سپہ سالار
(Tariq Hussain Butt, UAE)
تاریخ میں کسی سکندرِ اعظم،نپولین بونا
پارٹ ،ہنی بال ،سیزر،اکبرِاعظم،ظہیرالدین بابر، تیمور لنگ اور سلطان محمد
فاتح کا نعم البدل نہیں مل پایا کیونکہ ان عظیم انسانوں میں سے ہر کوئی
اپنی مثال آپ تھا اور ان کا نعم البدل تلاش کرنا ممکن نہیں تھا۔ جب تک دنیا
باقی رہے گی ان عظیم انسانوں کی جراتوں ،بسالتوں اور فہم و فراست کی
داستانیں زبان زدہ خاص و عام رہیں گی۔کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا نعم
البدل بن سکتا ہے اور نہ ہی اس کی صفات کا آئینہ دار بن سکتا ہے کیونکہ ہر
انسان کی سوچ ،فکر اور عمل کے پیمانے علیحدہ علیحدہ ہورتے ہیں اور وہ انہی
پیمانوں کی وساطت سے دنیا میں اپنی پہچان بنتا ہے۔۔ہر انسان کا ویژن اور
عزم دوسرے انسانوں سے مختلف ہوتا ہے لہذا ہر انسان اپنے اعمال کو اپنے ویژن
کے ترازو میں ہی تولتا اور اس پر عمل پیرا ہوتا ہے ۔انسانوں کا عشق،ان کا
جنون اور ان کی وارفتگی انھیں کامیابیوں کی نوید سناتی ہے اور پھر وہ اپنے
اسی جنون کی طاقت سے دنیا کو تسخیر کرنے کا عزم پالتے ہیں اور شائد یۂی وجہ
ہے کہ وہ دنیا میں اپنے کارناموں کی وجہ سے بالکل منفردنطڑ آتے ہیں۔کسی قوم
میں نابغہ روزگار لوگ بار بار جنم نہیں لیا کرتے۔صدیوں کے سفر کے بعد کوئی
نابغہ روزگار شخصیت جنم لیتی ہیں اور پوری قوم کا مقدر بدل کر رکھ دیتی
ہے۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ہر شخصیت کو اپنے تصورات اور خواہشات کے
سانچے میں تراش لیتے ہیں اور اس سے کسی بڑ ے معرکہ کو سر کرنے کی امیدیں
وابستہ کر لیتے ہیں۔پاکستان میں بہت سے سپہ سالار گزرے ہیں جن میں جنرل
محمدایوب خان ،جنرل یحیی خان ،جنرل ضیاا لحق،جنرل پرویز مشرف اور جنرل
اشفاق پرویز کیانی کافی اہم ہیں ۔کیا ان میں سے کوئی ایک بھی جرنیل بھی
دوسرے ہم منصب سے جرنیل سے مماثلت رکھتا ہے؟ َمتذکرہ بالا سارے کے سارے
جرنیل اپنی ترجیحات میں ایک دوسرے سے مختلف تھے لہذا یہ کہنا کہ جنرل راحیل
شریف کے بعد آنے والا جرنل راحیل شریف کے عزائم کی تصویر ہو گا حقائق کا
منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ اس وقت پورے ملک میں یہ بحث پورے زوروں پر ہے کہ
کیا جنرل راحیل شریف کو اپنے مدتِ ملازمت میں توسیع لینی چائیے یا کہ نہیں
؟پاکستانی قوم بیک زبان اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ جنرل راحیل شریف کو
اپنی مدتِ ملازمت میں تو سیع لینی چائیے کیونکہ ان کی ذات ہی دھشت گردوں کے
لئے موت کا پیغام ہے۔ایک حالیہ سروے میں ۸۰ فیصد سے زیادہ لوگواں نے جنرل
راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی حمائت کی ہے جو یہ ثابت کرنے کے
لئے کافی ہے کہ جنرل راحیل شریف کس طرح اپنی قوم کی امنگوں کے ترجمان ہیں۔
پی پی پی اس وقت سب سے زیادہ اس بات کی حامی ہے کہ جنرل راحیل شریف کو اپنے
وقت پر ریٹائر ہو جانا چائیے لیکن جب پی پی پی کی اپنی حکومت تھی تو جنرل
اشفاق پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت میں کس نے تو سیع کی تھی۔؟ جنرل پرویز
مشرف کو کس نے گارڈ آف آنر پیش کیا تھا؟ محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کو
سرِ عام کس نے فراموش کیا تھا؟کون تھا جس نے فوج کیریاستی امور میں اثرو
رسوخ اور دخل اندازی میں ے پناہ اضافہ کیا تھا؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہر
پاکستانی کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں اور وہ سیاست دانوں کی قلا بازیوں
کو بخوبی سمجھ رہے ہیں۔سوال یہ نہیں ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تین
سال کی توسیع کیوں ملی بلکہ سوال یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کی قوم کو اس
وقت ضرورت ہے یا کہ نہیں؟یہ با ت پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان
اس وقت حالتِ جنگ میں ہے۔دھشت گرد اس ملک کو اسلحے کے زور پر یرغمال بنانا
چاہتے ہیں۔اس کے لئے انھوں سب سے پہلے اسلحے کے زور پرکئی علاقوں پر اپنی
حکوتیں تشکیل دے رکھی تھیں۔خیبر پختونخواہ میں جس طرح دھشت گردوں نے آگ اور
