گرم سیاسی موسم : وفاق بہ مقابلہ سندھ

آجکل سیاسی موسم انتہائی گرم ہے، فریقین ایک دوسرے پر گولا باری کرنے میں سبقت لے جانے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں۔ سیاست میں تلخ کلامی اس وقت شروع ہوئی جب وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف بیرون ملک کے دورے پر تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں وزیر داخلہ جو موجودہ بینہ کے سب سے اہم، طاقت ور وزیر تصور کیے جاتے ہیں نے ایک پریس کانفرنس میں سندھ کے حکمراں سیاست دانوں کو آڑے ہاتھو لیا۔ چودھری نثارنے سندھ کے حکمرانوں کے ساتھ اپنی جماعت کی پنجاب کی حکومت پر بھی تنقید کرتے ہوئے پنجاب میں اسکولوں کی بندش کو دہشگردوں کی حوصلہ افزائی قرار ددیا۔ اپنی اس پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ نے ا پوزیشن لیڈر کی حکومت سے مک مکا کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسی مک مکا کا الزام تحریک انصاف لگاتی رہی ہے۔ انہوں نے اپنی ہی حکومت سے پوچھا کہ اس کے بدلے میں کیا حاصل ہوا، ان کا یہ بھی فرمانا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف بندوق کی جنگ تو سیکوریٹی اداروں کی کاوشوں سے جیت رہے ہیں لیکن نفسیاستی طور پر ہار رہے ہیں۔چودھری نثار نے تحریک انصاف کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ خیبر پختونخواہ نے اسکول بند نہ کر کے اچھی مثال قائم کی ، انہوں نے فرمایا کہ پیپلز پارٹی مایوسی پھیلارہی ہے ، مایوسی اور ڈپریشن پھیلانے والوں کا راستہ روکنا ہوگا۔ چودھری نثار کے بارے میں مختلف قسم کی خبریں بہت عرصہ سے گردش کررہی ہیں کہ ان کا جھکاؤ کپتان کی جانب ہے، ان کے اس قسم کے بیانات جس میں کپتان کی پارٹی کے لیے نرم گوشہ دکھا ئی دیتا ہے کی وجہ سے ان خبروں کو تقویت ملتی ہے۔ سوشل میڈیا پر مسلسل اس قسم کی قیاس آرائیاں کافی عرصہ سے چل رہی ہیں کہ چودھری صاحب اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کے فیس میں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ نواز شریف اور ان کی جماعت کے لیے بہت بڑا سیاسی جھٹکا ہوگا۔ جب کہ ان کی جماعت کے چند وزراء چودھری صاحب پر ظاہری طور پر مگر مچھ کے آنسو بہائیں گے لیکن اندر سے خوشی منارہے ہوں گے کہ چلومیاں صاحب کے ایک چھیتے سے تو نجات ملی۔ اگر ایسا ہوبھی گیا تو کوئی خاص بات نہیں ہوگی ایسی مثالیں ماضی میں ملتی ہیں کہ لوگوں نے اقتدار کو ٹھوکر مار کر مخالف جماعت کا رخ کیا ، یا پھر وہ خاموشی سے گھر بیٹھ گئے، چودھری سرور گورنری چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ مخدوم شاہ محمود بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ خیر یہ تو نون لیگ کا اندرونی معاملہ ہے ۔ میاں صاحب چودھری نثار کو اتنا بڑا قدم شاید ہی اٹھا نے دیں۔ چودھری صاحب اور میاں ہی نون لیگ کے والد لیڈر ہیں جن کے درمیان عزت اور مروت کا رشتہ بھی قائم ہے۔ چودھری صاحب ناراض بھی ہوئے لیکن انہوں نے میاں صاحب کے بارے میں ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالا۔ خاموشی ضرور اختیار کر لی۔ میاں صاحب کے علاوہ وہ پارٹی کے ہر ایک لیڈر کی خامیوں کے بارے میں وہ دو ٹوک الفاظ میں بیان داغ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نون لیگ کے نڈر، بے باک لیڈر گردانے جاتے ہیں۔

