پانی تیرے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغانِ سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب
اے وادیِ لالا
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
1947 سے اہل کشمیر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس جنگ کا پس منظر دیکھا
جائے تو تقسیمِ ہند کے ایک سال بعد بھارت نے عالمی انسانی حقوق کی خلاف
ورزی کرتے ہوئے 3 جون 1947 کے تاریخی لندن پلان کی دھجیاں بکھیر دی تھی۔
مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے واضح مسلم تناسب کا مہاراجہ کشمیر نے نہ احترام
کیا نہ انکی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی، اسکے برعکس اپنے ہندوانہ تعصب میں
بہہ گیا اور کانگریسی لیڈروں کی ایما پر راتوں رات اپنا یک طرفہ فیصلہ
کشمیر پر لاگو کردیا یہ جانے بغیر کے وادیِ کشمیر کی مسلم اکثریت برصغیر کی
تقسیم کے نتیجے میں قائم ہونے والے دوملکوں میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتی
ہے، لندن پالان میں واضح کہا گیا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ عوام کی رائے کے
بغیر ممکن نہ ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ وہاں کی سماجی و ثقافتی روایات کیا ہیں
اور وہاں کی اکثریت کیا چاہتی ہے مگر بھارتی حکمرانوں نے لندن پلان کو نہ
صرف مجروح کیا بکلہ اس حد تک مجروح کیا کہ آج بھی سرزمینِ کشمیر کا کوئی
گھر ایسا نہیں جوبھارتی فوجیوں کے بیہمانہ مظالم سے بچ نکلا ہو۔وادیِ کشمیر
کے مظلوم مسلمان، صبر و کہساروجذبات کے طوفان ، پاکستان سے الحاق کے خواہش
مندان ہر ہر موقعے پر پرچمِ پاکستان سینے سے لگائے رکھتے ہیں اور ایسے میں
بھارتیوں کا خون کھول جاتا ہے اور پھر سرزمینِ کشمیر وادی کے بیٹوں کے لہو
سے لہو لہو ہو جاتی ہے مگر اسکے باوجود وہاں سے پاکستان زندہ باد کے نعرے
بلند ہونا نہیں تھمتے یہ روایت برسا برس سے جاری ہیانڈیا پون صدی سے کشمیری
مسلمانوں پر مظالم توڑ رہا ہے، اس نے جنت نظیر وادی میں قتل و غارت کے
بازار گرم کر رکھے ہیں، آئے روز کشمیریوں کو ریاستی جبر سے کچلنے کے لیئے
ان کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے، بھارتی درندے کشمیر کی ہزاروں بیٹیوں
کی عصمت پامال کر چکے ہیں مگر سلام ہے کشمیریوں کی ہمت و عظمت کو انکے سچے
کھرے جذبوں کو جو کسی کروٹ نہیں ٹھنڈے پڑتے۔۔۔
کیا کہوں حال دل اپنا میرے آنسو نہیں تھمتے
یہاں برف پڑتی ہے مگر جذبے نہیں جمتے
گذشتہ 60-65 برسوں سے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی غاضب فوج کے ہاتھ آزادی کی
جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کے لہو سیرنگے ہوئے ہیں مگر اہل کشمیر کے
حوصلیایسے مضبوط ہیں کہ گذرشتہ 65 سالوں سے اپنے ایک ہی مقصد پر ڈٹے ہیں،
ہمت و ثابت قدمی کی ایسی شان دار مثال روئے ارض پر کہیں نہیں ملتی ہر طرح
کے مظالم کے باوجود کشمیر کا بچہ بچہ پاکستان سے الحاق کا خواہش مند ہیاور
یہی وجہ ہے کہ کشمیر آزادی کی جنگ میں اپنا لہو مسلسل بہا رہا ہے اور آزادی
کے حصول کے لیئے لاکھوں جانیں قربان کرچکے ہیں ، ہندوستان سات لاکھ فوج
کشمیر میں رکھنے کے باوجود فوجی بندوقوں سے کشمیریوں کی آواز نہیں دبا سکا،
وہ جس قدر ظلم کرتے ہیں اسی قدر جذبہ حریت ان میں ابھرتا ہے اور ساری دنیا
جانتی ہے کہ کوئی مائی کا لال ان کے جذبوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار نہیں بن
