فہمیدہ ریاض اور امداد حسینی کے اعزاز میں تقریبِ پذیرائی

اکیدمی ادبیات پاکستان نے معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کو ایوارڈ سے نوازا ساتھ سندھ کے معروف شاعر امداد حسینی کی کتاب پھول کرن کو بھی ایوارڈ دیا گیا۔ انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام دونوں شعرائے کے اعزاز میں تقریب پزیرائی کااہتمام کیا گیا۔ ذیل میں اس تقریب کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا گیا ہے
اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے اردو کی معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کو ’کمالِ فن ایوارڈ ‘ اور سندھی و اردو کے معروف شاعر و ادیب امداد حسینی کو ان کے شعری مجموعے ’دھوپ کرن‘ کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے دونوں علمی و ادبی شخصیات کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کا اہتمام بروز ہفتہ 16جنوری 2016ء کی صبح کیا۔ تقریب کی صدارت معروف شاعر و ادیب پروفیسر سحر انصاری جو انجمن ترقی اردو کے اعزازی خازن، آرٹس کونسل آف پاکستان کے نائب صدر اور ہماری ویب ـرائیٹرز کلب ‘کے سرپرست ِ اعلیٰ بھی ہیں نے کی۔ مقررین میں ڈاکٹر فاطمہ حسن، معروف ڈرامہ نویس نور الہدیٰ شاہ، ڈاکٹر آصف فرخی اور مہ نازرحمٰن شامل تھیں۔

شاعرہ فہمیدہ ریاض کا وطن ہندوستان کا شہر میرٹ (یو پی) ہے جہاں پر انہوں نے 28جولائی1946ء کوایک علمی ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ فہمیدہ کے والد ریاض الدین احمد شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے۔ ’دبستانوں کا ددبستان کراچی‘ میں فہمیدہ ریاض کے حوالے سے لکھا ہے کہ’ ان کے والد قیام پاکستان سے قبل ہی 1930 ء میں پاکستان آگئے تھے ۔ سندھ کے معروف ماہر تعلیم نور محمد نے حیدر آباد سندھ میں ایک اسکول قائم کیا تو اپنے اسکول کے لئے انہوں نے ایک مسلمان استاد کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے درخواست کی ، چنانچہ جناب ریاض الدین حیدرآباد آئے اور اسکول سے منسلک ہوگئے۔ یہاں انہیں سندھ کے ادیبوں اور شاعروں کا حلقۂ احباب میسر آیا ۔اس صحبت نے ان میں سندھی زباب و ادب سے گہرا لگاؤ پیدا کردیا۔ فہمیدہ حیدر آباد سندھ میں پلی بڑھیں، تعلیم حاصل کی، انہوں نے بہت کم عمر میں لکھنا شروع کردیا تھا۔ابھی وہ پانچ سال ہی کی تھیں کہ والد انتقال کرگئے، ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت ان کی والدہ کی نگرانی میں ہوئی جو خود بھی ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔فارسی ادب کا ذوق رکھتی تھیں۔حالات کا ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کیا انہوں حیدر آباد میں ریاض الدین میموریل گرلز اسکول بھی قائم کیا لیکن یہ اسکول قائم نہ رہ سکا۔ فہمید ہ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو، سندھی اور فارسی زبان و ادب پر عبور حاصل کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان پر خبریں پڑھنے سے کیا۔ کم عمری میں شادی ہوگئی جس کے بعد وہ لندل چلی گئیں تھیں،بد قسمتی سے یہ شادی کامیاب نہ ہوئی، لندن میں بی بی سی سے بھی وابستہ رہیں۔ کچھ دن بحیثیت اسسٹنٹ کسی لائبریری میں بھی کام کیا۔ دوسری شادی ظفر علی اجن سے ہوئی جواشتراکی ذہن اوربائیں بازو کے سیاسی ورکر تھے۔ فہمیدہ نے ان اشتراکی نظریات کو قبول کیا اور وہ ایک مارکسی اور بائیں بازوں کے نظریات رکھنے والی شاعرہ کے طور پر مقبول ہوئیں۔ فہمیدہ نے اپنے اس قطعہ ’تصویر‘میں کیا کہا ہے ؂
مرے دل کے نہا خونے میں اک تصویر ہے میری
خدا جانے اُ سے کس نے بنایا ‘ کب بنا یا تھا
یہ پوشیدہ ہے میرے دوستوں سے اور مجھ سے بھی
کبھی بُھولے سے لیکن میں اسے گر دیکھ لیتی ہوں
اسے خود سے ملاؤں تو میرا دل کانپ جاتا ہے

