اقتصادی راہداری اور سیاسی تنازعات

ملکی ترقی کے ضامن منصوبے چین پاکستان اقتصادی راہداری پر تنازعات کھڑے کرنے بجائے اس کو کامیاب بنانے کے لیے سیاست دانوں اور عوام پاکستان کو ذمہ دارانہ رویہ اپنانا ہو گا۔
کچھ لوگ بچھا کر کانٹوں کو گلشن کی توقع رکھتے ہیں
شعلوں کو ہوائیں دے دے کر ساون کی توقع رکھتے ہیں
دنیامیں اس وقت تحفظ اور سالمیت کی جنگ جاری ہے۔ ملک اور معاشرے اپنے اپنے مفادات اور سا لمیت کے لیے متحد ہور ہے ہیں۔دنیامیں صف بندیاں ہورہی ہیں ۔ہرآنے والے دن کے پردے سے کچھ انوکھے اسرار اقوام عالم کے سامنے وقوع پذیر ہوتے نظرآرہے ہیں۔ دنیاکی قومیں اپنی بقاء کی خاطرباہم متحدہورہی ہیں۔مگر وطن عزیزپاکستان میں الٹی ہی گنگابہتی ہے ۔ملک وملت کے مفادات سے نابلد سیاستدان ہروقت قومی مسائل پر اپنا کاروبارچمکاتے نظرآتے ہیں۔ان لوگوں کووطن سے زیادہ اپنے غیرملکی بینک اکاؤنٹ بھرنے کی فکر کھائے جارہی ہوتی ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے یہ کے نمائندگان ،قوم کی حقیقی نمائندگی کرنے کی بجائے ملک دشمن قوتوں کے نمائندوں کی صورت میں ہمارے سامنے ملک کے لیے بننے والے منصوبوں کو مسترد کرنے اور ان کے راستوں میں رکاوٹ کھڑی کرتے نظرآتے ہیں۔

ماضی میں انہی سیاستدانوں کی مذموم رکاوٹوں کی نذر ہونے والا کالاباغ ڈیم کامنصوبہ ہمارے سامنے ہے۔ اس ڈیم کی ہمارے ملک کے لیے ضرورت واہمیت اور افادیت سے کوئی پاکستانی بھی انکاری نہیں ہے مگر اسی ملک کے سیاستدانوں کے یہ بیان بھی منظرعام پرہیں کہ’’ہماری لاشوں پرسے گزر کر ہی کالاباغ ڈیم بنے گا۔‘‘ بعینہٖ یہی باتیں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے، پاک چین اقتصادی راہداری کے متعلق سننے کومل رہی ہیں کہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو ہم اس منصوبہ کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیں گے۔

یہ سیاستدان پنجاب کی اس پھوپھی کاسا کردار ادا کر رہے ہیں جو اپنے بھتیجے کے نکاح کے موقع پر آن موجودہوتی ہے اورایسا ’’کھڑاک‘‘ کرتی ہے کہ سبھی لوگ شادی کو بھول کر اس کو منانے اور راضی کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔کچھ یہی حال ہمارے ملک کے قائدین کاہے کہ خود توعوام کے لیے کچھ کرتے نہیں مگر جب اسی ملک کی قسمت سدھارنے کے لیے کوئی اچھامنصوبہ مل جائے تو اس پر وہ اعتراضات اٹھاتے ہیں اور رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں کہ وہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔

پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت اوراس کی پاکستان کے لیے افادیت پر گزشتہ شماروں میں بہت کچھ لکھا جاچکاہے۔ ہم اس منصوبے کی اہمیت پربات کرنے کی بجائے پاکستان کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے اس رویے کو موضوع بحث لانا چاہتے ہیں کہ جن کی وجہ سے اس طرح کے کئی منصوبے اس بازاری سیاست کی بھینٹ چڑھ کر کھٹائی میں جاپڑے ہیں او رملک بجائے ترقی کی منازل طے کرنے کے، اقوام عالم میں جگ ہنسائی کی مثال بن کر رہ جاتاہے۔

پاکستانی سیاست کی موجودہ صورتحال اوراقتصادی راہداری پرہر سیاسی جماعت کی علیحدہ علیحدہ ڈگڈگی دیکھ کر خطرہ محسوس ہوتاہے کہ کہیں آپس کی ناچاکیوں ،خاندانی جھگڑوں اورقومی معاملات پرذاتی مفادات کی سیاست میں الجھ کرکہیں ہم سقوط ڈھاکہ جیساکوئی بڑا نقصان نہ کر بیٹھیں۔ ہمیں کچھ باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلی بات تویہ کہ اس اقتصادی راہداری کی سب سے زیادہ تکلیف توبھارت اور امریکہ کوہے۔ بھارت اعلانیہ طورپر اس منصوبے کے خلاف زبان درازیاں کررہاہے۔ صرف زبانی جمع خرچ ہی نہیں بلکہ اس منصوبے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور اس کو ناکام بنانے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسی میں ایک سپیشل سیل قائم کیا ہے۔ ایک اخباری تخمینے کے مطابق 60کروڑ ڈالرکی رقم بھی اس مذموم مقصد کے لیے مختص کی ہوئی ہے۔