سکتا کہ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ۔۔۔۔۔
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنا وضع کیوں بدلیں
ہسبک ہو کہ کیوں پوچھیں ہم سے سرگراں کیوں ہو
ذلت کی زندگی سے موت کو بہتر سمجھنے والے کشمیری جوانوں کا جذبہ قابلِ
تحسین ہے مقبوضہ جموں کشمیر کے سرفروش جنہوں نے اپنے اہل وعیال اور مال
ومتاع اپنے گھر بار کی فکروں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی آزادی کے لیئے شہات
جیسی عظیم نعمت کا انتخاب ہمیشہ کیا اور نوجوانان اپنی ہمت و حوصلوں کوکچھ
اس طرح بیان کرتے ہیں کہ۔۔۔۔
جو ڈر جائے سامراج سے وہ دل نہیں رکھتا میں
کشمیر کا بیٹا ہوں غلامی سے نفرت ہے مجھے
جنوبی ایشیاء میں امن کے قیام کا ڈھنڈورا پیٹنے والے امن کے ٹھیکداروں کے
سوئے ضمیر کشمیر کا نام لبوں پر آتے ہی اب بھی اپنی آنکھیں موندنے سے باز
نہیں آتے ، اقوامِ متحدہ سلامتی کونسل نے کشمیر کی صورتِ حال پر نظر رکھنے
کے لیئے دو ادارے (UNMOGIP) اور(UNCIPقائم کیئے تھے کیا کوئی باعلم بتا
سکتا ہے کہ گذرشتہ 60-65 سالوں کے درمیان میں انکی کارگردگی کا گراف کیا
رہا؟ پھر تو میرے خیال میں پاکستانی کمیٹیوں اور اقوامِ متحدہ کی کمیٹیوں
میں کوئی فرق ہی نہیں رہا ہے کہ جنہوں نے کمیٹی تشکیل دینے کے بعد حال تک
معلوم نہیں کیا حقوق تو دور، آج انکی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں اور کشمیر
کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے والے اسی اٹوٹ انگ کی بہن بیٹیوں کو بے لباس کرکے
اپنی ہوس مٹا رہے ہیں تو کیا ایسے کفار، ایسے بے حس و جلاد صفت قوم کیا اس
قابل ہے کہ کشمیر اسکے ساتھ الحاق کیخواب دیکھے امن کے علمبرداروں کو کیوں
کچھ نظر نہیں آتا
اے دنیا کے منصفو ! سلامتی کے ضامنو
کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے لہو کا شور سنو
انہیں تو یہ بھی نظر نہیں آتا کہ 5 فروری کو کیوں ہرسال پاکستان اور کشمیر
کے علاوہ دنیا بھر میں پاکستانی و کشمیری قومی یکجہتی کا دن مناتے ہیں؟
کیوں پاکستان میں عرصہ دراز سے 5 فروری کو عام تعطیل ہورہی ہے؟ کیوں عزتوں
کو لٹانے والے پاکستان کا پرچم ہر ہر موقعے پراٹھائے لہو بہاتے رہتے ہیں،
اپنے بڑوں کی معذوریاں ، اپنوں کی لاشوں کو اٹھانے والے اپنی عزتوں کو بے
لباس ہوتا دیکھنے کے باوجود بھی کیوں کشمیری نوجوان ، بڑے بوڑھے، عورتیں
اور بچے ہر سال باہر نکلتے ہیں اور کیوں کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگتے
ہیں۔ یہ واضح پیغام کیوں کسی انصاف کا پرچار کرنے والے امن کے ٹھیکیداروں
کو دکھائی نہیں دیتا؟ کیوں بیہمانہ مظالم عالمی قوتوں کو، انسانی حقوق کا
ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو دکھائی نہیں دیتا، کیوں کسی کو لاکھوں کے حساب سے
بہتے مسلمانوں کا خون بہتا نظر نہیں آتا اور بھارت کو غیرت کیوں نہیں آتی؟
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہمیں تو اپنوں نے لوٹا ہے
غیروں میں کہاں دم تھا
تو چلیں بات ہوجائے پاکستان کے حکمرانوں کی جو مردہ ضمیروں کے ساتھ زندہ
پھرتے ہیں اور کشمیر کے مسئلے کو کسی خواب کی طرح بھول جانا چاہتے ہیں ہمیں
ہر موقعے پر اذیت دینے والے بھارت کی شان میں قصیدہ گوئی کا کوئی موقع خالی
نہیں چھوڑتے اتنا ہی نہیں یہ اپنی غیرتوں کو کنڈی میں بند کرکے بھارت کو
