پاکستان کے پڑوس میں اگر ایک طرف بھارت
جیسا دشمن موجود ہے جو ہرزاویے اور ہر موقعے پر اس کے نقصان کے درپے رہتا
ہے تو دوسری طرف چین جیسا عظیم دوست بھی ہے جو ہر گرم و سرد میں پاکستان کے
ساتھ رہتا ہے ۔پاک چین دوستی وقت کی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے ۔ چین نے
پاکستان میں کئی تر قیاتی منصوبے مکمل کئے خاص کر بلوچستان میں بہت مشکل
حالات میں کام کیا اور ہر حال میں اپنے منصوبے مکمل کرنے کی کوشش کی۔ چین
نے دوسری بڑی طاقتوں کی طرح قرض اور امداد کے اصول کو اپنانے کی بجائے یہاں
ترقیاتی کاموں میں اپنا سرمایہ لگایا اور ایسے منصوبوں میں لگایا جس کے
ثمرات براہ راست عوام تک پہنچ سکیں۔ شاہراہ قراقرم سے لے کر اب تک دوستی
اور باہمی تعاون کا یہ سفر جاری ہے۔ پاک چین راہداری ایسا ہی ایک منصوبہ ہے
جس کے تحت انجام پانے والے منصوبے نہ صرف ملکی ترقی میں اہم کردار انجام
دیں گے بلکہ خطے کی سیاسی اور جغرافیائی صورت حال پر بھی اس کے اہم اثرات
ہوں گے بلکہ یہ اثرات ابھی سے نظر آنے شروع ہوچکے ہیں جبکہ ابھی ان منصوبوں
پر عملی طور پر زیادہ کام بھی شروع نہیں ہوا لیکن مخالف قوتوں نے اسے ناکام
بنانے کے لیے ضرور کام شروع کر دیا ہے۔ پاک چین راہداری منصوبے کے تحت چین
پاکستان میں چھیالیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، جس میں انفراسٹر کچر
کی بہتری ، توانائی کے منصوبے، شاہراہوں اور ریلوے لائنز کی تعمیر اور
گوادر کی بندرگاہ کی تکمیل اور بہتری اور گوادر میں ہی ایک بین الا قوامی
ہوائی اڈے کی تعمیر شامل ہیں ۔ چین نے اپنے منصوبے One Belt One Road کے
تحت چین، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کو آپس میں اور بندرگاہوں سے ملانا ہے
جس کے لیے گوادر کی بندرگاہ کو بین الا قوامی معیار کے مطابق بنایا جائے گا
کیو نکہ اس بندرگاہ کو ریل اور روڈ دونوں کے ذریعے ان ملکوں سے ملا یا جائے
گا اور اسے کا شغر میں قائم شدہ اکنامک زون سے بھی منسلک کرناہے۔ اس منصوبے
میں گیارہ سو کلومیٹر لمبی کراچی لاہور موٹروے بھی شامل ہے جو پہلے سے
موجود لاہور اسلام آباد موٹروے کے ساتھ جوڑی جائے گی۔ اس عظیم منصوبے میں
کراچی سے پشاور تک موجودہ ریلوے لائن کی مکمل طور پر مرمت اور تجدید کی
جائے گی اور اسے اس قابل بنایا جائے گا کہ اس پر ٹرین 160 کلومیٹر فی گھنٹہ
کی رفتار سے چل سکے اسی طرح شاہراہ ریشم کی بھی مکمل مرمت اور تجدید کی
جائے گی۔ ان ذرائع رسل و رسائل کی تعمیرو مرمت اور بہتری کے ساتھ دوسرے
میدانوں میں بھی کام کیا جائے گا۔ جن میں اہم ترین پاکستان کی توانائی کے
بحران پر قابو پانا شامل ہے۔ چین تھر کول میں سرمایہ کاری سمیت توانائی کے
دوسرے منصوبوں کے ذریعے 10,400 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر بھی
کام کرے گا ۔ گوادر سے نواب شاہ تک گیس پائپ بھی بچھائی جائے گی یہ گیس
پائپ لائن ایران سے لائی جائے گی۔ بہاولپور کے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا
