صدر مملکت کے انصاف پر مبنی ملفوظات
(Muhammad Nadeem, Peshawar)
آج سے تقریباً پانچ سال قبل "مولانا اعزاز
علیؒ "کی ادب کے سلسلے میں ابتدائی تصنیف ”مفید الطالبین“ کے نام سے پڑھنے
کی سعادت حاصل ہوئی۔ جس میں بکھرے ہوئے موتیوں کو نصیحت آموز کلام کی شکل
میں پرویا گیا ہے۔ اُن نصائح میں سے ایک یہ بھی ہے "من سکت فقد نجی" جو
خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ اس وقت شاید کہ اس بات کی اہمیت محسوس نہ ہوئی
ہو لیکن آج یوں لگتا ہے کہ محترم مصنف نے حالات کو دیکھتے ہوئے اور معاشرے
کو محسوس کرتے ہوئے بڑے ہی تجربے کے بعد الفاظ کو قرطاس ابیض پر نقش کیا
ہوا ہے۔ مولانا موصوف نے کتنی ہی بڑی بات کہدی اس کا اندازہ صدر مملکت
محترم جناب الحاج ممنون حسین صاحب کی اپیل سننے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔صدر
مملکت وہ واحد شخصیت ہیں جو تھوڑے ہی عرصے میں زبان ضد عوام بنے، اپنے نام
کو عوام کی زبان تک لانے میں کامیاب ہوئے یہاں تک کہ عوام کی زبان پر تکیہ
کلام بن گیا۔ صدر صاحب کے مداحوں نے اُن کے بارے میں جو کچھ کہا شاید کہ
آج تک کسی مداح نے بھی اپنے آئیڈیل کےبارے میں کہا ہو۔ چاہنے والوں نے
صدر صاحب کی مدح میں اقوال زرین، لطیفے اور اشعار تک ایجاد کر لیے ہیں کبھی
سننے کو ملتا ہے ”باہر ہر کوئی راحیل شریف بنا پھرتا ہے لیکن گھر کے اندر
ممنون حسین ہوتا ہے“ کبھی یہ بات کانوں کو چھو جاتی ہے کہ شام ، فلسطین ،
بھارت میں مسلمانوں پر ظلم کی انتہاء دیکھو اور امت مسلمہ کا ہرفرد ممنون
حسین بنتا چلا جا رہا ہے، تو کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ "بہت خاموش ہوتا جا
رہا ہوں، منون حسین بنتا جا رہا ہوں "۔ صدر مملکت جب تک مذکورہ بالا نصیحت
آموز کلام پر عمل کرتے رہے، مسلسل نجات پاتا رہا لیکن ہو سکتا ہے کسی رکشے
، بس، ٹیکسی پر نظر پڑی ہو یا رات کو سوتے ہوئے کسی نے ٹیبل پر یہ شعر لکھ
دیا ہو
خاموش مزاجی تجھے جینے نہیں دے گی
اس دور میں رہنا ہے تو کہرام مچھا دو
شعر کو دیکھتے ہوئے صدر صاحب طیش میں آئے اور زبان سے جیسے آگ اُگلنے
لگی۔ جس نے صدر صاحب کی ساری قابلیت عوام پر آشکارہ کر دی ۔ صدر صاحب اگر
کچھ نہ بولتے تو بہتر ہی تھا ۔ واقعی کسی نے سچ کہا ہے "کلام الملوک ملوک
الکلام" ۔ صدر مملکت نے فلسفیانہ انداز میں کہا کہ جس نے سود نہیں لینا وہ
نہ لے اور جس نے لینا ہے اُن سے اللہ تعالیٰ خود پوچھ لیں گے اور صرف انہیں
باتوں پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ مزید کہا کہ علماءکرام سود کو جائز قرار
دینے کے بارے میں غور کریں۔
صدر صاحب کے خیال میں دین اسلام گویا کہ مولویوں کا بنایا ہوا ہے جو ان کی
پالیسیوں کی طرح جب چاہیں جیسے چاہیں ترمیم کر لیں۔ صدر صاحب کا اہل مدین
(شعیب علیہ السلام کے قوم) سے گہرا تعلق معلوم ہوتا ہے اور اگر یوں کہا
جائے کہ صدر صاحب کا شجرہ نسب عتبہ ، شیبہ یا ابو جہل جیسی شخصیات پر جا کر
ختم ہوتا ہے تو بجا ہو گا کیونکہ شعیب علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا
"اصلوتک تامرک ان نترک ما یعبد اباؤنا او ان نفعل فی اموالنا ما نشاء" ہم
تمہارے بتائے ہوئے ہدایات ، طرز اور طریقے کے مطابق اپنے مالوں کو خرچ نہیں
کریں گے اگر واقعی تمہارا دین تمہیں یہی سکھاتا ہے تو تمہیں اس بارے میں
سوچنا چاہیے۔ ضمیمہ کے طور پر مشرکین مکہ نے اس پر اضافہ بھی کیا۔ جب نبیﷺ
نے حق کی صدا بلند کی تو مشرکین مکہ نے کہا "فاتوا بقران غیر ھذا او بدلہ"
یہ جو تو ہم کو سناتا ہے یا اس کو بدل ڈال اس کی جگہ کوئی جدید وضع کردہ
نظام پڑھا کیونکہ یہ فرسودہ ہو چکا ہے اور اگر یہی پڑھانا ہے اور پر اس
بارے میں غور کر کے ہمارے مرضی کے مطابق کر دے۔ جو بات ساڈھے چودہ سو سال
