ھند پاک کے مشترکہ مسائل

آزادی کے بعد سے آج تک دونوں ملکوں کی جو صورتحال رہی اور آج جس مقام پر دونوں ملک ہے اور ان کے جو بنیادی مسائل ہیں ان پر ایک تحقیقی مضمون ملاحظہ کیجئے

دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی

ہند -پاک کے مشترکہ مسائل
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی

تقسیم ہندو پاک کے ساتھ ہی دونوں ملکوں نے اپنی اپنی سیاسی ،سماجی،تعلیمی اور معاشی بنیاد کو مضبوط و مستحکم کرنے کیلئے کوششیں شروع کردیں۔آج ان کوششوں کو شروع ہوئے67سال گزرگئے لیکن ایمانداری کے ساتھ اگر دونوں ملکوں کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کی سیاسی ،سماجی ،معاشی اور تعلیمی صورتحال ابھی بھی بہتر نہیں ہو سکی ہے۔تھوڑی دیر کیلئے ہم سے ”ٹھیک“ ضرور کہہ سکتے ہیں ،لیکن اچھی اور بہتر نہیں کہہ سکتے۔اس کے پیچھے کیا اسباب و محرکات رہے ہیں ،یہ سچائی بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔آج اکیسویں صدی میں ہندوپاک کے سامنے کیا کیا مسائل اور چیلنجز ہیں اور کل1947کے بعد دونوں ملکوں کو کیا کیا پریشانیاں تھیں ،ان دونوں تصویروں کے درمیان جب آپ مقارنہ کریں گے تو دونوں تصویر ایک دوسرے کے بہت قریب نظرآئے گی۔پریشانیاں جو کل تھیں وہ آج بھی ہیں۔ایسے میں ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 67سال تک جن حکمرانوں نے ملک کا باگ ڈور سنبھالے رکھا ،کیاانہوں نے ملکی مفاد کو ترجیح نہیں دی؟کیا انہوں نے بحیثیت حاکم قوم کےسا تھ اور اپنے عہدے کے ساتھ انصاف نہیں کیا؟اس طرح کے تمام سوالات ان دونوں ملکوں کے حکمرانوں کیلئے پیدا ہوتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ سوال کون کرے گا اور کیوں کرے گا؟یہاں سب کو اپنی پڑی ہے۔قومی او ر ملکی مفاد میں کون سوچتا ہے،یہاںسب اپنی دنیا حسین و دلکش بنانے میں مست ہےں،چاہے اس کیلئے جو بھی راستے اور طریقے اختیار کرنے ہو۔دونوں ملکوں کا امیر طبقہ امیر ترین ہوتا جا رہا ہے اور غریب طبقہ غریب ترین۔آخر ایسا کیوں ہے؟ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے ایسا گمان ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ہمارے سسٹم میں کمی ہے،جس کے نتیجے میں یہ سب دیکھنے کو مل رہا ہے۔بہر حال ہندو پاک دونوں کے مسائل یکساں ہیں اور دونوں ملکوں کے بنیادی مسائل جو کل تھے وہ آج بھی ہیںاور اس کو حل کرتے کرتے 67سال گزر گئے لیکن آج تک ا ن مسئلوں کا پوری طرح سے حل ممکن نہیں ہو سکاہے۔یاد رہے کہ جزوقتی کامیابی کاکوئی خاص اعتبار میرے نزدیک اس لئے نہیں ہے کہ یہ ملکی سطح کی بات ہے اور کسی بھی ملک کیلئے بہت ہی مضبوط اور پائیدار کامیابی اس کو توانا بناتی ہے۔

ذیل میں ہندوپاک کے چند اہم اور بنیادی مسائل کا حقیقی خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آپ اور ہم دونوںملکوںکی صحیح اور سچی تصویر سے آگاہ ہو سکیں۔

