کشمیر میں داعش کی دستک

 اخباری اطلاعات کے مطابق داعش نے کشمیر میں آکر ’’جہاد‘‘شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔داعش نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کی’’ خلافت‘‘ کا دائرہ بہت جلد وادی کشمیر تک پھیلایا جائے گا جس کیلئے’’ خصوصی انتظامات ‘‘ کئے گئے ہیں اور بہت جلد مسلم امہ کواس بارے میں ’’خوشخبری‘‘ سننے کو ملے گی۔تنظیم کا کہنا ہے کہ کشمیر سے عام نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ’’ولایت خراسان‘‘کی طرف ہجرت کرچکی ہے۔شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش یا آئی ایس آئی ایس نے اپنے آن لائن میگزین’’دابق‘‘ میں تنظیم کے سربراہ برائے خراسان حافظ سعید خان کا انٹرویو شائع کیا ہے۔ ’’خراسان ‘‘ افغانستان ، پاکستان اور بھارت کے کچھ حصوں پر مشتمل علاقے کا تاریخی نام ہے اور حافظ سعید خان کو ایک سال قبل خطے میں تنظیم کا امیرمقرر کیا گیا تھا۔تحریک طالبان پاکستان کے سابق کمانڈرحافظ سعیدخان کو ملاسعید اورکزئی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ میگزین کے 13ویں شمارے میں شائع انٹرویو میں انہوں نے کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا’’یہ(کشمیر) اور اس کے ملحقہ علاقہ جات ایک زمانے میں مسلمانوں کے زیر کنٹرول تھے،بعد میں سیکولر طاقتوں، ہندؤں اور لا مذہب چینیوں نے دیگر نزدیکی علاقوں پر قبضہ کرلیا اور اسی طرح کی صورتحال کشمیر اور ترکستان کے کچھ حصوں میں بھی پیش آئی‘‘۔جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا آئی ایس آئی ایس کشمیر تک اپنے آپ کو وسعت دینے کی صلاحیت رکھتی ہے؟تو حافظ سعید خان نے کہا’’ ان خطوں میں خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں اور مسلمانوں کو ان علاقوں تک خلافت کو وسعت دئے جانے کی خوشخبری بہت جلد ملے گی‘‘۔حافظ سعید خان نے اپنے انٹرویو کے دوران مزید کہا’’اس صورتحال کی وجہ سے کشمیر کے کئی نوجوانوں اور مختلف تنظیموں کے عسکریت پسندو ں نے وادی چھوڑ کر ولایت خراسان کی طرف ہجرت کی ہے، لہٰذا یہ اس بات کیلئے ایک بڑا موقعہ ہے کہ اﷲ کی مرضی سے اس خطے میں اﷲ کا مذہب قائم کیا جائے اور دولت اسلامیہ خطے تک اپنے آپ کو وسعت دے‘‘۔خان نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی فوج اپنے ذاتی مفادات کیلئے تنازعہ کشمیر کا استحصال کررہی ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا’’ جب ان(پاکستانی فوج) کو اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سیز فائر کرتے ہیں، وہ پیچھے ہٹتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں، انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کشمیری عوام کو آدھے راستے اور ایک بدترین حالت میں چھوڑ دیا ہے ، پاکستانی مفادات کا پارہ گرتا اٹھتا رہتا ہے ، ایسا خاص طور پر گزشتہ برسوں کے دوران کیا گیا ، جب تک کشمیریوں کی راہ میں رکاؤٹیں پیدا ہوئیں اور انہیں اس دلدل سے نکالنے والا کوئی نہیں تھا جس میں انہیں دھکیل دیا گیا تھا‘‘۔ انہوں نے لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کو ایجنٹ کا نام دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سیکورٹی ایجنسی جب چاہیں انہیں آگے دھکیل دیتی ہے اور جب چاہے واپس لاتی ہیں، ان لوگوں کا کشمیر کے کسی حصے پر اپنا کنٹرول نہیں ہے بلکہ یہ بقول ان کے علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال کے مطابق پاکستانی فوج کی ہدایات پر کام کرتے ہیں اور انہیں کشمیری مسلمانوں کے مفادات کی کوئی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح پاکستانی فوج اور انٹلی جنس ایجنسیوں نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے اسلامی تنظیموں کا کشمیر کے نام پر استحصال کیا نہ صرف یہ بلکہ کشمیریوں کا بھی استحصال کیا صرف اس مقصد کی خاطر کہ انکے مفادات کی تکمیل ہوسکے، وہ ہیں چاہتے تھے کہ کشمیر میں اﷲ کا قانون نافذ ہوجائے۔‘‘(روزنامہ بلند کشمیر ،روزنامہ رائزنگ کشمیر 23جنوری2016ء)

