بیسویں اور اکیسویں صدی کی آنکھیں کشمیر
میں خون کی ہولی دیکھ دیکھ کر پتھرا گئی ہیں۔ پچھلے ستر سالوں سے جس طرح
ہندو بنیا مسلمانوں کا لہو کشمیر میں بہارہا ہے ۔ شائد کشمیریوں کے لیے یہ
ایک ایسا امتحان جو کہ اب ختم ہونے کے قریب ہے۔ جس بھارت کی دوستی میں
ہمارئے سیاستدان ہلکان ہوجارہے ہیں وہی بھارت کشمیریوں کو پاکستان سے محبت
کرنے کی سزا دے رہا ہے۔دُنیا کے امن کی راہ میں حائل بہت سے عوامل کے ساتھ
ساتھ کشمیر ی عوام کی غلامی بھی ہے۔ کشمیریوں کو بھارتی درندوں نے زبردستی
ظلم اور غلامی کا طوق پہنا رکھا ہے۔ یوں کشمیر میں انسانی حقوق کی جس طرح
سے پامالی ہو رہی ہے اور کشمیری عوام جس طرح گاجر اور مولیوں کی طرح کٹ رہے
ہیں یہ سب کچھ موجودہ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کے لیے بہت بڑا چیلنج
ہے۔انسان کا بنیادی حق آزادی ہے۔ سوچ اور فکر کی آزادی تو بہت بڑی نعمت ہے
لیکن سب سے گھمبیر معاملہ یہ ہے کہ کشمیر ی مسلمان جسمانی طور پر بھی غلام
ہیں کو ئی دن نہیں جاتاجب کشمیر میں خون کی ہولی نہ کھیلی جاتی ہو انسانی
آزادیوں کی پامالی کے حوالے سے کشمیر لہو لہو ہے۔ڈوگرہ راج سے لے کر موجودہ
بھارتی تسلط کی آزادی کے حوالے تک بین الاقوامی میڈیا و بین الاقوامی
عدالتِ انصاف کا ٹریک ریکارڈ ماتم کدہ بن چُکا ہے۔ انسانی عقل و شعور کسی
صورت بھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اِس حد تک
شرمناک سلوک انسانوں کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی معاشرئے پہ کشمیر میں
ہونے والی کشمیریوں کی نسل کُشی کا بہت ہی گہرا اثر ہے۔پاکستانی عوام کے دل
کشمیریوں کے ساتھ ظلم وستم پہ نوحہ کناں ہے۔عالمی ضمیر کی بے حسی کا عالم
یہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں بے حس و حرکت پڑا ہے اور ابھی تک
کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں روس سپر پاور تھا
لیکن اُس کی تمام تر ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں۔اِسی طرح موجودہ ادوار
میں انکل سام امریکہ بہادر سُپر پاور ہے لیکن امریکہ کا بھی جُھکاؤ بھارت
کی جانب ہے۔کشمیری عوام کی نفسیات پر جو گہرئے اثرات بھارتی ظلم و ستم کی
بناء پر مرتب ہورہے ہیں۔ اِس بناء پر کشمیریوں کی معاشی سماجی عمرانی حالات
غیر موافق ہیں۔ جنوبی ایشاء کا امن اِس وقت داؤ پہ لگا ہوا ہے۔ پاکستان اور
بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یوں ایٹمی طاقتیں ہونے کی بناء پر پورئے
جنوبی اشیاء کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے۔نریندر مودی نے جب سے حکومت سنبھالی
ہے۔پاکستانی سرحدوں پر آگ اور خون کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور نریندر مودی
نے جس طرح حالیہ دنوں میں پاکستانی علاقوں میں اتنا گولہ بارود پھینکا ہے
کہ ہماری فوج کے جوان شہری آبادی حتی ٰ کے جانور بھی ہلاک کیے گئے انسانی
چشم نے یہ تماشا بھی دیکھا کہ فلیگ میٹنگ کے لیے بلائے گئے پاک فوج کے
جوانوں کو سینے پہ گولی مار دی گئی۔ یوں سفارتی دُنیا کے معاملات کے حوالے
سے بھارت نے اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا خود لگا دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی
وادیِ لہو رنگ نے عزم و ایثار کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ انسانی تارئیخ
اِس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کشمیری عوام جس طرح کے مسلسل کرب میں سے