اس سپیشل ڈیسک کادفتر نئی دہلی کے لودھی روڈ پر قائم کیاگیاہے اور اس کاچیف راجندرکھنہ اس کی نگرانی کر رہاہے اور وہ اس کی براہ راست رپورٹ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کوکرتاہے اور اسی سے ہدایات لیتاہے۔
قارئین کی معلومات کے لیے یہ بھی بتاتے چلیں کہ پچھلے سال کراچی میں وقوع پذیر ہونے والا سانحہ صفورا بھی اسی سازش کی ایک کڑی تھی۔ اس سازش میں ان مخصوص لوگوں کو نشانہ بنایاگیا جوپاکستان چین کی سرحد کے قریب رہائش پذیر ہیں تاکہ وہ احتجاج میں آکر راہداری میں رکاوٹ کھڑی کریں،مگریہ بھارتی سازش ناکام ہوئی۔

پاکستان میں اس اقتصادی راہداری کی مخالفت کرنے والوں اوراپنے چندمطالبات پورے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے راستے میں روڑے اٹکانے والوں کو سمجھ جانا چاہیے کہ کہیں وہ انجانے میں دشمن کے مذموم ایجنڈے کو ہی پایہ تکمیل تک تونہیں پہنچا رہے۔

جن خدشات کو بنیاد بناکر اس شاندار منصوبے کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے ان میں سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اس کاسب سے زیادہ فائدہ پنجاب کو ہو گا اور چھوٹے صوبوں کی محرومی بڑھ جائے گی۔علاقائیت کے بیج بو کر لوگوں کو اپناہمنوا بنایا جارہاہے۔حالانکہ یہ خدشہ ایک الزام سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے کیونکہ اس منصوبے کے لیے مختص ہونے والی46 ارب ڈالر میں سے36فیصد (12.33 ارب ڈالر) سندھ،26فیصد(9ارب ڈالر) پنجاب، 22فیصد(7 ارب ڈالر) بلوچستان،11فیصد (3.8 ارب ڈالر) آزاد کشمیراور گلگت بلتستان اور 5فیصد (1.8 ارب ڈالر)خیبر پختونخواہ کے لیے منظور ہوئے ہیں۔

گلگت بلتستان میں 11917میگاواٹ، سندھ میں 10250 میگاواٹ، خیبرپختونخواہ میں 9460 میگاواٹ ،بلوچستان میں 5360میگاواٹ، پنجاب میں 5020 میگاواٹ اور آزادکشمیر میں4029میگاواٹ توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔ان حقائق کو مدنظر رکھیں تو یہ ظاہرہوتا ہے کہ تمام صوبوں کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے۔
دوسرااہم اوربڑااعتراض جو اس منصوبے پر اٹھایا جارہاہے ۔وہ اس کے مختلف روٹ اوران کی تعمیر سے متعلق ہے۔ بنیادی طورپر اقتصادی راہداری کے دو روٹ منظور ہوئے ہیں ،جن میں ایک مشرقی روٹ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ کاشغر،خنجراب،گلگت، رائے کوٹ،سازیں، تھاکوٹ، مانسہرہ،ایبٹ آباد،حویلیاں، ہری پور،برہان، موٹروے2، فیصل آباد،خانیوال،ملتان،سکھر،رنوڈیرو،خضدار، پنجگور، ہوشاب سے گوادر تک جائے گا۔
جبکہ دوسرا مغربی روٹ ہے جو برہان سے آگے میانوالی،ڈیرہ اسماعیل خان ،دریاخان تک اور اس سے آگے اس کے دو روٹ ہیں جن میں پہلا دریاخاں سے ڈی جی خان، ڈیرہ اللہ یار،شہداد کوٹ، خضدار، رانگو، بسیمہ، پنجگور، ہوشاب سے گوادر تک جائے گاجبکہ مغربی روٹ کادوسرا حصہ ڈی آئی خان سے ژوب،قلعہ سیف اللہ، کوئٹہ، سوراب، بسیمہ،ناگ،پنجگور ،ہوشاب سے گوادر تک جائے گا۔ان روٹس اوران کی تعمیر کے حوالے سے یہ اعتراض اٹھایاجارہاہے کہ 28مئی2014ء میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان نے وعدہ کیاتھاکہ سب سے پہلے ہنگامی بنیادوں پر مغربی روٹ کو تعمیر کیا جائے گا مگراب مغربی سڑک کوچھوڑ کر مشرقی روٹ کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔اس اعتراض کی حقیقت میں بھی پہلا نکتہ یہ ہے کہ مشرقی سڑک کا بیشترحصہ پہلے سے ہی مکمل ہے اور باقی ماندہ بھی زیرتعمیر ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ روٹس کے اطراف میں توانائی کے منصوبے اور صنعتی زون قائم کرنے کے منصوبے ہیں اور 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درحقیقت کوئی امدادی فنڈ نہیں بلکہ یہ توانائی کے منصوبوں ،صنعتی زونز کے قیام اور 11بلین ڈالرذرائع مواصلات کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری ہوگی۔