ہم نے سید علی گیلانی صاحب کے وجود کو دہلی کے لئے غنیمت قرار دیتے ہو ئے 13مارچ 2011ء کو انہی صفحات پر ’’نئی دلی کے مہاجنوں‘‘کو گزارش کی تھی کہ وہ وقت قریب ہے جب دہلی کے لئے کشمیر میں کسی ایسے لیڈر کو ڈھونڈ لینا بھی مشکل ہو گا جو مذاکرات کا قائل ہو ۔میں نے لکھا تھا ’’ کافی عرصۂ بعد سیدعلی گیلانی کی شکل میں انھیں کشمیر میں ایک ایسا لیڈر دستیاب ہواہے جس کے ساتھ اس مسئلے کو حل کر کے دہلی بہت کچھ حاصل بھی کر سکتی ہے اس لئے کہ آج جو حیثیت اور مرتبہ گیلانی صاحب کو کشمیر میں حاصل ہے وہ کل کسی اور کو حا صل ہو جانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔آثار و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بھارتی سرکارنے بندوق کی جنگ کے بعد پرامن انقلابی تحریک کو بھی قبول نہیں کیا توآنے والا وقت نہ صرف بھارت کے لئے بلکہ کشمیریوں کے لئے بھی بہت ہی خطرناک ثابت ہوگا اسلئے کہ کشمیر میں عام مایوسی کے بعد نوجوان 1987ء کی طرح ہی مایوس نظر آرہے ہیں اور دلی والے یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ 2011 ء ہے1987ء نہیں۔پھر علاقائی سطح پر کچھ ایسی تبدیلیاں ہونے والی ہیں جن میں بھارت اپنی ہاتھوں کھودی گہری کھائی میں گر کر پھنستا ہوا نظر آتا ہے ۔جس روز امریکی فوج افغانستان کو چھوڑ کر چلی جائے گی دو مملکتیں بہت ہی پریشان کن صورتحال سے دوچار ہوں گی نمبر ایک مسلم پاکستان کی سیکولر حکومت اورنمبر دو بھارت کی ہندتوا کے ایجنڈے پر خفیہ طور پر کاربند سیکولرچہرے والی حکومت ۔اس لئے کہ ان دونوں نے القائدہ اور طالبان سے اتنی دشمنی مول لی کہ القائدہ اور طالبان کی لغت میں ایسی دشمنی پر معافی کا کوئی تصور ہی موجودنہیں ہے ۔اس دشمنی کا کڑوا پھل اگرچہ آج کل حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ وہاں کی عوام اور فوج چاروناچار کھاتی جا رہی ہے اور فی الوقت اتنا کچھ کرنے کے باوجود طالبان اور القائدہ کے دلوں میں پاکستان کے ہاتھوں لگے زخموں کادرد ختم نہیں ہو رہا ہے۔ نہ صرف حالات پتہ دے رہے ہیں بلکہ بھارت کاافغانستان سے امریکی فوجوں کے نکلنے پر بار بار اظہار تشویش سے بھی یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے بعد ان دونوں کے نشانے پر ’’شاید‘‘بھارت ہو گا اور یہ کام طالبان اور القائدہ کے لئے بہت آسان ہے اس لئے کہ جموں و کشمیر میں پہلے سے بھارتی حکومت کے ساتھ بر سر پیکار عسکری تنظیمیں خود بھی اپنی بقأ کی جنگ سے دوچار ہیں اور ’’شاید‘‘یہ کام ان کے لئے سونے پر سہاگا ثابت ہو ۔بھارت جیسی’’مدبر‘‘ریاست کے لئے یہ احمقانہ ہی نہیں بلکہ خودکشی کے مترادف اقدم ہوگا کہ وہ حریت کانفرنس کو چھوڑ کر جہاد کونسل ،القائدہ یاطالبان جیسی تنظیموں کے ساتھ کل پھنس کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ مذاکرات کے لئے سامنے آجائے اس لئے کہ ’’دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کی بے چارگی اور بے بسی ‘‘آج اس کے سامنے ہے کہ افغانستان سے نکلنا بھی مصیبت اور ٹھہرنا بھی مصیبت ۔۔۔