ڈاکٹراحمدحسین قریشی ایک نابغہ روزگارشخصیت
(Muhammad Amjad, Rawalpindi)
گجرات کا خطہ اس لحاظ سے انتہائی زرخیز
ثابت ہوا ہے کہ یہاں علم و ادب کے ایسے پھول کھلے کہ جن کی خوشبوسے وطن
عزیزکی فضائیں معطر ہیں ۔ انہی میں سے ایک نام ڈاکٹر احمدحسین قریشی
قلعداری کا بھی ہے جنہوں نے اپنی بے پناہ علمی، تحقیقی و تدریسی صلاحیتوں
کی بدولت علم کی ایسی قوس قزح بکھیری کہ جس کا ہر رنگ ایک منفرد اسلوب لئے
ہوئے ہے۔ ڈاکٹرقریشی اسی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں جو انیسویں صدی سے
گجرات میں علم کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ان کا علمی ذوق اسی گھرانے میں
پروان چڑھا اور ایک بہت اونچے مقام تک پہنچا۔تحصیل علم کے سلسلے میں گجرات
ہی میں ابتدائی تعلیم کے بعد گریجوایشن مکمل کی اور تدریس کو اپنا کیرئیر
بنایا۔اس شعبے میں آ کر انہوں نے محسوس کیاکہ ان کے لئے اپنی تعلیمی
استعداد میں مزید اضافہ کرنا بہت ضروری ہے۔اپنی اس تشفی کے لئے انہوں شبانہ
روز محنت کی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ان کا شخصی رنگ اسی تک محدود نہیں
بلکہ ان کی ایک اور پہچان ان کی پنجابی اردو، فارسی شاعری ہے ۔ اس میدان
میں انہوں نے کئی دیوان مکمل کئے اور نام پیدا کیا۔ ان کی ان تمام ادبی
کاوشوں میں سب سے اہم اور ممتاز کام قرآن پاک کا دو جلدوں میں منظوم ترجمہ
ہے۔ قرآن پاک کامنظوم ترجمہ کسی ہمہ شما کے بس کی بات نہیں۔یہ تلوار کی
دھار پر چلنے والا کام ہے لیکن انہوں نے یہ کام اپنے شوق و ذوق کی وجہ سے
کر دکھایا۔
ڈاکٹر قریشی صاحب کا تدریسی کیرئیران کے علمی ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ
چلتارہا۔ علم کی روشنی کو انہوں نے اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ آنے
والی کئی نسلوں تک پھیلا دیا۔ کوئی کہہ نہیں سکتاتھا کہ گجرات کے ایک چھوٹے
سے گاؤں ، قلعدار سے نکلا ہوا یہ سپوت وقت کے ساتھ ساتھ ایک ہمہ جہت خوبیوں
والی شخصیت بن جائے گا۔ ڈاکٹر احمد حسین قریشی نے شاعری کے مجموعے کے علاوہ
درجنوں تحقیقی کتابیں بھی لکھیں اورمختلف کتب کی تدوین کا کام بھی عرق ریزی
کے ساتھ کیا۔ ان کی شاعری کی کتابوں میں علامہ اقبال کی کتب کا منظوم ترجمہ
اس کے علاوہ فارسی کے قدیم شعراء کے کلام کو اردو کا لباس بھی بڑی خوبی سے
پہنایا۔ احمد حسین قریشی کا ذوق تحقیق ہمہ جہتی ہے قدیم و کمیاب نسخوں کی
تلاش ان کی خطاطی اور ترتیب و تدوین نو کے علاوہ پر خامہ فرسا ئی ان کے
تحقیقی مشاغل میں شامل ہے۔ اقبالیات کا مو ضوع بھی ان کی توجہ کا مرکز رہا
ہے۔ ڈاکٹر احمد حسین قریشی اس لحاظ سے اتہائی خوش قسمت ہیں کہ ان کے بزرگوں
کے علمی شوق کی بدولت انہیں نہ صرف تحریک و رہنمائی ملی بلکہ کتابوں کا ایک
بڑا ذخیرہ بھی مل گیا ۔ جن میں زیادہ قلمی اور نادرونایاب کتب شامل ہیں ۔
اور بعض کتابوں اور مخطوطات کا صرف ایک ہی نسخہ موجود ہے جوان کے پاس محفوظ