فہمیدہ نے اپنا ایک رسالہ ’آواز بھی ‘ جاری کیا جو فہمیدہ کی بے باک اور آزاد شاعری اور ظفر علی اجن کے مارکسی اور بائیں بازوں کے نظریات کے پرچار کے باعث حکومت نے اس کی اشاعت پر پابندی لگادی۔ پاکستان میں یہ دور ضیاء الحق کا تھا۔ فہمیدہ بھی سیاسی ذہن رکھتی تھیں 1980ء کی دیہائی میں انہیں ہندوستان میں آٹھ سال گزانا پڑے۔ ہندوستان کے حوالے سے انہیں مختلف قسم کی باتیں بھی سننے کو ملیں۔ انہیں ہندوستان کا ایجنٹ بھی کہا گیا۔ بے نظیر دور میں واپس وطن آگئیں ۔اب حالت ان کے لیے سازگار تھے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن اور اردو ڈکشنری بورڈ کی ایم ڈی بھی رہیں۔ ان کی تصانیف میں پتھر کی زبان، دھوپ، بدن دریدا، ادھورا آدمی، کھلے دریچے ، خط مر مز ، گلابی کبوتر، آدمی کی زندگی، حلقہ میری زنجیر کا، پتھر کی زبان،Godovari: a noval ،سب لعل و گہر:کلیات1967-2000 ء اور دیگر شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ شاہ عبد الطیف بھٹائی اور شیخ ایاز کی شاعری کا اردو ترجمہ بھی کیا۔