پھر بھارت امریکہ بھی نہیں ہے جس کی سرحدیں القائدہ اور طالبان کے لئے کافی دور ہوں اسے بھی بڑے خطرے کی بات یہ ہے کہ بھارتی سرحدوں کے اندر ایک کشمیر میں ہی شورش نہیں بلکہ یہ شورش کئی ریاستوں میں ہے جو ایک بہانے کی منتظر ہیں اور خود بھارتی سرکاراس بات کا کئی مرتبہ اعتراف کر چکی ہے کہ کشمیر ہی نہیں آسام اور ناگالینڈ بھی ان کے لئے سنگین مسائل ہیں کیا ایسے ملک کو اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے اس گھڑی کاانتظار کرنا چاہئے جس کی سوئیاں اس کی مرضی سے چلنے کے بجائے اس کے دشمنوں کی مرضی کے مطابق چلنے والی ہوں ۔بھارت اسے بھی ایک اورسنگین خطرے سے دوچار ہوتا جارہا ہے اور وہ ہے’’عالم ارضی کے بہت ہی خطرناک اور خاموش قوت ‘‘کے ساتھ دشمنی مول لینی کی غلطی ،میرا مطلب ہے چین !!!جو بھارت کی سرحدوں میں بے خوفی کے ساتھ گھس پیٹھ کرتے ہو ئے اسکی زمینیں تک ہڑپ کرتا جا رہا ہے مگر بھارت احتجاج کے سوا کچھ بھی نہیں کر پاتا ہے احتجاج بھی ویسا نہیں جیسا کہ پاکستان کے خلاف کیا جاتا ہے ۔بھارت کے لئے چین ،پاکستان اورافغانستان کے علاوہ اس خطے میں جو اندرونی دشمن موجود ہیں سبھی ایک نقطے پر متفق دکھائی دیتے ہیں اور وہ ہے بھارت کو کمزور کرنے کی کوشش اور خواہش ۔۔۔۔مسئلہ کشمیر واحد وہ مسئلہ ہے جو بھارت کے لئے نہ صرف اندرون ملک خطرہ بنا ہوا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ اکثر بھارت کی ناک کٹنے کا باعث بنا ہوا ہے ۔یہ بلاشبہ بھارت کی کمزوری ہے جس کو حل کرنے کا اسے بہتر وقت کوئی اور نہیں ،اس کا حل بھارت کی سلامتی کے ساتھ ساتھ اسکی معیشت کے لئے بھی بہتر ہے اور سید گیلانی کی شکل میں ایک لیڈر بھی دستیاب ہے جو اس کے ساتھ جڑے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور سب سے بڑھکریہ کہ قوم ان کے فیصلے سے مطمئن بھی ہو سکتی ہے جبکہ کل ’’لیڈروں کی فوج‘‘کی بڑھتی صورتحال نہ صرف کشمیریوں کے لئے بلکہ خود بھارت کے لئے بھی کافی پریشان کن ہوگی ۔ ‘‘یہ سطور ہم نے 2011ء میں لکھے تھے یہ کوئی پیشن گوئی نہیں تھی بلکہ آثار و قرائن بتا رہے تھے کہ اگر مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی توبھارت ایک موقع کو شاید جان بوجھ کر گنوا دے گا مگراب’’ بھارت کی لیڈر شپ جو انتہائی ناعاقبت اندیش ،کم ظرف ،خود غرض اور بے حوصلہ شور مچانے والے لوگوں کا ایک جمگھڑے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ‘‘کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے موقع جان بوجھ کر گنوا یا نہیں بلکہ یہ موقع ان کی حماقت سے ان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے ۔

دلی اور اسلام آبادکیا کرے گاکیا نہیں ؟عراق و شام میں کس کا پلہ بھاری رہے گا کس کا نہیں ؟سعودی عرب اور ایران کب اپنی جنگ رو ک لیں گے کب نہیں؟مصر،لیبیا،سوڈان اور یمن میں کس کی حکومت رہتی ہے یا کس کی گرتی ہے سے کشمیریوں کو دلچسپی صرف خبروں اور تبصروں تک ہو سکتی ہے اسے بڑھکر نہیں !اس لئے کہ پورے عالم اسلام میں کسی بھی قوم یا ملک کو کشمیریوں کی کوئی فکر اور پریشانی نہیں ہے۔ہماری محبت و دینی جذبات (بہت ساری خامیوں کے باوصف)کی مثال کہیں نہیں ملتی ہے ۔ہم ایک محدود علاقے میں رہنے والے لوگوں کی تاریخ ہے کہ ہم نے عالم اسلام کے وجود پر ہر لگنے والے زخم پر احتجاج کیا ۔ہم نے کبھی بھی فلسطینیوں کو نہیں بھولا ۔فلسطین ڈے (Day of Palestine) ایران کے علاوہ صرف کشمیر میں منایا جاتا ہے ۔ہم نے کبھی بھی عرب و عجم کی تفریق نہیں برتی ،ہم نے کبھی ایرانی طورانی جراثیم کو قبول نہیں کیا ،ہم نے کبھی شیعہ سنی لڑائیوں پر کان نہیں دھرا ،ہم نے صرف یہ دیکھا کہ’’ مجروح ‘‘اگر کلمہ گو مسلمان ہے تو ہم سامنے آگئے ۔