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔
شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ دان فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے
1877 میں استعمال کی تھی،موجودہ دور میں یہ اصطلاح پاکستانی گلگت بلتستان
اور چینی کاشغروسینکیانگ کے درمیان زمینی گذر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی
استعمال ہوتی ہے۔
مغرب سے شمالی چین کے تجارتی مراکز تک پھیلی یہ تجارتی گذر گاہیں سطح مرتفع
تبت کےشمالی اور جنوبی دونوں حصوں میں تقسیم ہیں،شمالی راستہ بلغار قپپچاق
علاقے سے گذرتا ہے اور چین کے شمال مغربی صوبے گانسوسے گذرنے کے بعد مزید
تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں سے دو صحرائے ٹکلا مکان کے شمال اور
جنوب سے گذرتے ہیں اور دوبارہ کاشغر پر آ کر ملتے ہیں جبکہ تیسرا راستہ تین
شان کے پہاڑوں کے شمال سے طرفان اور الماتی(قازاقستان) سے گذرتا ہے۔
یہ تمام راستے وادی فرغانہ(ازبکستان) میں خوقند کے مقام پر ملتے ہیں اور
مغرب میں قراقرم سے مرو(ترکمانستان) کی جانب جاری رہتے ہیں،جہاں جنوبی
راستہ اس میں شامل ہو جاتا ہے۔
ایک راستہ آمو دریا(طاجکستان) کے ساتھ شمال مغرب کی جانب مڑ جاتا ہے،جو
شاہراہ ریشم پر تجارت کے مراکز بخارا اور سمرقند کو استراخان اور جزیرہ نما
کریمیا(یوکرائن) سے ملاتا ہے۔ یہی راستہ بحیرہ اسود، بحیرہ مرمرہ (ترکی)سے
بلقان اور وینس(اٹلی) تک جاتا ہے، جبکہ دوسرا راستہ بحیرہ قزوین اور قفقاز
(کوہِ قاف)کو عبور کر کے جارجیا سے بحیرہ اسود اور پھر قسطنطنیہ(موجودہ
ترکی) تک پہنچتا ہے۔
شاہراہ ریشم کا جنوبی حصہ شمالی ہند (موجودہ پاکستان)سے ہوتا ہوا خراسان
(افغانستان وایران) سے ہوتا ہوا عراق اور اناطولیہ (ترکی کے دیارِ بکر)
پہنچتا ہے۔ ایک راستہ جنوبی چین سے ہندوستان میں داخل ہوتا ہے اور دریائے
برہم پترا اور گنگا کے میدانوں سے ہوتا ہوا بنارس کے مقام پر جی ٹی روڈ میں
شامل ہو جاتا ہے۔ بعد ازاں یہ شمالی پاکستان اور کوہ ہندو کش کو عبور کر کے
مرو کے قریب شمالی راستے میں شامل ہو جاتا ہے۔
بعد ازاں یہ راستہ عین مغرب کی سمت اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور شمالی ایران
سے صحرائے شام عبور کرتا ہوا لیونت(فلسطین) میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں سے
بحیرہ روم میں بحری جہازوں کے ذریعے سامانِ تجارت اٹلی لے جایا جاتا تھا
جبکہ ایک راہداری سےترکی، قدیم شام (سوریا،اردن ،لبنان،فلسطین) صحرائے
سینااور شمالی افریقہ کی جانب زمینی قافلے بھی نکلتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اقتصادی اور توانائی کی راہداری پاکستان کے لیے 'زبردست
اہمیت کی حامل' ہو سکتی ہے، جبکہ چین کے لیے یہ بہت سے طویل المدتی اقدامات
میں سے صرف ایک ہے، جو کہ ملکِ چین کی عالمی اقتصادی طاقت(سپرپاور) میں
اضافہ کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں۔
ایک بہت زیادہ پرشکوہ منصوبہ نئی شاہراہِ ریشم ہے جو کہ وسط ایشیا کے ذریعے
چین کو یورپ سے ملائے گا۔ اور بحری شاہراہِ ریشم بحر ہند اور جنوبی چین کے
سمندر میں چین کی جہاز رانی کے راستے یقینی طورپر محفوظ بنائے گا۔
واشنگٹن ڈی سی کے ووڈ رو ولسن سینٹر کے سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین
کا کہنا ہے کہ چین راہداری کی تعمیر پاکستان کے لیے خیرات یا مدد کے طور پر
نہیں کر رہا ہے۔ چاہے سڑکوں کی بات ہو یا بندرگاہوں کی، چین ہر طرح کے
بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں خوشی سے سرمایہ فراہم کرے گا جو کہ اس کے
تجارتی واقتصادی مقصد میں کارآمد ہوگا۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس اقدام سے دنیا کے ترقیاتی ومعاشی طور پر کم
اہم علاقوں میں سے ایک جنوبی ایشیا میں زیادہ اتحاد واستحکام پیدا
ہوگا،یہاں کی ریاستوں میں جغرافیائی توڑ پھوڑ کے بجائے مزید پختگی آئی
گی،بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ گریٹر مڈل ایسٹ کے سامراجی منصوبے میں جو رنگ
بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے،یہ اس کا واضح سد باب ہے۔ پارڈی اسکول آف گلوبل
اسٹڈیز بوسٹن یونیورسٹی کے ڈین عادل نجم کو یقین ہے کہ جو بھی چیز خطے کو
جوڑ کر رکھے وہ ایک اچھا اقدام ہے کیونکہ موجودہ زمانے میں بڑےممالک انضمام
کے فوائد کو تسلیم کرنے کے بجائےاستقلال کی صورت میں تنہا زمینی اسٹرٹیجک
کیفیت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
کسی زمانے میں روس اور بعد مین امریکہ کی کوششیں رہی ہیں کہ اس طرح کے
منصوبوں یا زمینی وبحری راستوں سے اس خطے میں ان کی مضبوط مداخلت ہو،مگر وہ
اس میں کامیاب نہیں ہوسکے،چین انتہائی حکمت وتدبر سے خطے کے ممالک کی
سلامتی کے تحفظات کا باریکی سے ادراک کرکے یہ منصوبہ شروع کیا ہے،امید ہے
کہ جلد یہ منصوبہ پایۂ تکمیل پہنچے گا،البتہ یہ صرف کسی ایک ملک کا مسئلہ
نہیں ہے بلکہ خطے کے تمام ممالک اس استفادہ کریں گے۔
|
|