تحریر: کہکشاں صابر
سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں
''اشک تھمتے نہیں میرے جب نام کشمیر لب پہ آتا ہے''
کشمیر کا نام زباں پرآتے ہی ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پیاروں کی ہمارے
کشمیری بھائیوں کی تشدد اور ظلم وستم سے بھری ہوئی لاشیں آ جاتی ہیں ماؤں
اور بہنوں کی اجتماعی آبروریزی کا خوف ناک منظر نظروں کے سامنیگھوم جاتا
ہیں چھوٹے چھوٹے بچوں کے آنسو ہم سے سوال کرتے ہیں کشمیر کی جنت نظیر وادی
آج بھی لہو کی آگ میں جل رہی ہے
زندہ ہے پر مانگ رہی ہے جینے کی آزادی
دیو کے چنگل میں شہزادی یہ کشمیر کی وادی
کشمیر ایک اہم اور عظیم ریاست اس کی جنت نظیر وادی جہاں اپنی خوبصورتی اور
دلکشی کے لیے مقبول نظرہے وہی اگر ہم اس کو جغرافیائی اعتبار سے دیکھیں تو
اس کی سرحد ہندستان ،چین ،روس ،افغانستا ن کے علاوہ پاکستان سے سات سو کلو
میڑ تک ملی ہوئی ہے پاکستان اور کشمیرکا ساتھ صرف سرحدی حد تک نہیں بلکہ
مذہبی معاشرتی اور معاشی نقطہ نظر سے بھی کشمیر پاکستان کے بے حد قریب ہیاس
کے علاوہ پاکستان کے تمام دریا بھی کشمیر سے نکلتی ہیں پاکستان کے نام میں
'ک' کشمیر کی نمائندگی کرتا ہے قائداعظم نے کیا خوب فرمایا ہے
''کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی شخص شہ رگ کے بغیر زندہ نہیں رہ
سکتا زندہ ہے''
آہ !یہ قوم نجیب وچرب دست وتر ماغ
ہے کہا روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
اس خوبصورت وادی کو انگریزوں نے صرف 75 لاکھ روپے کی خاظر گلاب سنگھ ڈوگرہ
کے ہاتھوں فروخت کر دیاتھا اور اس کے بعد سیہی یہ وادوی ڈوگرہ خاندان کی
حکمرانی میں آگئی-
ریاست جموں کشمیر کا راجہ ڈوگرہ ہندو تھا اس نے مسلمانوں پر بے پناہ ظلم
روا رکھا اس ظلم اور تشدد سے تنگ آکر 1931 میں کشمیری مسلمانوں نے مل کر
بغاوت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 13 جولائی 1931 کو 31 آمیوں کو سری نگر کی
جیل کے سامنے قتل کر دیا گیا ہر سال کشمیری اس دن کو یوم شہدا کے نام سے
مناتے ہیں
قانون ہند کی رو سے جب برضغیر کی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیاتھا کہ وہ
بھارت اورپاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرلیں تو ماؤنٹ بیٹن اور
ریڈ کلف کی بدیانتی نے بھارت کو گورداسپور کے علاقے سیکشمیر میں آنے کا
راستہ دیا اور۔۔مہاراجہ کشمیر نے کشمیری عوام کو مطمن کرنے کے لیے پاکستان
کے ساتھ معاملات کو جوں کا توں رکھنے کا ایک معاہدہ کیا لیکن اس کے ساتھ ہی
پٹیالہ اور کپورتھا کی ریاستوں اورراشٹریہ سیوک سنگھ کے ایجنٹوں کی مدد سے
پوری ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا بے قصور لوگوں کا خون پانی کی طرح
بہایا اس درندگی میں پانچ لاکھ مسلمان شہید ہوئیں اور تقریبا پندرہ لاکھ
مسلمانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی ان حالات میں ہر طرف بغاوت پھیل گئی
اور یہی بغاوت تحریک آزادی کشمیر کی صورت اختیار کر گئی کشمیریوں کی مدد کے
لیے قبائلی مجاہدین بھی ریاست میں پہنچ گئے اور کشمیر کا کا فی حصہ آزاد
کروا لیا مہاراجہ کشمیر نے ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ الحاق
