جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے وزیراعظم کا کڑا امتحان

پاکستان آرمی کے چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ پیر کو اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہ کرنے کا اعلان کرکے ملک کی سیاست میں ہلچل پیدا کردی اور قوم کو حیرت میں مبتلا کردیا۔ جنرل راحیل شریف ملک کے پہلے آرمی چیف ہیں جنہوں بہت ہی کم وقت میں لوگوں کے دلوں میں گھر کرکے جمہوریت پسندوں سے ناپسندیدگی کااظہار کردیا ہے۔ یہ بات واضح ہوجانے کے باوجود کہ ملک میں ان کی غیر معمولی مقبولیت بڑھی ہے ، ان کی طرف سے ریٹائرمنٹ کا موجودہ حالات میں لوگوں کے لیے باعث حیرانی اور پریشانی کا باعث ہے ۔

وطن عزیز میں امن و امان سے متعلق جو حالات ہیں اور صورتحال میں جو بہتری آئی ہے اس کا پورا کریڈٹ آرمی چیف کو جاتا ہے ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ جنرل راحیل بھی اسی بہانے سے اپنی مدت میں توسیع کرالیں گے جیسے ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقرر کردہ جنرل ضیاء الحق اور نواز شریف کے نامزدہ کردہ پرویز مشرف نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کی تھی ، بعد ازاں خود ہی صدر مملکت کے عہدے پر فائز بھی ہوگئے تھے ۔

جنرل راحیل شریف ان دو کے مقابلے میں مدت ملازمت میں توسیع کے لیے زیادہ حق دار ہیں تاہم انہوں نے خود ہی ریٹائرمنٹ سے آٹھ ماہ قبل اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہ کرنے کا اعلان کرکے اعلیٰ ظرفی کا اظہار کیا ہے ۔اگر چہ پوری قوم ان کی ریٹائرمنٹ کی نہیں بلکہ مدت ملازمت میں توسیع کی خواہشمند ہے۔قوم کی خواہش ہے کہ جنرل راحیل جیسے جرنیلوں کو وقت پر نہیں بلکہ حالات کے مطابق اپنی ملازمت سے سبکدوش ہونا چاہیے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تقریباََ 25سال کی مسلسل بدامنی کے بعد اب مستقل امن بحال ہے تو اس کی وجہ جنرل راحیل کی جانب سے شروع کیے جانے والا کراچی آپریشن اور آپریشن ضرب عضب ہے ۔ سیاست کی آڑ میں دہشت گردی کرکے کراچی کو کنٹرول کرنے والے عناصر اب بلوں چھپ چکے ہیں اور کراچی کی رونقیں تیزی سے بحال ہونے لگی ہیں تو اس کی وجہ کراچی آپریشن ہے۔

جنرل راحیل کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد کراچی کے لوگ خصوصی طور پر بہت پریشان ہیں ۔ انہیں خدشہ ہے کہ بہترین آرمی چیف کے جانے کے بعد کہیں دوبارہ دہشت گرد آزاد نہ ہوجائیں اور دوبارہ کراچی والے یرغمال نہ بن جائیں ۔ایسی صورت میں عروس البلاد کے شہریوں کے لیے آٹھ ماہ کا ہر دن تفکرات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ ممکن ہے کہ اس دوران متعلقہ سیاسی جماعتوں کو بھی کچھ خوف خدا آجائے اور وہ خود اپنے درمیان سے دہشت گردی اور جرائم پیشہ کا خاتمہ کردیں۔

پشاور باچا خان یونیورسٹی میں 20جنوری کو ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے پانچ دن بعد جنرل راحیل شریف کی جانب سے اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے اعلان کے نتیجے میں لوگوں کا ذہن اس حملے کی کارروائی سے بھی جڑ گیا ۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ شائد فوجی خاندان کے سپوت کا دل اس حملے سے ٹوٹ گیا ہو ، ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی ضرب عضب کے آپریشن کے نتائج سے مطمئین نہ ہوکر اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔

