آلو رکھ دتا

 جب کسی کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے یا کسی کے چالاکی کو اسی پر الٹ دیا جائے تو اس موقع پر عموما استعارہ کے طور پر یہ فقرہ بولا جاتا ہے (میں وی آلو رکھ دتا اے )کہ دیکھا میں نے کیسے آلو رکھا ؟ ہمارے محترم وزیر اعظم جیسے شیر آیا شیر آیا جیسے نعروں سے عوام استقبال کرتی تھکتی نہیں اور یہ نعرہ عموما دیہاتی ایریاز میں پورے زور شور سے گونجتا رہتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کو ووٹ بھی دیہاتی ایریا اور کاشتکاروں نے زیادہ دیئے جبکہ شہری حلقوں نے زیادہ تر تحریک انصاف کو سپوٹ کیااگر یہ کہا جائے کہ ن لیگ دیہات کی اور تحریک انصاف شہری ووٹرز کی نمائندہ جماعت کے طور پر ابھری ہے تو بے جا نہ ہو گالیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے کاشتکاروں کو اپنے اقتدار میں آنے سے لیکر اب تک سکھ کا سانس نہیں لینے دیا، دھان ،کپاس، کماد کی فصل کا وہ حشر کیا کہ کاشتکاروں کی کمر ٹوٹ گئی، بڑی مشکل سے سود پر زرعی ضروریات پوری کرتے ہوئے امید تھی کہ آلو کی فصل انہیں پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دے گی .اچھے ریٹ کی خواہش پر آلو ؤں کو کھیت میں ہی رکھ دیا گیا ہے اور جو تگڑا زمیندار تھا اس نے ضرورت کا آلو فروخت کیا اور باقی شہروں میں لاکر سٹور کر دیا تاکہ اچھا رسپانس ملنے پر اسے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع ملے لیکن بادشاہ سلامت کی خیر کہہ جنہوں نے سابق ضلعی ناظم میاں عامر محمود کے والد کے انتقال پر تعزیت کیلئے آئے اور بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان بھر کے کاشتکاروں کے زخموں پر ایسا نمک چھڑکا کہ کاشتکار حضرات ایک دوسرے کو دلاسہ دیتے نظر آ رہے ہیں اور کہتے سنائی دیتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب نے تو الٹا ہم پہ ہی آلو رکھ دیا۔سیدھی سے بات ہے کہ وزیر اعظم صاحب اور وزیر تجارت نے آلو کی برآمد پر با الکل توجہ نہیں دی اور اپنے بیان میں کاشتکاروں کو نوید سنا دی ہے کہ آلو ٹکے ٹوکری ہی رہے گا۔

وزیر اعظم پاکستان میاں نوازشریف نے فرمایا کہ ہم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5 روپے فی لیٹر کمی کر دی ہے ا ور اس کمی کے اثرات براہ راست عوام تک پہنچ رہے ہیں آلو جو کبھی 80 روپے کلو تھا اب 5 روپے کلو پر آ گیا ہے،واہ وزیر اعظم صاحب واہ، کیا کہنے آپ کے۔براہ راست فائدہ عوام کو نہیں بلکہ حکومت کو پہنچ رہا ہے پٹرول کا جو ریٹ عالمی مارکیٹ میں ہے اگر اس کے مطابق ملکی سطح پر قیمتوں میں کمی کی جاتی تو آج پٹرول فی لیٹر 72 روپے کا نہیں بلکہ 45 روپے کا ہوتا ،یہ 33 روپے لٹر تو عوام کی جیبوں سے نکل کر حکومتی جیب میں منتقل ہو رہے ہیں جس سے حکومت وقت کی عیاشیوں کو مزید استحکام مل رہا ہے۔

زمینداروں کا تو یہ حال ہے کہ اب ان سے کوئی زمین ٹھیکہ پر لینے کو تیار نہیں کیونکہ زرعی اجناس کے جو ریٹ حکومت وقت مقرر کر رہی ہے اس سے تو کھاد اور بجلی کے بل بھی پورے اد ا نہیں ہو پارہے رہی فائدہ کی بات توآلو کا پٹرول کی قیمتوں سے کیا تعلق ؟ کھاد، زرعی ادویات، ٹیوب ویل کی بجلی سستی کر دیتے تو بات کچھ سمجھ میں آتی ہے کہ براہ راست فائدہ کسان برادری اور عوامی سطح تک پہنچے گا لیکن بجلی کے بل تو بجلی نہ آنے کے باوجود بھی قابو میں نہیں آرہے ،کھاد اور زرعی ادویات کے ریٹ سن کر کسان کو جاڑے کا بخار ہو جاتا ہے،پٹرول اورڈیزل پر کاشت کی گئی فصل کا خرچہ تو دیکھیں ،پھر آپ حضور سے پوچھا جائے کہ براہ راست فائدہ عوام کو پہنچ رہا ہے یا حکومتی مخصوص اشرافیہ کو۔

