اختیارات کی جنگ اورعوام!
(Shaikh Khalid Zahid, Karachi)
بات حکومت سے شروع ہوکر حکومت پر ختم
ہوجاتی ہے ۔۔۔حکومت کم سے کم بنیادی ضروریات تو پوری کردے یا کسی حد تک تو
کردے۔۔۔آج جگہ جگہ کوڑے کہ ڈھیرلگے ہوئے ہیں۔۔۔پانی کہ جوہڑ بنے ہوئے
ہیں۔۔۔بدبو اور تعفن سے شہر آلودہ ہوئے جا رہا ہے۔۔۔ا ب تو شہر کہنے کا بھی
دل نہیں چاہتا۔۔۔ہم سب حکومتی اقدام کہ منتظر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے
بلکہ اس غلاظتوں میں اضافہ کئے جا رہے ہیں۔۔۔ہم ٹیکس باقاعدگی سے دیتے
ہیں۔۔۔دیتے کیا ہیں ،ہمارا تو ٹیکس بھی ہم سے کسی بھتے کی صورت وصول کر لیا
جاتا ہے ۔۔۔ساری دنیا میں ٹیکس دینے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
بلکہ انکو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔۔۔ہمارے یہاں اس کہ بر عکس آلا ترین
مثالیں موجود ہیں ۔۔۔ٹیکس چور وں کو مراعات بھی دی جاتی ہیں اور عزت بھی
جبکہ ٹیکس دینے والوں کہ ساتھ عام آدمیوں کہ ساتھ ہونے والا برتاؤ برتا
جاتا ہے ۔۔۔
ہم حکومت کو یہ دھمکی تو دیتے ہیں کہ اگر بجلی کا مسلۂ حل نہیں ہوا تو ہم
بجلی کا بل نہیں دینگے۔۔۔گیس کا مسلۂ حل نہیں ہوا تو بل نہیں دینگے۔۔۔پانی
کا مسلۂ یا سیورج کا مسلۂ حل نہ ہوا تو بل نہیں دینگے۔۔۔مگر بل تو دینا ہے
کیونکہ آپ حکومتی رٹ کو چلنج کرنے کہ مجاز نہیں ہیں۔۔۔ہم تو ویسے بھی ریوڑ
ہیں چلینجز تو قوموں کا شعار ہے ۔۔۔ جو چیلنج دیتے بھی ہیں اور قبول بھی
کرتے ہیں۔۔۔ ہمارے ملک اسلامی جہموریہ پاکستان کو خارجی اور داخلی انگنت
مسائل کا سامنا ہے۔۔۔بہت تکلیف دہ بات ہے مگرپاکستان مسائل کی آماجگاہ ہے
۔۔۔ شہروں میں بنیادی سہولیات کے مسائل گھمبیر صورت اختیار کرتے جا رہے
ہیں۔۔۔اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے بلدیاتی انتخابات ناگزیر تھے ۔۔۔جن کا
انعقاد سپریم کورٹ کی مرہونِ منت ہوسکا۔۔۔ بدقسمتی سے انتخابات تو ہوگئے
مگر اب ایک نئے مسلئے نے سر اٹھایا ہوا ہے ۔۔۔یہ مسلۂ عوامی نمائندوں کو
اختیار ات سے محروم رکھ کر کھڑا کیا گیا ہے ۔۔۔اختیارات کہ حصول کی اس جنگ
میں جمہوریت کا بھی جنازہ نکال دیا گیا ہے ۔۔۔ایوان میں اکثریت کا مطلب یہی
سمجھ میں آتا ہے کہ آپ کا جو دل چاہے پاس کرالیں۔۔۔یہ واضح اکثریت ایوان
میں بھی یہی کرتی نظر آرہی ہے تو اس کی دیکھا دیکھی سائیں سرکار بھی ان کہ
ہی نقشِ قدم پر چل رہی ہے ۔۔۔سندھ حکومت نہ تو خود کچھ کرنے کی روادار ہے
تو دوسری طرف اختیارات بھی دینے کو تیار نہیں۔۔۔
ایسی صورتحال میں کس طرح ان مسائل سے نمٹا جائے ۔۔۔ایک صورت تو یہ ہے کہ
شہروں کی صفائی ستھرائی ، نکاسی آب اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت کا کام
ٹھیکے پر دیا جائے۔۔۔جس کی بدولت سیاست کرنے کا سامان بھی میسر آجائے
گا۔۔۔دوسری صورت یہ ہے کہ عوام اپنی مدد آپ کہ تحت چندہ جمع کریں اور اپنے
اپنے محلوں میں صفائی کی مہم شروع کریں۔۔۔حکومت کو تو ارادہ ہے نہیں کہ
اختیارات دے چندے سے جمع شدہ رقم سے کونسلر یا ناظم کہ دفتر کو بھی چلایا
جائے۔۔۔یعنی ایک خود ساختہ دھانچہ مرتب کرلیا جائے ۔۔۔اگر اپنے اپنے علاقوں
میں کم از کم صفائی ستھرائی چاہتے ہیں۔۔۔دونوں صورتوں میں حکومتِ وقت کو
قطعی کوئی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی۔۔۔حکومت اسمبلیوں میں بیٹھیں جس کا دل
چاہے مذاق اڑائیں۔۔۔بیوٹی پارلر بنائیں یا اپنی اپنی نیندیں پوری کریں۔۔۔
ابھی ایک خبر نے سمع خراشی کی ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ
وہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات دیں۔۔۔یعنی اب ہر کام کو سرانجام دینے کیلئے
سپریم کورٹ یا پھر فوج کو اپنے ناجائز اختیارات کا استعمال کرنا پڑے
گا۔۔۔کراچی جو بین الاقوامی شہروں میں گنا جاتا ہے روز بروز کوڑے کرکٹ کا
ڈھیر بنا جارہا ہے ۔۔۔وفاقی حکومت کم و بیش اپنی تمام تر توانائی ملک کی
معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور خارجہ امور پر صرف کر رہی ہے ۔۔۔توسائیں
سرکار کچھ نا کرنے کی قسم کھا کر اپنی موج مستیوں میں مگن ہے ۔۔۔عوام کو
جھموریت سے شائد ہی کبھی کچھ ملا ہے ۔۔۔
بلدیاتی اداروں کو جلد از جلد اختیارات کہ ساتھ بحال کیا جائے۔۔۔انہیں موقع
دیا جائے کہ یہ داخلی مسائل حل کریں اور وفاقی حکومت کو خارجی معاملات
نمٹانے میں اپنی توانائیا ں صرف کرنے کا موقع دے۔۔۔پتہ نہیں ہم لوگ یہ کیوں
سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے اختیارات بانٹے تو ہماری حیثیت مشکوک ہوجائے
گی۔۔۔جبکہ معاملہ اس کہ برعکس ہے آپکی حیثیت میں اور اضافہ ہوجائے گا۔۔۔اور
کام بھی زیادہ ہوگا۔۔۔دیکھئے سپریم کورٹ کہ نئے احکامات پر کب تک عمل در
آمد ہوتا ہے ۔۔۔ |
|