16جون 1956کو کوئٹہ بلوچستان میں پیدا ہونے والے جنرل راحیل شریف ، میجر رانا محمد شریف مرحوم کے سب سے چھوٹے صاحبزادے اور 1971کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہونے والے میجر رانا شبیر شریف اور کیپٹن ممتاز شریف کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں ۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کے بھانجے بھی ہیں۔جبکہ ان کے ایک بہنوئی بھی فوجی شہید ہیں ۔ راحیل شریف سے بڑے ممتاز شریف بیماری کی وجہ سے قبل از وقت آرمی سے ریٹائرمنٹ حاصل کرکے ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں۔

27نومبر 2013کو پاک آرمی کے پندرھویں چیف کا عہدہ سنبھالنے والے راحیل شریف 16نومبر 2016کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں ۔

لیکن ان کی ریٹائرمنٹ سے دس ماہ قبل بلکہ اس سے بھی پہلے ان کی ریٹائرمنٹ کی باتیں شروع ہوجانا کسی خاموش سازش کی گواہی دے رہی تھیں ۔جنرل راحیل شریف خاندانی فوجی ہیں پاکستان کے لیے ان کے خاندان نے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے گریز نہیں کیا ، یقینا ملازمت کی ان کے اس نظریے کے سامنے کوئی اہمیت نہیں جس کے لیے ان کے بھائی اور خاندان کے دیگر افراد نے قربانیاں دی ہیں لیکن اصل مسلہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے قبل نئے جنرل کی نامزدگی کے وقت سامنے آئے گا ۔

اس وقت پاکستان آرمی میں راحیل شریف سمیت دو فل جنرلز اور 29لیفٹنٹ جنرل ہیں اور تقریباََایک سو 69میجر جنرل ہیں .جنرل راحیل کے ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیف آف کمیٹی جنرل راشد محمود بھی اسی سال 29نومبر ریٹائرڈ ہوجائیں گے ۔جبکہ چار سینئر لیفٹنٹ جنرل ، جن میں لیفٹنٹ جنرل مقصود احمد ، زبیر محمود ، سید واجدحسین اورنجیب اﷲ خان جنوری 2017میں ریٹائرڈ ہوجائیں گے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کے صرف دو ماہ بعد مزید چار جرنیل ریٹائرہوجائیں گے ۔بعدازاں لیفٹنٹ جنرل اشفاق ندیم ، ضمیر الحسن ،جاوید اقبال رمدے ، قمر باجوہ بھی 8اگست کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آرمی چیف کے عہدے کے لیے غیر معمولی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے ۔موجودہ آئی ایس آئی چیف رضوان اختر جن کا نام آئندہ کے آرمی چیف کے لیے لیا بہترین سپہ سالار کے طور پر لیا جاتا ہے کو اگرراحیل شریف کے بعد وزیراعظم اپنے اختیارات سے انہیں آرمی چیف مقرر کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نو لیفٹنٹ جنرل سے جونیئرکو جنرل کے اس اہم عہدے پر فائز کیا جائے گا۔یقینا یہ فیصلہ کرنا وزیر اعظم نواز شریف کے لیے آسان نہیں ہوگا ۔ لیفٹنٹ جنرل رضوان اختر یکم اکتوبر 2018کو ریٹائرڈ ہونگے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم چند ماہ کے کے لیے آرمی چیف کا تقرر کرتے ہیں یا پھر کم از کم تین سال کے لیے رضوان اختر کو آرمی چیف بناتے ہیں ۔

یہی وہ ایشوہے جس کی وجہ سے وزیراعظم پر کڑا امتحان آنے والا ہے ، ایس صورت میں وزیراعظم کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ راحیل شریف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کی کردیں ۔تاہم اس کے لیے وزیر اعظم کو جلد ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165902 views I'm Journalist. .. View More