ہمارے ہاں ہر شعبے کا آوے کا آوا ہی بگڑا
ہوا ہے ،تعلیم ، صحت ، ٹیکنالوجی ، ادب ، معاش ، معاشرت، ثقافت، تاریخ غرض
جس طرف بھی نظریں دوڑائیں مایوسی نہ بھی ہو تو زیادہ خو شی نہیں ہوتی ۔اسکی
وجوہات میں جہاں حکومتی نظام میں خرابیاں ہیں وہیں ہمارے بانجھ پن کا شکار
پالیسی ساز اور تدریسی ادارے بھی ہیں۔گزشتہ دنوں موبائل فونز کی برآمدات کے
حوالے سے ادارہ برائے شماریات پاکستان کی پہلی ششماہی رپورٹ پڑھی ،میں
چونکہ اکنامکس کا ماہر ہوں نہ اس کا طالب علم رہا، اس کے باوجود ایسے اہم
موضو عات کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔موبائل فونز کے حوالے
سے اس رپورٹ پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ موبائل فون کے بڑھتے ہوئے رجحان کے
باعث موبائل فون بنانے والی کمپنیوں کیلئے پاکستان ایک پرکشش مارکیٹ کی
حیثیت اختیار کر چکاہے اسی لیے ہمارے ہاں موبائل فونز کی درآمد اور فروخت
پر بھاری ٹیکسوں کی بھرمار کے باوجود موبائل فونز کی درآمدات میں اضافے کا
سلسلہ جاری ہے۔
ملک میں مقامی مینوفیکچرنگ نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال اربوں ڈالر کا
زرمبادلہ موبائل فونز کی درآمد پر خرچ ہورہا ہے۔ فیچر فونز کے ساتھ اسمارٹ
فونز کی فروخت بھی اب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ عالمی برانڈز کے علاوہ ریجنل اور
لوکل برانڈز کی جانب سے ہر دوسرے روز نت نیا ماڈل مناسب قیمت میں متعارف
کراے جارہے ہیں۔ادھر غیر ملکی موبائل فون کمپنیاں پاکستان میں اپنی برانڈز
کی تشہیر کے لیے بھی بھاری رقم خرچ کررہی ہیں تاہم موبائل فونزکی درآمد پر
ہر سال کثیر مالیت کا زرمبادلہ بھی ملک سے باہر جارہا ہے جس سے یقینا
بیرونی تجارت کا توازن بھی بگڑ رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے
اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ تین سال کے دوران پاکستان میں 2 ارب ڈالر سے
زائد مالیت کے موبائل فونز درآمد کیے گئے ہیں جن کی پاکستانی روپے میں
مالیت 2 کھرب روپے سے زائد بنتی ہے۔
پاکستان میں تھری جی اور فورجی ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد اسمارٹ فونز اور
فیچر فونز کی فروخت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ موبائل براڈ بینڈ صارفین
بشمول تھری جی اور فورجی کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 30لاکھ تک پہنچ چکی ہے
جن میں تھری جی صارفین کی تعداد ایک کروڑ 28لاکھ جبکہ فورجی صارفین کی
تعداد ایک لاکھ 40ہزار تک پہنچ گئی ہے۔یہ تعداد مستقبل قریب میں یقینی طور
پر مزید بڑھے گی اور اس ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بھی تیزی
سے بڑھے گی ۔میرے لیے حیرت کا باعث سمارٹ موبائل فونز اور جدید ٹیکنالوجی
کا تیزی سے پھیلاؤ نہیں بلکہ دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں
ہزاروں تعلیمی درسگاہیں سافٹ ویئر اور آئی ٹی کی تعلیم کے نام پر کاروبارتو
کر رہی ہیں لیکن نہ حکومتیں اس انڈسٹری کو مقامی سطح پر سپورٹ کر رہی ہے
اور نہ ہی اس شعبے سے وابستہ ماہرین اور کارکن ملک کے اندر ہی پرائیویٹ سطح
پر معیاری پیداوار کر کے روزگار کے مواقع پیدا کرنے سمیت مقامی معیشت مضبوط
کرنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
میرے نزدیک اس خرابی کی ایک بڑی وجہ ہمارا تعلیمی و تدریسی نظام بھی ہے
کیونکہ ہمارے ہاں بہترین درسگاہیں بھی طلباء سے صرف بھاری فیسیں وصول کررہی
ہیں انہیں مخصوص سے نصاب میں الجھا دیا جاتا ہے اورتھکا دینے والے سمسٹر
سسٹم سے گزار کر آخر میں ڈگریاں ہاتھوں میں تھما کر رخصت کر دیا جاتا ہے ۔یہ
نوجوان روزگار کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں اور اکثریت مایوس ہو کر دوسرے
ممالک کا رخ کرلیتے ہیں یا کوئی اور پیشہ اپنا لیتے ہیں۔ دوسری طرف آئی ٹی
وسائنس میں دنیا ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ چکی کہ فرانس کے ماہرِ ارضیات
نے سیٹلائٹ تصاویر اور سافٹ ویئر کی مدد سے زمین کے نیچے چھپے آبی ذخائر کا
پتا لگانے کے کامیاب تجربات کر لیے۔فرانسیسی ماہرین کے مطابق اب زمین کی
پرتوں کو ایسے دیکھا جاسکتا ہے جس طرح کوئی پیاز کے چھلکے اتار کر اس کے
اندر جھانکتا ہے، اس طرح دنیا کے پیاسے ترین علاقوں مثلاً سوڈان، کینیا،
ایتھیوپیا اور دیگر ممالک میں اسی واٹیکس سسٹم کے تحت پانی تلاش کیا جاکیا
جارہا ہے۔میں سوچتا ہوں کہ جب دنیا کے دیگر ممالک ترقی کرتے کرتے اتنے آگے
نکل گئے تو ہمارے ہاں یہ خرابیاں کیوں ہیں ۔ ہم سالانہ دو کھرب روپے کے
موبائل دوسرے ممالک سے خریدنے کے بجائے خود کیوں نہیں بنا سکتے؟سافٹ ویئر
کے میدان میں ہمارے چند نوجوانوں نے اپنی ذہانت سے جو نام بنایا ان کی ہم
نے میڈیا میں بہت واہ ،واہ کی لیکن کیا سال میں دو، چار لوگ ہی اس ملک میں
ایسے پیدا ہورہے ہیں اورکیا انکی تعداد اتنی ہی رہے گی ؟
طویل عرصے سے دیار غیر میں قیام پذیرتھوراڑ سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک
سینئر دوست سردار علی شاہنواز درست کہتے ہیں کہ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور
موبائلز پر گوگل ، یوٹیوب ، سوشل میڈیا ہم دوسرے لوگوں (غیر مسلموں)کا
بنایا ہوا استعمال کرتے ہیں اور برا بھلا بھی انہیں کہتے ہیں، یہ دوغلا پن
ہمیں اب ختم کرنا ہو گا اور اپنے دماغ کھولتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی میں
ترقی کرنا ہو گی تبھی ہم ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ مقابلے کی دوڑ میں شامل
ہو سکیں گے ۔ ہاں جہاں تک بات رہی ان حیلے بہانوں کی کہ ملک میں کرپشن ہے ،
میرٹ کی پامالی ہے اور جب ملک میں مثالی نظام حکومت قائم ہو گاتو ہم ترقی
کرنا شروع کریں گے تو میرے خیال میں ایسا فوری طور پر ممکن نہیں کیوں کہ جس
مغرب نے ہمارے اوپریہ جمہوری نظام مسلط کیا تھا اس کی بجا طور پر کوشش یہی
رہے گی کہ ہم اس کے ماتحت ہی رہیں لیکن کیا ہمارے اپنے دماغ نہیں جو اس
چنگل سے نکلنے کے راستوں پر کام کریں ۔ |