ہے ۔ علمائے قلعدار یعنی احمد حسین قریشی کے اسلاف کا علمی ذو ق چونکہ عربی
و فارسی پر محیط تھا چنانچہ یہی ذوق ان میں بھی منتقل ہو گیا اور انھوں نے
متعدد فارسی گو شعراء کے دو اوپن نہ صرف دریافت کیے بلکہ ان کو مرتب بھی
کیا جن میں دیوان تاثیر ، دیوان راحت وزیر آبادی شامل ہیں اس کے بعد ان کی
تحقیق کا رخ حضرت علامہ اقبال کی شاعری کی طرف ہوا ۔ انھوں نے بڑی محنت سے
تمام غیر مطبوعہ کلام اکٹھا کیا تو وہ ایک ضخیم مجموعہ تیا ر ہوگیا ۔ بعض
وجوہ کی بنا پر وہ یہ کلام شائع تو نہ کر واسکے لیکن ان کی اس تحیقق سے
دوسرے لوگوں کو بھی یہ کام کرنے کا شوق دامن گیر ہوا۔ چنانچہ اس کے بعد اس
بارے میں کافی کام ہوا۔ اس بارے میں احمد حسین قریشی نے خود بتایا کہ
باقیات اقبال رخت سفر اور دیگر سب مجموعے میرے مجموعہ کے بعد تیار ہوئے
مولانا غلام رسول مہر بھی ایک مجموعہ انکو دکھا یا تو انھوں نے میر ے
مجموعہ سے کافی کلام اخذ کرلیا ۔ اس طرح ان کے ان کے کیے ہوئے کام سے دوسرے
لوگوں نے فائد ہ اٹھایا اور ان کا جمع کیا ہوا کلام دوسروں کے مجموعوں میں
شامل ہوگیا ۔ اور ان کا مجموعہ شائع نہ ہوسکا،لیکن اب بھی چند ایک ایسی
مثنویاں ان کے مجموعوں میں شامل نہیں ہوئیں ۔ اس کے علاوہ اس دور میں لوگو
ں نے اپنے دوہیرو ز علامہ اقبال اور قائد اعظم کی مدح میں کافی شاعری
کی،قریشی صاحب نے ایسی تمام شاعری اکٹھی کی اور دو ضخیم مجموعے یاد اقبال
اوریاد جناح، مرتب کیے۔ لیکن یہ دونوں مجموعے بھی شائع نہ ہو سکے۔یہ آج بھی
ان کے پاس غیر مطبوعہ صورت میں محفوظ ہیں اس کے بعد انھوں اپنے علاقے گجرات
کے علماء کرام کے بارے میں تحقیق شروع کی اور ایک طویل مقالہ گجرات کی قدیم
دینی درسگاہ اور علماء کرام ، لکھا جو بارہ قسطوں میں ہفتہ وار ، غازی،
گجرات سے شائع ہوا۔ پھر اسی ہفتہ وار، غازی، میں ملا غنیمت کنجاہی پر ایک
مقالہ لکھا ۔
احمد حسین قریشی قلعداری کو پنجابی زبان و ادب سے بھی ایک لگاؤ رہا ہے۔ اس
سلسلے میں انہوں نے ڈاکٹر وحید قریشی کے ایماء پر پنجابی ادبی تذکریاں تے
ایک تنقیدی نظر، تحقیقی مقالہ پنجابی زبان میں لکھا جو پنجابی ادب ، لاہور
میں شائع ہوا اور کافی پسند کی گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر وحید قریشی کے ایماء
پر انھوں نے مقالہ پنجابی ادب کی تاریخ لکھا۔ اس دور میں پنجابی زبان کو وہ
وقعت نہ تھی جو آج ہے ۔ اس لیے کوئی پبلشر کو شائع کرنے پرراضی نہ ہوا آخر
کار ڈاکٹر وحید قریشی کی کوششوں سے مکتبہ میری لائبریری والے اس بات پر
شائع کرنے کے لیے تیار ہوئے کہ اس کتاب کا خلاصہ کر دیجیے چنانچہ اس کا
خلاصہ شائع ہوا۔ اس کے بعد مخطوطات شناسی کے بارے میں ایک کتاب ، تاریخ روش
کتاب سازی و کتاب نویسی ، لکھی اس بارے میں مزید بتاتے ہوئے انھوں نے کہا:
" دنیا جہان میں اس موضوع پر یہ میری پہلی کتاب ہے اور اس کا مسودہ
