حکومت کی دوغلی پالیسیاں
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری نظام ہی
بہتر نظام ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے جمہوری حکومت میں دن رات جمہوریت کادرس
دینے والے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے عوام کو
بھول جاتے ہے اور صرف اپنی مفادات کوتقویت دینے میں لگ جاتے ہیں ۔یہی وجہ
ہوتی ہے کہ ملک میں جمہوری نظام سے عام آدمی بہت جلدی مایوس ہو جاتا ہے جس
کابنیادی سبب حکمرانوں کی غلط پالیسیاں ہیں ۔جمہوری نظام کا مطلب یہ ہوتا
ہے کہ حکمران عوام کے لیے کام کریں اور عوام کے فلاح وبہود کو مد نظر رکھتے
ہوئے پالیسیاں اور سکیم بنائیں لیکن ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہتی ہے۔یہاں
پر جو بھی پالیسی بنتی ہے وہ عام آدمی کے مفاد کے بجائے اپنے مفادات کو
مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جاتی ہے۔ ملک کے باقی حصوں کو چھوڑ کر اگر صرف
اسلام آباد کی بات کی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ اسلام آباد کیپٹل میں بھی
عام آدمی کوبنیادی سہولیات دستیاب نہیں ۔ صاف پانی سے لے کر تعلیم اور صحت
تک کی بنیادی سہولیات میسر نہیں جو لوگ اسلام آباد میں رہتے ہیں ان کو
معلوم ہے کہ ان کے بچوں کوسرکاری اسکولوں (اسلام آباد ماڈل اسکول )میں
داخلہ لینا کتنامشکل بلکہ ناممکن ہوتاہے،اسی طرح پاکستان اور اسلام آباد کے
سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں علاج کی سہولت حاصل کرنا کوہ طور کے پہاڑ سے
کوہ نور لانے کے مترادف ہے۔اسلام آباد کا سب سے بڑا ہسپتال پمز گندگی اور
غلاظت سے بھرا پڑا ہے۔ہسپتال کے او پی ڈی میں داخل ہوتے ہوئے ایسا لگتا ہے
کہ میں کسی میلے میں آیا ہوں، عوام کا جم غفیر ہوتا ہے ۔یہ حال صرف او پی
ڈی کا نہیں بلکہ دوسرے وارڈز کا بھی ہے۔ زنانہ امراض کے خواتین کو صرف پرچی
حاصل کرنے کے لیے چھ بجے جانا پڑھتا ہے ورنہ دس بجے کے بعد پرچی نہیں ملتی
پھروہاں پر جو حال ہوتا ہے ،دعا ہے کہ دشمن کو بھی اﷲ بچائیں۔موجودہ حکومت
نے تو پچھلے تقر یباً تمام حکومتوں کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔نون لیگ حکومت
نے صرف وہ کام کرنے ہیں جن میں سریا،سمینٹ اور انٹیں استعمال ہو۔ 100ارب
روپے سے میٹرو توبنا دیا لیکن میٹرو سے ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی مرمت آج تک مکمل
نہ ہوسکی۔ان سو ارب روپے سے چند ہزار لوگوں کو فائدہ ضرور ہوا ہے لیکن چند
ارب روپے خرچ کرکے ہسپتالوں اور اسکولوں کے نظام کو ٹھیک نہیں کیا
جاتا۔اسلام آباد کے سرکاری اسکولوں میں بچوں کیلئے بیٹھنے کی کرسی نہیں
جبکہ دو مہینوں سے اسلام آباد کے سرکاری اسکولوں میں کنٹر یکٹ اور ڈیلی
ویجز پرپڑھانے والے اساتذہ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں جن کو مہینہ صرف
12ہزار روپے ملتا ہے۔ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے۔اسی طرح لاہور میں
اورنج ٹرین کے لیے اربوں روپے تو ہیں لیکن وہاں پر غریب لوگوں کی مکانوں
کوگرا کر معاوضہ دینے کے لیے پیسے نہیں۔نام اور نمائش کے لیے میٹرو بسیں تو
چلائی جارہی ہے جس کا ماہانہ خسارہ 22کروڑ روپے ہیں لیکن بے روزگاری کوکم
کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے بے روزگاری میں
اضافہ تاریخ کے بلندترین سطح پرہے ،دوسری طرف نون لیگ کی موجودہ حکومت نے
