ٹریفک حادثات سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔؟
(Malik Muhammad Salman, )
تیئس جنوری سانحہ چھانگا مانگا مسافر وین
نہر میں گرنے سے سولہ قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہر طرف کہرام کا سماں اور
فضا سوگوارتھی۔ لیکن یہ نہ تو پہلا واقع ہے اور نہ ہی آخری ،ہر روز ایسے
درجنوں واقعات رونماء ہوتے ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت تک گوارا
نہ کی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور آئندہ ایسے حادثات سے بچنے کیلئے کونسے
اقدامات کرنے چاہیے۔
روز مرہ زندگی میں ذرائع نقل و حمل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔تیز رفتاری
کے اس ترقی یافتہ دور میں اس کی اہمیت اورافادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں
ہوسکتا۔سکول ،آفس ،ہسپتال یا کسی بھی تفریحی جگہ جانے کیلئے سائیکل سے لیکر
موٹرسائیکل،کار،وین اور بس سمیت درجنوں ذرئع نقل و حمل ہیں جس کے زریعے ہم
ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں۔ان جدید سفری سہولیات نے فاصلوں کو سمیٹ
کہ رکھ دیا ہے۔یہ سائنسی ترقی جہاں بہت بڑی نعمت ہے اوروہیں پر اس کے
استعمال میں لاپرواہی سے آسانی تنگی بن کر تباہی و بربادی کا سبب بن جاتی
ہے۔
عالمی ادارہ برائے صحت (WHO)کے مطابق اس وقت روڈ ایکسیڈنٹ اموات کی
پندرھویں بڑی وجہ بن چکا ہے اگر ان مسائل کا بروقت تدارک نہ کیا گیا
تو2030تک روڈ ایکسیڈنٹ اموات کی پانچویں بڑی وجہ بن جائے گی ۔
پولیس ذرائع کے مطابق پاکستان میں آخری دس سال میں ساٹھ ہزار سے زائد افراد
ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے ہیں یہ تو وہ تعداد ہے جو باقاعدہ پولیس
ریکارڈ کا حصہ ہے’’ اوور آل‘‘ یہ تعداد لگ بھگ ایک لاکھ ہے ،پاکستان میں ہر
روز اوسطً پندرہ لوگ ٹریفک حادثات کی وجہ سے جان سے ہاتھ سے دھو بیٹھتے ہیں،
اسی طرح سالانہ نو ہزار کے قریب ٹریفک حادثات رُونما ہوتے ہیں جن میں پانچ
ہزار کے قریب لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور شدید نوعیت کے حادثات میں
بعض زخمی زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو جاتے ہیں اور معذوری کے روگ کے ساتھ بے
بسی اور لاچاری کی کیفیت میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہوتے ہیں۔جانی نقصان
کی علاوہ موٹر سائیکلز اور گاڑیوں کی صورت میں ناقابلِ تلافی مالی نقصان
بھی ہوتا ہے۔
عالمی مشاہداتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق پچانوے فیصد حادثات ڈرائیورکی
لاپرواہی اور غلطی کی وجہ سے ہوتے ہیں ، پاکستان میں اسی فیصد ڈرائیوراور
مسافر ضروری حفاظتی اقدامات اختیار نہیں کرتے ہیں ،ٹرانسپورٹ حضرات جو نفع
خوری کے عادی اور انتہائی طمع پرست ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں، وین منی مزدا
یا بس غرض کوئی بھی سواری ہو’’ اوورلوڈنگ ‘‘تو جزو لازم بن چکا ہے
،’’اوورلوڈنگ ‘‘کی شروعات ہم اپنی ذاتی سواری موٹر سائیکل پر تین سے چار