خون کی ہولی کھیلی تھی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔اے این پی کے صفِ اول
کے کئی قائدین اس دھشت گردی کا نشانہ بنے۔۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ کو آرمی پبلک سکول
پر حملہ دھشت گردوں کاوہ سفاک وار تھا جس سے پوری قوم کا دل دہل گیا۔یہی وہ
لمحہ تھا جب جنرل راحیل شریف نے آگے بڑھ کر دھشت گردوں کو چیلنج دیا اور ان
کے خلاف ضربِ عضب شرع کرنے کا اعلان کیا۔ضربِ عضب دھشت گردوں کے لئے موت کا
وہ پروانہ تھا جس سے ان کے پاس راہِ فرار اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ
کا ر نہیں تھا۔جوشدت پسند فرار ہونے سے بچ گئے ان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا
گیا۔قوم نے سکھ کا سانس لیا کہ ملک میں امن و امان کی صور تِ حال پیدا ہوئی
اور دھشت گردی کی کار وائیوں میں قابلِ ذکر حد تک کمی آئی۔قوم جنرل راحیل
شریف پر بے پناہ اعتماد کرتی ہے اور اس کے ساتھ شانہ سے شانہ ملا کر کھڑی
ہے۔وہ آخری دھشت گرد کے خاتمے تک جنرل راحیل شریف کو اپنے عہدے پر فائز
دیکھنا چاہتی ہے۔اس کا مطلب یہ کہیں پر بھی نہیں ہے کہ فوج کے آنے والے
جرنیل نا اہل ہیں اور وہ اپنے فرا ئضِ منصبی احسن طریقے سے سر انجام نہیں
دے سکنے کے قابل نہیں ہیں ۔سوال فوج کسی کی صلاحیتوں کا نہیں ہے بلکہ اس
سوچ کا ہے جس کی علامت جنرل راحیل شریف بنے ہوئے ہیں۔ان کے فکر و عمل اور
عزمِ مصمم کا کسی بھی دوسرے جرنیل سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
آزادی سے قبل جب برِ صغیر انارکی اور خانہ جنگی کا شکار تھا تو پھر افغانی
حکمران احمد شاہ ابدالی نے برِ صغیر پر یلغار کر کے اس کا امن تباہ کرنے
والے تمام عناصر، جن میں مرہٹے ،سکھ،گورکھے اور ہندو شدت پسند پیش پیش تھے
کا قلع قمع کیا لیکن احمد شاہ ابدالی کی افغانستان واپسی کے بعد وہ تمام
عناصر نے سر اٹھایا اور مسلمانوں کے خلاف اس شدت سے حمہ آور ہوئے کہ مغلیہ
سلطنت بے دست و پا ہو کر رہ گئی۔جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد دھشت
گرد عناصر ایک دفعہ پھر نئی قوت کے ساتھ ہم پر حمہ آور ہو جائیں گئے اور ہم
ان کے سامنے بے دست و پا ہو جائیں گئے۔جنرل راحیل شریف ایک پیشہ ور فوجی
ہیں۔ان کے خاندان کی پاکستان کیلئے بے شمار قربانیاں ہیں۔وہ ملک کو امن اور
خوشخالی کا تحفہ دے کر جانا چاہتے ہیں۔ساری دنیا کو علم ہے کہ کراچی کس طرح
قتل و غارت گری کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔بھتہ خوری ٹارگٹ کلنگ اور اغوا
برائے تاوان سکہ رائج الوقت تھا اور لوگوں کے لئے خوف اور ڈر کے سائے میں
زندہ رہ رہے تھے لیکن ایک سال کے اندر فوج نے اہالیانِ کراچی کو اس سے نجات
دلوائی اور آج کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال انتہائی بہتر ہے۔اگر جنرل
راحیل شریف دھشت گردوں کے کاف حرکت میں نہ آتے تو شائد کراچی ابھی تک لہو
لہان ہوتا اور اس کے شہری آپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا رہے ہوتے۔پی پی پی اور
ایم کیو ایم اس فوجی اپریشن کے مخالفین میں شمار ہوتے ہیں کیوانکہ ان کے
چند اہم سیاسی قائدین اس اپریشن میں زیرِ حراست ہیں۔پی پی پی تو اپنی کرپشن
کے خوف سے جنرل راحیل شریف سے جان چھڑانا چاہتی ہے اس لئے اس کا موقف ہے کہ
ہر فرد کو اپنے وقت پر اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جانے کی روائت کو مضبوط کرنا
چائیے۔لوگ ابھی تک آصف علی زرداری کی وہ تقریر نہیں بھولے جس میں انھوں نے
کہا تھا کہ جرنل سن لیں کہ انھیں تین سال تک رہنا ہے لیکن ہمیں تو ہمیشہ
رہنا ہے اور اگر فوج نے ہمارے جعاملات میں مداخلت جاری رکھی تو ہم ان کی
اینٹ سے اینٹ بجا دیں گئے۔ اس طرح کا جذباتی اور متنازعہ بیان دینے کے بعد
آصف علی زرداری تو دبئی چلے گئے لیکن ان کے من میں جنرل راحیل شریف کا جو
خوف تھا اس کا تقاضہ یہی ہے کہ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو روکا جائے
لیکن عوام کی اکثریت ایسا نہیں چاہتی اور ہمیں عوامی رائے کا احترام کرنا
چائیے۔،۔ |
|