غربت:ایک سو پچیس کروڑ سے زائد آبادی والے ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں آج غریبی کا عالم یہ ہے کہ 6.68لاکھ خاندان ایسے ہیں جن کی زندگی بھیک پر منحصر ہے۔وہ اپنے صبح و شام کے کھانے کا انتظام لوگوں سے بھیک مانگ کر کرتے ہیں۔آزادی کے وقت ہندوستان کی کل آبادی33کروڑ تھی اور آج آزادی کو 67سال گزر گئے اور حالت یہ ہے کہ اس ملک میں 33کروڑ لوگوں کے پاس رہنے کیلئے پکا مکان نہیں ہے۔24.29کروڑ خاندان والے اس ملک کا ہر تیسرا خاندان مزدور ہے۔اس ملک کی70فیصد سے زائد آبادی گاﺅں میں رہتی ہے اور گاﺅں کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں تقریباً سارے لوگوں کی ماہانہ آمدنی پانچ ہزار روپئے سے کم ہے۔ہندوستان کے ہر تیسرے خاندان کے پاس آج بھی اپنی زمین نہیں ہے۔4.08لاکھ خاندان آج بھی کچڑا اٹھانے پر مجبور ہے۔65لاکھ خاندان کو خواتین اپنی محنت ومشقت سے چلا رہی ہیں۔67فیصد لوگوں کے پاس اپنا بیت الخلا ءنہیں ہے اورآج بھی 28فیصدلوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔اس معاملے میںاسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورتحال بھی ناگفتہ بہ ہے۔18کروڑ80لاکھ کی آبادی پر مشتمل پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے 50فیصد لوگ غربت کے شکار ہیں جن میں ہر سال تیس لاکھ کا اضافہ بھی ہورہاہے۔32فیصد بچوں کو خوراک کی کمی کی وجہ سے متعدد بیماریاں ہوتی ہیں اور صحیح علاج و معالجہ نہ کرواپانے کی وجہ سے 1000نوزائیدہ بچوں میں سے 60بچے ولادت کے فوراً بعد مر جاتے ہیں۔پاکستان میں جہاں 20لاکھ بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں وہیں دس لاکھ شہری جبری محنت کے شکار ہیں۔60فیصد آبادی آج بھی وہاں ایسی ہے جن کی یومیہ آمدنی دو سو روپئے سے کم ہے اور 24فیصد لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔پاکستان میں ان دنوں غربت کا یہ عالم ہے کہ لوگ اپنے بچوں کیلئے آسانی سے دو وقت کی روٹی کا انتظام نہیں کر پارہے ہیں۔اس کی واضح مثال گزشتہ دنوں پیش آنے والا ایک دردناک واقعہ ہے۔پاکستان میں ایدھی ویلفیئر سینٹر ایک ایسی رفاہی تنظیم ہے جو بے سہارا اور لاوارث بچوں کی کفالت کرتی ہے اور اپنی نگرانی میں ان بچوں کی پرورش و پرداخت کرتی ہے۔لاہور میں مقیم ارشاد نامی ایک لاچار باپ اپنے ننھے منے کمسن چھ بچوں کو اس ایدھی سینٹر پر یہ کہتے ہوئے چھوڑ گیا کہ میں ان بچوں کے دووقت کی روٹی اور شیر خوار بچے کیلئے دودھ کا انتظام نہیں کر پا رہا ہوں ،بہت ممکن ہے کہ ان تمام بچوں کو مارنے کے ساتھ میںخود کشی کرلوں ،لیکن اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا ہوں اس لئے زیادہ تڑپتا نہیں دیکھ سکتا،لہذا یہاں چھوڑ کر جارہاہوں۔سینٹر کے مالک عبد الستار ایدھی نے معاشرے میں پھیلی اس غربت کودولت کی غیر مساویانہ تقسیم قرار دیا۔واضح رہے کہ پاکستان میں دو ہی طبقے کے لوگ ہیں۔یا تو امیر ہیں یا پھر غریب۔متوسط طبقہ شاید ہی آپ کو مل پائے گا،امیر شخص مزید امیر ہوتا جا رہا ہے اور غریب آئے دن غربت کے جال میں الجھتا جا رہا ہے۔جہا ں پاکستان کے60فیصد ارکان اسمبلی ارب پتی ہیں وہیں 60فیصد پاکستانی عوام غریب ہیں۔