ایرانیوں کی تحویل میں ہے۔
احمد حسین قریشی قلعداری کی تحقیقی خدمات میں ایک اہم کام کاپی ایچ ڈی اردو
کا مقالہ ، عیارالشعر اء کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ہے۔ اس سلسلے میں موصوف
نے بہت محنت کی اور دن رات ایک کر کے فارسی اور اردو کے تمام تذکروں کا
نہایت عرق ریزی سے مطالعہ کرنے کے بعد ان کو یکجا کر دیا۔ اس مقالے میں
انہوں نے ان تمام تذکروں کے اختلافات پر بحث کی ہے۔ اور غلط واقعات کی
درستی فرمائی ہے یہ ضخیم مقالہ اردو تحقیق میں ایک اہم سنگ میل ہے اس کے
بعد بھی تحقیق کا سلسلہ جاری رہا اور احمد حسین قریشی اس راہ پر خار میں
دامن بچا کر آگے بڑھتے گئے اور عربی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی مکمل کر
لیا جس کا موضوع تھا۔ ، عربی ادبیات کی تعمیر علمائے لاہور کا حصہ ، یہ
مقالہ اردو میں لکھا گیا اور بعد ازاں اس کا انگریزی ترجمہ کیا گیا۔
وطن سے محبت ایک فطری امر ہوتا ہے احمد حسین قریشی کا وطن گجرات ہے اسی
محبت نے ان کو گجرات کی تاریخ لکھنے پر مجبو ر کیا اور چھ ضیخم جلدوں میں
انھوں نے ، تاریخ ضلع گجرات ، لکھی ہے۔ پہلاحصہ ضلع گجرات کی ابتداء تخلیق
سے لے کر آج تک کی تاریخ ہے۔ دوسرے حصہ میں ضلع گجرات کے نامور اہل علم
خاندانوں کا مفصل تذکرہ ہے۔ تیسرے حصہ میں ضلع گجرات کے نامور اہل علم
اشخاص کا تعارت ہے۔ چوتھے حصہ میں ضلع گجرات کے متفرق علمی و ادبی موضوعات
پر جامع مقالات ہیں۔ قلم و قرطاس سے مکمل وابستگی کے ساتھ ایک قومی جذبہ
بھی ان کی طبیعت کا حصہ تھا۔حضرت قائداعظم کی قیادت میں حصول پاکستان کی
تحریک چلی تو گجرات میں بھی مسلمانوں میں جوش و جذبہ بیدار ہوا ۔ ڈاکٹر
قریشی پیچھے نہ رہے بلکہ انہوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستان بننے کے
بعد برصغیر میں عموماً اور نوزائیدہ مملکت میں خصوصاً معاشرتی ، دینی اور
تعلیمی ماحول بہت متاثر ہوا، ڈاکٹر صاحب کو اس ہلچل کے نتائج کا بخوبی
اندازہ تھا تو انہوں نے اپنی تدریسی اور علمی کاوشیں دو چند کردیں جس کے
جذبہ آزادی کی بیداری کے سلسلے میں خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ بہرحال علم
و ادب کا اس لعل نے اپنی تمام تر روشنیوں، رعنائیوں، خیرہ کردینے والی
خوبیوں کے باوجود اپنی ذات کو عاجزی کے لبادے میں چھپائے رکھنے کی کوشش کی۔
تاہم یونیورسٹی آف گجرات کے اردو ادبیات کے استادمحمد ابوبکر فاروقی خراج
تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے جناب ڈاکٹر احمد حسین قریشی قلعداری کی
ادبی خدمات پر ایک جامع کتاب مرتب کی ہے جس میں ان کی تمام علمی ، تحقیقی،
ادبی و تدریسی خدمات کو اجاگرکرکے ان کے مداحوں اور طلباء کی علمی و ادبی
تشفی کی ہے۔ یقینا یہ کتاب پڑھتے ہوئے ایک قاری ڈاکٹر احمد حسین قریشی
قلعداری کے مختلف پہلوؤں سے روشناس ہونے کے ساتھ ساتھ خود میں علمی و ادبی
تحریک محسوس کرے گا۔ |
|