کی دستاویزات پر دستخط کرکے 27اکتوبر 1947 کو بھارتی فوجیوں کو سری نگر آنے
کی دعوت دی
توڑ اس دست جفا کیش کو یارب جس نے
روحِ آزدایِ کشمیر کو پامال کیا
تب سے آج تک بھارت نے ہر طرح کا طریقہ اپنا کر کشمیری نوجوانوں کے ہاتھ
پاؤں کاٹ کر ،بجلی کا کرنٹ دے کر ،کئی کئی لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفن
کر کے ،معصوم کمسن بچیوں اور بہنوں کی اجتماعی ابروریزی کر کیاور ہر ہر طرح
سے انھوں نے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی کوشش کی
پر یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
5فروری 1989 کو لاہور پریس کانفرنس منعقد ہوئی پوری دنیا کو کشمیر کے مسلے
کے بارے میں اجاگر کرنے کے لیے تیاری شروع کی گئی 5فروری 1989کو یوم کشمیر
پہلی دفعہ اور 1990کو یوم کشمیر یعنی یوم یکجہتی بہت بڑے پیمانے پر منائی
گئی جس میں کشمیریوں کے ساتھ ہونیوالے بیجا تشدد اور ظلم وستم میں کشمیریوں
کے ساتھ ہونے کیدعوے کیں گئے
سوئے ہوئے ضمیر نے اب تک دروازہ نہیں کھول
ہم نے تو ظلم کے پہلے دن زنجیر عدل ہلا دی
اب 5فروری یوم یکجہتی یوم کشمیر کا دن صرف ایک سرکاری چھٹی کی حیثیت اختیار
کر گیا ہیں کیا ہمارے ضمیر مردہ ہوگئیہیں یا ہم اپنے اصل کو بھول چکیہیں
روز کئی کئی بچییتیم ہو جاتیہیں کتنی ہی بہنیں بیوہ اور کتنی ہی ماؤں کی
گودخالی ہوجاتی ہیں ہم اس جبر اور ظلم کو دیکھ کر کبوتر کیطرح آنکھیں بند
کر لیتے ہیں یہ سوچ کرکہ ہم کیا کرسکتے ہیں اگر یہی نیت رہی ہماری تو ہم
کبھی بھی کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہیں بناسکے گے اگر ہم یہی سوچتے رہیکہ
ہمارے حکمران کچھ کریں گے تو اب تک یہ حکمران کیوں سوئے ہوئے ہیں ہم کو ایک
ہونا ہوگا
ہم کو یکجا ہونا ہو گا
تحریک چلے گی نگر نگر
ایک بار پھر انقلاب آئے گا
جیسے 23 مارچ کو تمام مسلمان قوم متحد ہوئی تھی اور 14اگست کو پاکستان وجود
میں آیا تھا ایک خواب کی تعبیر پوری ہوئی تھی اب پھر سے ہمیں خود کی ذات کو
بھول کر ان مظلوموں کے لیے سوچنا پڑے گا خود میں ہمت اور جذبہ پیدا کرنا ہو
گا جس طرح ہمارے بزرگوں نے خود سے کیا وعدہ پورا کیا تھا آزادی کا وعدہ
کھلی فضا میں سانس لینے کا وعدہ ہمیں بھی ایک عزم ایک چھوٹی سی جرت و ہمت
پھر سے کرنی ہیں ہمیں ایک سے سو ،سو سے ہزار اور ہزاروں سے لاکھوں افراد
میں بدلنا ہیں پھرکیا اقوام متحدہ، کیا بین لااقوامی تنظیمیں اور کیا
ہندوستان اور کیا ان کی فوجیں ہمارا ،ہمارے کشمیری بھائیوں کا ہم مسلمانوں
کا کچھ نہیں بیگاڑ سکیں گے کشمیر بنے گا پاکستان اور بن کے رہے گا پاکستان
جنت اپنی آزادی کی خوشبو لوٹائے گی کافروں کے ناپاک ارادوں کو نست ونابود
کرکے ایک خواب کو اگر رب تعالی نے پورا کیا ہے تو کشمیر کی آزادی کا دن بھی
ضرور آئیگا انشااﷲ
کیا خوب کہا ہے
راجا حبیب جالب نے
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
ہر جابر و ظالم کا کرتے ہی چلو سر خم
ہر پھول ہے فریادی آنکھوں میں لیے شبنم
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
دیکھا نہیں جاتا اب مظلوم کا یہ عالم
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
ان جنگ پرستوں سے ہے سارا جہاں برہم
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم |