آبادی کا پھیلاؤ٬ درختوں کا کٹاؤڈ پانی اور زرعی اجناس کی قلت
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
کوئی زمانہ تھا جب شہر بڑی بڑی
فصیلوں میں بند ہوتے تھے، سرِ شام ہی زندگی شہروں کے اندر محصور (محفوظ) ہو
جاتی تھی، بجلی کا عمل دخل کم تھا، غروب آفتاب کے بعد تاریکی کا راج ہو
جاتاتھا۔ اندرون خانہ تو چراغ جلتے تھے، مگر ’’سٹریٹ لائیٹ‘‘ کا تصور بہت
کم تھا، تاہم ترقی یافتہ یا خوشحال شہروں میں تب بھی گلیاں سرکاری روشنیوں
سے منور ہوتی تھیں۔ شور اور ہنگامے کا زمانہ نہیں تھا، آواز کو بلند کرنے
کے آلات ایجاد نہ ہوئے تھے، اس لئے سکون ہی سکون تھا۔ محفلیں سجتی تھیں،
مگر اس کی ساری رونق چار دیواری کے اندر ہوتی۔ شہر کی فصیل بلند وبالا ہوتی،
مضبوط اور محفوظ ہوتی، اس کی مزید حفاظت کے لئے پہریدار موجود ہوتے تھے۔
فصیل میں مختلف مقامات پر دروازے ہوتے تھے، ان سے اندر داخل ہوتے ہی بازار
کا آغاز ہوجاتا، پھر تنگ گلیاں ۔ ہر طبقے کا الگ محلہ ہوتا تھا، ہر محلے کا
نام اس میں رہائش پذیر طبقے کے نام پررکھا جاتا تھا۔ شہر کے بڑے دروازے
خوبصورت او رمضبوط ہوتے تھے، پرانے شہروں میں اب بھی بہت جگہوں پر یہ
دروازے موجود ہیں، بہت سے دروازے ایسے بھی ہیں، جو ابھی تک بہترین حالت میں
موجود ہیں۔ ان شہروں کے باہر چاروں طرف باغات ہوتے تھے، جس سے نہ صرف یہ کہ
شہر کا موسم بہت اچھا رہتا تھا، بلکہ وہ شہر کی پھلوں کی ضروریات کو بھی
پورا کرتے تھے۔ کھلے میدان بھی شہر سے باہر ہی ہوتے تھے، جہاں باذوق
حکمرانوں کی ہدایت کے مطابق کھیلوں وغیرہ کا اہتمام ہوتاتھا، یہی مقامات
سیر گاہ (تفریح گاہ) کا کام دیتے تھے۔ اسی طرح اہم دفتری عمارات بھی شہر سے
باہر بنا لی جاتی تھیں۔ یا پھر خود حکمرانوں کے محلات شہر سے باہر ہوتے تھے۔
یہ عام پرانے شہروں کا قصہ ہے۔ صدیوں پرانے دارلحکومتوں کی کہانی ذرا مختلف
تھی، عام شہر فصیلوں کے اندر ہوتے تھے، مگر بادشاہوں کے محلات کی بنا پر
شہر سے باہر بھی رونق ہوتی تھی، شہر سے باہر باغات اور کئی میل دور کوئی
محل، دوسری طرف کئی میل دور کوئی سیر گاہ، اور تیسری طرف کئی میل دور کوئی
مزار۔ یوں لوگوں کو شہر سے نکل کر باغات میں سے ہوتے ہوئے باہر بھی جانا
پڑتا تھا۔
پھر آبادیاں بڑھنے لگیں، محلے گنجان آباد ہوجانے کی بنیاد پر گھٹن کا شکار
ہونے لگے، لوگ شہر سے باہر نکلنے لگے، باہر والے باغات کٹنے لگے، فصیلیں
بوسیدہ ہو کر گرنے لگیں، دروازے مسمار ہونے لگے۔ شہر سے باہر (یعنی فصیل سے
کوئی سو میٹر کے فاصلے پر بھی) جو زمین اب دس لاکھ روپے مرلہ میں کوئی
فروخت نہیں کرتا ، تب یہ زمین کوڑیوں کے بھاؤ ملی، بلکہ بہت سے لوگ خریدتے
نہیں تھے، کہ جنگل میں کون جائے؟ مگر اب وہی جگہ شہر کے مرکز میں ہے۔ جس
کسی نے ساٹھ ستر برس قبل ایک کنال زمین پانچ ہزار روپے میں خریدی تھی، اب
وہ دو کروڑ سے زائد مالیت کی ہے۔ شہر سے باہر نکلنے کا عمل بہت سست روی سے