تعلیم:اکیسویں صدی میں ملک عزیز ہندوستان کی شرح خواندگی عموماً 70فیصد سے زائد ہی رہی ہے ۔کبھی 73فیصد تو کبھی74فیصدہوئی۔لیکن اس فیصد کی تہہ میں جب آپ جھانک کر دیکھیں گے تو آپ کو ایک الگ تصویر دکھائی دے گی۔جس ملک کی پوری آبادی کے ستر فیصد سے زائد لوگ گاﺅں میں رہتے ہیں ان میں سے 35فیصد ایسے لوگ ہیں جنہیں اپنا نام تک لکھنا اور پڑھنا نہیں آتا بلکہ وہ پوری طرح سے ناخواندہ ہیں۔سات فیصد ایسے لوگ ہیں جن کے پاس گریجویشن کی ڈگری ہے ،اور 80فیصد ایسے گاﺅں آج بھی ہیں جہاں سکینڈری اسکول نہیں ہےں۔24.39کروڑ خاندان والے ہندوستان میں44.84لاکھ ایسے خاندان ہیں جن کے تمام ا فراد غیر تعلیم یافتہ ہیں۔جبکہ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کی شرح خواندگی ہمارے مقابلے بہت کم ہے۔وہاں کی شرح خواندگی کبھی 58فیصدتو کبھی60فیصدرہی ہے۔سال2015کے سروے میں تو یہ دیکھنے کو ملا کہ2013-14کے دوران پاکستان کی شرح خواندگی میں دوفیصد کی گراوٹ آئی ہے۔حالیہ صورتحال یہ ہے کہ 67لاکھ بچے آج بھی اسکول نہیں جاتے۔وہاں آٹھویں جماعت تک کے 1000طلبا کیلئے صرف 42اسکول ہیں۔جبکہ ہزار طلبا کیلئے صرف ایک ڈگری کالج۔پاکستان میں ڈگری جاری کرنے والے اداروں کی کل تعداد 156ہے اور ان میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی مجموعی تعداد 12لاکھ30ہزار ہے۔عالم تو یہ ہے کہ وہاں ڈاکٹر وانجینئر کا قحط ہے۔پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ 67ہزار سات سو69ہے۔یعنی ایک ہزار 99افراد کے علاج کیلئے صرف ایک ڈاکٹرہے اور انجینئر کا اس سے بھی برا حال ہے۔مذکورہ بالا حقائق سے پاکستان کی تعلیمی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی ایم جی ڈی(Millennium Development Goal for Education)پروجیکٹ کے مطابق 2015کے اختتام تک پاکستان کی شرح خواندگی80فیصد ہونی چاہئے تھی لیکن آج بھی 60فیصد ہی ہے۔

واقعاتِ تشدد:دہشت گردانہ حملے ہوں یا فرقہ وارانہ فسادات ،تشدد بہر صورت تشدد ہی ہے۔آزادی کے بعد سے آج تک ان دونوں ملکوں میں طرح طرح کے واقعات خوب رونماہوئے ہیں۔پاکستان میں جہاں دہشت گردانہ حملے زیادہ ہوئے تو ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات ۔بہر کیف اگر الگ الگ کرکے دونوں ملکوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہندوستان کی سرزمین پر واقع ہونے والے فرقہ وارانہ فساد ات کی ایک لمبی فہرست تیار ہو جاتی ہے۔بابری سے دادری تک نہ جانے کتنے فسادات ہوئے اور کتنے معصوموں اور بے گناہوں کی جانیں گئیں۔کتنے خاندان اور گھر تباہ و برباد ہوگئے ۔پچھلے دس سال کی ہی تصویر اٹھاکر آپ دیکھ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر سال پانچ سو سے زائد چھوٹے بڑے فرقہ وارانہ فسادا ت ہوئے ہیں۔بڑی بات تو یہ ہے کہ جب سے مرکز میں مودی کی سرکار بنی ہے تب سے 90فیصد فرقہ وارانہ فسادات میں اضافہ ہواہے۔لیکن پھر بھی مرکز کو اس کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہے۔جہاں تک دہشت گردی کا معاملہ ہے تو یہاں دہشت گردانہ واقعات بھی خوب واقع ہوئے ہیں۔پارلیمنٹ پر حملہ ،26/11کا سانحہ اور پھر گزشتہ کچھ مہینوں میں پیش آنے والے گروداس پور اور پٹھا ن کورٹ ایئر بیس پر دہشت گردانہ حملے یہ تمام ایسے واقعات ہیںجنہیں عام طور پر یاد کیا جاتا رہا ہے اور یہ ہمیشہ یاد بھی کئے جائیں گے چونکہ ان کا دائرہ اور پس منظر ان کو کبھی بھلا نے نہیں دے گا ۔البتہ آج بھی فرقہ وارانہ فساد اور دہشت گردی ہندوستان کیلئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔اس حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح کے ملک پاکستان کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ان کا محبوب ملک جغرافیائی اعتبار سے ضرور نظر آتا ہے لیکن محمد علی جناح کے افکار و خیالات اور ان کے خوابوں کی حقیقی تصویر کشی کہیں خال خال بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات بہت کم ہوتے ہیں ،لیکن دہشت گردانہ واقعات عام بات ہے۔مسجد و مندر اور کلیسا ان تمام معابد کی اہمیت کو بالائے طا ق رکھتے ہوئے ان مقامات پر بمباری کرنے سے ذرہ برابربھی پرہیز نہیں کرتے۔پاکستان کے ساتھ سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کے دہشت گردوں سے وہ پریشان ہے۔جماعةالدعوہ اور حزب المجاہدین جیسی شدت پسند جماعتیں روز پاکستانی زمین کو وہاں کے معصوموں کے خون سے سیراب کرتی ہیں ۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اس پرہمیشہ سے مگر مچھ کے آنسو بہاتی رہی ہے،اس کے علاوہ شاید پاکستانی حکومت کچھ کر بھی نہیں سکتی چونکہ وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہاں کی فوج کرتی ہے ،حکومت کا کام صر ف سر ہلانا ہے۔پاکستان میں دہشت گردانہ واقعا ت کی تاریخ بہت پرانی ہے ،لیکن اتنا پیچھے نہ جاکر گزشتہ ایک دو سال کا جائزہ لیں تو اسی سے اندازہ ہوجائے گا کہ وہاں انسانوں کے جان کی کتنی قیمت ہے۔سن2015میں کل 13مقامات پربم دھماکے ہوئے ہیں۔ابھی پشاور آرمی اسکول کے بچوں کی خون میں لہولہان تصویر سے نظر ہٹی بھی نہیں تھی کہ باچا خان یونیورسٹی پر دھاوا بول کر ایک اور خون میں لپٹی تصویر بنا دی۔الغرض پاکستان میں آئے دن ایسا ہوتا رہتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور حکومت کیا کر رہی ہے؟جہاں تک فرقہ وارانہ فسادا ت کی بات ہے تو وہاں عیسائیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا ہے،اول تو ان کی تعداد ہی بہت کم ہے،اور اس پر بھی یہ کہ ان کو ایک طرح کے سماجی بائیکاٹ کیساتھ زندگی گزارنا پڑرہا ہے،کبھی ان کے گھروںکو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے تو کبھی ان کے عبادت گاہ میں آتش زنی کی خبر ملتی ہے۔ابھی گزشہ25جنوری کو ایک نیا سانحہ رونما ہوا۔چند پاکستانی نوجوانوںنے سرعام ایک عیسائی دوشیزہ کو اس لئے گولی مار د ی کہ اس نے ان بدمعاشوں کی ہوش کا شکار بننے سے انکار کر دیا تھا ۔

ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے بعض دفعہ ایسا گمان ہوتا ہے کہ یہ آزادی ہمیں راس نہیں آئی ۔ہم غلامی کی زنجیر میں اس سے کہیں زیادہ محفوظ تھے۔اگر ہمارے مجاہدین آزادی کو اس بات کا ذرہ برابر بھی اندازہ ہوتا کہ آزادی ملنے کے بعد ان کی آئندہ آنے والی نسل کے حالات دن بہ دن بد تر ہوتے جائیں گے تو شاید ملک کو آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش نہ کرتے ہوئے کوئی دوسرا راستہ اختیا رکرتے۔بہر حال سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ان مسائل کا حل کیا ہے؟سچائی تو یہ ہے کہ اگر حکومت چاہے تو ان تمام مسائل کا حل دونوں ملکوں کیلئے آسان ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مرکز میں جو بھی پارٹی آتی ہے وہ ملک کے مفاد کو کم اور پارٹی مفادکو زیادہ ترجیح دیتی ہے۔ہندوستان کے لئے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن بنیادی مسئلہ ضرور ہے جس کے خاتمے کے بغیر ہندوستان ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں جگہ نہیں بناسکتا ۔البتہ پاکستان کے لئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے چونکہ وہ ملک شروع سے ہی سیاسی عدم استحکام کا بہت زیادہ شکار رہا ہے اور ان مسائل سے پوری کامیابی کیساتھ نمٹنے کے لئے وقت در کار ہے لیکن پاکستان کی یہ بدقسمتی کہیے کہ جب وہاں کوئی پارٹی تھوڑی سی مضبوط ہوتی ہے تختہ پلٹ دیا جاتا ہے اور پھر سب کچھ تباہ ہوکر رہ جاتاہے۔ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کا شمارترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے اور ترقی یافتہ ملک بننے کیلئے ان دونوں ملکوں کا ان بنیادی مشترکہ مسائل سے نپٹنا بہت ضروری ہے ۔اس کے بغیر ہند پاک کے ترقی یافتہ ملک ہونے کا خواب خواب ہی رہ جائے گا۔
Rahmat kalim
About the Author: Rahmat kalim Read More Articles by Rahmat kalim: 6 Articles with 7516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.