ہمارے بزرگوں، نوجوانوں اور بیٹیوں نے عالم اسلام کے خلاف مظالم اور سازشوں پر احتجاج کرتے ہو ئے لاٹھیاں اور گولیاں کھائیں ۔مگر ایسی ایک بھی مثال نہیں ملتی ہے جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہوکہ کشمیر میں ہو رہے ظلم و زیادتی پر کسی عربی یا عجمی مسلمان نے گولی تو درکنار لاٹھی کھا ئی ہو ۔ہمیں اپنی اس قربانی اور عالم اسلام سے لگاؤ پر فخر ہے مگر ہمیں اپنی بے بسی اور بے کسی کے تکالیف میں شدت کا احساس تب بڑھتا ہے جب کوئی بین الاقوامی مسلم ادارہ یا ملک ہمارے لئے منہ کھولنا بھی گوارا نہیں کرتا ہے ۔
کشمیر میں ’’مہمان مجاہدین‘‘کا ہمیشہ والہانہ استقبال کیا گیا ہے چاہیے ان کا تعلق کسی بھی جماعت یا فکر سے تھا برعکس اس کے ’’داعش‘‘کا اعلان سامنے آتے ہی ہر سو برأت کا اعلان ہی نہیں کیا جارہا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر اس اعلان پر شکوک و شبہات کا کھلے عام اظہار بھی کیا جا رہا ہے اور تو اور جن لوگوں نے ابو بکر البغدادی کے ’’اعلانِ خلافت‘‘پر ان کو مبارکبادے دیں وہ بھی اپنی پر جوش تقاریر پر اب نادم نظر آتے ہیں ۔داعش کا یہ اعلان کہ ہم کشمیر کو آزاد کرانے اور اس میں دین غالب کرنے کے لئے بہت جلد اپنی کاروائیوں میں توسیع کردیں گے پر ’’حیرت‘‘کی چنداں ضرورت نہیں ہے، داعش سے بہت پہلے القائدہ نے بھی2007ء میں کشمیر میں ’’جہاد‘‘کرنے کا اعلان کیا تھا مگرمعاملہ اعلان سے آگے نہیں بڑ ھ پایا جس کی بنیادی وجہ صرف یہ تھی کہ کشمیری طبیعتاََ کسی بھی ایسی جنگ میں الجھنا نہیں چاہتے ہیں جس میں جنگ کا رُخ ’’جارحین‘‘کے علاوہ مسلمانوں کی جانب مڑ رہا ہو ۔کشمیری چند روز تک ایسی لڑائی میں شریک رہ سکتے ہیں جس میں مسلمانوں کا خون انتہائی بے دردی کے ساتھ بہا کر ایک مسلمان سے اقتدارچھین کر دوسرے کے حوالے کیا جاتا ہومگر یہ معاملہ چند ایک دنوں سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتا ہے ۔اس کا تلخ تجربہ’’ کشمیری مجاہدین‘‘کو نوے کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں اس وقت ہوا ہے جب حزب المجاہدین اور لبریشن فرنٹ کے درمیان خونریز جھڑپوں کا آغاز ہوا مگر کسی بھی جانب اس ’’جہاد‘‘کی حوصلہ افزائی نہیں ہو ئی ۔کشمیری سمجھتے ہیں کہ بندوق سے لگنے والے زخم کبھی بھی مندمل نہیں ہوتے ہیں اور کم سے کم بندوق کا رُخ جب اپنوں ہی کے جانب مڑ جائے تو عقل مندی کی لغت میں یہ ایک منحوس دور ہوتا ہے ۔تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ قومیں جنگوں میں لگے زخموں کو بھولنے کے برعکس یاد رکھتی ہیں حتیٰ کہ تاریخ جلی حروف میں اس ’’حصے‘‘ کو رقم کرتی ہے ۔
داعش نے چند برس قبل جب شام وعراق کے ایک وسیع خطے پر قبضہ کرتے ہو ئے اپنے عزائم کی توسیع کے لئے ’’انتہائی ظالمانہ طریقہ جنگ‘‘کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا تو ہر طرف ان کی مزمت ہونے لگی گرچہ ابتداء میں اکثر لوگ ان کی تیز ترین فتوحات سے خوش تھے اور یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ یہاں قائم ریاست مسلمانوں کی بلا تفریق مسلک و فکر جذبات کی ترجمانی کرے گی ۔مگر داعش کے جہادی تصورات کے ’’صندوق‘‘کا دہانہ جب کھلا تو معلوم ہوا کہ ان کے نشانے پر عالمی کفر کم ’’اہل تشیع‘‘زیادہ ہیں ۔ان کی ترجیحات میں مقابر کو مسمار کرنے کے ساتھ ساتھ ’’یزیدی اقلیت‘‘ہے۔ان کے ہاں حیرت انگیز طور پر وہ لوگ بھی واجب القتل ہیں جو انہی کی طرح ’’بشارالاسد ‘‘کے علاوہ ’’نورالمالکی‘‘کے ساتھ برسر پیکار توتھے مگر انھوں نے ’’داعش‘‘کے برعکس دوسری درجن بھربرسر جنگ جہادی تنظیموں میں شمولیت اختیار کی تھی ۔