چائلڈ لیبر کا خاتمہ، یا غریب کا روزگار بند

تحریر: عائشہ احمد
پنجاب حکومت کے چائلڈ لیبر کے خاتمے کی مہم کا اعلان ہوا تو مجھے پچھلے سال بیتا کچھ وقت یاد آگیا۔ میرا کام کے سلسلے میں ایک کالج جانا ہوا، دوپہر کا وقت آن پہنچا تو کچھ کھانے کے لیے کینٹین پر پہنچی وہاں طالب علموں کا ہجوم لگا ہوا تھا،اس دوران ایک کام کرنے والی بچی آئی اس کی عمر 7 سال کے لگ بھگ ہوگی۔ اُس کے ہاتھ میں ایک پلیٹ تھی جس میں کچھ بچے ہوئے دہی بڑے اور سموسے کا ایک ٹکڑا تھا۔ کینٹین کی مالکن نے وہ دونوں چیزیں ایک شاپر میں ڈالیں اور اُس بچی کو کہا کہ یہ تم کھالینا اور اس بچی نے وہ شاپر ایک طرف رکھ دیا اور برتن دھونے لگی۔ میرے لیے یہ ایک بڑا اذیت ناک لمحہ تھا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کالج ماہانہ لاکھوں کماتا ہوگا اور یہاں پر ننھے بچے جن کو پاکستان کا مستقبل کہا جاتا ہے۔ برتن دھونے اور لوگوں کا بچا ہوا کھانے پرمجبور ہیں۔

یقینا یہ کالج بھی اپنے کالج میں چائلڈ لیبر پہ بات کرتا ہوگا اور پھر اس کو بھی داد ملتی ہو گی، کسی چیف منسٹر سے،ایم این اے سے ،ایم پی اے سے ،یہ صرف کایک کالج کا مسئلہ نہیں ہے ۔بلکہ پورے پاکستان میں چائلڈ لیبر عروج پہ ہے۔اسکولز ہوں،کالجز،یونیورسٹیز، ڈھابہ ہوٹلز،ورک شاپس،سڑکوں،گھروں اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور اینٹوں کے بھٹوں پہ یہ ننھے پھول آپ کو کام کرتے نظر آئیں گے۔ لیکن سوچنے والی بات ہے کہ چائلڈ لیبر پیدا کیوں ہوتی ہے؟ کون سے ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں چائلڈ لیبر میں اضافہ ہو رہا ہے ۔نا صرف یہ کہ یہ بچے مزدوری کرتے ہیں بلکہ اِن کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ نشہ اور بہت سی دوسری اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں کئی ایسے واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں اورپھر یہی بچے بڑے ہو کر جرائم کی راہ پہ چل کر معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت چایلڈ لیبر اس کی بڑی وجہ ہے۔اور غربت کا سب سے بڑا سبب مہنگائی کا بے بے قابو ہوتا جن ہے جس کو کنٹرول کرنا حکومت کے بس میں نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ گھر چلانے کے لیے ماں باپ بچوں کو اسکول بھیجنے کی بجائے کام پہ بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں۔لیکن والدین بھی کیا کریں مہنگائی کے اس دور میں جہاں ایک وقت کا چولہا جلنا بھی مشکل ہے وہاں اگر گھر کے سب افراد بھی مل کر کام کریں تو بھی مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب نے کے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے اعلان پر عمل در آمد ہو رہا ہے۔ انہوں نے بھٹوں پر کام کرنے بچوں کو اسکول جانے پر وظیفہ،مفت کتابیں،یونیفارم اور اسٹیشنری دینے کے پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ اسکول جانے والے بچوں کو رواں برس تعلیمی سیشن کے آغاز پر ایک ہزار ماہانہ وظیفہ بھی ملے گا اور اس کے ساتھ اسکول بھجوانے پر والدین کو دو ہزار روپے دیے جائیں گے۔

