چین پاکستان اقتصادی راہداری، سیول سوسائٹی کے خدشات

مقامِ شکر ہے کہ وطنِ عزیز میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اپنی دھرتی سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں ۔کسی بھی وقت ،کسی بھی مسئلہ پراگر اندرونِ ملک ایسا کو ئی تنازعہ کھڑا ہو جائے جس سے ملک کی یکجہتی اور اتفا ق و اتحاد میں رخنہ پڑنے کا اندیشہ ہو تو ان کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں ، اس مسئلہ پر غور و فکر کرتے ہیں اور حل کی کو ئی صورت ڈھونڈ نکالنے کی سعی کرتے ہیں۔کاروان تنظیم ایک ایسی ہی غیر سیاسی تنظیم ہے جو خالد ایوب کی سربراہی میں سیول سو سائٹی کی نمائیندگی کرتے ہو ئے اس صدی کے سب سے بڑے اور پاکستان کی معاشی تقدیر بدلنے والے منصوبے CPEC یعنی چین پاکستان اکنامک کاریڈور سے متعلق پیدا ہونے والے اختلافات کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہو ئی تو اس کے حل ڈھونڈنے کے لئے پشاور میں دانشوروں ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مختلف شعبہ حیات سے منسلک افرادکو بلاکر اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی ڈالی۔ جس میں پشاور یو نیورسٹی کے جغرافیہ ڈیپا رٹمنٹ کے ڈاکٹر پروفیسر احسان علی صاحب، آئی آر کے جناب ڈاکٹر پروفیسر عدنان سرور، ڈاکٹر پروفیسر یاسین صاحب،معروف کالم نگار مشتاق شباب اور راقم الحروف کے علاوہ کئی قد آور شخصیات مو جود تھیں۔

کس نے کیا کہا، کی بجائے میں ان تمام حضرات کی طرف سے پیش کردہ ان تجاویز کا ذکر کرنا چا ہوں گا جس پر سب کا اتفاق بھی تھا اور جو ملک کے موجودہ حکمرانوں کے لئے (اگر وہ بہرے نہ ہوں ) غور و فکر کے متقاضی بھی ہیں۔اس منصوبے پر اظہارِ خیال کرتے ہو ئے مقررین نے بتایا کہ یہ منصوبہ جہاں چین کے لئے بہت سے مالی و دفاعی فوائد دامن میں لئے ہو ئے ہے وہان پاکستا ن کے لئے اس صدی کا سب سے بڑا ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے واقعی پاکستان کی تقدیر بدل جائیگی۔ یہ پاکستان کے لئے گیم چینجر پلان ہے۔ اس سے خو شحالی اور ترقی کا ناقابلِ یقین دور شروع ہو سکتا ہے۔اس منصوبے سے چین بحیرہ عرب میں اتر جا ئے گا اور بحیرہ عرب میں اترنے کا مطلب یہ ہے کہ کہ چین کو مشرقِ وسطیٰ تک رسائی مل جا جائے گی مثلا اس روٹ سے چین کو متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب، کویت، عراق، یمن کی منڈیوں تک جا پہنچے گا۔اس منصوبے سے چین کو اس خطے پر دفاعی دسترس بھی مل جائے گی۔پروفیسر ڈاکٹر احسان نے پروجیکٹر سکرین پر تینوں مجوزہ روٹ دکھاتے ہو ئے بتایا کہ ایک روٹ مغربی روٹ کہلاتا ہے جو چین کے سنکیانگ شہر سے پختونخوا کے گلگت، ہزارہ،ھسن ابدال سے ہوتا ہوا کو ہاٹ، ڈی آئی خان سے ہو کر بلو چستان کے ژوب، قلعہ سیف اﷲ، پشین، کو ئٹہ اور گوادر بندر گاہ تک جائے گی،دوسرا روٹ مشرقی روٹ کہلاتا ہے جو گلگت،اسلام آباد،لاہور، ملتان سکھر،رتوڈھیرو سے گوادر جاتا ہے جبکہ تیسرا روت سنٹرل روٹ کہلایا جاتا ہے جو گلگت، ہزارہ، ھسن ابدال ، میاں والی، فیصل آباد ، ملتان، رحیمیار خان سے ہوتا ہوا گوادر تک جائے گا۔

