عالی جیؒ کا اپنے رب کے حضور پیش ہونا،کمال احمد رضوی
صاحبؒ کا بھی عدمِ آباد روانہ ہونا۔ بچوں کے عظیم ادیب جناب اشتیاق احمدؒ
کا بھی روشن راہوں کا مسافر بن جانا۔ انتہائی عظیم شخصیت جناب جسٹس امیر
عالم خان کا بھی اُٹھ جانا ہمارے معاشرے کے لیے بہت بڑے نقصانات حالیہ دنوں
میں ہوئے۔ عظیم سماجی شخصیت جناب عطا المصطفیٰ نوریؒ کا رخصت سفر باندھنا،
قحط الرجال کے دور میں اِن ہستیوں کو زندگی سے منہ موڑنا درحقیقت ہم لوگوں
کے لیے امتحان کا سبب بنتا جارہا ہے کہ ہے کوئی اُن کی تقلید کرنے والا۔
جناب انتظار حسین جیسی عظیم شخصیت جو کہ کسی تعارف کی محتاج نہیں کا
دُنیائے فانی کو الوداع کہنا یقینی طور پر پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے
ایک سانحہ ہے۔ عالم کی موت جہان کی موت تصور کی جاتی ہے۔ محترمہ ڈاکٹر
شہناز مزمل صاحبہ سے جناب انتطار صاحب ؒ کے حوالے سے خراجِ عقیدت کے حوالے
کلمات پڑھنے کا موقعہ ملا۔ موت مومن کے لیے تحفہ ہے۔ اِس کی وجہ یہ بیان کی
گئی ہے کہ موت مومن کی اپنے رب سے ملاقات کا سبب ہے۔ اِس دُنیا کو مردار سے
بھی گھٹیا شے قرار دیا گیا ہے۔ اور اِس دنیا کی طلب کرنے والوں کو گدھ سے
تشبیہ دی گئی ہے۔
|
|
کائنات کی سب سے افضل ترین ہستی نبی پاکﷺ کی ہے۔ اور اگر موت آنے سے انسان
مٹی ہوجاتا اور آخرت کی زندگی کا کوئی اتا پتہ نہ ہوتا تو پھر کائنات بننے
کا عمل ہی لایعنی ہوجاتا۔ اور ہر نفس نے موت کا مزا چھکنا ہے کا نظریہ اپنی
اہمیت کھو دیتا اور کائنات کی سب سے افضل ترین ہستی نبی پاکﷺ کی ہے وہ موت
کا مزہ نہ چھکتی۔ موت کے بعد والی زندگی عالم برزخ کی زندگی ہی حقیقی زندگی
ہے۔ زندگی وہی قرار پاتی ہے جو کہ موجود ہو۔زندہ ہو۔ اِس جہاں کی زندگی میں
تو دیرپائی ہی نہیں ۔دیرپائی تو اِس جہان سے منتقل ہو کر اگلے جہان میں
جانے کے بعد والی زندگی میں ہے۔اِس لیے مومن کی اِس دنیا میں موت عارضی ہے
اور زندگی بھی عارضی ہے اور ہمیش رہنے والی زندگی ہی آخرت میں مومن کی
منتظر ہے۔ بندے نے منتقل ہوجانا ہے اِس جہاں سے اگلے جہان میں ۔
جناب انتظار حسین 21 دسمبر 1923ﺀ کو ڈِباء ضلع بلند شہر (یو-پی) میں پیدا
ہوئے۔میرٹھ کالج سے بی اے کیا اور قیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پذیر
ہوئے جہاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے کے بعد وہ صحافت کے شعبے سے
وابستہ ہوگئے۔
انتظار حسین کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلی کوچے‘‘ 1953ﺀ میں شائع ہوا۔
روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم لاہور نامہ کو بہت شہرت
ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور
ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل تھا-
انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب،
بدلتے لہجوں اور کرافٹنگ کے باعث آج بھی پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے
بڑا چیلنج ہے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا، اس کی
کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاہے۔ان کی تحریروں کی
فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ انتظار حسین نے اساطیری رجحان کو بھی
اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ان کے یہاں نوسٹیلجیا، کلاسیک سے محبت،ماضی
پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔
|
|
پرانی اقدار کے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور
اظہار، بہت جگہ پر انداز اور لہجہ بہت شدید ہوجاتا ہے۔ وہ علامتی اور
استعاراتی اسلوب کے نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار ہیں لیکن
اپنی تمام تر ماضی پر پرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود ان کی
تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اور حسن ہے۔
انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس،آگے سمندر ہے، بستی، چاند
گہن، گلی کوچے،
کچھوے، خالی پنجرہ،خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند
بوند،شہرزاد کے نام، زمیں اور فلک اور، چراغوں کا دھواں،دلی تھا جس کا
نام،جستجو کیا ہے، قطرے میں دریاجنم کہانیاں، قصے کہانیاں، شکستہ ستون پر
دھوپ،سعید کی پراسرار زندگی، کے نام سر فہرست ہیں۔
انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ
لسٹ کیا گیا تھا۔ انھیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات
پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔
انتظار حسین2 فروری 2016 کو مختصر علالت کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔
انتظار حسین صاحبؒ جیسی کہنہ مشق شخصیات کسی بھی معاشرے کے لیے بزرگ کے
کردار کی حامل ہوتی ہیں۔ اِن لوگوں کا معاشرے کی نبض پر ہاتھ ہوتا ہے۔ اﷲ
پاک انتظار حسینؒ کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین
|