اس رویے اور فکر کے نتیجے میں اہل سنت والجماعت کے اکثر لوگوں نے ان سے برأت کا اعلان کردیا حتیٰ کہ ان کے خلاف فتوؤں کا بازار گرم ہوگیا ۔پورا یورپ ان کی کاروائیوں کے ردعمل میں مشتعل ہوگیا ،عرب دنیا کو ان سے نفرت ہو نے لگی ۔ان کے بے رحمانہ طریقہ جنگ سے خوفزدہ دنیا کم وقت میں اس خوف سے باہر آگئی ۔انھوں نے اپنے علماء کے سخت ردعمل سے ان کے خلاف میدان ہموار کردیا ۔عوام بد ظن ہوگئی ۔پورا عرب ان کے خلاف متحد ہوگیا ۔ان کے ہمدردوں کو جیلوں میں سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ۔اب حالت یہ ہے کہ عرب و عجم کے کفار و مسلمان ان کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور داعش اس طرح کی کاروائیوں سے حیرت انگیز طور پر کمزور ہونے کے برعکس اور مضبوط ہو رہی ہے ۔

سب سے بڑا المیہ یہ کہ داعش نے ان علاقوں میں بھی اپنے یونٹس قائم کرنا اپنا فرض سمجھا ہے جہاں ان سے ہزار ہا بہتر جہادی پہلے سے ہی طاغوت کے ساتھ بر سر پیکار ہیں ۔داعش نے اپنی کاروائیوں کا دائرہ وسیع کرتے ہو ئے آتے ہی افغانستان میں کسی امریکہ کے برعکس طالبان کو باہر کرنے کا احمقانہ فیصلہ کر لیا ۔جہاں تک کشمیر میں جہاد شروع کرنے کا تعلق ہے اس تنظیم نے ابھی حزب المجاہدین ،لشکر طیبہ اور جیش محمد کے برعکس مکھی بھی نہیں ماری مگر کشمیر سے باہر دور دراز کسی محفوظ مسلمان ملک میں بیٹھ کرہندوستان کے ساتھ چھبیس برس سے بر سرِ پیکار جہادی تنظیموں پر گند اُچھالنی شروع کردی ،جس سے ان تنظیم کے ’’جہادی تصورات‘‘کا اندازہ لگانا اور بھی آسان ہو جاتا ہے گویا انھیں جہاد بالکفار کے برعکس جہاد بالمسلمین کا شوق اور بھوت سوار ہے ۔اس کی فکری جڑوں میں عجیب و غریب مرض داخل ہے کہ ہم سب سے اچھے مسلمان ،دیندار اور مجاہد ہیں اور پھر حیرت یہ کہ اس پر فخر و غرور اور نمود و نمائش بھی شامل ہے ۔داعش کو فکری توانائی کہاں سے ملتی ہے اور وہ اپنی فکری پیاس کس لٹریچر سے بجھاتی ہے کا اندازہ ان کی تحریر و تقریر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔مگر عالم اسلام کے اس پر خاموش رہنا مشکل بلکہ ناممکن بن چکا ہے ۔اس کو لا محالہ اپنی راہیں متعین کرنی پڑتی ہیں ۔وہ چپ بھی نہیں رہ پاتاہے منہ کھولے تو اس کے دشمنوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔داعش کے مسلئے کو سطحی سمجھنا بھی غلطی ہو گی اس لئے کہ اس کے عقائد و افکار میں طرح طرح کی کجیاں داخل ہیں اور یہ سب وہ اپنے عمل سے ظاہر کر چکے ہیں ۔سعودی عرب کے مفتی اعظم نے انھیں خوارج قرار دیا ہے اور انھیں کافر ماننے سے انکار کردیا ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا داعش کے فکری بگاڑ کا علاج صرف ان کے خلاف فتوے دینے سے ہی حل ہو گا ؟کیا ان کے خلاف فوجی حل ہی آخری حل ہے ؟کیا داعش سے وابستہ سبھی افراداور لیڈروں کو قتل کیا جا سکتا ہے ؟کیا اس قتلِ عام کے کامیاب ہو نے سے یہ فکر بھی دفن ہو جائے گی ؟

داعش ایک فکر اور ایک خاص رویے کا نام ہے ۔داعش ایک ریاست قائم کر نے کے بعد پوری قوت کے ساتھ اپنی فکر کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہے ۔جہاں علماء بھی ہیں ،مصنفین بھی،صحافی بھی ،قلمکار بھی اورمرنے کے لئے آمادہ ایک ایسی جمیعت بھی جو کہیں بھی اتنی تعداد میں میسر نہیں ہے ،داعش میں شامل لوگ سابق فوجی جرنیل بھی ہیں اور کرنل بھی ،یہاں ماہرین معیشت بھی ہیں اور خطرناک ہتھیار بنانے والے اتنے لوگ بھی ہیں جتنے کسی طاقتور ریاست کے پاس ہو نے چاہیے۔