جمہوری اسلامی ایران جنوب مغربی ایشیا کا
ایک ملک ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں واقع ہے۔ایران کے مشرق میں پاکستان اور
افغانستان واقع ہے۔مغرب میں اس کی سرحدیں ترکی اور عراق سے ملتی ہیں۔شمال
میں آرمینیا،آذر بائیجان اورترکمانستان واقع ہیں۔ایران کے جنوب میں خلیج
فارس اور خلیج اومان ہیں۔اس کا سرکاری مذہب شیعہ اسلام ہے اور سرکاری زبان
فارسی ہے۔ایران دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔اس ملک کی تاریخ
ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔مذہبی طور پر یہ لوگ آتش پرست تھے۔651ء کے لگ بھگ
مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا ۔15ویں صدی تک یہاں کے لوگ سنی اسلام کے
پیروکار تھے۔اس کے بعد یہاں صفوی حکومت قائم ہوئی جس نے 16صدی میں اثنا
عشری شیعہ مسلک کو فروغ دیا اور یوں وہاں کی تقریباً تمام آبادی نے اسی
مسلک کو اختیار کر لیا۔اب ایران کی 90فیصد آبادی شیعہ اسلام کی پیروکار ہے
8فیصد سنی مسلمان ہیں جبکہ 2فیصد دیگر مذاہب کے لوگ ہیں ۔
ایران میں ابتدا ء سے ہی بادشاہت قائم تھی اور اس کا اختتام 1979کے اسلامی
انقلاب پر ہوا۔انقلاب سے قبل ایران ایک لبرل ملک تھا ۔رضا شاہ پہلوی اس کا
مطلق العنان حکمران تھا۔یہ ملک یورپ اور امریکہ کی آنکھ کا تارا تھا ۔اسلامی
ممالک میں بھی اس کا کردار مثبت تھا۔انقلاب سے قبل ایران کے ساتھ پاکستان
کے تعلقات بھی مثالی تھے۔پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے سے لے کر آ۔ر سی۔
ڈی نامی تنظیم تک دنوں ملک ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ پاک بھارت جنگوں میں
بھی ایران نے پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا تھا۔اس کے علاوہ خطے کے دیگر
اسلامی ممالک کے ساتھ بھی ایران ایک پرسکون ماحول میں رہ رہا تھا اس کی
خارجہ پالیسی سے کسی کو کوئی خاص شکایت نہ تھی۔
70کی دہائی میں امریکہ جب افغانستان میں روس کے ساتھ الجھنے کی منصوبہ بندی
کر رہا تھاتو اس خطے کے ممالک کے تمام تر حالات اس کے پیش نظر تھے۔وہ
مسلمانوں کو فرقہ واریت میں الجھا کر روس کے خلاف ایک منظم افرادی قوت
اکٹھی کرنا چاہ رہا تھا۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا تھا جب یہاں کے
مسلمانوں میں ایک کچھاؤ پیدا ہو۔اس نے سنی شعیہ کی تفریق کو بھر پور ہوا
دی۔سعودی عرب سے تعلقات استوار کیے وہاں کی مخصوص سوچ کو پروان چڑھایا اور
اس کے ذریعے افرادی قوت حاصل کی۔ یہ بات بھی باعثِ حیرت ہے کہ امریکہ اور
یورپ کی بظاہر شدید ترین مخالفت کے باوجود فرانس نے امام خمینی کو اپنے ہاں
پناہ دی اور انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنی سر زمین استعمال کرنے کی
اجازت دی۔ایرانی انقلاب کی اس تحریک میں فرانس کا کردار ایک سہولت کار کا
تھا۔ امریکہ کو سعودی عرب کے مقابلے میں ایک شدت پسند اسلامی حکومت کی بھی
ضرورت تھی جسے ایران نے پورا کیا۔بدقسمتی سے اس قت مسلم حکمران اس امریکی
چال یا سازش کو نہ بھانپ سکے اور اس کا شکار ہو گئے اور یوں مسلمانوں میں
فرقہ وارانہ کشیدگی کا آغاز ہو گیا۔ایران اور سعودی عرب کی چپقلش انہیں
دنوں سے ہے۔یہ دونوں ملک پراکسی وار کا شکار ہوئے اور انہوں نے
افغانستان،عراق اور پاکستان کو اپنا میدانِ جنگ بنایا ۔اس پراکسی وار نے
امریکہ کو اس خطے میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔
اب ایک بار پھر امریکہ وہی چال دوبارہ چل رہا ہے۔اب اس کا منظورِ نظر ایران
ہے۔اس پر اقتصادی پابندیاں بھی ختم ہو چکی ہیں دولت کی فراوانی ہونے کو
ہے۔اب ایران اپنے نظریے اور مسلک کا فروغ چاہتا ہے بحرین، یمن، کویت سعودی
عرب پاکستان ،افغانستان میں شیعہ تحریکیں قدم اٹھا رہی ہیں ۔مسلح جدوجہد
ہوتی بھی نظر آ رہی ہے۔جو کام سعودی سوچ کے حامل لوگ گزشتہ سالوں میں کرتے
رہے ہیں اب ایرانی سوچ کے حامل لوگ وہی کام کرنے کی تیاریاں کر رہے
ہیں۔دونوں ملکوں میں پراکسی وار کی حدت تیز ہوتی نظر آ رہی ہے۔اس طرح کی
جنگ میں میدان دوسرے ممالک ہی بنا کرتے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک دانشمندی کا مظاہرہ کریں ۔امریکہ اور
یورپ کی سازشوں کا بار بار شکار ہونے کی بجائے آپس میں براہِ راست رابطہ
قائم کریں اسلامی اقدار ،روایات اور تعلیمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کشت و
خون سے پرہیز کریں ۔مسلمان حکمرانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ یومِ
حساب اپنے عمال،افکار اور نظریات کے بارے میں حق کے سامنے بھی جوابدہ ہوں
گے۔ |