پاک فوج۔۔۔۔۔مسئلہ کشمیر۔۔۔؟

دہشت گردی کا جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو قوم کو وہ بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان یاد آ جاتا ہے جو حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی پارٹیوں نے متفقہ طور پر مرتب کیا تھا اپوایشن شروع دن سے ہی اس پلان پر عملدرآمد کی رفتار تیز کرنے پر مسلسل زور دے رہی تھی لیکن اب وزیر اعظم میاں مھمد نواز شریف نے بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ معاملہ ست روی کا شکار ہے ،پلان کے کچھ نکات پر کام ہو رہا ہے کچھ پر شروع کیا جا رہا ہے جن نکات پر عمل ہو رہا ہے ان میں سے بعض پر کام کی رفتار تیز اور بعض پر ست ہے نیشنل ایکشن پلان کے مطلوبہ نتائج اس لئے بھی برآمد نہیں ہو سکے کہ ان میں سے کم سے کم بارہ نکات ایسے ہیں جن پر ضرورت کے مطابق توجہ نہیں دی جارہی اور جن بارہ نکات کا تعلق پاک فوج سے ہے ان پر بلاشبہ تیزی سے کام ہو رہا ہے ،لیکن جو کام حکومت اور حکومتی اداروں کے کرنے کے تھے ان پر سنجیدگی اختیار نہیں کی گی ان میں دہشت گردی کے لئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سمیت کمیونیکشین کی جدید سہولتوں کے غلط استعمال کی روک تھام دہشت گرد تنظیموں کے سہولت کاروں کا خاتمہ اور مسلح تنظیموں کی زیر زمین سرگرمیوں کو روکنے کے اقدامات ،افغان مہاجرین کا مسئلہ ،فاٹا میں اصلاحات،فرقہ وارانہ دہشت گردی پر قابو پانا ،بلوچستان میں مفاہمتی عمل کی رفتارمیں تیزی لانا اور فوجداری قوانین کے نظام کو بہتر کرنا خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔۔۔۔۔۔سب سے بڑا مسئلہ ’’پاک افغان سرحد‘‘کو محفوظ بنانے کا ہے طور خم سرحد سے روزانہ بارہ سے پندرہ ہزار اور چمن باڈر سے آٹھ سے دس ہزار افراد بلا روک توک پاکستان آتے جاتے ہیں ان کی آڑ میں دہشت گرد با آسانی آتے جاتے ہیں ۔۔۔۔باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر حملہ کرنے والے اسی طریقے سے اائے تھے 26سو کلو میٹر طویل سرحد ایسے لوگوں کے لئے بڑی آسانیاں فراہم کرتی ہے جسے محفوظ بنانے کے لئے باڈر مینجمنٹ سسٹم شروع کرنے کی تجویز پر غور ہو رہا ہے اور یہ معاملہ کسی اور نے نہیں کود آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اعلی سطح پر اٹھایا ہے اگر اس منصوبے پر عمل ہو جائے تو سرحد پار سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکی جا سکتی ہے ،دہشت گردی فاٹا خیبر پختونخوا اور بلوچستان ہی میں نہیں سندھ اور پنجاب میں بھی ناسور کی طرح پھیل رہی ہے ۔۔۔۔اور دہشت گردوں کو مالی اور اسلحہ کی سہولت فراہم کرنے والے بھی یہاں موجود ہیں راقم کی معلومات کے مطابق پاکستانیوں کے پاس تقریبا سات کروڑ ہتھیار موجود ہیں جن میں سے صرف 50لاکھ لائسنس یافتہ ہیں ۔۔۔۔۔اور بعض صورتوں میں ایک ایک لائسنس پر کئی کئی ہتھیار جاری کئے گئے یہ سلسلہ بھی بند ہونا چائیے ۔۔۔۔دہشت گردی کے واقعے کے بعد جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا کمزرویاں اور کامیاں تھیں جن کا دہشت گردون نے فائدہ اٹھایا ہے ،پاک فوج کے سپہ سالار نے کمال بہادری اور جرات مندی سے کہا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں لیں گئے اور مقررہ تاریخ پر ریٹائر ہو جائیں گے۔۔۔۔۔افسوس کی بات ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی اپنی قرارداودں کو فراموش کر دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔عالمی برادری بھی کشمیر میں بھارتی مظالم اور بھارت میں اقلیتوں پر ظلم و ستم کا نوٹس نہیں لے رہی ہے کیا دنیا کے تیسرے درجے کے ملک میں بھی اس کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ کسی شخص کو صرف گائے کے گوشت پکانے پر قتل کر دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔؟ایسا صرف بھارت میں ہی ہو سکتا ہے جہاں مذہب کے نام پر پاگل پن کو ہوا دی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ غیر ریاستی عناصر نہیں خود وہاں کے وزیر اعظم نریندرمودی کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔۔۔۔۔۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ بھارتی یشہ دوانیوں کے ثبوت اقوام متحدہ کو فراہم کئے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ہمیں اب دفاعی رویہ ترک کرنا ہو گا اور دنیا کو کھل کر بتانا ہوگا کہ بھارت کس طرح خطے کے امن کو برباد کر رہا ہے اور توقع ہے کہ کم ازکم اپوزیشن بھی اس معاملے پر کھل کر حکومت کا ساتھ دے گئی۔۔۔۔۔۔مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا شاہد اس سے بہتر موقع میسر نہ آسکے میڈیا کو بھی کرکٹ ڈپلومیسی سے باہر آنا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان اور خطے کو در پیش تمام اہم معاملات پر محیط تھا،انہوں نے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے لئے ایک مکمل منصوبہ پیش کیا جسے امن سے محبت کرنے والی پوری دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھے گی،وزیر اعظم نے تلخیاں ختم کرنے کے لئے چار نکاتی امن عمل کا نقشہ پیش کیا جس میں سیاچین سے غیر مشروط سیز فائر،ایک دوسرے کو طاقت کے استعمال کی دھمکیاں نہ دینا شامل ہے ،وزیراعظم نے زور دیکر کہا کہ پاکستان خطے میں ہتھیاروں کی دوڑمیں شریک نہیں ہونا چاہتا انہوں نے کہا کہ بھارت مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے تاکہ جنوبی ایشیا عالمی امن کے لئے تشویش کا باعث نہ رہے ،وزیر اعظم نے تخریب کاروں کی واردتوں کے پیچھے خفیہ اداروں کے ہاتھ کا سراغ لگا لیا گیا ہے بھارت کی سول اور فوجی قیادت کی جارحانہ بیان بازی کی صورت حال کو مزید خراب کر رہی ہے مسئلہ کشمیر وزیراعظم کی تقریر کا اہم نکتہ رہا،انہوں نے واضح اور کھلے لفظوں میں اقوام متحدہ کے ارکان سے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا دراصل عالمی ادارے کی ناکامی ہے ، جھوٹے وعدے اور وحشیانہ مظالم نے کشمیر کی تین نسلیں اجاڑ کے رکھ دی ہیں بھارت ہمیشہ کہتا رہا کہ کشمیر پر بات نہ کریں لیکن ہمارے لئے کشمیر کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے ،کشمیر صدیوں سے جغرافیائی ،مذہبی اور ثقافتی طور پر پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ہم اسے پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ سمجھتے ہیں ۔۔۔ ۔۔1947 ء سے کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردیں عمل کی راہ دیکھ رہی ہیں گزشتہ چھ دہا ئیوں سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی دو طرفہ کوششیں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں،بھارت کی طرف سے انکار خطے میں ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ،ہمارے وسائل جنگ کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے چائیں،کشمیر دونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے ،جس کا پر امن حل اور اسکے لئے خود کشمیری عوام کی شمولیت ضروری ہے ،وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پاکستان کا موقف اتنے موثر انداز میں پیش کیا ہے جس پر پاکستانی میڈیا میں عمومی طور پر سراہا جا رہا ہے ،ضروری تھا کہ بھارت کا اصلی چہرہ عالمی ادارے کے سامنے بے نقاب کیا جائے ،بھارت نے اپنے چہرے پر سب سے بڑی جمہوریت کا نقاب چڑھا رکھا ہے لیکن اس کے طرز عمل مذہبی جنون میں مبتلا ایک ایسے معاشرے جیسا ہے جو اقلیتوں کو جینے کا حق بھی نہیں دینا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ نریندرمودی کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔۔۔۔۔۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ بھارتی یشہ دوانیوں کے ثبوت اقوام متحدہ کو فراہم کئے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ہمیں اب دفاعی رویہ ترک کرنا ہو گا اور دنیا کو کھل کر بتانا ہوگا کہ بھارت کس طرح خطے کے امن کو برباد کر رہا ہے اور توقع ہے کہ کم ازکم اپوزیشن بھی اس معاملے پر کھل کر حکومت کا ساتھ دے گئی۔۔۔۔۔بھارت اپنا یوم جمہوریہ منا رہا ہے تو کشمیری اسے ’’یوم سیاہ‘‘ کے طور پر منا رہے ہیں بھارت کی اب مذمت نہیں مرمت کرنی ہو گی پیار کی پینگیں کی جگہ اب جارحانہ رویہ اپنا نا ہو گا تب جا کر کشمیر کا فیسلہ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 24 Articles with 16121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.