سب سے زیادہ سرمایہ کاری توانائی کے شعبے میں کی جائے گی جس کے مطابق 30بلین ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں اور2018ء تک 10400 میگاواٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی۔920ملین ڈالر قراقرم ہائی وے کے دوسرے فیزپر خرچ کیے جائیں گے۔44ملین ڈالر 300کلومیٹر ڈبل کرا س فائبر پراجیکٹ پرخرچ کیے جا رہے ہیں۔12000 سکیورٹی اہلکارمنصوبے کے تحفظ کے لیے تعین کیے جائیں گے۔ اس وقت 8100 پاکستانی سکیورٹی اہلکارچینی انجینئرز اوراس منصوبے کی حفاظت کر رہے ہیں۔

اسی طرح اس راہداری منصوبے کے بڑے منصوبوں میں کراچی تاپشاور میں لائن کی توسیع گوادر تا خنجراب ریلوے کی تعمیر،کراچی تالاہور موٹروے کی تعمیر،ہزارہ موٹروے،گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ، ایران پاکستان گیس پائپ لائن، ویلیاں ڈرائی پورٹ، مشترکہ بائیوٹک لیبارٹری، گوادر این ایل جی ٹرمینل اوراسی طرح پاکستان کے طول وعرض میں چلنے والے توانائی کے منصوبے ہیں۔

اس منصوبے کے لیے 46 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کی مختصرسی تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم معاملے کی پیچیدگی کوسمجھ سکیں۔ اس سے ان لوگوں کے بھی ذہن صاف ہوجاتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ شاید یہ46ارب ڈالر امداد ملے گی اور حکمرانوں کی جیبوں اور اکاؤنٹس میں منتقل ہوجائے گی۔ایسانہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ کاری ہے جو ہم نے بتادیاکہ کہاں اور کتنی ہو گی۔

اب رہی بات مغربی روٹ کی تعمیر کی تویقیناًحکمرانوں کو اپنے کیے ہوئے وعدے پورے کرنے چاہئیں اور اپنے کہنے کے مطابق مغربی روٹ کو ہنگامی بنیادوں پر تعمیر بھی کرواناچاہیے۔ دوسرامغربی روٹ کی تعمیر اور اس کو فعال کرنے کاشور مچانے والوں اوراس پرکانفرنسیں اور سیمینار منعقد کرواکر اس منصوبے کو سرے سے ہی ختم کرنے کی باتیں کرنے والوں کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ صرف سڑک بن جانے سے مغربی روٹ فعال نہیں ہو جائے گا ۔صنعتی زونز کی تکمیل ہوگی اور اس کے لیے ٹرانسمیشن لائنوں کی تنصیب ہوگی ۔کالونیوں کی تعمیر پر وقت او رسرمایہ صرف ہوں گے۔ تب یہ روٹ چالو ہو گا اور یہ سارے کام سیاست کی خوش گپیوں میں چند دنوں میں پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچیں گے،بلکہ ان کے لیے سالوں کی مدت درکار ہوگی ۔

دریں اثناء سڑکوں کے اطراف میں توانائی کے منصوبے اور صنعتی زونز کاقیام صوبوں کی اپنی صوابدید پر ہے۔دوسری طرف مشرقی روٹ پر صنعتی زونوں کے قیام اور توانائی کے منصوبوں پربہت سارا کام ہوچکاہے جبکہ مغربی سڑک کااکثرعلاقہ ویران اور بے آب وگیاہ ہے جس کو آباد کرنے میں خاصا عرصہ درکار ہے۔ اس لیے ان سیاستدانوں کو مشرقی روٹ کی مخالفت کرنے کی بجائے مغربی سڑک پر منصوبوں کے قیام اور ان کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے درکار فنڈز کو مہیا کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