گزرئے ہیں اور ہنوز اِس کا سلسلہ جاری ہے۔تصور میں یہ بات لائی جائے کہ جس
معاشرئے میں امن نام کی کوئی چیز نہ ہو۔ ایسا معاشرہ جہاں پر جابر حکومت ہو
ایسی سر زمین جو اپنے ہی باسیوں کے خون سے رنگین ہو۔ جہاں کے شہریوں کو
ریاستی جبر و ظلم کا سامنا کرنا پرئے۔ گویا ریاست کے ساتھ عوام کی جنگ ہو
رہی ہے اور ریاست نے سات لاکھ فوجی کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے
وادی میں اُتار رکھے۔ اِن حالات میں وادی کی صنعت وحرفت تباہ برباد ہو چُکی
ہے۔معیشت کا گہرا تعلق امن و امان سے ہے۔ وادیِ کشمیر میں امن نام کی کوئی
شے نہیں ہے۔غور کرنے کا مقام ہے اُس قوم کے بچوں کی نفسیات رہن سہن کیا
ہوگا جہاں اُن کے سامنے اُن کی ماؤں کی عصمت دری کی جارہی ہو جہاں اُن کے
باپ اُن کے سامنے قتل کیے جارہے ہوں۔ جہاں آئے روز نوجوان کشمیریوں کو
نامعلوم مقامات پر اغوا کرکے رکھا جارہا ہو۔ ایسے حالات میں کشمیر ی
باشندوں کی نفسیاتی عمرانی حالت خطرناک حد تک خراب ہے۔ نہرو کی جانب سے جب
اقوام متحدہ میں جاکر یہ یقین دہانی کر ائی گئی کہ کشمیریوں کو حقِ استصواب
رائے دیا جائیگاجب یہ قرارداد پیش کی گئی۔اُس وقت یقین دہانی یہ ہی کروائی
گئی تھی کہ کشمیری اگر چاہیے تو پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیں اور اگر چاہیں
تو بھارت کے ساتھ ہی رہیں۔لیکن بھارت اپنی ہی پیش کی گئی قرارداد سے پھر
چکا ہے۔کشمیری مجاہدین جن میں جناب شبیر شاہ، سید گیلانی،میرو اعظ عمر
فاروق، یاسین و دیگر قائدین بھارتی ظلم وستم کے خلاف عَلم بلند کیے ہوئے
ہیں۔کشمیر نے دُنیا کے تمام ممالک میں اپنے لیے توجہ تو حاصل کی ہے لیکن
عملی طور پر امریکہ بہادر نے کچھ نہیں کیا بلکہ حالیہ بھارتی دورہ کرنے سے
پہلے امریکی صدر اوباما نے کہا ہے کہ بھارت حقیقی معنوں میں ہمارا گلوبل
پارٹنر ہے۔امریکہ جو کہ طاقت کے نشے میں دُھت ہے وہ صرف اپنے مفادات دیکھتا
ہے اُس کے لیے کشمیریوں کی زندگی اور موت کی کوئی اہمیت نہیں۔ جس طرح کی
انسانی آزادیوں کی بات امریکہ کرتا ہے وہ صرف زبانی کلامی ہیں عملی طور پر
تو وہ کسی بھی مسلمان ملک کو سکون میں نہیں دیکھنا نہیں چاہتا۔امریکہ بہادر
تو خطے میں چین کی معاشی ترقی کو روکنے کے لیے بھارت کا ہمنوا بن چکا
ہے۔پاکستان کے اندر ہونے والی دہشتگردی کی کاروائیوں میں بھارت امریکہ
اسرائیل تینوں ملوث ہیں۔ منصف بننے کا دعوئیدار امریکہ خود لُٹیرا ہے۔
پاکستانی حکومت کو کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اُتھانی چاہیے لیکن اِس آواز
کو کون سنتا ہے۔چین نے یہ پالیسی بنا رکھی کہ اُس نے اپنی معیشت کو استحکام
بخشنا ہے اور کسی کے ساتھ جنگ نہیں کرنی۔روس کے ساتھ سرد جنگ کے دنوں سے
ہماری مخالفت ہے اور جس طرح امریکہ نے روس کو توڑنے کے لیے پاکستان اور
اسلام کو استمعال کیا وہ سب کچھ روس کے سینے پہ ابھی تک مونگ دَل رہا
ہے۔پاکستان کو عجیب و غریب حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔پاکستان کا
اندرونی استحکام تو بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ چین کے عالمی سپر
پاور بننے کے عمل کی وجہ سے امریکہ بھارت یک جان دو قالب بنے بیٹھے ہیں۔ اِ
ن حالات میں کشمیریوں کا پرسان حال کیا ہوگا۔ ہمیشہ سے سُنا کرتے تھے کہ جس
کی لاٹھی اُسکی بھینس۔ لیکن جب قوموں کے متعلق تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے
