جہنم کا ہے یہ ایندھن جسے تو روح کی غذا سمجھتا ہے
(Rasheed Ahmed Naeem, Patoki)
بہت سے خوفِ خدا سے عاری لوگ بڑی ڈھٹائی سے
کہتے ہیں کہ مو سیقی تو روح کی غذاہے مگر یہ کیسی غذاہے؟جسے رسول ﷺنے معلون
قرار دیاہے۔جسں سے شہوانیت غالب آتی ہے اور روحانیت مغلوب ہو جاتی ہے ،جس
سے نفاق اور قساوت پیدا ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے ذکر وتلاوت اور عبادت
واطاعت کی لذت ختم ہو جاتی ہے ،جو مسلمان بیٹیوں کو بے حجاب اور بے حیا بنا
دیتی ہے،جو انسان کو دینی اور دنیاوی ذمہ داریوں سے غافل کر دیتی ہے،یہ تو
ایک نشہ ہے جسے آج کا انسان غذا سمجھ بیٹھا ہے،یہ تو افیو ن ،بھنگ ،چرس،شراب
اور ہیروئن کی طرح ایک نشہ ہے،جو انسان کو وقتی طور پر لذت دیتاہے،اور اسے
دنیا ومافیہا سے غافل کر دیتا ہے، پھر یہ بھی تو سوچو کہ بہت سارے بگڑے
ہوئے نو جوان ہیروئن اور بھنگ چرس کو بھی تو غذا جانتے ہیں،تو کیا ہم بھی
ان کو غذا مان لیں،اگر فرض کیا موسیقی غذاہے تو جان لو یہ شیطان اور شیطان
کے چیلے چانٹوں کی غذاہے،یہ حیوانوں اور موزیوں کی غذاہے اسی لئے اونٹ اور
سانپ موسیقی سُن کر طرب میں آجاتے ہیں،یہ قیصروکسریٰ اور یہودونہودکی
غذاہے،مسلمان کی روح کی غذا قرآن کی تلاوت ہے،مسلمان کی روح کی غذا خدا اور
اس کے رسول کی حمدوثناہے،مسلمان کی روح کی غذا نماز اور ذکرواستغفارہے،جس
مسلمان کی روح کی غذاموسیقی ہے،اس کی روح اصل میں زنگ آلود ہوچکی ہے اوراُس
کی حسِ لطیف فاسد ہوگئی ہے اور اس کی مثال گندگی صاف کرنے والے اُس بھنگی
کی سی ہے جو ایک دن عطر کی دوکان کے سامنے سے گذرا تو بے ہو ش ہو کر گرپڑا،
لوگوں نے اُسے ہو ش میں لانے کی بہت کو شش کی مگر وہ ہوش میں نہیں
آیا،اتفاق سے وہاں سے اُس کی برادری کے ایک آدمی کا گذرہوا، اُس نے سارا
ماجرا دیکھا تو لوگوں سے کہا آپ حضرات پریشان نہ ہوں ،اس کا علاج میں
جانتاہوں،بھاگا ہواگیا اور تھوڑی سی غلاظت کہیں سے لے آیا اور اپنے بیہوش
بھائی کی ناک کے قریب اُس گندگی کو رکھ دیا،تو وہ فورًا ہوش میں آگیا،لوگ
حیران رہ گئے کہ یہ کیسے ہو گیا؟اُس معالج بھنگی نے لوگوں کو سمجھایاکہ
بھائیو!ہروقت گندگی میں رہنے کی وجہ سے اب گندگی کی بدبواس کے مزاج میں رچ
بس گئی ہے اب یہ خوشبو سونگھتا ہے تو اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔یہی حال
اُس مسلمان کا ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود قرآن پڑھتا ہے تو اسے وحشت ہوتی
ہے،اور موسیقی سننا ہے تو اُسے لذّت محسوس ہوتی ہے․دراصل بات یہ ہے کہ قوم
کا مزاج بدل گیا ہے۔یہ قوم جس کی کبھی حالت یہ تھی کہ اُسے قرآن سُننے سے
وجدآتاتھا اب اسے قوالیوں میں وجدآتاہے،کبھی اس کے دل کو تلاوت سے سکون