لیکن جس پہلو پر ان دانشوروں نے تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا وہ اس منصوبے سے متعلق مرکزی حکومت کے حکمرانوں کا تھا جس کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور بلو چستان میں بے چینی پھیلی ہو ئی ہے۔ مقررین نے کہا کہ ایک طرف چین ہے جو اپنے جنو بی پسماندہ علاقوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ پختون خوا اور بلو چستان کے پسماندہ اور ترقی سے محروم عوام کو خو شحالی اور ترقی کے دوڑ میں شامل کرنا چاہتے ہیں ، چین نے ابتداء میں مغربی روٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر افسوس کہ پنجاب کے حکمرانوں کو خیبر پختونخوا اور بلو چستان کی ترقی سے کوئی غرض نہیں،وہ اقتصادی راہداری کے روٹ میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں کر کے پختونخوا اور بلوچستان کے حق پر ڈاکہ ڈالنا چاہتے ہیں۔وہ نہایت رازداری کے ساتھ مغربی روٹ کو نظر انداز کرتے ہو ئے راہداری کو لاہور اور وسطی پنجاب سے گزارنے کے لئے متعدد مرتبہ اپنے بھائی شہباز شریف کے ساتھ چین جا چکے ہیں اور مغربی روٹ کو مشرقی روٹ مین بدل کر باقاعدہ کام کا آغاز بھی کر چکے ہیں۔اجلاس میں حاضر بعض افراد نے سوال اٹھایا کہ کیا نواز شریف صرف پنجاب کے وزیر اعظم ہیں ؟

مقررین نے پختون سیاسی قیادت کے بارے میں بھی اظہارِ خیال کرتے ہو ئے مایو سی کا اظہار کیا ،اور اس خد شے کا اظہار کیا گیا کہ پختون قیادت کہیں کسی مصلحت کا شکار نہ ہو جائے اور کہیں نواز شریف اور احسن اقبال کے ساتھ اس ظلم میں شریک نہ ہو جائے۔

آخر میں کاروان تنظیم کے چیئرمین خالد ایوب نے سیول سو سائٹی کی نمائیندگی کرتے ہو ئے کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم سب کو پاکستان کی خو شحالی و ترقی بہت عزیز ہے، ہم سب صرف خیبر پختونخوا کی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں ۔اس لئے ہم اپنی تھینک ٹینک کے سامنے یہ مسئلہ رکھیں گے جو تحریری صورت میں اپنی سفارشات و تجاویز پیش کرے گی ۔جسے ہم متعلقہ با اختیار حکومتی عہدیداروں تک پہنچا ئیں گے اور انشا اﷲ اس کا مثبت نتیجہ نکلے گا لیکن اگر کسی نے اس پر کان نہ دھرا تو ہم ہر قسم کی قربانی اور آخری حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے۔۔

یہ سب کچھ سن کر مجھے محسوس ہوا کہ خیبر پختونخوا کے لوگ احساسِ محرومی کا شکار ہو رہے ہیں اگر نوازشریف اور ان کے مخصوص ٹولے نے ہو ش کے نا خن نہ لئے اور حکومت اس عظیم قومی منصوبے کے سلسلے میں مسلسل غلط بیانی سے کام لیتی رہی، اصل روٹ میں خفیہ طور پر تبدیلیوں کی مرتکب ہو تی رہی تو اﷲ نہ کرے،فیڈریشن کو مستقبل میں سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔لہذا میری وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے، قومی مشترکہ مفادات کو نسل کا اجلاس بلا کر مغربی روٹ بنانے کا اعلان کرتے ہو ئے راہداری اور صنعتی زونز کے نقشے صوبوں کے حوالے کر دے اور اس سلسلے میں پیدا شدہ شکوک و شبہات اور کنفیوژن کو ختم کرے۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315784 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More