صرف ڈھائی سال میں 5ہزارارب روپے کاقرضہ لیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی جس کی
نااہلی اور کرپشن کی داستانیں آج تک میڈیا میں ڈسکس ہورہی ہے انہوں نے اپنی
پانچ سال دور حکومت میں ان سے کم قرضہ لیا تھا ۔اسٹیٹ بنک رپورٹ کے مطابق
نون لیگ نے 30ارب ڈالر قرضہ ڈھائی سال میں جبکہ پیپلز پارٹی نے 24.8ارب
ڈالر پانچ سال میں لیا تھا ۔نون لیگ کی معاشی کرپشن اور نااہلی کا پول بہت
جلدی سامنے آنے والا ہے ۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب نے تاریخ کے مہنگے ترین
ریٹ پر یورو بانڈز کی شکل میں معاہدہ کیا ہے جس کے تحت 500ارب روپے پر دس
سال بعد 410ارب روپے صر ف سودادا کیا جائے گا جبکہ اصل رقم 5سو ارب اس کے
علاوہ ادا کرنے ہوں گے ۔ یہ سب کچھ اس غریب قوم کے جیبوں سے ادا ہوگا جو
آئے روزغربت کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں لیکن حکومت اور ہمارے عوامی
نمائندوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑرہا ہے۔آخرکار عام آدمی نے مہنگائی کی
صورت میں بوجھ برداشت کرنا ہوتا ہے ۔ حکومت کی دوغلی اور متضاد پالیسیوں کو
د یکھیں کہ ایک طرف کہہ رہی ہے کہ عوام کو سہولت دینے کیلئے میٹرو بسیں
شروع کی ہے اور عام لوگوں کے فائدے کے لیے حکومت ہر مہینے 22کروڑ خسارہ
برداشت کرے گی لیکن دوسری طرف پی آئی اے کی نجی گاری کر رہی ہے جس کی وجہ
سے پی آئی اے ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ملک بھر میں پی آئی اے کانظام درہم
برہم ہوچکا ہے حکومتی اعداد وشمار کے مطابق پی آئی اے ہر سال 23ارب کا
نقصان کر رہی ہے جس کو پرائیویٹائز کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن مسلم
لیگ نون ہی کی 2013کے منشور میں تھا کہ ہم پی آئی اے کومنافع بخش ادارہ
بنائیں گے لیکن آج اپنے کاروبار کو تو منافع بخش بنا دیا ہے لیکن سرکاری
ادارے خسارے میں جارہے ہیں ،ان کو بہتر کرنے اور منافع بخش بنانے کے لیے
نون لیگ حکومت کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔دوسری طرف یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ
ہرسال خسارے کے باوجود پی آئی اے کے طیاروں میں اضافہ کیا جارہاہے ۔ ڈیڑھ
سال میں جہازوں کی تعداد 18سے بڑھا کر31کردی گئی ہے۔حکومت کی پر
ائیویٹائزیشن کی پالیسی پر انشاء اﷲ آنے والے دنوں میں بات کر یں گے کہ
حکومت نے اب تک جوادارے پرائیویٹ کیے ہیں ان کی کیا پوزیشن ہے۔ سردست صرف
یہ بتاتا چلوں کہ حکومت عوام اور بیرونی اداروں کو غلط اعداد وشمار پیش
کرکے وقتی فائدہ تو حاصل کر رہی ہے لیکن اس کا نقصان کل پاکستان کے غریب
عوام برداشت کریں گے اور یہی فیصلے کل ان کے لیے مشکلات کاباعث بھی بنیں
گے۔حکومت کو ان متضاد پالیسیاں کو ختم کرنا چاہیے کہ ایک طرف میٹر وبسیں
اورمیٹرو ٹرین بناکر نئے ادارے بنا رہے ہیں جب کہ دوسری طرف پاکستان کے
اثاثے اور منافع بخش ادارے فروخت کر رہے ہیں اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے
کہ حکومت کا کام نہیں کہ وہ بزنس چلائے، پوری دنیا میں تو حکومتیں ایسے ہی
ادارے چلا رہی ہے تو پھر پاکستان میں یہ کیوں ممکن نہیں جہاں پرحکمران اپنا
کاروبار اچھی طرح چلا رہے ہیں ۔پی آئی اے سمیت اسٹیل ملز بھی منافع بخش
ادارہ بن سکتا ہے اگر حکومت نے اہل اور ایماندار لوگوں کو بٹھا یا اور میرٹ
کا سسٹم قائم کیاتو یہ ادارے ایک دفعہ پھر منافع بخش بن سکتے ہیں۔ |
|