خدا را دشمن کی سازش کو سمجھیں
(Muhammad Nadeem, Peshawar)
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو رہبانیت اور
مادیت پرستی سے صرفِ نظر روح اور بدن کے باہمی اشتراک کا نام ہے۔ جہاں
یایھا الناس اعبدوا کے ذریعے تعلق مع اللہ استوار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے
تو ساتھ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا کے ذریعے بدن کی نشونما کا
سامان بھی مہیا کیے دیتا ہے۔جہاں والھکم الہ واحد کے ذریعے زمین پر بیٹھے
خداؤں کی غلامی کا طوق نکال کر اللہ کی غلامی کا قلادہ زیب تن کرنے کو کہا
جاتا ہے وہاں و الفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس کے ذریعے خالق
کائنات کی پیدا کردہ چیزوں سے استفادہ کو مستحسن بھی قرار دیا گیا ہے۔ جہاں
مومنوں کو انما المومنون اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم و ذا تلیت علیھم ایتہ
زادھم ایمانا و علی ربھم یتوکلون جیسے روحانی صفات سے موصوف قرار دیا گیا
ہے تو وہاں واعدوا لھم ما استطعتم کے ذریعے مادی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے
کا سبق بھی سکھاتا ہے ۔الغرض فلسفہ اسلام یہی ہے کہ روح اور بدن ایک دوسرے
پر موقوف ہیں، یہ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے بلکہ یوں کہنا مناسب
ہو گا کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے جزو لا ینفک ہے۔ جب بھی ان دونوں اجزاءکے
توازن کو بر قرار رکھا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی نورانی مخلوق پر انسان
(جوکہ روح اور بدن سے مرکب ہے) کی تعظیم و تکریم واجب قرار دی ۔جب بھی ان
دونوں اجزاءکے توازن کو بر قرار رکھا گیاتو زمین سے چل کر تمام انبیاءکی
امامت ، آسمانوں کا سفر، عجائبات کا مشاہدہ اور ان تمام کے علاوہ کل ما فی
السموت و الارض کو اپنے مبارک قدموں سے چھوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی
کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ جسے معراج کہا جاتا ہے۔اسلام کی اِسی عالمگیریت اور
وسعت پسندی کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے چند
برگزیدہ بندوں کو اس عالمی پیغام کو پھیلانے اور اس کی تبلیغ کرنے کے لیے
منتخب کیا اور ولو کرہ الکافرون اور ولو کرہ المشرکون کے ذریعے اس بات کی
اطلاع دی گئی کہ جتنا پیغام عالمگیر ہے اتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے
گا۔
دین اسلام (جو کہ مکمل نظام حیات ہے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو میں
رہنمائی کا سامان مہیا کرتا ہے) کی عالمگیریت اور اظھار علی دین کلہ کو
مدنظر رکھتے ہوئے ازل سے ابد تک اسلام اور مسلمان دشمن عناصر بر سر پیکار
ہیں۔ کبھی آدمؑ اور شیطانؑ کی صورت میں، تو کبھی نوحؑ اور قوم نوح، کبھی
ھودؑ اور قوم عاد کی صورت میں، تو کبھی صالحؑ اور قوم ثمود کی صورت میں،
کبھی شعیبؑ اور اہل مدین کی صورت میں، تو کبھی محمد الرسول اللہﷺ اور
مشرکین مکہ کی صورت میں، تو کبھی عالم کفر اور اسلام بالفاظ دیگر یہود،
ہنود اور مسلمانوں کی صورت میں، لیکن نتیجہ ہر دور میں یہی رہا ہے کہ حزب
الشیطن کو اللہ تعالیٰ نے ہمشہ سے ہی ذلیل و رسوا رکھا، کیونکہ ان کا
مقابلہ ہمیشہ دوسروں کی تحقیر اور حسد کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ان شاءاللہ
موجودہ دور کے تنازعات کا نتیجہ بھی یہی نکلے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا
فیصلہ ان عبادی لیس لک علیھم سلطان اٹل ہے اور اللہ کے فیصلے کا رخ کوئی
نہیں موڑ سکتا سنة اللہ التی قد خلت من قبلہ ولن تجد لسنتنا تحویلا۔