فہمیدہ کی کتاب ’یہ خانۂ آب گِل: انتخاب دیوان شمس تبریزی۔جلال الدین رومی‘ اردو ترجمہ پہلے بار منظر عام پر آیا تو علمی وا بی حلقوں میں حل چل مچ گئی، کہاں بائیں بازو اور اشتراکی ذہن رکھنے والی شاعرہ اور کہا جلا الدین رومی ۔اس کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر نعمان الحق نے تحریر کیا ہے۔ وہ اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ ’ پہلا ایڈیشن چھپا تو بزرگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ آخرآج کل اس شاعرہ کو اچانک رومی سے کیسے شغف پیدا ہوگیا؟ کہاں بگڑی اور داڑھی والے مولانا رومی ‘ ایک صوفی صافی شیخ، فقیر، حافظِ قرآن ، مدرسہ کے استاد ، جن کے اشعار میں جگہ جگہ قرآنی آیات ، احادیث، روایتی عربی ،ابیات ، قصہ ہائے پارینہ، اصطلاحات تصوف ان سب کی کثرت سے گونا گونی ہے اور کہا فہمیدہ ریاض کہ جن کا رشتہ اشتراکی کوچہ گردوں سے رہا۔ وہ بائیں بازوں والی مارکسی شاعرہ جن کے ہاں روایت سے ایک بے قرار سرکشی ہے۔ جن کے ہاں بدن، بلکہ عورت کا بدن، حجاب سے نکل کر موضوع سخن ہوگیا ہے۔ وہ موضوع ِ سخن جس میں ایک جسارت انگرنیارومانی بھی ہے۔عالم فطرت کے حیاتیاتی کی عمل بھی ہیں، تولید بھی ہے، تسکین بھی ہے، پہچان بھی ہے اور نسوانی بدن کے خم و پیچ اور نشیب و فراز بھی ہیں! لوگ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا؟ کہا رومی کہا فہمیدہ؟ اور پھر اس سوال کا جواب یہ دیا گیا کہ ہر خانۂ آب و گل والی فہمیدہ کوئی اور ہی فہمیدہ ہیں، یہ پچھلی والی شاعرہ کا نیا جنم ہے، بدن دریدہ والی فہمیدہ عدم نابود ہوئیں اور ایک نئی فہمیدہ پیدا ہوئیں، مسئلہ تناسخ سے حل ہوگیا‘۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بسا اوقات انسان اندر سے کچھ ہوتا ہے ، حالات اور ظاہری تعلقات اور کیفیات اسے کچھ اور بنا کر پیش کردیتے ہیں۔ فیض احمد فیضؔترقی پسند مصنفین کی تحریک اور مارکسی فلسفہ حیات کے علم بردار تھے انہیں ۱۹۶۳ء میں لینن انعام سے نوازا گیا، یہ عالمی ایوارڈ وصو ل کرنے کی تقریب میں فیضؔ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاــ’’ امن کی جدوجہد اور آزادی کی جدوجہد کی سرحدیں آپس میں مِل جاتی ہیں‘ اس لیے امن کے دوست اور دشمن اور آزادی کے دوست اور دشمن ایک ہی قبیلے کے لوگ‘ ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں‘‘۔فیض صاحب نے اپنے خیالات زبردستی کسی پر تھوپنے کی کبھی کوشش نہیں کی، ایک زمانے میں آپ نے جلا وطنی کی زندگی بھی گزاری،ایک دور ایسا بھی تھاکہ لوگ فیضؔ کے اشعار بر ملا بڑھتے ہوئے ڈرا کرتے تھے اور پھر یہ دور بھی آیا کہ مشاعروں، ریڈیواور ٹیلی ویژن پر فیضؔ ہی فیضؔ ہوا کرتے تھے، متعدد گلوکاروں کو فیض کا کلا م گانے سے ہی شہرت ملی۔ فیضؔ ایک سیدھے سادھے مسلمان تھے، افتخار عارف نے ایک انٹر ویو میں فیضؔ سے پوچھا آپ جب پیچھے مڑکر اپنی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں تو کوئی پچھتاوا تو نہیں ہوتا؟’’ فیض صاحب نے بغیر کسی تامل کے یہ بات کہی کہ زندگی میں دو پچھتاوے ہیں۔ ایک تو یہ کہ میں قرآن حفظ کرنا چاہتا تھا مگر چار پانچ پاروں کے حفظ کے بعد میں نے یہ سلسلہ منقطع کردیا۔ مجھے ساری عمر اس کا ملال رہا۔دوسرا یہ کہ میں کرکٹر بننا چاہتا تھا اور نہیں بن سکا‘‘۔یہ بات تو اکثر لوگ جانتے ہیں کہ فیض صاحب عربی جانتے تھے اور انہوں نے عربی میں بھی ایم اے کیا ہوا تھا لیکن یہ بات کہ وہ قرآن مجید حفظ کرنا چاہتے تھے اور یہ کہ چند پارے حفظ بھی کر چکے تھے بہت کم لوگ اس سے آگاہ ہوں گے۔آپ کی اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اندر کا فیضؔ کیسا تھا۔ یہ بات آغاناصر نے اپنے مضمون ’فیض کی چند باتیں‘ جو اخبار اردو کی جلد ۲۸ شمارہ ۲، ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں نقل کی ہے۔اسی طرح فہمیدہ کے اشتراکی نظر
؂یا ت، شاعری میں بعض موضوعات کا آزادانہ اظہار اپنی جگہ لیکن مذہبی عقیدت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔

امداد حسینی بنیادی طور پر سندھی کے شاعر اور ادیب ہیں۔ افسانہ نگاری، مضمون نویسی ، کالم نگاری کے علاوہ انہوں نے مختصر کہانیاں اور گیت بھی لکھے ۔ان کے گیت معروف گلوکاروں عابدہ پروین، بلقیس خانم، ارشد محمود، روبینہ قریشی، ذرینہ بلوچ نے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر گائے۔ پیشہ کے اعتبار سے استاد ہیں۔ سندھی ادبی بورڈ، سندھ ٹیکس بک بورڈ، انسٹی ٹیوٹ آف سندھا لوجی میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ سندھی لینگویچ اتھارٹی کی گورننگ باڈی کے رکن ہیں، انجمن ترقی اردو کی مجلس مشاورت کے رکن بھی ہیں۔ سندھی رسالے ’مہران‘ کے مدیر رہے۔ انہوں نے مرزا خلیج بیگ کے معروف ناول ’ذینت‘ کا اردو ترجمہ بھی کیا ۔ ان پہلا سندھی زبان کا مجموعہ ’امداد آ ھے رول (امداد آوارہ ہے ) تھا جو بہت مقبول ہوا،’ شہر ‘ حیدر آباد کے حوالے سے طویل ان کی نظم پر مشتمل تھا، دو دو چنیسر، سندھ جے دینی ادب جو کیٹلاگ،ھوا جیِ سامھون (ہوا کے سامنے )، جب کہ اردو زبان کا مجموعہ کلام ’دھوپ کرن‘ جس پر اکادمی ادبیات نے انہیں ایوارڈ سے نوازا شامل ہیں۔