ان کے پاس ماہرین تعلیم بھی ہیں اور جج بھی ،سیاستدان بھی ہیں اور تیل کے ذخائر کو صاف کرنے کے بعددوسرے ممالک تک منتقل کرنے والے بھی ۔داعش ان پڑھوں یا جہلا کی جماعت نہیں ہے ۔یہ لوگ قرآن و حدیث کا مطالعہ بھی رکھتے ہیں اور فقہی مسائل سے بھی واقف ہیں ۔ ان کی جتنی بھی وی ڈیوز اب تک انٹرنیٹ پر لوڈ ہو چکی ہیں اور جن کو کروڑوں لوگوں نے اب تک دیکھا بھی ہے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اندرونی نظم و نسق بھی کا فی حد تک ’’جیسے تیسے‘‘ٹھیک چل رہا ہے ۔ان کے ہاں عدالتی نظام بھی قائم ہے اور لڑکوں و لڑکیوں کے لئے تعلیمی ادارے بھی،یہاں بازاروں کی دیکھ ریکھ کے لئے اسکارڈ بھی ہیں اور مال کی ملاوٹ پر روک تھام کے لئے نظام بھی ۔یہ لوگ نئے نئے ہتھیار بھی بنا رہے ہیں اور نئے نئے جنگی طریقے بھی ایجاد کر نے میں جٹے ہو ئے ہیں ۔یہ لوگ اپنی سرحدوں کی حفاظت ہی نہیں کرنا جانتے ہیں بلکہ یہ ان کی توسیع میں دل و جان سے جٹے ہو ئے ہیں اور تو اور یہ اپنے مخالفین کو ان کے اپنے ہی ممالک میں نشانہ بناکر خوف و دہشت میں اضافہ کرنے جیسے نفسیاتی طور طریقوں سے بھی بخوبی واقف ہیں لہذا داعش جیسی جماعت کو سرسری چیلنج قرار دیتے ہو ئے سر پھروں کی ایک تحریک سمجھ لینا بھی حماقت ہے ۔

داعش کے متعلق عمومی تصور یہ پالا جا رہا ہے کہ یہ لوگ ایک ریاست کو چلانے سے عاری نا ہنجار قسم کے لوگوں کی ایک ایسی جمیعت ہوگی جو عوامی مسائل سے تنگ آکر’’اپنی ریاست‘‘دیر سویر’’ شام و عراق کے حکمرانوں کے قدموں‘‘ میں صدقہ کر دے گی ۔اسے بھی بڑھ کر المیہ یہ کہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ’’ابو بکر البغدادی ‘‘کے قتل ہو جانے کے بعد داعش چند ایک روز میں آپ سے آپ ختم ہو جائے گی اور یہ سطحی تصورات کوئی عام انسان یا جاہل نہیں پال رہا ہے بلکہ لکھے پڑھے ٹیلی ویژن چینلز کے اینکر اور سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں گپیں مارنے والے خود ساختہ دانشوران ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ طاقتور نہ ہو تے تو کیا شام و عراق کے اتنے وسیع علاقے پر یہ لوگ قبضہ کر سکتے تھے یا قبضہ کو بر قرار رکھ سکتے ہیں؟داعش کے طاقتور ہو نے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ تمام تر عربی اور مغربی ہوائی قوت کی بمباری کے باوجود داعش کے سپاہ اپنے علاقے چھوڑ کر نہیں بھاگی ہے ۔اگر صورتحال ایسی ہی کمزور ہوتی تو داعش سے خوفزدہ عرب بادشاہوں نے اپنے ’’شاہی افواج‘‘کو کب کا میدان میں جھونک دیا ہوتا یہ اس بات کی دلیل ہے داعش نہ کمزور ہے نہ ہی کوئی تھکی ماندہ فوج ۔امریکہ ،برطانیہ ،فرانس اور جرمنی کی ہوائی افواج کے دوش بدوش روس اور ایران اپنی تمام تر ذہانت و فطانت کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے قیمتی افسران کی قربانی بھی دے رہے ہیں مگر داعش جہاں تھی وہی ہے ۔ممکن ہے کہ کوئی ایک آدھ علاقوں میں عراقی یا شامی فوجوں پردوبارہ قبضوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہو ئے یہ دعویٰ کر ے کہ داعش ہمت ہار رہی ہے میں سمجھتا ہوں کہ ایسے سطحی تجزیے اُمت مسلمہ کو بہت زیادہ نقصان پہنچاچکے ہیں لہذا عقل کا تقاضا یہ ہے کہ جذباتی تجزیوں کے بجائے میدانی سطح پر قدم ٹھہراتے ہو ئے بات کی جائے ۔