ملتا تھااب میوزک سے اُسے راحت ملتی ہے،کبھی اس کی روح کی غذااﷲکاذکر
ہوتاتھا،اب اس کی روح کی غذاموسیقی ہے،کبھی اس کی بیٹی اور بہن کا اجنبیوں
کے سامنے جانا ناقابلِ برداشت تھاآج وہ تھرکتی ناچتی بیٹی پر فخر کرتی
ہے۔پہلے جن کو ڈوم بھانڈاور کنجرکہاجاتاتھا اب انہیں فنکار ایکٹر اور
گلوکار کہا جاتا ہے،اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ دیندار طبقہ تقریر بھی بغیر
سُراور خوش الحانی کے پسند نہیں کرتا ،چنانچہ کا میاب اور عوامی خطیب کے
لیے آدھا گویاّہونا بھی ضروری ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ا یسے جاہل اور
کم علم بلکہ بے علم خطیبوں نے میدانِ خطابت پر قبضہ جمارکھا ہے،جن کے پاس
سوائے خوش الحانی اور گپ بازی کے کوئی کمال نہیں ․تو لوگوں کا گنا ہوں کی
کثرت کی وجہ سے اپنا مزاج تو بدل ہی گیا ہے،اب وہ چاہتے ہیں کہ اسلام کا
مزاج بھی بدل ڈالیں لیکن اسلام کے احکام ہماری نفسانی خواہشات کی بنا پر
نہیں بدل سکتے ، لہذا میں آپ سے درخوست کروں گا کہ خدارااسلام کو بدلنے کے
بجائے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں اور اُن نقصانات کو محسوس کریں جو
موسیقی ،غنااور رقص وسرورجیسے عظیم گناہ میں جراثیم کی طرح چھپے ہوئے
ہیں۔ناچ گانے کا نقصان یہ ہے کہ اس سے اﷲاور اُس کا رسول ناراض ہوتے ہیں
اور ایک مسلمان کے لئے مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ کوئی چھوٹا نقصان نہیں
اگر ہم اپنے والدین کو ناراض نہیں کرسکتے،اپنی چہیتی بیوی کونا راض نہیں
کرسکتے ،لاڈلی ادلاد کو ناراض نہیں کر سکتے ،دوست احباب کو ناراض نہیں
کرسکتے ،جن کی ناراضگی کا نقصان صرف دنیامیں ہو سکتاہے تو ہم اﷲاور اُس کے
رسول ﷺکو ناراض کرنے کی جسارت کیسے کر لیتے ہیں جن کے ناراض ہونے سے دنیا
اورآخرت دونوں کانقصان ہے،موسیقی میں انہماک کی وجہ سے انسان مادی اور
عارضی لذ ّتوں میں اتنا گم ہو جاتاہے کہ اُسے بسااوقات نہ دینی ذ مہ داریوں
کا خیال رہتا ہے اور نہ دنیاوی ذمہ داریوں کا، اُس پر ہروقت موسیقی کا نشہ
سوار رہتاہے،اور باقی تمام معاملات سے وہ غافل ہو جاتاہے ،ہم دیکھتے ہیں کہ
جن لوگوں کو پکچردیکھنے اور گانے سننے کی لت پڑجاتی ہے وہ بعض اوقات چوبیس
گھنٹے مسلسل اسی میں مگن رہتے ہیں ․یہ عجیب اتفاق ہے کہ عربی زبان میں آلاتِ
موسیقی کو ملا ہی کہا جاتاہے جن کا معنی ہے غفلت میں ڈالنے والی چیزیں تو
میوزک میں انہماک کی وجہ سے دینی حقوق وفرائض کے بارے میں تو غفلت ہوتی ہے
دنیا وی امور کے بارے میں بھی غفلت ہو جاتی ہے،اور غفلت بعض اوقات حکومتوں
اور سلطنتوں کی چولیں ہلا کر رکھ دیتی ہے،اس کی واضح مثال متحدہ ہندوستان
