پانچ سالہ حسان رو رہا تھا کہ مجھے گرم
روٹی چاہئے ،میں یہ ٹھنڈی روٹی نہیں کھاؤں گا ،جب کہ اس کے والدین اسے
منانے کی کوشش کر رہے تھے کہ بیٹا! یہ گرم نہ سہی مگرتازہ روٹی ہے، کل ہی
پکا ئی تھی ابھی ہم سفر میں ہیں،گھرجاکر میں آپ کو پراٹھا پکاکر دوں گی ،ایک
نہیں دو پراٹھے اورساتھ میں انڈا بھی ۔۔۔۔مگر حسان بضد تھا کہ میں یہ ٹھنڈی
روٹی نہیں کھاؤں گا ۔والد نے اس کی ضد سے مجبور ہوکر ویٹر کو بلایا ،اس سے
کچھ کہا ،پہر انتہائی غصے میں زیر لب کچھ کہنے لگا،میں کچھ فاصلے پر بیٹھا
یہ منظر دیکھ رہا تھا ،میں نے حسان کے والد سے پوچھا،کیا مسئلہ ہے ؟حسان کے
والد نے ایک نظر مجھے دیکھا اور کہا:بھائی کیا بتاؤں۔۔۔ہم غریب لوگ ہیں ،دوران
ِسفر مہنگے ہوٹلوں کا کھانا ہم نہیں کھا سکتے ،اس لیے کراچی سے پنڈی کے اس
طویل سفر کے لیے گھر سے ہی کھانا تیار کر کے چلے تھے، مگر میرا بیٹا حسان
ٹھنڈی روٹی کھانے کو تیار نہیں ،میں نے ویٹر کو بلا کر ایک روٹی طلب کی تو
اس نے نے جواب دیا ’’ ہم خالی روٹی نہیں بیچتے ،سالن سمیت ڈھائی سو روپے
لیں گے ‘‘میں نے اس سے کہاکہ بھائی ہمیں سالن نہیں،صرف ایک روٹی چاہئے ،مگر
ویٹر ماننے کے لئے تیار نہیں ،اس کا کہنا ہے کہ ایک روٹی بھی لینی ہے تو
ڈھائی سو روپے ہی دینے ہوں گے ‘‘ حسان کے والد نے انتہائی دکھ سے کہا اور
خاموش ہوگیا ۔چند لمحے بعد پھر بولا’’کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاناظلم
نہیں ؟،کیا یہ بھی ستم نہیں کہ کسی چیز کی منہ مانگے قیمت لی جائے ؟‘‘۔میں
خاموشی سے حسان کے والد کی دکھ بھری کہانی سنتا رہا ،اچانک ڈرائیور نے ہارن
بجایا،سب مسافر گاڑی میں چڑھنے لگے میں بھی بوجھل قدموں سے اٹھا اور جاکر
اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔
میرے ذہن میں مسلسل حسان کے والد کا یہ جملہ گونج رہاتھا ’’ کیا یہ ظلم
نہیں کہ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جائے؟‘‘میرے ذہن میں وہ جملے بھی
گونجنے لگے جو ہم روز ٹی وی چینل پر سنتے اور اخبارات میں پڑھتے ہیں
۔’’حکمرانوں نے زندگی اجیرن کر دی ،عوام اٹھ کھڑے ہوں۔‘‘’’دو فیصد اشرافیہ
ملک کو لوٹ رہی ہے قوم کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ‘‘حکمرانوں نے اپنی جیبیں
بھرنے کے لیے عوام پر مہنگائی کا بم گرادیا ،پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ
عوام پر ظلم ہے سڑکوں پر آنا ہوگا،۔
میں نے خود سے سوال کیا، کیا ’’ظالم‘‘صرف حکمران ہی ہوتے ہیں ؟،دنیا بھر کے
مظالم اہل اقتدار کے نام رجسٹرڈ ہے ؟کرپشن کے الزامات بھی حکمرانوں اور
سیاستدانوں کے ساتھ خاص ہیں ؟کیا ہم خود بھی ظالم نہیں ؟۔کیا ہم بھی موقعہ
ملے تو کسی کی مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھاتے؟۔کیا ہمارے ہی ہاتھوں سے ہمارے
ہی جیسے عوام کی جیبیں محفوظ ہیں ؟۔کون نہیں جانتا کہ حالات کی نامہرباں
رتوں کا رونارونے والا دوکاندار جب بھی موقع ملتاہے،گاہک کو ٹھگنے سے نہیں
چوکتا ،ملک بھر میں ہونے والی مہنگائی پر ماتم کناں سبزی فروش موقع پاکر دس
روپے کلو کا ٹماٹر چالیس روپے میں فروخت کرتاہے ،زمانے بھر کا دکھ دل میں
لئے اور کائنات کی تمام ہم دردیاں لبوں پر سمیٹے رکھنے والا ہوٹل منیجر بس
کسی مجبور سے ذرا سی بھی رعایت کرنے پر امادہ نہیں ہوتا۔گاڑی روانہ ہوچکی
تھی میں ایسی سوچوں میں گم تھا ،اورابھی فیصلہ نہیں کرپایا تھا کہ صرف
حکمران ہی کرپٹ ہیں یا ہم بھی موقع ملنے پر کرپٹ ہوجاتے ہیں ؟ صرف حکمران
ظالم ہیں یاظالموں میں ہم بھی شامل ہیں۔یہ اور ان جیسے مزید سوالوں کا کوئی
جواب نہ مل سکا تھاکہ میں نیندکی آغوش میں پہنچ گیا۔ |