پسندیدہ ملک قرار دینے تک سے باز نہیں آتے اور ادھر بھارت ہماری بے وقوفیوں
پر ہنستا ہے ہم جانتے ہیں چند جذباتی جملوں سے یا تقریروں سے مسئلہ کشمیر
حل نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے حکمران بھارت کی محبت میں مرے جا رہے ہیں کبھی
امن کی آشا کے گن گاتے ہیں تو کبھی قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر مفاہمتی
کے بین بجا رہے ہوتے ہیں۔۔۔
کون کہتا ہے جنگل کا قانون ختم ہوگیا
ابھی میرے دیس کے لیڈر زندہ ہیں ، ابھی میرے دیس کی سیاست باقی ہے
یہ ساری محبتیں کشمیری شہدا کے خون سے بیوفائی کی باتیں ہیں حلانکہ یہ بات
روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت نے نہ پہلے کبھی اور نہ اب پاکستان کو دل
سے تسلیم کیا تھا اور کرنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا کیونکہ ہم کہتے ہیں
اے بھارت
تاریخ جو نہ دھرائی وہ مسلمان نہیں ہوگا
پاکستان بھی تجھ سے چھینا تھا کشمیر بھی تیرا نہ ہوگا
پاکستانی حکمرانوں کے مردہ ضمیروں کو دیکھتے ہوئے کشمیریوں کے دل بھی اکثر
ٹوٹ جاتے ہیں جب وہ ان ہی حکمرانوں کو اپنے دشمنو کی خوشامد کرتے دیکھتے
ہیں جس ساتھ الحاق کے بعد وہ آزادی سے جینے کے خواہش مند ہیں مگر یہ تو سید
علی گیلانی جیسے دیوانوں کاکمال ہے کہ جن کی قیادت میں کشمیری عوام ہمت و
حوصلے کی چٹان بنی بیٹھی ہے جن کا کہنا ہے کہ
یہ تو سچ ہیکہ اندھیروں کا تسلط ہے مگر
شمعیں بجھنے نہ دو ظلم کے ایوانوں میں
آندھیاں جبروتشدد کی تیز سہی
وہ دیپ تم ہو جنہیں جلنا ہے طوفانون میں
اتنا ہی نہیں انکا ماننا ہے کہ کشمیر کی ساڑھے سات سو میل سرحدیں پاکستان
سے ملتی ہیں جتنے دریا یہاں سے نکلتے ہیں پاکستان کی طرف انکا رخ ہے کشمیر
میں جب ہوائیں چلتی ہیں تو وہ راولپنڈی سے آتی ہیں ، بارشیں جب برستی ہیں
تو ایک ساتھ برستی ہیں یہ نہایت مضبوط رشتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ کہنے میں
حق بجانب ہیں کہ کشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہے کشمیر کھلونا نہیں ہے وہاں
بھی انسان بستے ہیں پاکستان کے چند حکمرانوں کے ذاتی فوائد کو ایک طرف رکھ
کر دیکھا جائے تو پاکستان نے کشمیر سے دستبرداری کی بات کی ہے نہ کبھی اپنے
موقف پر پسپائی اختیار کی ہے۔ کشمیر عام پاکستانی کی نظر میں کل بھی ہمارا
تھا آگے بھی ہمارا ہوگا کشمیر کی آزادی کے لیئے صرف تشویش کافی نہیں ہے
بھارت کو مسئلہ کشمیر کے فیصلے کے لیئے مجبور کرنا ہوگا مقبوضہ کشمیر کی
عوام کی آواز کو تسلط سے نہیں دبایا جاسکتا ہے کہ کشمیری جوان بھارتیوں کو
شکست فاش دینے کا بھرپورعظم خود میں رکھتے ہیں مگر ابھی حالات ایسے ہیں کہ
عوام کو پس جانے پر مجبور کردیا گیا ہے لیکن انشااﷲ وہ دن بھی آئے گا جب
عوام کے فیصلے ہوں گے اور عوامی رائے پر بھی پالیسیاں ہونگی اور تب بھی
کشمیر ہمارا ہوگا اور آخر بھارت کو اپنی ڈھٹائی سے باز آنا پڑے گا اور
کشمیری عوام کو انکی پسند کے مطابق جینے دینا ہوگا انشااﷲ کیونکہ ظلم و
تشدد سے غاضبانہ تسلط ذیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا ہے ہم نے سنا
ہے اکثر کو کہتے کہ کشمیری عوام کوہتھیار نہیں اٹھانے چاہیئے بات مفاہمت سے
باہمی بات چیت سے حل کرلینی چاہیئے یا سیاست کے ذریعے سے مسئلے کا حل نکال
لینا چاہیئے تو میں انہی سے پوچھوں گی کہ اگر تمھارے باپ کی لاش تمھیں