میں مغلوں کی حکومت ہے۔اس حکومت کا زوال اُسی وقت شروع ہوا جب وہاں محمدشاہ
رنگیلے جیسے رنگین مزاج بادشاہ بنے جو سارا دن رقص وسرور کی محفلوں میں مگن
رہتے تھے، اس ظالم نے تو سارے ہندوستان کے نامی گرامی بھانڈاور میراثی اپنے
دربار میں اکٹھے کر لئے تھے اور وہ جو ہر وقت ڈومیوں اور کنجریوں کے جھرمٹ
میں گھرِ ارہتاتھا۔اس ظالم نے تو یہاں تک کر دیا کہ خوا جہ سراؤں اور
حسیناؤں کی باقاعدہ فوج بنا ڈالی،جب یہ لوگ رقص وسرورمیں اتنے محوہوگئے ،تو
انگریزوں کو دخل اندازی کا موقع مل گیا۔چنانچہ مسلمانوں کے ہزارسالہ
اقتدارکا خاتمہ ہوگیا۔گانے سننے سنانے سے دل سیاہ ہو جاتا ہے،نیکی بدی کا
امتیاز اُٹھ جاتا ہے اور گناہوں کی طرف میلان بڑ ھ جاتا ہے پھریوں بھی ہوتا
ہے کہ انسان کے اندرمنافقوں والی صفات پیدا ہوجاتی ہیں جیسا کہ حدیث کے
حوالے سے یہ بات گزرچکی ہے کہ غنانفاق پیدا کرتاہے، دل کی سیاہی اور زنگ کا
یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہدایت کی کوئی بات اثر نہیں کرتی ،دل میں قساوت اور
سختی پیدا ہو جاتی ہے ۔عبادت میں دل نہیں لگتا ،تلاوت سے دل میں رقّت پیدا
نہیں ہوتی خدا کے ڈر سے کبھی رونا نہیں آتا۔فحش گانوں اور گندی فلموں کی
وجہ سے بے غیرتی اور دیوثی پیدا ہوتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں کامیاب اور مقبول
گانے وہ شمار ہوتے ہیں جن میں شہوانی جذبات کو خوب بھڑکا یاگیاہو، محبوب
اور معشوق کا تذکرہ والہانہ انداز میں کیاگیا ہو،اب جو شخص دن رات اس قسم
کے گانے سنتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ گانے والیوں کو ڈانس کرتا ہوا
دیکھتا بھی ہو تو وہ بے غیرت نہیں بنے گا تو اور کیا بنے گا؟رقص وسرور سے
زنا کا داعیہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ فحش گانوں کے سننے کی وجہ سے شہوانی
جذبات بھڑک اٹھتے ہیں، پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ عورت کی آواز میں
فطرت نے نزاکت اور کشش رکھی ہے ، اسی لئے قرآن حکیم میں ازواج ِمطہرات کو
حکم دیا گیا کہ کسی غیر محرم کے ساتھ لوچ دار لہجے میں بات نہ کرو ۔اور اسی
لئے اسلام میں عورت کی آواز کو بھی پردے کا حکم ہے سلیمان بن عبدالملکؓ نے
ایک موقع پر کہا تھا کہ: اونٹ بلبلاتا ہے تو اونٹنی بے خود ہو جاتی ہے،بکرا
جوش ِ شہوت میں آکر آواز نکالتا ہے تو بکری مست ہو جاتی ہے، کبوتر غڑغوں
کرتا ہے توکبوتری مزے میں آجاتی ہے،مردراگ گاتا ہے تو عورت مستی میں آجاتی
ہے ،تو کیا عورت جب پرکشش آواز نکالے گی اور ٹھمکا لگائے گی تو مرد جوش میں
نہیں آئے گا؟اس سے دولت کا ضیاع ہوتا ہے ۔اس وقت ہمارے ہاں حالت یہ ہے کہ
لوگوں کی کمائی کا بہت بڑا حصہ گانے بجانے کا سامان خریدنے پر خرچ ہوتا ہے