خدا کا خوف کریں جناب والا، آپ کو اﷲ پاک نے دوبارہ وطن عزیز کی خدمت کا موقع دیا، پابند سلاسل تھے لیکن آزادی دلوائی۔ملک بدر تھے دوبارہ واپسی ہوئی اور ملک کا حاکم بنایا ۔وزیر اعظم صاحب آپ سے تو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں کہ سابقہ تجربات کو دیکھتے ہوئے آپ فیصلہ کن اور عوامی اقدامات کریں گے،مخلوق خدا کو خوشی اور راحت دینے کا ساماں پیدا کریں گے لیکن ماضی کے تلخ تجربات نے بھی آپ کو نہیں بدلا ,بس اتنا بدلاؤ دکھائی دے رہا ہے کہ آرمی اور مولویوں سے بنا کر رکھنی ہے باقی ساروں کو تن کے رکھنا اے۔ بڑے عرصے بعد آپ نے ملکی حالات پر گفتگو کی تھی لیکن لگتا ہے کہ آپکے وزیر مشیرآپ کو درست معلومات فراہم نہیں کرتے جو کاغذ پر لکھا آگیا وہی میڈیا کے سامنے بول دیا جناب وزیر اعظم صاحب آپکی حکومت کا براہ راست زمینداروں اور عوام کو یہ فائدہ پہنچا ہے کہ جو آلو کھیت میں تیار ہونے کے بعد کاشتکار کو 15 روپے فی کلو میں پڑتا ہے وہ بڑے فخر سے آپ 5 روپے کلو فروخت کا اعلان کر رہے ہیں آپکی حکومت کی معاشی بنیاد یہی کاشتکار ہیں جنہوں نے اپنے خون پسینے سے گزشتہ چار فصلیں اگائیں اور ملکی خزانہ بھرا،کسی نے زمین بیچ کر تو کسی نے قرض لیکر وقت گزاری کی کہ چلو ملک کرائسز میں ہے بیرونی آرڈرز نہیں مل رہے اس بار اﷲ فضل کریگا ۔زرمبادلہ کے ذخائر اگر آپ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر دکھا رہے ہیں تو قرض کے انبار بھی اس جیسے پہلے کبھی نہیں تھے آپکی حکومت سے پہلے ایک فرد 50 ہزار کا مقروض تھا تو اب ملک کے ہر شخص کے کھاتے میں ایک لاکھ روپے کا قرض ہے یہ ہے وہ معاشی صورتحال جو آنے والے بھیانک دور کا سندیسہ دے رہی ہے۔اربوں روپیہ میٹرو۔اورنج ٹرین پر لگایا جا رہا ہے اگر یہی کاشتکاروں کو ریلیف دے دیا جاتا تو جناب وزیر اعظم صاحب آپ مستقبل میں ایسے کئی پراجیکٹ کھڑے کر سکتے تھے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ کو اپنے ملک کے کاشتکار کا کوئی دکھ نہیں جس کے پیچھے زرعی بنک والے لگے ہوئے ہیں ،ہاں اگر دکھ ہے تو انڈیا کے ساتھ محبتوں کا وہ سلسلہ جوہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات اور نریندر مودی کا دورہ پاکستان جو صرف اور صرف آپکی نواسی صاحبہ کی شادی میں شرکت تھاوہ ٹوٹنے کا ہے،حالانکہ پٹھانکوٹ واقعہ میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں جسے بہانہ بنا کر انڈیا نے مذاکرات معطل کئے ،ماضی گواہ ہے کہ انڈیا نے ہمیشہ مذاکرات ایسے ہی کسی واقعہ کو بہانہ بنا کر پس پشت ڈالا ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب ہمیں ایسی کسی تجارت اور دوستی کا شوق نہیں جو ہماری خودداری کا خون کرے۔ ہمیں 5 روپے کلو آلو نہیں چاہئے جو ہم اپنے ہی بھائی کا گلا دبا کر حاصل کریں اور نہ ہی ایسی حکومت، ایسی دوستی ،ایسی تجارت چاہئے جو ہمارے حکمرانوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دے اور وہ درست فیصلہ کرنے کی قوت سے محروم ہو جائیں-
Dr Khalid Hussain
About the Author: Dr Khalid Hussain Read More Articles by Dr Khalid Hussain: 20 Articles with 11760 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.