یہ بات بھی طے ہے کہ امریکہ کسی بھی صورت میں بشمول مغرب اس سر زمین پر قدم رکھنے کی حماقت کا ارتکاب نہیں کرے گا ۔یہ جنگ اکیلے مسلم اُمہ کو لڑنی ہو گی ۔اس لئے کہ امریکہ نے عراق و افغانستان میں زمینی حقائق کا بغور ادراک کر لیا ہے کہ غیر ممالک میں فوجیں بھیجنے سے نہ صرف یہ کہ دشمنیوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اپنی قوم اور فوج کا بھی مورال گر جاتا ہے ۔ یہاں پہنچ کرآپ کے سامنے سوالات کا ایک انبار کھڑا ہو جاتاہے جن میں ہر سوال اہمیت کا حامل ہے ۔ان سب سوالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر اُمت مسلمہ کے بطن سے ہی اس طرح کے گروہ جنم کیوں لیتے ہیں ؟اُمت مسلمہ کے پاس قرآن و حدیث ہی تو ہے جس کی تشریحات و تفاسیر اور لٹریچرسے انتہا پسندی کی فصل پھوٹ رہی ہے ۔علماء کا المیہ یہ ہے کہ وہ فتوؤں اور بیان بازیوں سے بڑھکر کچھ بھی نہیں کر پاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہی ایک چیز بعض مسلم ریاستوں کے حکام نے ان کے حوالے کر رکھی ہے یعنی فتویٰ اور استفتا،رہے حکام وہ شہزادے ہیں جن کی طبیعت آج بھی لکھنو کے اس ’’نواب ‘‘سے مختلف نہیں ہے جس کی سلطنت پر انگریزوں نے جب قبضہ کرلیا تو اس نے تخت سے اترنے سے صرف اس وجہ سے انکار کر لیا کہ محل میں نواب صاحب کو کوئی نوکر جوتا پہنانے کے لئے موجود نہیں اور جناب نے زندگی بھر کبھی بھی جوتا خود اپنے ہاتھوں نہیں پہنا تھا ۔اسی طرح عرب بادشاہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تیل کی آمدن پر انھوں نے نوکروں چاکروں کی فوج اپنے پاس گروی رکھی ہے اسی طرح پیسے کے بل بوتے پر وہ داعش اور القائدہ کے پرخچے اڑا دیں گے ۔شہزادے خواب بھی بڑے حسین دیکھتے ہیں انھوں نے داعش کے حوالے سے بھی حسین تصورات پال لئے ہیں ۔

ایران یقیناََ ایک قوت ہے جو حقیقت میں اپنی تمام تر قوت و صلاحیت کے ساتھ شام و عراق کی جنگ لڑ رہی ہے مگریہ اس مرض کا ایک عارضی علاج تو ہو سکتا ہے دائمی نہیں ۔ایران اور اس کے اتحادیوں کو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس کے داعش کے خلاف سامنے آنے سے اس جنگ نے مکمل’’ شیعہ سنی جنگ ‘‘کی شکل اختیار کر لی ہے ۔ایران اور اہل تشیع کے ساتھ اعتقادی اور فکری اختلافات رکھنے والے اہل سنت کی (داعش کے تشدد کے باوجود)ہمدردیاں آپ سے آپ ان کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہیں اور ایران اب سر کی آنکھوں سے دیکھ بھی رہا ہے کہ اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود داعش کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے ۔تو دیکھنا یہ ہے کہ جب امریکہ ،مغرب،سنی عرب کے سبھی حکمران ،ایران اور اس کے شامی و عراقی اتحادی ایک طرف اور دوسری جانب تنہا داعش ہے تو ناکامی کے وجوہات کیا ہیں ؟پر انتہائی ٹھنڈے پیٹوں غور کرنا ہوگا اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر داعش اپنی قوت میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر مستقبل میں کیا ہوگا؟ کیا مسلم دنیا اس رد عمل کی متحمل ہو سکتی ہے ؟

عقل کا تقاضا یہ ہے کہ امت مسلمہ اس نازک موقع پر کوئی ایسی حماقت نہ کریں جس کے نتیجے میں اس کا پہلے سے مخدوش مستقبل خدا نخواستہ تاریک ہو جائے گا ۔انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گی کہ آج سے کئی سال پہلے اسے بھی بڑے اور وسیع پیمانے پر پورا مغرب طالبان پر ٹوٹ پڑا جس کا حاصل ہمارے سامنے ہے ۔ جس طالبان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی گالی سے قتل کر نے کے لئے ٹیلی ویژن اسٹڈیوز میں بیٹھے ’’بخارزدہ دانشور‘‘صرف قتل اور مارا ماری کے فتوے جھاڑ رہے تھے وہی بیمار ذہنیت رکھنے والے دانشورمنہ لٹکائے دنیا کے سامنے’’مذاکرات ‘‘کا وظیفہ ورد کرتے نظر آتے ہیں کہ’’ طالبان کو عسکری میدان میں شکست سے دوچار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے‘‘ ۔