یوں تو مذکورة الصدر دونوں قوتیں (یہود،ہنود اور مسلمان)ابتداءسے بر سر
پیکار ہیں۔لیکن مستقل بنیادوں پر دشمنی کی ابتداءتب سے ہوئی جب سے پاکستان
دنیا کے نقشے پر اُبھر آیا۔اسرائیل جو کہ عمر میں پاکستان سے ایک سال چھوٹا
ہے، اپنی پیدائش کے فوری بعد پاکستان کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ ذہین چالاک اور
عیار یہودی سمجھ گیا تھا کہ ایک نظریاتی اسلامی ریاست اس کے لیے بہت بڑے
خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ لہذا شروع ہی میں پاکستان کی قیادت پر سنہرا جال
ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔ لیاقت علی خان کو امریکہ کے دورہ کے دوران اسرائیل
کو تسلیم کرنے کے عوض وسیع پیمانے پر امداد کی پیش کش ہوئی، جسے لیاقت علی
خان نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ Our souls are not for sale!۔ اسکے بعد
1967ءاور 1973ءکی عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستان کی فضائیہ نے عربوں کی مدد
کی اور اسرائیلی فضائیہ کو زک پہنچائی، جس سے پاکستان اور اسرائیل کی دشمنی
مزید بڑھ گئی۔اُس وقت سے لے کر آج تک اسرائیل پاکستان کے خلاف سازشوں میں
مصروف ہے اور پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت
نہیں کرتا۔جب 1967ءکی جنگ میں عربوں کو مکمل شکست ہوئی، جس کا جشن یہودیوں
نے فرانس میں منایا اور ایک تقریب میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بن
گوریان نے صاف صاف اعلان کیا کہ ہماری اصل جنگ عربوں سے نہیں پاکستان سے ہے
اور پاکستان ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔ خود کو بندروں کی اولاد کہنے والے
اسی کوشش میں مگن ہیں کہ ہر قیمت پر پاکستان کو ایٹمی اثاثہ جات سے محروم
کیا جائے۔ اس کے لیے نائن الیون کا جو ڈرامہ رچایا گیا تھا وہ ایک تیر سے
دو شکار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یعنی افغانستان میں طالبان کی اسلامی
حکومت کو پارہ پارہ کر دیا جائے، اور اگر پاکستان اس میں رکاوٹ بنے تو موقع
سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے ایٹمی اثاثہ جات کو تباہ کر دیا جائے۔ دشمنی
میں مزید کشیدگی اور جمود 28مئی 1998ءکی رات کو بنی اسرائیل کا پاکستان کی
ایٹمی اثاثہ کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش اور صبح کو ترکی بہ ترکی جواب دینے
سے ہی ممکن ہوئی جس نے ان کے دل پھٹ گئے اور آگ بھگولا ہو گئے۔بندروں کی
اولاد نے اس کام کو سر انجام دینے کے لیے اپنے ہم مثل یعنی گائیں کے
پجاریوں جیسی حقیر قوم کی خدمت حاصل کی جن کے تعصب کی شہادت قرآن مجید نے
لتجدن اشد الناس عداوة للذین امنوا الیھود والذین اشرکوا کے الفاظ سے دی
ہے۔ فلسفہ اسلام کو مسلسل اپنی ہدف کا نشانہ بنایا ہوا ہے اور گائیں کے
پجاریوں (یوں تو دونوں میں گائیں کی تقدس اور عبادت کا نظریہ مشترکہ ہے
لیکن ہنود مبالغہ آرائی کے طور پر پیشاب پینے سے بھی نالاں نہیں ہیں)کو
شعوری یا غیر شعوری طور پر آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے، جو ہاتھ
تو ملاتے ہیں لیکن پیٹھ پیچھے وار کرنے کی عادت سے مجبور ہیں اور ہر طرح سے
فلسفہ اسلام کو ناقص اور دین اسلام کو دہشت گردی کے طور پر پیش کیا جا رہا
ہے۔چونکہ بزعم خویش یہود اپنی پیدائش کا مقصد یہی گردانتے ہیں کہ بادشاہت
اور اقتدار کا حق صرف انہی کو حاصل ہے دیگر تمام دستِ نگر اور غلام بن کر
زندگی گزاریں گے۔ لہذا ان کی نا پوری ہونے خواہش کی راہ میں فلسفہ اسلام
ایک بڑی رکاوٹ تھی،رکاوٹ ہے، اور رکاوٹ رہے گی (ان شاءاللہ)۔ اسی لیے انہوں
نے بنیاد سے کام کرنا شروع کیا۔پہلے فلسفہ اسلام کے جزءاول یعنی وہ ادارے