اچانک سے مل جائے تو تم پوچھنے جاؤ گے کہ کیوں کیا؟ اگر تمھارے بیٹے کو
جواں سالی میں مار دیا جائے تو تم پوچھنے جاؤ گے کہ کیوں مارا اگر تمھاری
بہنوں کی بے لباس لاش تمھارے قدموں میں ڈال دی جائے تو تم بات کرنے جاؤ گے؟
اپنوں کی لاشوں کے ناخن انکے دانت انکی کھال جسموں سے جدا دیکھو گے تو بھی
کیا تم جاؤ گے بات کرنے اگر ہاں تو لعنت ہے تم جیسے غیرت مندوں پر تم جیسے
مفاہمتی کی پیروکاروں پر اور کیا سید علی گیلانی نے سیاست کے ذریعے ہی قدم
نہیں اٹھایا تھا کیا باقی کسی نے سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھا تھا ؟
رکھا تھا مگر بھارتی درندوں نے دھاندلی کرکے ہر چیز کو اتھل پتھل کردیا تھا
سفاکیت کی انتہا کرچکے تھے آج جو تم کو اپنا سامنا کرتے دکھائی دیتے ہیں تم
ہی نے انہیں مجبور کیا ہے ہتھیار اٹھانے پرسو اب گلا کیسا؟ کرؤ سامنا وہ ڈٹ
کر کھڑے ہیں ایسے میں عالمی برادری کا فرض بنتا ہے کہ عوام کی خواہش کے
مطابق دونوں ایٹمی قوتوں کے درمیان حل نکالے کشمیری عوام عالم اسلام کی مدد
کی بھی منتظر ہے ایسے میں۔۔
میں شاعروں سے
رموزِ فطرت کے ساحروں سے
مفکروں سے
قلم کے سارے شناوروں سے
یہی کہوں گی کہ وہ مسرتوں کے باب لکھیں
محبتوں کے ، اخوتوں کے، مروتوں کے نصاب لکھیں
وطن کی مٹی کی خوشبوؤں کے گلاب لکھیں ،نئے زمانے کے خواب لکھیں
وہ شہروں کی اندھیر نگری میں روشنی کو رواج لکھیں وہ کل جو لکھنا ہے آج
لکھیں
میں شاعروں سے
رموز فطرت کے ساحروں سے
مفکروں سے
قلم کے سارے شناوروں سے
یہی کہوں گی
کہ امن کی داستان لکھیں
ملک وملت کی شان لکھیں
جو ہوسکے تو تمام عالم کو ایک ہی خاندان لکھیں۔۔۔
اور اپنے کشمیری مسلمان بہن بھائیوں سے یہی کہوں گی کہ
یارانَِ جہان کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کوملی ہے نہ ملے گی
وادی بے نظیر، وادی حسن ، جنت نظیر وادی ، شہہ رگِ پاکستان جہاں برف گرتی
ہے، جہاں پتھروں کے نیچے بھی پھول کلھتے ہیں۔ جہان چشمے ابلتے ہیں ، جہان
بارشیں برستی ہیں ، برستی بارشوں میں بھہ جہان کوہسار چلتے ہیں ایسی ہے
وادیِ کشمیر جہاں پاکستانی بستے ہیں اس میں کیا شک ہے کہ کشمیر ہمارا ہے
بلکہ ہمیں تو اس پر شک ہونے والے پر شک ہونا چاہیئے کہ کس حیثیت سے وہ
کشمیر کوہم سے جدا سمجھتے ہیں ؟ کشمیرکا ہم سے کیا رشتہ ہے ؟ ہان جناب وہی
رشتہ ہے جو ہر پاکستانی کا لاالہ الااﷲ سے ہے۔۔۔ تو پھر وہ ہم سے جدا کیسے؟
کوئی اور کشمیر کا حق دار کیسے ؟ جب حق دار ہی نہیں تو بیجا قبضہ کیسے؟
توڑ کر رکھ دیں گے ہر ایک حلقہ زنجیر کو
اب چھڑا کر ہی رہیں گے کفر سے کشمیر کو
نہ جھکیں گے،نہ رکیں گے، نہ بکیں گے
یہ وعدہ ہے اہل کشمیر کا کشمیر کو
سو حوصلے مضبوط رکھیئے، ثابت قدمی وقت کی ضرورت ہے ، پسپائی اختیارکرنے کا
وقت ہے نہ ہمت ہار جانے کا ، ابھی وقت ہے کہ جب ظلم کے ایوانوں میں انصاف
کا اجالا بکھرنا ہے نہ آپکا خون رائگاں جائے گا نہ غلامی آپکا نصیب ہوگی
انشااﷲ 5 فروری کو پوری پاکستانی عوام آپ سے قومی یکجہتی کے لیئے نکلتی ہے
جو واضح اشارہ ہے کہ آپ ہمارا حصہ ہیں اور جلد ہی کشمیر پاکستان کا حصہ
کہلائے گا کشمیری عوام اپنی خودمختاری کے حصول کی بے مثال جدوجہد کے اس سفر
میں اپنیقومی آزادی کے سنگ میل تک ضرور پہنچے گیاور جب تک یہ سفر جاری رہے
گا تب تک پاکستان و کشمیر کے ہر ہر علاقے سے ہر ہر موقعے پر یہی صدائیں
بلند ہوتی رہیں گی کہ
" کشمیر بنے گا پاکستان"
انشااﷲ عزوجل |