جاری تھا۔ مگر گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں زمین کو گویا پَر لگ گئے ہیں، اس
کی بلند پروازی کی داستاں طویل ہوتی جارہی ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے
لگی ہیں۔ بڑی بڑی کالونیاں معرضِ وجود میں آگئی ہیں، اس کاروبار نے ایک
صنعت کا درجہ اختیار کرلیا ہے، بڑے شہرو ں میں یہ کاروبار عروج پر ہے، اور
اس کاروبار سے وابستہ لوگ شہر کے بڑے سرمایہ داروں میں شامل ہو چکے ہیں۔ جس
کا یہ کاروبار چل نکلا ہے، اس کی پانچوں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں، اس
کاروبار میں عام آدمی بھی پیسے والا ہے۔ ان کالونیوں اور سوسائٹیوں کے
معاملات کیا ہیں؟ یہ کہانی مختلف ہے۔بہت بڑا کاروبار ہونے کی وجہ سے متعلقہ
دفاتر کی مداخلت اور ان سے ڈِیل کرنے کا انداز بھی مختلف ہے۔
نئی نئی ہاؤسنگ سکیموں نے گاہک کو متاثر کرنے کے لئے کالونی کی چار دیواری
بنائی، خوبصورت گیٹ لگایا، محافظ کھڑے کئے، اچھی سڑکیں بنائیں اور پودے
لگائے، تمام بنیادی سہولتوں کی دستیابی کا وعدہ کیا، یا فراہم کردیں، اس
لئے کامیابی ان کے قدموں میں آگری۔ اب پرانے شہروں کو ’’اندرونِ شہر‘‘ کہا
جاتا ہے،اگر ’’بیرونِ شہر ‘‘ کو دیکھیں تو وہ مِیلوں تک پھیل گئے ہیں، جس
کسی نے کسی شہر کو پندرہ ، بیس برس بعد دیکھا تو وہ حیرت کے سمندر میں غرق
ہوگیا، اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی اور منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، وہ انگشت
بدنداں بیس سال پہلے کے مناظر کو تلاش کرتا رہا، خالی جگہوں پر پلازے کھڑے
ہوگئے۔باغ کی جگہ بڑی بڑی کوٹھیوں اور قیمتی رہائش گاہوں نے لے لی۔ حتیٰ کہ
شہروں سے باہر دور تک لہلہاتی کھیتیاں بھی آبادیوں کے پاؤں تلے کچلی جاچکی
ہیں، زرعی زمین تیز رفتاری سے کم ہورہی ہے، جس کی جگہ پر آبادیاں ہی وجود
میں آرہی ہیں۔
اس بہت بڑی تبدیلی کو ہم ترقی کا نام دیتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ جہاں شاندار
رہائشی سکیمیں بن رہی ہیں ، ثابت ہوتا ہے کہ وہاں لوگ خوشحال ہیں، وہاں
روپے کی ریل پیل ہے، وہاں لوگوں کا معیارِ زندگی بہت بلند ہے۔ یقینا ایسا
ہی ہے، مگر اس تبدیلی سے جو نقصانات سامنے آرہے ہیں، ان کی طرف بہت کم لوگ
توجہ دے رہے ہیں، جب کسی سڑک کی توسیع کے لئے صدیوں پرانا درخت کاٹا جاتا
ہے، اور اسے اونے پونے اور ملی بھگت سے فروخت کیا جاتا ہے، تو اس کے نقصان
کا اندازہ لگانا بھی ضروری ہے، وہاں بہت سے پرندے بھی رہتے ہونگے، وہاں لوگ
سائے کے لئے بھی بیٹھتے ہونگے، اس درخت سے آکسیجن بھی خارج ہوتی ہوگی، شہر
کی آلودگی کم کرنے میں بھی وہ معاون ہوتا ہوگا، کاربن ڈائی اکسائیڈ میں کمی
کا موجب بھی بنتا ہوگا۔ ایک نہیں ، جب ہزاروں پرانے درخت کاٹے جائیں گے تو
نتیجہ کیا ہوگا؟ اسی طرح زرعی زمین میں جب فصل کی بجائے عمارتیں اُگ آئیں