شمسی پاور پلانٹ بھی لگایا جائے گا۔
یہ چند بڑے پرجیکٹس کا ایک انتہائی مختصر سا جائزہ ہے جو اس منصوبے میں
شامل ہیں اور جو پاکستان اور عوامِ پاکستان کے لیے یقیناًتبدیلی اور
خوشحالی کا باعث بنیں گے اور ان کی حالت کو مثبت طرف لے کر جائیں گے۔ یہی
وجہ ہے کہ دشمن نے اس کے خلاف پروپیگنڈا منصوبہ شروع ہونے سے پہلے شروع کر
دیا ہے اور اسے متنازعہ بنانے کی بھی کوششوں کا بھی آغاز کر دیا ہے اور
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ایک دفعہ پھر اُس کے جھانسے میں آرہے ہیں اور
مختلف قسم کے اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں اور اٹھانے کا موقع دیا جارہا ہے
لیکن یہاں ہماری حکومت کو ملکی مفاد اور قومی یکجہتی کا انتہائی خیال رکھنا
ہوگا ورنہ دشمن اپنی چال انتہائی کامیابی سے چل جائے گا یہ ایک بہت بڑا
منصوبہ ہے جس میں سے سڑکوں کا جال تو پورے ملک میں بچھایا جائے گا اور بڑے
شہروں تک یہ شاہراہیں پہنچ جائیں گی لیکن ضروری ہے کہ دوسرے منصوبے بھی
پورے ملک میں پھیلا دئیے جائیں اور اس عظیم منصوبے کو اختلافات کی نذر نہ
کر دیا جائے۔ہمارے سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں اگر اپنے روایتی رویے سے
باہر نکل آئیں اور اس منصوبے کو اپنی حکومتوں کی کامیابی کی بجائے ملک کی
ترقی کے لیے استعمال کریں توہی پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے اس کی قدر و
قیمت ہو گی اور اگر حکومت بھی اپنے اس کارنامے کواہم اور تاریخی بنانا
چاہتی ہے تو اُسے اس پر انتہائی احتیاط اور خلوص سے پورے ملک کو اس کے
ثمرات پہنچانے کی نیت سے کام کرنا ہو گا۔ایسے منصوبوں کی اگر آسان، درست
اورمبنی بر حقیقت تشریح کر کے انہیں عوام کے سامنے رکھا جائے تو اس پر کسی
کو سیاست کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور صرف اپنی مہارت اور ذہانت کا رُعب
ڈالنے کے لیے انہیں پیچیدہ اعداد وشمار میں نہ اُلجھائیں۔حکومت کا یہی رویہ
ایسے قومی فلاح کے منصوبوں کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کر کے انہیں
متنازعہ بنا د یتا ہے۔پاک چین راہداری پر اے پی سی بُلا کر نہ صرف عوامی
سطح پر شکوک و شہبات پیدا کیے گئے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بولنے کا
موقع دیا گیا۔اے پی سی بُلا کر سیاستدانوں کو تو مطمئن کر دیا جاتا ہے لیکن
عوام اُسی طرح بے خبر رہ جاتے ہیں۔حکومت، دوسری پارٹیاں اور سیاستدان اپنا
رویہ تبدیل کریں اور عوام کو حقائق سے آگاہ کریں اور منصوبے میں موجود جھول
نکال دیے جائیں۔ان منصوبوں کو یکساں طور پر پورے ملک میں پھیلا دیا جائے،
انہیں ذاتی اور سیاسی مفادات کی بجائے قومی مفادات اور آنے والے دنوں کی
ضروریات پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے اور منصوبے پر جلد از جلد اور
تیزی اور سرعت کے ساتھ بغیر کسی کرپشن کے ساتھ کام کیا جائے تاکہ آنے والی
نسلوں کو ایک بہتر پاکستان سونپا جا سکے۔ |