طالبان کی نظر کابل پر ہے مگر ان کے تخت پر دوبارہ بیٹھنے کے بعد کیا وہ اپنے’’مقتول ساتھیوں‘‘ کا حساب چکانا شروع نہیں کر یں گے۔ تو پھر دنیا کو دھوکہ دینے والے دانشوروں کی ’’چکنی چپڑی باتوں ‘‘میں آنے کے بجائے عقل سے کام لیکر محفوظ وقت کی حفاظت کی جائے اور اس کو ضایع ہو نے سے بچایا جائے ۔ داعش کو طاقت کے بل پر دبانے کے بجائے دوسرے طریقوں پر غور کیا جا ئے ۔افغانستان میں طالبان کے خلاف آپ کے ساتھ پورا مغرب اور امریکہ اپنی پوری قوت کے ساتھ کھڑا تھا مگر آج آپ سے امریکہ کہہ رہا ہے کہ یہ جنگ عربوں کو لڑنی ہوگی ۔ایران کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ اہل ہونے کے باوجود اعتقادی اور فکری اختلافات کو لیکر داعش کی نگاہ میں امریکہ اور اسرائیل سے بھی بڑا دشمن ہے لے دے کے صرف اہل سنت بچتے ہیں جو اس مسئلے کو آج بھی احسن طریقے سے حل کر سکتے ہیں ۔

اہل سنت میں بھی صرف عالم عربی ہی اس مسئلے کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہے اس لئے کہ داعش خالصتاََ ایک عرب تحریک ہے ۔عرب بادشاہوں نے اپنی کرسیوں کے تحفظ کے لئے اگرمصری فوج کو ٹھیکہ دیکر اخوان المسلمون کاقتلِ عام نہ کرایا ہوتا تو معاملہ اتنا گمبھیر ہر گز نہیں ہوتا ۔اس کا مطلب یہ بھی نہ لیا جائے کہ میں داعش کو اخوان کی پیداوار سمجھ رہا ہوں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اخوان کی مظلومیت کی تاریخ بہت طویل ہے اس کے لٹریچر کے اثرات بہت وسیع ہیں آج بھی عربوں میں ان کی قدر و قیمت ہے ۔عرب بادشاہوں سے جو نفرت عام اہل اسلام کو ہے اسے بھی زیادہ عرب جہادی طبقات میں پائی جاتی ہے،بچ بچا کے اخوان ہی پر نظر پڑتی ہے جس پر سے پابندیاں ہٹا کر داعش کے ساتھ بلا کسی تاخیر کے مکالمے کا آغاز کیا جانا چاہیے تاکہ ان کو ’’مین اسٹریم اور عرب سوسائٹی‘‘سے جوڑ کر ان کے انتہا پسندانہ تصورات کی اصلاح کی جائے ۔واقف کاروں کو معلوم ہے کہ جب بھی کسی مین اسٹریم سے الگ تھلگ جماعت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا آغاز کیا جاتا ہے تو اس کی ابتدا کیسے کی جاتی ہے ۔اور پھر ماہرین معاشرت و سماج یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب کسی جماعت کے ساتھ بائیکاٹ کیا جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات کس طرح شرمناک حد تک مرتب ہو تے ہیں ۔داعش ہے تو شام و عراق ،لیبیا و سوڈان اور یمن و افغانستان میں مگر اس کے فکری اثرات ساری دنیا پر پڑ رہے ہیں حتیٰ کہ کشمیر میں بھی نوجوان ان کے اعتقادی اور فکری اثرات سے متاثر ہو رہے ہیں جس کو فتویٰ یا بیان بازی سے روکا نہیں جا سکتا ہے ۔اگر آج’’ناصح مصلح بن کر‘‘ داعش کی اصلاح کی فکر نہیں کی گئی اور اس کو’’بعدِ اصلاح‘‘ اُمت میں دوبارہ ضم نہیں کیا گیاتو یہ ناسور اُمت کو بھسم کرکے رکھدے گا ۔ہمارے اندر یہ تقسیم اور خلیج اس قدر گہری اور وسیع ہو گی کہ اس کو پاٹنا ہمارے لئے ناممکن ہو جائے گا۔ ابھی بھی وقت ہے کاش اُمت مار دھاڑ کے بجائے ہمدردی کے ساتھ اس پہلؤ پر غور کرتی تو شاید اﷲ تعالیٰ معصومین کے خون کے بدلے اصلاح کے راستے سجھاتا ۔یاد رکھئے اگر وقت ہاتھ سے نکل گیا تو یہ جنگ طویل ہوگی اور دونوں بلکہ تمام تر صورتوں میں ہمیں ہی تباہ کردے گی ۔خوارج نے صحابہؓ کے دور میں جنم لیا مگر نظریہ اب تک نہیں مرا، ﷲ خوارج کی گالی سے خارجی نظریئے کے تجدیدی کام کو اپنے ہاتھ میں نہ لیجیے ۔
 
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93802 views writer
journalist
political analyst
.. View More