افراد سوار کر کے کرتے ہیں اور نفع خور ٹرانسپورٹر سیٹیں مکمل ہونے کے بعد
مسافروں کی ایک لمبی قطار کھڑے کیے بنا چلنے کا نام ہی نہیں لیتے مزید ازاں
کوسٹر کی چھت پر سوار کرنا بھی امر لازم بن چکا ہے ،ہائی ایس ٹویوٹا والے
چودہ سیٹر وین میں بائیس افراد سوار کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں اور رہتی
سہتی کسر’’ ٹول بکس‘‘ پر دو مسافر بٹھا کر پوری کر دیتے ہیں ،فرنٹ سیٹ پر
تین افراد کی’’ اوور لوڈنگ ‘‘کرنے سے ڈرائیور پوری مہارت سے گاڑی کو کنٹرول
نہیں کر پاتا جو حادثات کا سبب بن رہا ہے ،شرمناک پہلو یہ ہے کہ درجنوں
مسافروں سے بھری گاڑی کو چلانے والے ڈرائیور حضرات کی اکژیت کے پاس
ڈرائیونگ لائسنس اور فٹنس سرٹیفکیٹ تک نہیں ہو تا ہے اگر کسی کا لائسنس بن
بھی جائے تو سب جانتے ہیں کہ لائسنس برانچ کا میعار صرف اور صرف رشوت ہے ،اس
’’معیار ‘‘پر پورا اُترنے والے اندھوں کو بھی گاڑی چلانے کا (N.O.C)مل جاتا
ہے،یہاں پر قانون نافذ کرنیوالے محافظوں کی بات کی جائے تو ڈرائیونگ لائسنس
،فٹنس سر ٹیفیکیٹ اور روٹ پرمٹ چیک کرنا تو درکنار ٹریفک اہلکاروں نے
ٹرانسپورٹرز کو زائد کرایہ وصولی کی بھی کھلی چھٹی دے رکھی ہوتی ہے ۔پبلک
ٹرانسپورٹ ڈرائیور حضرات کی اکژیت ان تمام قانون شکنیوں کے ساتھ ساتھ سگریٹ
،افیون اور چرس کی مہلک مرض کا شکار بھی ہیں،شاید ان ڈرگز کا ہی اثر ہوتا
ہے کہ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کے بعدایکسیلیٹر پار پاؤں آتے ہی یہ
اس ’’زمینی سواری‘‘ کو ہوا میں اڑانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں،اور یہی’’
اوووسپیڈ‘‘اور تیزی حادثات کا اہم پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
یہ سب تکلیف دہ مناظر ہر روزہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔سرعام یہ ظلم و
ستم ہورہا ہے لیکن انتظامیہ اور متعلقہ ادارے یہ سب دیکھنے والی بینائی سے
قاصر نظر آتے ہیں لوگ مرتے ہیں تو مریں لیکن نیچے سے اُوپر تک جیب گرم ہوتی
ہے اس لیئے سب اچھا ہے ۔
لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں پبلک ٹرانسپورٹر کی اکژیت پڑھی لکھی تو دور
کبھی سکول مدرسہ تک نہیں گئے ہوتے۔اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک کی طرف نظر
دوڑائی جائے تو ہمیں ایک دو نہیں سینکڑوں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جہاں پلک
ٹرانسپورٹر کیلئے باقاعدے تعلیمی ادارے ہیں جہاں ڈرائیور کنڈکٹر اور ہیلپر
کو باقاعدہ تعلیم و تربیت دی جاتی ہے ۔اس لیے وہاں ٹریفک حادثات کی تعداد
پاکستان سے بہت زیادہ کم ہے۔ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں
بھی شعبہ ٹارنسپورٹ سے وابستہ افراد کیلئے تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے
جائیں اور وقتاً فوقتاًگاڑیوں کی فٹنس کی جانچ پرتال کو لازمی بنایاجائے
اور روڈ سیفٹی کیلئے سڑک سے اگاہی کے بورڈ بھی نصب کیے جائیں تاکہ ٹریفک
حادثات پر کنٹرول کر کے قمیتی جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔ |
|