چودھری نثار کی اس بمباری سے سندھ حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہوجانا یقینی تھا۔ ایک سے زیادہ پارٹی لیڈروں نے اپنی بندوق کا رخ چودھری نثار کی جانب کرتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے چودھری صاحب کی کارکردگی پر متعدد سوالات اٹھائے۔ خورشید شاہ صاحب نے چودھری نثار کو وزیر اعظم کی آستین کا سانپ قرار دیا۔ مولا بخش چانڈیو نے چودھری نثار کو طالبان کا ترجمان اور نثار کھوڑو نے چودھری صاحب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس سے ایک روز قبل ہی سپہ سالار پاکستان جنرل رحیل شریف نے کراچی کا دورہ کیا تھااور کور ہیڈ کواٹر میں امن و امان سے متعلق اجلاس کی صدارت کی تھی ۔ آرمی چیف نے اجلاس کے بعد اس عزم کا اظہار کیا کہ کراچی کے عوام کی روز مرہ زندگی کو بے خوف اور پر امن بنانے کے لیے کسی بھی حدتک جائیں گے، کراچی کو دہشت گردی سے پاک کیا جائے گا۔ شہر قائد میں امن و امان اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ آرمی چیف نے حکم دیا کہ کراچی میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرتے ہوئے شہر سے باہر ان کے ٹھکانوں اور رابطوں کو ختم کیا جائے۔ جنرل راحیل کے اس عزم کے بعد چودھری صاحب کا ایک دم سے ڈنڈا لے کر سندھ حکومت کو ٹھیکا لگانا ،کیا ان میں کسی بھی قسم کا تعلق ہوسکتا ہے؟ گرما گرم سیاسی ماحول میں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی چودھری نثار کے لگائے ہوئے زخموں کو صاف کرتے ہوئے جوابی کاروائی کر ہی رہی تھی ، ایک کے بعد ایک پیپلز پارٹی کا رہنما چودھری نثار کے لگائے گئے الزامات کا جواب دے رہا تھا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے گرما گرم ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ وفاق‘ سندھ حکومت سے تصادم نہیں چا ہتا، اقتصادی استحکام اوردہشت گردی کے خلاف کامیابیوں نے عوام میں نئی امید پیدا کردی ہے، گرما گرمی کے اس ماحول میں رینجرز نے کراچی سے عذیر بلوچ کی گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے انہیں دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر کے نوے دن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ ایک منصوبے کا حصہ ہے؟ نون لیگ کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی پر پے در پے حملے کر کے اسے مفلوج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، کچھ اس قسم کی اطلاعات بھی ہیں کہ پیپلز پارٹی پر سیاسی دباؤ بڑھا یا جارہا ہے، اس کے اثرات سندھ کی ایک اور بڑے سیاسی جماعت پر بھی ہوں گے جو پہلے ہی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ چودھری نثار کی جانب سے مک مکا کی بات گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مترادف ہے۔ کیا سید خورشید شاہ صاحب کو میاں صاحب یا ان کی حکومت نے فائدہ پہنچایا ؟ کیا انہیں خریدنے کی کوشش کی گئی؟ کیا خورشید شاہ صاحب کو اب پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ جہاں تک مک مکا کا تعلق ہے تو زرداری صاحب کی صدارت میں میاں صاحب کی فرینڈلی اپوزیشن سے قوم اچھی طرح واقف ہے۔ میاں صاحب اور زرداری صاحب کے درمیان کسی بھی قسم کے خفیہ مک مکا کو بعید از قیاس تصور نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کے درمیان تو کسی بھی قسم کا مک مکا نہیں لیکن دونوں سیاسی پارٹیوں کے سرباراہان کے درمیان کچھ انڈر اسٹینڈنگ کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔میاں صاحب اور پی پی کے لیڈروں کے درمیان مک مکا کی پرانی تاریخ ہے ۔ میاں صاحب پی پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کے عادی رہے ہیں، قوم کو اچھی طرح یاد ہے کہ میاں صاحب اور بے نظیر بھٹوکے درمیان ’میثاق جمہوریت‘ کے نام سے مکا مکا ہوا تھا، دوسرا مک مکا پیپلز پارٹی کے سابق دور میں جس میں زرداری صاحب صدر مملکت کے منسب پر فائز تھے ، میاں صاحب نے ان سے پانچ سال پورے کرنے کا خاموش مک مکا کیا ہوا تھا جس کا عملی مظاہرہ پوری قوم نے دیکھا، اس عمل کو جمہوریت بچاؤ معاہدہ بھی کہا گیا، اب زرداری صاحب بھلا میاں صاحب کا یہ احسان کیسے بھلا سکتے ہیں ، اس لیے کہا یہی جارہا ہے کہ یہ سب مک مکا ہے،میاں صاحب نے پیپلز پارٹی کے لیے مشکلات پیدا نہیں کیں ، فرینڈلی اپو زیشن کی ، ان پر یہ الزام لگا یا گیا، انہوں نے اسے جمہوریت بچاؤ رویہ کہا اب زرداری صاحب بھی میاں صاحب کی حکومت کو کس طرح گراسکتے ہیں، وہ بھی فرینڈلی اپوزیشن کا جواب فریڈلی باتوں سے ہی دیں گے، ظاہرمیں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ہوتی رہیں گی۔ ڈاکٹر عاصم کو کس شد و مد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، کس قدر آہ و بکا کی گئی ، ریمانڈ پر ریمانڈ ، بیانات پر بیانات ، نکلا کیا، سہولت کاری کا الزام، اسپتال میں دہشت گردوں کا علاج ہوا، اب کہا ں ہے ڈاکٹر عاصم، بہت آرام و سکون کے ساتھ اسپتال کے وی آئی پی روم میں ، جہاں تمام طرح کی آسائشیں حاصل ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کا معاملا ٹھنڈا ہوچکا اب عذیربلوچ اسکرین کی ذینت بن چکا ہے۔ اس کے حوالے سے کئی علاقائی لیڈروں کو اسکرین پر آنے کا موقع مل گیا ہے۔ عذیر بلوچ کب گرفتار ہوا، رینجرز کی بیان کردہ کہانی درست ہے یا پھر وہ باتیں درست ہیں جو میڈیا اور سوشل میڈیا میں عرصہ دراز سے گردش کررہی ہیں، بعض بعض تجزیہ نگار تو چھ ماہ قبل عذیر کی گرفتاری کی خبر دے رہے ہیں، حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی یہ کہتے ہوئے کہ رینجرز نے ان سے عذیر بلوچ کی گرفتاری کا بتایا، ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ انہوں نے بھی سنا ہے کہ عذیر بلوچ کو پہلے گرفتار کیا جاچکا تھا۔ کیا صحیح ہے کیا غلط، ہمارے ملک کا نظام اور سیاست کا دستور نرالا ہے۔ یہاں ہر چیز ممکن ہے۔ عوام کی نظریں سیاست دانوں کے پر نہیں بلکہ صاحب اختیار قوتوں پر ہیں ، ان کا خیال ہے کہ جنرل راحیل شریف جن کے ریٹائرمنٹ میں چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں اور انہوں نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا فیصلہ بھی کیا ہے تو کیا وہ اس باقی ماندہ وقت میں اپنا ہدف مکمل کر لیں گے۔ بہت ممکن ہے کہ مکمل تو ر پر یہ کام ان کی موجودگی میں نہ ہوپائے لیکن فوج ایک ایسا ادارہ ہے کہ جہاں شخصیت سے بڑھ کر ادارے کاتقدس اہم ہوتا ہے ، شخص کوئی بھی ہو جس ہدف کا فیصلہ ہوچکا اس پر ہر صورت میں عمل ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے امید یہی ہے کہ جنرل راحیل شریف کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی ان کی جگہ کوئی بھی ہوگا ، دہشت گردی کے خلاف ، پاکستان کو خصوصاً کراچی کو دہشت گردی اور دیگر برائیوں سے پاک کرنے کا عمل جاری و ساری رہے گا۔ جہاں تک سیاست دانوں کے بیانات کا تعلق ہے تو ہمارے سیاست داں باتوں کے غازی ہیں وہ اپنے مخالف کو دشمن تصور کرکے اس پر حملہ کرتے ہیں حالانکہ سیاست میں برداشت اور درگزر سے آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ الفاظ اور جملوں کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنے سے اچھائی ہوگی برائی نہیں۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1287878 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More