قبل معاشرے کے لیے ناسور تھا، آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کسے ممکن ہو
سکتی ہے ۔ جب مساجد اور مدارس پر تنقید کی بحث چھڑ جاتی ہے تو ارباب اختیار
بوکھلا اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں، مدارس ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ صدر صاحب
اختیارات کی گدی پر آپ تشریف فرما ہو عروج اور زوال کی باگ دوڑ آپ کے
ہاتھ میں ہے اور الزام مدارس کے اوپر عائد کرتے ہیں یوں لگتا ہے زبان آپ
کی ہے اور بولی کسی اور کی بولی جا رہی ہے ۔جس کے ذریعے آپ مسلمانوں کا رخ
Indirectly روبہ زوال کی طرف موڑنا چاہتے ہو۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ مدارس
والوں کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے۔ چھوٹی منہ بڑی بات صدر صاحب آپ کو
دین کے کاموں میں تجویز دینے کی ضرورت نہیں ۔ بحیثیت مسلمان اور ایک ذمہ
دار شہری آپ کو یہ مشورہ دینے کا حق رکھتا ہوں، کیونکہ نہ تو آپ کا مرتبہ
حضرت عمرفاروق ؓ سے بڑا ہے اور نہ میں تنقید برائے اصلاح میں اُس عورت سے
کمتر ہوں ،کہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے سے پہلے کم از کم آئین کا مطالعہ ہی
کر لیا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔
صدر صاحب کی یہ اپیل ان کی قابلیت کی عکاسی کرتی ہے شاید ان کے خیال میں
سود وہ ہے جو کسی مجبوری کے تحت لئے گئے شخصی قرضوں پر لیا جاتا ہے۔ اس میں
چونکہ غریب کا استحصال ہے اس لئے اسلام نے سختی سے اسکی ممانعت کی ہے جو
رقم اپنی دی ہوئی رضامندی سے کاروبار کے لئے بینکوں سے لیتے ہیں وہ اس زمرے
میں نہیں آتا، یہ کاروبار ہے اس میں اور سرمایہ کاری میں کیا فرق ہے۔
بالکل یہی بات مشرکین مکہ نے بھی کہی تھی "انما البیع مثل الربوٰا" سود اور
سرمایہ کاری میں فرق ہی تو نہیں پھر اسے کیونکر حرام قرار دے دیا جا رہا ہے
۔ قانونی طور پر جو ڈاکٹر نہ ہو اور لوگوں کا علاج کرے یا جعلی ڈگری سے
لوگوں کا علاج کرتا قانون کی گرفت میں آجائے آپ کی عدالت میں اسے مجرم
قرار دے دیا جاتا ہے ۔ انجینئر اگر صحیح اسناد کے ہوتے ہوئے قانون کی خلاف
ورزی کرے ، تجاوزات پر قبضہ کرے آپ کی عدالت اسے قابل سزا تصور کرتی ہے۔
اسی طرح نہ تو آپ کے پاس مسجد کا کوئی تصور ہے نہ کسی مدرسے کے مولوی کے
سامنے گھٹنے ٹھیکے ہیں لہذا آپ کو حلال و حرام سے کیا سروکار۔ صدر صاحب
امت مسلمہ اور خصوصاً عرض پاکستان پر عذاب کا سبب نہ بنے۔
ہو سکتا ہے کل کو صدر صاحب یہ بھی کہدیں کہ علماءکو نماز کی تعداد اور
رکعات کے بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ اِن کے پاس تو اللہ کے حضور دن میں
پانچ وقت حاضری ناممکن ہے، اُن سے اس بات کی توقع بھی کی جاتی ہے کہ کہیں
یہ ارشاد نہ فرمائیں کہ روزہ کے مہینے اور تعداد کے بارے میں بھی علماء کو
سوچنا چاہیے، زکوٰۃ تو ویسے بھی دیتے نہیں لہذا عید الاضحیٰ میں دیگر
جانوروں کے ساتھ ساتھ کتے اور گدھے کی قربانی کو جائز قرار دینے کے بارے
میں بھی علماء کو سوچنا چاہیے۔ارباب اختیار یہ بات کیوں نہ کہیں کہ صدر
مملکت عموماً اور وزیر اعظم صاحب کا خصوصاً چلنا، پھرنا، کھانا، پینا،
اٹھنا بیٹھنا سب اسی کی بدولت ہی تو ہے اگر اسی کو حرام قرار دے دیا جائے
تو راستے کے بھکاری بن جائیں گے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اس ملک کو لا
الہ الا اللہ کے نام پر آزاد کیا تو کیونکر اس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
بہتر نہیں ہو گا کہ پارلیمنٹ سے ایک آئینی ترمیم منظور کرالی جائے کہ یہاں
سے تمام قوانین کا خاتمہ کیا جاتا ہے اور عدالتوں کو آج سے تالہ لگایا
جائے، جس کی مرضی ہے وہ کرے اور جو غلط کام کرے گا اللہ تعالیٰ اُ سے خود
پوچھ لے گا۔ ہم خدائی کاموں میں کیوں دخل دیں۔ |
|