سڑکوں کی تعمیر کے حوالے سے ایک اور بات کی جاتی ہے اوراس کو بنیاد بناکر مسئلہ کھڑا کیاجارہاہے کہ میانوالی، لیہ، بھکر،ڈی جی خان جیسے کے علاقوں کی پسماندگی دورکی جائے۔ اس حوالے سے یہ ان علاقوں کے ممبران اسمبلی کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے اور حکومت کوبھی چاہیے کہ وہ ان علاقوں میں ترقی کے منصوبوں کو فروغ دے کران لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرے۔

ایک اوربہت بڑااعتراض اس منصوبے پراٹھایا جا رہاہے کہ گوادر پراجیکٹ اوراس اقتصادی راہداری میں گوادر کی مرکزی حیثیت اوروہاں پرشروع ہونے والے منصوبوں کے لیے پورے پاکستان سے لوگ مزدوروں، انجینئرزاورتاجروں کی صورت میں آکر وہاں آباد ہو جائیں گے تو بلوچستان کے عوام کاحق ماراجائے گا۔سامنے کی بات ہے کہ حقائق اس کے برعکس ہیں پر منصوبہ تمام ملک کوفائدہ پہنچائے گا۔ ہم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان کے لوگوں کی محرومیوں کو سامنے رکھ کر اس کا تناسب طے کرے۔

اسی طرح گوادر پراجیکٹ اوراس سے حاصل ہونے والی آمدنی کے مالکانہ حقوق بلوچستان کو ہی دینے کی باتیں بھی گردش کررہی ہیں۔اس قسم کے تاخیری مطالبے کرنے والے اوران پرملکی مفادات اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھانے والے سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ پہلی بات تویہ کہ گوادر تاریخی طورپر بلوچستان کاحصہ نہیں ہے۔ 1951ء میں حکومت پاکستان نے اس کو مسقط سے خریدکربلوچستان کا ’’انتظامی حصہ‘‘ بنایا تھا اور دوسری بات کہ اگریہی معیار رکھناہے تومنگلا ڈیم سمیت سبھی بڑے بڑے پراجیکٹس کی بندربانٹ کی باتیں شروع ہوجائیں گی۔اس لیے خدارا اس قضیے کو مت چھیڑیں۔آپ بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کودور کرنے کی کوششیں اور مطالبہ کریں ،وہ جائزہے اور پوری پاکستانی قوم آپ کے ساتھ ہوگی مگراگر سبھی صوبے اس راہداری منصوبے اور دیگرمسائل پرصرف اپنااپناراگ الاپیں گے توملکی سا لمیت کو خطرات درپیش ہوناشروع ہوجائیں گے۔ اس لیے سبھی سیاسی جماعتیں اور صوبے ملکی مفادات کو اپنے ذاتی اورگروہی مفادات سے بالاتررکھیں ۔

دوسری طرف حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ چھوٹے صوبوں کے مسائل اوران کے حل کی طرف توجہ دے ،ان صوبوں میں بھی ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں کیونکہ صوبوں کی ترقی ملک کی ہی ترقی ہے۔

اسی طرح اقتصادی راہداری کے حوالے سے چند چھوٹے چھوٹے گروہی اختلافات اورغلط فہمیاں اور بھی ہیں،جن میں سے اکثرکی بنیاد کچھ بھی نہیں ہے مگر ان بہت چھوٹی چھوٹی بے بنیاد باتوں کو بڑامسئلہ بنایا جارہاہے اوران کی وجہ سے اس منصوبے کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے،ان سب گروہی اورسیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی سا لمیت اور وقار کی خاطر سبھی لوگ متفق ہوں اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پرگامزن کرنے میں اپنا کردار اداکریں۔

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ 15جنوری کو اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں غلط فہمیوں کو دور کرنے اور جائز مطالبات کو ماننے پرساری سیاسی جماعتیں متفق ہوئی ہیں اوراس بات کا اعادہ کیاہے کہ کالاباغ ڈیم کی طرح اس منصوبے کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھایاجائے گا اوراسی کانفرنس میں وزیراعظم کی سربراہی میں 11رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی اقتصادی راہداری کے جملہ امور کو نبٹائے گی اور اس پر پیش آنے والے اختلافات کو دور کرے گی۔اگراس طرح سبھی مل جل کر اور متفق و راضی ہوکر اپنی لسانیت ، صوبائیت اور گروہی سیاست سے نکل کر ملکی مفادات اور پاکستان کی بقا اور سا لمیت کے لیے کام کریں گے تو ہمارے بہت سے مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے اور پاکستان کا ایشین ٹائیگر بننے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔
Muhammad Abdullah
About the Author: Muhammad Abdullah Read More Articles by Muhammad Abdullah: 39 Articles with 38282 views Muslim, Pakistani, Student of International Relations, Speaker, Social Worker, First Aid Trainer, Ideological Soldier of Pakistan.. View More