وزیر اعلیٰ کا چائلڈ لیبر کے حوالے سے ایک احسن قدم ہے جس کے دور رس نتائج نکلیں گے ۔لیکن کیا بھٹے سیل کر دینا اور ماہانہ ایک ہزار وظیفہ چائلڈ لیبر کو ختم کر دے گا؟یقینا یہ سوال بہت سے ذہنوں میں ہوگا۔جس گھر میں اتنے افراد ہوں اور سب لوگوں کے کمانے پر بھی گھر کا چولہا نہ جل سکے وہاں ایک ہزار روپے کیا غریب کے دکھوں کا مداوا کر سکے گا؟ ایک ہزار سے تو آٹے کا تھیلا نہیں آتا اور کیا پتہ بھٹے پر وہ مزدور بچہ اسے زیادہ ماہانہ کما لیتا ہو۔یا وہ بچہ اپنے گھر کا واحد کفیل ہو ۔تو وہ بچہ پڑھے گا تو اُس کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ کیوں کہ مہنگائی تو آسمانوں کو چھو رہی ہے اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ منصوبہ بھی باقی منصبوں کی طرح صرف کاغذوں کی حد تک ہو اور ریت کے ڈھیر کی طرح ہوا میں بکھر جائے۔

مسئلہ پھر وہی کھڑا ہے کہ ہمیں چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے ایک مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ایسی پلاننگ کی جائے کہ ملک سے چایلڈ لیبر کا مکمل خاتمہ ہو ،اس کے لیے حکومت کو لمبے عرصے کی منصوبہ بندی کرنی ہو گی تاکہ مستقبل قریب میں چائلڈ لیبر پیدا ہی نہ ہو،جب حکومت روز گار تمام لوگوں کو مہیا کرے گی ،تو بچے اسکول جائیں گے لیکن یہاں تو نوکریاں نا پید ہیں۔ پھر والدین کے پاس یہی آپشن بچ جاتا کہ اپنے معصوم بچوں کو کام پر بھیجیں۔

ملک میں زیادہ سے زیادہ فیکٹریاں لگیں ،کارخانے لگیں،زیادہ گورنمنٹ اسکولز بنیں،کالجز ،یونیورسٹیز بنیں تو ہی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ۔کیونکہ قوموں کی ترقی ہمیشہ تعلیم اور اقتصادی ترقی سے ہوئی ہے۔جب ملک میں روزگار ہی نہیں ہے۔مزدور بے کار بیٹھے ہیں،نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے پھر رہے ہیں تو پھر غریب کے پاس یہی آپشن رہ جاتا کہ وہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے اپنے بچوں کو اِن سرمایہ داروں کے ہاں کام پہ بھیجیں۔
جو ان ننھی کونپلوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیتے ہیں۔اور پھر نسل در نسل یہ کام چلتا جاتا ہے۔اور یہ ننھے پھول ہاتھوں میں کاغذ اور قلم کی بجائے مٹی سے اپنی تقدیر کو آگ کی نظر کر دیتے ہیں۔اس لیے حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس مسئلے کا مستقبل بنیادوں پر کوئی حل سوچنا ہوگا ورنہ یہ ننھے پھول یونہی اپنا بچپن مٹی گوندتے گوندتے گزار دیں گے اور ان میں سے کئی حالات سے دلبرداشتہ ہوکر جرائم کی راہ پہ چل پڑیں گے۔اس سے پہلے کی دیر ہو جائے ہمیں مل کر ننھے پھولوں کی آبیاری کرنی ہے۔تاکہ یہ کھل کر پھول بنیں اور ملک کی ترقی کے لیے کام کریں۔
سر اٹھا کر شہر میں چلنے کا موسم آگیا
آؤ کہ موسم بدل دینے کا موسم آگیا
رو رہا تھا کل وہ بچہ اپنے پھٹے کرتے کے ساتھ
آج وہ بچہ کسی گاڑی کے نیچے آگیا
کب تلک کاغذ چنیں کوچوں کے گندے ڈھیر سے
کونپلوں کے پھولنے پھلنے کا موسم آگیا
آؤ جاڑو چھین لیں ان ننھے ہاتھوں سے کہ اب
ہاتھ میں اِن کے قلم دینے کا موسم آگیا
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142318 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.