امداد حسینی کی کتاب ’دھوپ کرن‘ جس پر اکادمی ادبیات کی جانب سے ایوارڈ سے نوازا گیا کے بارے میں پروفیسر انوار احمد زئی نے خوبصور ت تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’امداد حسینی! تم نے اپنی مختصر کتاب میں زمانے بھر کے دکھ اور درد، کرب اور تکلیف، ہنسی اور قہقہے ، گلے اور شکوے، امید وپیہم، خواب اور تعبیر یں، سب کچھ جمع کردی ہیں کہ اس سے گزر تے ہوئے کبھی میرؔیاد آئے کبھی شاہ لطیف، کبھی سچل، کبھی بلھے شاہ، کبھی فرید، کبھی بابا رحمان ، کبھی شاہ کریم ، کبھی گل خان نصیر۔ تمہاری مرلی کی دھن پر کتنے گیت خود بخود اترتے رہے اور قطرہ قطرہ رات گزرتی رہی‘۔ پروفیسر انوار احمد زئی کے خیالات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ امداد حسینی کا یہ مجموعہ ادب کی مختلف اصفاف پر مشتمل ہے۔ جس میں خوشی و غمی، دکھ اور سکھ سب ہی کچھ تو ہے۔ اکادمی ادبیات کی جان سے امداد حسینی کے اس مجموعے کو ایوارڈ دینے کا فیصلہ درست ہے۔ یہ مجموعہ بجا طور پر ایوارڈ کا حق دار تھا۔

سندھ کی یہ دونوں شخصیات 16 جنوری کی صبح انجمن ترقی اردو میں شاعروں اور ادیبوں کے درمیان جلوہ افروز تھیں۔ چھوٹا ہال نما کمرہ دونوں مہمانوں کو دیکھنے اور سننے والوں سے بھر چکا تھا۔ لیٹ پہنچنے کی سزا یہ ملی کہ پیچھے بہ مشکل تمام سیٹ مل سکی۔ انجمن کے زیر اہتمام ہر ہفتہ کو ئی نہ کوئی ادبی دنیا سے تعلق رکھنے والا مہمان مدعو ہوتا ہے۔ لیکن آج کی تقریب اس اعتبار سے منفرد تھی کہ آج جو شخصیات مہمان تھیں ان دونوں کا تعلق سندھ کی سرزمین سے تھا۔شاعر و ادیب اپنے مہمانوں کا نام سن کر کھچے چلے آئے تھے۔ یہ بات تو سچ ہے کہ جب سے ڈاکٹر فاطمہ حسن انجمن کی معتمد ِ اعزازی کے مسند پر براجمان ہوئی ہیں انجمن میں گویا ماضی کی یادیں تازہ ہوگئی ہیں۔عالیؔ جی مرحوم نے بے شمار اچھے کام کیے لیکن ان میں ایک اچھا کام انجمن کے لیے ڈاکٹر فاطمہ حسن کا بطور معتمد انتخاب ہے۔ پرور دگار انہیں اس کا بھی صلہ عطا فرمائے۔ ہر ہفتہ کی صبح ادبی محفل سجی ہوتی ہے۔ گویا نئی معتمد نے انجمن میں بہار کا سما پید ا کردیا ہے۔

