پاکستان اس وقت انتہائی نازک دور سے گذر
رہا ہے ،ہماراملک14اگست 1947 کے روز کلمہ پاک کے نعرہ ’’ پاکستان کا مطلب
کیا لاالااﷲ‘‘ پر معرض وجود میں آیا ہمارے ملک کی عمر68سال ہے لیکن پاکستان
کی بقا کیلئے قربانیوں کا تسلسل تا حال جاری ہے ۔ ہمارا ملک اپنی جغرافیائی
اہمیت کے باعث معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک بین الاقوامی سازشوں
کاشکار بنا ہو اہے ۔دشمن کی یہ سوچ تھی کہ پاکستان کچھ دن سے زیادہ نہیں چل
سکے گا ۔ لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں معرض وجود میں آنے
والا ملک جس کے لئے لاکھوں قربانیاں دی گئیں، جہاں ہجرت کے موقع پر بچوں نے
اپنے ماں باپ کو دشمن کے ہاتھوں ذبح ہوتے دیکھا ،ماوں نے اپنے لخت جگر
اوربہنوں نے اپنے بھائیوں اور والد ین کو وطن کی محبت میں قربان ہوتے
دیکھاان تمام تر قربانیوں اور ملک کو درپیش داخلی و خارجی مشکلات کے
باوجودآج بھی ہمارا ملک پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہے جب پاکستان
بنا تو حصہ میں جو کچھ آیا دنیا بخوبی جانتی ہے لیکن آج ہمارا شمار ایٹمی
قوت کے حامل ممالک کی صفوں میں ہوتا ہے اورملکی ترقی کا یہ سفر اپنی منزل
کی جانب رواں دواں ہے۔ لیکن اس ملک کے دشمن اپنی تمام تر سازشوں توانائیوں
اور تمام تر وسائل کے باوجود ختم نہ کرسکے ۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ
قربانیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے پہلے مرحلے میں لاکھوں قربانیاں پاکستان
بنانے کیلئے ، دوسرے مرحلے میں قربانیاں پاکستا ن چلانے کے لئے اور تیسرے
مرحلے میں پاکستان بچانے کے لئے دی جارہی ہیں ۔ 68سالوں میں ہماری ایک نئی
نسل پروان چڑھ گئی ہے لیکن مسائل ہیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہے ۔
نوجوان نسل نے پاکستان کو بنتے ہوئے تو نہیں دیکھا لیکن موجودہ ملکی مسائل
سے بخوبی آگاہ بھی ہیں اور فکر مندبھی ۔ہر پاکستانی خواہش رکھتا ہے کہ ان
کا ملک ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں شامل ہو لیکن ہو تو ہو کیسے؟ ہمارے
ملک کی عوام کو ایسے چیلنجزو مسائل ا ورمشکلات کا سامنا ہے جو نسل در نسل
تحفہ میں چلی آرہی ہیں جن میں غربت ،بے روزگاری ،مہنگائی ،بدعنوانی ،کرپشن،
سیلاب،قدرتی آفات اور فرقہ وارانہ دہشتگردی ، لاقانونیت، توانائی جیسے
سنگین بحران شامل ہیں جن کا تدارک ناممکن تو نہیں لیکن حل طلب ہیں۔ماضی میں
اگر جھانکیں تو ملک میں بڑے بڑے جابر حاکموں اور وزرا ء کی حکومتوں کے
کارنامے اور انکی جانب سے بڑے بڑے دعوؤں کی باز گشت آج بھی کانوں میں سنائی
دیتی ہے ۔ان تما م حکمرانوں نے اپنی حاکمیت کو طول دینے اور ذاتی مفادات کو
تقویت دینے میں قومی وسائل کا استعمال اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے کیا ۔ان
حکمرانوں کی جانب سے عوام کے لئے روٹی ،کپڑا ،مکان ،اسلا م شریعت ،اعتدال
پسندی،عوام کی مشکلات کا ازالہ اور ان کیلئے فلاح وبہبود و ترقی ،پُل ،ڈیم
،سڑکیں وغیرہ وغیرہ کے منصوبوں کے بلند و بانگ دعوے عملی طور پر توکم لیکن
ان کے خطابات کی زینت کے طور پر نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔عوام کے ذہنو میں
یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آخریہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔آپ جس بھی
ادارے میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسائل ہی مسائل ہیں ۔اگر آپ کا واسطہ
کسی بھی سرکاری ادارے سے پڑ جائے تو لگ پتہ جائے گا آپ کو ۔آپ سوچنے پر