۔پہلے ریڈیو خریدا جاتا تھا،پھر ٹیپ ریکارڈ رحاصل کیا جاتا تھا ،پھرٹی وی ،اور
سادے ٹی وی کے بعد رنگین ٹی وی ،پھر وی سی آر اور اس کی ویڈیوکیسٹیں اور اب
ڈش کیبل وغیرہ۔ یہ تو ان لوگوں کا حال ہے جو گھروں میں یہ سامان جمع کرتے
ہیں کچھ لوگ وہ ہیں جو انتہائی مہنگے ٹکٹ خرید کر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں
منعقدہونے والی موسیقی کی محفلوں میں شرکت کرتے ہیں اور ناچنے گانے والیوں
پرہزاروں روپے نچھاور کر دیتے ہیں،وہ لوگ جو خدا کے دین کے لئے ایک پائی
دینے پر آمادہ نہیں ہوتے وہ گنا ہوں کی گندگی اورجہنم کاایندھن اکٹھا کرنے
کیلئے دن رات لاکھوں کروڑوں اُڑادیتے ہیں۔ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ گانے
بجانے کی کثرت کی وجہ سے نئی نسل تباہ ہو رہی ہے ،وہ معصوم بچہ جس کے کانوں
میں قرآن کی آواز پڑنی چاہئے تھی ،ہوش سنبھالتے ہی اُسے فحش گانے سننے کو
ملتے ہیں،اسلام نے اولاد کی تربیت پر بڑازور دیا ہے اور اس کی ذمہ داری
والد اور والدہ دونوں پر ڈالی ہے ،مگر آپ خود سو چیں کہ جب دن رات بچے کے
کانوں میں موسیقی کی آواز پڑے گی،جب وہ گھر کے ہر چھوٹے بڑے کو موسیقی کا
دلدادہ دیکھے گا،جب وہ اپنے والدین کو کلبوں اور پارٹیوں میں ڈانس کرتا
دیکھے گا،جب ناچنے گانے پر والدین کی طرف سے بچے ّ کی حوصلہ افزائی کیجائے
گی ۔جب مہمانوں کے سامنے اُسے ایک ڈانسر کے طور پر پیش کیا جائے گا،تو اُس
بچے میں ایمان کی صفات کیسے پیدا ہوں گی؟وہ دین دار وں کا کیسے احترام کرے
گا؟وہ قرآن کی تلاوت سے شغف کیسے رکھے گا؟وہ صحابہ کرام اور ازواجِ مطہرات
کی زندگیوں کو اپنا آئیڈیل کیسے بنا ئیگا؟آئیڈیل بنانا تو دور کی بات ہے
بچوں کو صحابہ کرام اور زواجِ مطہرات کے نام تک یاد نہیں ۔خدا رااپنی اولاد
پر رحم کرو،خود تو تبا ہ ہوگئے ہو اب اپنی اولاد کو تباہ نہ کرو،ان کی
تباہی اور گمراہی کی ذمہ داری تم پر ہے قیامت کے دن تم سے اس کے بارے میں
سوال ہو گا۔اولاد خدا کی بہت بڑی نعمت اور امانت ہے،اس امانت میں خیانت نہ
کرو۔اگر والدین نیک ہوں عابدوزاہدہوں نمازی اور پرہیزگار ہوں ،خدا سے ڈرنے
والے ہوں ،حلال روزی کمانے والے ہوں ،حرام سے بچنے والے ہوں تو پھر اولاد
محمد بن قاسم ؓ جیسی ہوتی ہے،طارق بن زیادجیسی ہوتی ہے،اور جب والدین خدا
کے نافرمان ہوں،فاسق وفاجرہوں،حر ام کھانے والے ہوں،گانے بجانے کے
رسیاہوں،توپھراولادگلوکار اور فنکار بنتی ہے،چوراور ڈاکو بنتی ہے،قاتل اورد
یو ّث بنتی ہے،فریبی اور مکّار بنتی ہے،ظالم اور خونخوار بنتی ہے ہٹلر بنتی
ہے،چنگیز خان اور ہلاکو خان بنتی ہے․اﷲتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی
اور اپنی اولاد کی اصلاح اور تربیت کی سچی تڑپ عطافرمائے- |
|