انجمن کی معتمد ڈاکٹر فاطمہ حسن نے دونوں مہمانوں کا مختصر تعارف کرایا، اکادمی ادبیات کی جانب سے دیے جانے والے ایوارڈ پر فہمیدہ ریاض اور امداد حسینی کو مبارک باد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ فہمیدہ ریاض ہمارے ملک کی معروف شاعرہ ہیں وہ شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ نثر بھی بہت اچھا لکھتی ہیں ، ان کا مشاہدہ بہت گہرا ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا بے باکی سے کہا اور بہت خوب کہا۔ امداد حسینی سندھی زبان کے شاعر جو اردو میں بھی شاعری کرتے ہیں کے بارے میں ڈاکٹر فاطمہ حسن کا کہنا تھا کہ امداد حسینی جنہیں میں امداد بھائی ہی کہتی ہوں بہت بڑے شاعر ہیں یہ ایوارڈ انہیں بہت پہلے مل جانا چاہیے تھا لیکن دیر آید درست آید۔ آج ہم ان دونوں مہمانوں کو سنیں گے۔ معروف ڈرامہ نویس نور الہدیٰ شاہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امداد حسینی جدید شاعری کے قدآور شاعر اور سندھی زبان کے بڑے نقاد ہیں۔ فہمیدہ ریاض نے اپنی جڑیں زمین میں اور زمین سے جڑیں لوگوں سے اپنا رشتہ جوڑ اہے۔عورت پوری سوچتی ہے تو آدھا لکھتی ہے جب کہ مرد آدھا سوچتا ہے اور پورا لکھتا ہے۔ فہمیدہ نے پورا سوچا اور بلا جھجک پورا ہی لکھا۔فہمیدہ ریاض کے بارے میں ڈاکٹر آصف فرخی کا کہناتھا کہ فہمیدہ نے جدید اردو شاعری میں ایک توانا لہجہ دریافت کیا ہے شاعری کے علاوہ وہ ایک سنجیدہ افسانہ نگار کے طور پر بھی سامنے آئی ہیں۔ مہ ناز رحمٰن نے کہا کہ فہمیدہ نے اپنی کتاب ’بدن دریدہ‘ میں عورت کی حیثیت سے بات کی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں یہ ممکن نہیں کہ ایک عورت بھی یہ باتیں کرسکتی۔

فہمیدہ ریاض نے حاضرین سے اپنے خطاب میں زیادہ باتیں امداد حسینی کے حوالے سے کیں ، بعد میں اپنا کلام بھی سنایا۔ امداد حسینی کے بارے میں فہمیدہ کا کہنا تھاکہ وہ محبت کی شاعری لکھتے ہیں ان کی شاعری پڑھتی آئی ہوں۔ ان سے میری محبت بڑی پرانی ہے انہوں نے مضامین بھی لکھے ۔انہوں نے ماڈرن شاعر ی کا راستہ اختیار کیا ، انہوں نے سندھی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شاعری کی ۔وہ من موجی اپنی دھن میں رہنے والے شاعر ہیں۔
فہمدہ ریاض کے چند اشعار ؂
کبھی دھنک سے اترتی تھی ان اداؤں میں
وہ شوخ رنگ بھی دھیمے پڑے ہواؤں میں
جب نیند بھری ہو آنکھوں میں ، جب رات گئے بیلا مہکے
اور چار طرف ہو سناٹا ، چپ چاپ گہرہو تے ہوں لمحے
ایسے میں ہوا کا جھونکا بھی، پتوں میں جو آہٹ کرتا ہے
مجھے تو گماں یہ ہوتا ہے جیسے وہ ہنسا آہستہ سے
آدھی سوئی ، آدھی جاگی ، پھر میں چبکے سے ہنستی ہوں
پھر میں چپکے سے ہنستی ہوں، دھیرے دھیرے سوجاتی ہوں

امداد حسینی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی شاعری اور نثر کے بارے میں تفصیل سے بات کی ۔ انہوں نے اپنا اردو اور سندھی کلام بھی سنایا۔ اپنی معروف نظم ’سندھ ایسا تو نہیں تھا‘ اور’ کمرے کی دیواریں پانچ ‘۔ امداد حسینی کی ایک نظم ’پاگل ہوا بھی ساتھ میں ہے‘ کے چند اشعار ؂
دن کی کس کو تلاش رات میں ہے
چاند کی لالٹین ہاتھ میں ہے
کہیں باہر سے وہ نہیں آتی
موت جو کچھ بھی ہے حیات میں ہے
تجھ سے مل کر مجھے لگا ایسا
خود سے ملنا بھی ممکنات میں ہے

صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ فہمیدہ ریاض کی شاعری میں نئے مضامین ملتے ہیں، انہوں نے بڑے حوصلے سے اپنے آدرس کو قائم رکھا ہے۔ یہ ایوارڈ اہمیت کے حامل ہیں۔ فہمیدہ نے سیاسی اور سماجی اور احتجاجی شاعری کی اور بڑے حوصلے اور عملی طور پر اپنے آدرش کو قائم رکھا ۔جب کہ ان سے قبل خواتین کے مسائل کے بارے میں مرد لکھتے تھے لیکن فہمیدہ ریاض نے خواتین کی شاعری لکھتی ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری نے امداد حسینی کی علمی ادبی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ تقریب کے اختتام پر صدر انجمن ترقی اردو راجو جمیل نے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437370 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More