مجبور ہوجائیں گے کہ کریں تو کیا کریں ۔ بلکہ اس کیلئے قومی سوچ کو پروان
چڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔تمام اداروں کو از سر نو اپنی ماضی کی غلطیوں
کو مانتے ہوئے انہیں درست کرنے کیلئے نئے عزم کے ساتھ صف آراء ہو کرخارجی
واداخلی دشمنو ں کو شکست دینا وقت کی ضرورت ہے ۔ ملک میں بڑھتی ہو ئی دہشت
گردی کو روکنے کیلئے وزیراعظم محمد نواز شریف نے 25دسمبر2014کے روزمرتب کئے
گئے نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا جو20نکات پر مشتمل ہے جس میں دہشت گردی
میں سزا یافتہ مجرموں کی پھانسی کی سزا پر عملدآمدکرنے ،فوجی افسران کی
سربراہی میں سپیشل ٹرائل کورٹس کا قیام۔ملک بھر میں کسی طرح کی عسکری
تنظیموں اور مسلح جتھوں کی اجازت نہیں ہو گی۔انسداد دہشت گردی کے ادارے
نیکٹا کو مضبوط اور فعال بنایا جائیگا۔نفرتیں ابھارنے، گردیں کاٹنے، انتہا
پسندی،فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے لٹریچر ،اخبارات،اور
رسائل کیخلاف موثراور بھرپور کارروائی کا فیصلہ،دہشت گردوں اور دہشت گرد
تنظیموں کی مالی اعانت یعنی فنڈنگ کے تمام وسائل مکمل طور پرختم کر
نے،کالعدم تنظیموں کو کسی دوسرے نام سے کام کی اجازت نہیں ہو گی،سپیشل انٹی
ٹیریرزم فورس کے قیام کا فیصلہ،مذہبی انتہاپسندی کو روکنے اور اقلیتوں کے
تحفظ کو یقینی بنایا جا ئیگا۔دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی کا
اہتمام کیا جا ئے،پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا دہشت گردوں اور ان کے نظریات کی
تشہیر پر مکمل پابندی ہو گی،بے گھر ہونے والے افراد یعنی آئی ڈی پیز کی
فوری واپسی کو ترجیح دیتے ہوئے فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کا
عمل تیز کیا جائیگا۔دہشت گردوں کے مواصلاتی نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ کیا جائے
گا۔انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشت گردی کے فروغ کی روک تھام کیلئے فوری
اقدامات کیے جائیں گے۔پنجاب کے بعض علاقوں سمیت ملک کے ہر حصے میں انتہا
پسندی کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جائیگی۔کراچی میں جاری آپریشن کو اپنے
منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔وسع تر سیاسی مفاہمت کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز
کی طرف سے حکومت بلوچستان کو مکمل اختیار دیا جا ئے گا۔فرقہ واریت پھیلانے
والے عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جارہی ہے۔افغان مہاجرین کی
رجسٹریشن کے ابتدائی مرحلے کے ساتھ انکے بارے میں ایک جامع پالیسی تشکیل دی
جا ئیگی۔صوبائی انٹیلی جنس اداروں کو دہشت گردوں کے مواصلاتی رابطوں تک
رسائی دینے اور انسداد دہشت گردی کے اداروں کو مضبوط بنانے کیلئے فوجداری
عدالتی نظام میں بنیادی اصلاحات کے عمل تیز کیا جانا شامل ہے۔ اس وقت ہمارا
ملک حالت جنگ میں ہے ۔ انشااﷲ ہمارا ملک جلد ہی دہشتگردی سے پاک ہو جائے گا
اس لئے کہ ان حالات میں پاکستانی قوم اور تمام طبقات اپنی حکومت اور اداروں
کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ دہشتگردی کے اس ناسور کے خاتمے کیلئے قوم
قربانیاں بھی دے رہی ہے اور ہر قسم کا تعاون بھی کررہی ہے ۔قومی تقاضا یہ
ہے کہ اگر ہماری حکومت اور اداروں نے نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر اس
کی روح کے مطابق عمل نہ کیا اور یہ سنہری موقع ضائع کر دیا تو آنے والی
نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی ۔ |