جہاں سے روحانی قوتیں پروان چڑھتی ہیں،کوتنقید کا نشانہ بنایایہی وجہ ہے کہ
ہر جگہ دہشت گردی پھیلانے والے اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ اور نتیجہ
آپ کے سامنے ہے۔مذہبی منافرت کو پھیلانے میں بڑے زور و شور سے کام ہو رہا
ہے۔ چنانچہ ہر داڑھی ٹوپی والا، مسجد و مدرسہ سے تعلق رکھنے والا، اپنے ہی
وطن عزیز کو چوروں، ڈاکوؤں،لٹیروں، انسانی شکلوں میں متشکل بھیڑیا ،زمین
پھر چلتے ہوئے درندوں اور سفاک قسم کے آدم خوروں سے خالی کرنے والا، بحالت
مجبوری اپنی ہی دفاع کرنے والا قابل تنفر اور موردِ الزام ٹھہرا کہ دین کی
علامات اور شعائر اللہ کی تحقیر کے بغیر لا دینی قوتوں کا مقصد پورا ہی
نہیں ہوتا۔ اسی بات کو علامہ محمد اقبالؒ اپنے ہی دور میں محسوس کر لیا تھا
اور فرمایا :
افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج
ملا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو
لہذا آج ہر تیسرا شخص اللہ کی کتاب کو ہاتھ میں پکڑنے والوں کو، اس کی دعوت
کو عام کرنے والوں کو، سنت رسولﷺ کو اس پر فتن دور میں زندہ رکھنے والوں کو
، مدرسہ جانے والے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوا اور نفرت کرتا ہوادکھائی
دیتا ہے نیز بغیر تنخواہوں کے اپنے ملک کی حفاظت کرنے والوں کو ملک کا
خطرناک دشمن تصور کیا جاتا ہے ۔ آسمانی دین کے خاتمے کے بعد وہ ایک زمینی
دین کے نفاذ کے لیے بے تاب ہیں۔ زمینی خدا کی جھوٹی خدائی کا سکہ اس وقت تک
چل نہیں سکتا جب تک آسمان کے سچے خدا کی بابرکت علامات زمین سے مٹانہ دی
جائیں اور یہ مٹ نہیں سکتیں جب تک ان کو بد نام کر کے متبادل شیطانی روایات
متعارف نہ کروادی جائیں۔ لہذا ان کو دقیانوس، قدامت پسند، تنگ نظر ، دہشت
گردجیسے گھناؤنے القابات سے ملقب کیا گیا۔ پروپیگنڈا کے زور سے ہر مسلمان
اس کی وہی تصویر دیکھ رہا جو وہ اسے دکھانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ پروپیگنڈہ
میں تو شیطان سب کا استاد اعظم ہے [واستفزز من استطعت منھم بصوتک] اور یہ
تمام اپنے پیارے باپ کے پیاری اولاد ہیں کچھ خصوصیات تو یکساں ہو گی۔تو
پہلے فلسفہ اسلام کے جزءاول پر حملہ کیا گیا۔اور اب یوں دکھائی دے رہا ہے
کہ فلسفہ اسلام کے جزءثانی یعنی وہ ادارے جہاںسیرو فی الارض ، سخر لکم
البحر لتبتغوا من فضلہ اور اعدوا لھم ما استطعتم کے لیے رجال کار مہیا کیے
جانے والے اداروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں ۔پہلی مرتبہ حملہ تو
غیر رسمی طور پر 1857ءکی ناکام جنگ آزادی کے بعد نصاب سازی کی شکل میں کیا
گیا۔ اور باقاعدہ طور پر آج سے تیرہ ماہ قبل آرمی پبلک سکول جیسے اعلیٰ
تعلیم و تربیت سے لیس ادارے سے شروعات کی جس کے نتیجے میں باچا خان
یونیورسٹی کو بھی یہ دن دیکھنا پڑا ۔ محترم مسلمان بھائیوں ! اپنی زبوں
حالی کو دوبارہ سے عروج میں بدلنے کے لیے چند امور کو سر انجام دینا ہو گا۔
• اللہ کے حضور سچی توبہ کرنی ہو گی تاکہ اللہ ہماری ابتر حالت کو بہتر
بنانے میں ہمارا ممد و معاون ثابت ہو اور اللہ کی نصرت ہمیشہ شامل حال رہے۔
• دینی و عصری علوم حاصل کرنے والے طلباء کرام کو ایک دوسرے کے دست و بازوں
بننا ہو گا۔
• مذہبی اور عسکری قوتوں کو ایک دوسرے کو سمجھنا ہو گا اور ایک دوسرے کے
ساتھ شانہ بشانہ دشمن کا مقابلہ کرنا ہو گا۔
جب ہی ہم ان تمام مذکوہ امور کو سر انجام دیں گے تب ہی امت مسلمہ سکون اور
چین کا سانس لے سکے گا ، اور اسلام دشمن عناصر کا خواب پیوند خاک ہو کر
شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اللہ ہمیں متحد اور متفق ہونے کی توفیق عطا
فرمائیں۔ آمین |
|