گی، تو انسان کھائے گا کیا؟ اس سے خوردنی اشیاء کی قلت پیدا ہو جائے گی۔ جس
چیز کو ہم ترقی کا نام دے رہے ہیں، یہ ہمارے لئے تنزلی کا موجب بن جائیں گی۔
شہروں کے پھیلاؤ میں خود شہروں کا جس قدر ہاتھ ہے، اس سے کہیں بڑھ کر اس
میں دیہات والوں کا کردار ہے۔ چند برس قبل جب شہروں کا پھیلاؤ تیزی سے شروع
ہوا، اس وقت دیہات سے لوگوں کا شہر میں منتقل ہونے کے رجحان زوروں پر تھا،
ظاہر ہے اس کی بنیادی اور اہم وجہ یہی تھی کہ لوگ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم
دلوانا چاہتے تھے، ان کو صحت کی بنیادی سہولیات بہم پہنچانا چاہتے تھے، اسی
رجحان کے پیش نظر دیہاتی شہروں میں منتقل ہوتے گئے،اور کالونیاں آباد ہوتی
گئیں۔ شہروں کی جانب آنے والے آبادی کے اس ریلے کو روکنے کا واحد طریقہ یہ
تھا کہ ترقی کا رخ دیہات کی جانب بھی موڑا جائے، وہاں پختہ سڑکیں بنائی
جائیں، سکول قائم کئے جائیں، ہسپتال کی سہولت دی جائے، اگر اسی قسم کی تمام
ضرورتیں گاؤں میں پوری ہوجائیں تو شہروں میں منتقل ہونے والوں میں واضح کمی
آسکتی ہے۔ جب سے شہروں میں بڑی کالونیاں بننے لگی ہیں، لوگوں کو آبادیوں سے
ذرادور رہ کر بھی رہائش رکھنے کی عادت پڑ رہی ہے، پہلے شہر سے چار کلومیٹر
دور گاؤں کا شہر سے بہت فاصلہ گِنا جاتا تھا، اور ماحول مختلف ہوتا تھا،
مگر اب چھوٹے شہروں میں بھی پانچ سات کلومیٹر دور گاؤں سے لوگ شہروں میں
شفٹ نہیں ہوتے، وجہ وہی ہے کہ انہیں پختہ سڑک دستیاب ہے اور موٹر سائکل
وغیرہ کی صورت میں سواری بھی اس کے پاس موجود ہے۔
آبادی میں حد سے زیادہ اضافے کی وجہ سے ایک عجیب تضاد سامنے آرہا ہے، یعنی
کھانے اور رہائش کی ضرورتیں بڑھ رہی ہیں ، اور یہ ضرورتیں پوری کرنے والی
زمینیں کم ہورہی ہیں، زراعت ویسے بھی زوال پذیر ہے، یہی وجہ ہے کہ زرعی
اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، دوسری جانب روز گار کے مواقع کم
ہورہے ہیں، جہاں کسی ملازمت کے لئے مڈل پاس بھرتی کیا جاسکتا ہے وہاں ایم
اے پاس بھی درخواست گزار رہا ہوتا ہے۔ جہاں دس سیٹیں خالی ہوتی ہیں وہاں
درخواست دینے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہوتی ہے۔ آبادی کے پھیلاؤ کا ایک
اور بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ زیر زمین پانی جو کہ بہت ہی تیز رفتاری سے
کم ہورہا ہے، (کیونکہ ہر گھر میں لال پمپ کے ذریعے پانی کھینچا جارہا ہے)
جو پانی تیس فٹ زیر زمین تھا اب وہ سو فٹ سے بھی نیچے جا چکا ہے، پانی کے
سلسلے میں دوسرا مسئلہ یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ زیر زمین پانی صاف بھی نہیں
رہا، بلکہ اس میں زہریلے مادے شامل ہوچکے ہیں۔ کیونکہ زمین کے اوپر موجود
دریا خشک ہورہے ہیں، جن کے اثرات زیر زمین پانی پر بہت ہی گہرے ، خراب اور
دوررس ہیں۔ سنگ وخشت کی ظاہری نمود ونمائش کو ترقی کہتے ہوئے آنے والے
برسوں کی فکر بھی نہایت ضروری ہے۔ \ |
|