کی سوچ پروان چڑھی تو شائد معصوم ذہنوں میں یہ بات کہیں اٹک کر ر ہ گی و ہ
یہ کہ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونا مہذب ہونے کی نشانی ہے۔ نبی پاک ﷺ
نے عرب کے وحشیوں کو جب مہذب بنایا اُن کی تربیت فرمائی تو یہ اُسی تربیت
کا اثر تھا کہ پوری دنیا کی مسلمانوں نے امامت فرمائی اور دنیا کو اچھی
حکمرانی کے طور طریقے سکھائے۔ موجودہ دور میں حالات و واقعات نے یہ بات
ثابت کردی ہے اور ایک بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ امریکہ
انٹرنیشنل قوانین کی پامالی کررہا ہے۔ امریکہ جو کہ ہر معاملے میں خود کو
گھسیٹتا ہے اور خود کو کو کوئی اوتار سمجھے ہوئے ہے۔ اُسے دُنیا میں موجود
مسلم عوام ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کا موجودہ کردار
کسی طور بھی انڑنیشنل قوانین کے تحت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ صرف دنیا کی
آنکھوں میں دھول جھونکنے کا فیریضہ انجام دئے رہا ہے اور اِسکا اولین کام
امریکہ کی تابعدارای اور فرما برداری ہے۔ تقریباً دنیا کے تمام ملکوں میں
امریکہ کا اثر روسوخ ہے یہ اثرورسوخ پہلے معاشی اور بعد میں پھر سیاسی بن
جاتا ہے۔ اگر نرم سے نرم الفاظ میں بات کی جائے تو بھی امریکہ اِس وقت پوری
دُنیا کا دُشمن بنا بیٹھا ہے اور اِس کی سامراجیت کو لگام دینا والا اِسکا
کوئی بھی ہم پلہ ملک نہیں ہے۔روس کی شکست وریخت کے بعد تو امریکہ کو کھلی
چُھٹی ملی ہوئی ہے۔ عراق میں لاکھوں انسانون کا قتل عام اور ا فغانی عوام
کے خون سے ہولی امریکی دہشت گردی کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔شام،مصر، ترکی کے
اندر مداخلت پاکستان میں ڈرون حملے، کیا یہ سب کچھ کسی قانون قاعدے یا
اخلاقی پہلو کو پیشِ نظر رکھ کر کیا جارہاہے۔امریکہ اس وقت سب سے بڑا دہشت
گرد ہے اور وہ بین الا قوامی قوانین کی دھیجیاں اُڑا رہا ہے۔ قم کے خیال
میں امریکہ اِس وقت دنیا میں دہشت کا نشان بن چکا ہے۔ بھارتی حکومت نے جس
طرح ممبئی حملے خود کروائے اور اُس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر پورے
دُنیا میں پاکستان کو خوب بدنام کیایہ سب کچھ امریکہ کی آشیر باد سے کیا
گیا وہ تو امریکی انٹیلی جنس آفیسر نے بھارتی عدالت میں حلف نامے کے ساتھ
یہ بیان جمع کروایا کہ یہ سب کچھ بھارت نے خود کیا تھا۔یہ ہے بھارت اور
امریکہ کا گٹھ جوڑ۔کشمیرکی وادی میں مسلمانوں کا قتل عام امریکہ اقوام
متحدہ کی بے حسی کا شاخسانہ ہے۔اگر ہم اِس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ
امریکی قانون شکنی کا سارا زور کس پر ہے تو صرف اور صرف وہ مسلم دُنیا
ہے۔اِس حوالے سے مسلم حکمرانوں کو اپنے اپنے ملکوں میں جمہوری اندازِ
حکمرانی اپنانا ہوگا تاکہ اُن کی عوام جو سوچتی ہے اور جو چاہتی ہے اُس کی
آواز مسلم حکمرانوں کے کانوں تک پہنچے اور وہ اپنے عوام کی ترجمانی کا
فریضہ انجام دے سکیں۔کیونکہ جس طرح سے امریکہ نے عراق کے سابق صدر صدام
حسین کو اپنی دوستی کے چنگُل میں پھانسا اور پھر عراق کی جانب سے ایران کے
اوپر چڑھائی کروائی اور ایران کو کمزور کیا بعد میں اِسی صدام کو پھانسی پہ
لٹکایا اور دنیا بھر کے میڈیا پہ لائیو دیکھایا۔پھر عراق کی اینٹ سے اینٹ
بجا دی اور بارہ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ امریکہ بہادر کے
سامنے کلمہ حق کہنا تو ایک طرف مسلم حکمران تو اِس کے سامنے کھڑے نہیں
ہوسکتے۔ مسلم دنیا کو اپنے عوام کو خوشحال کرنا ہو گا اور پھر جب مسلم دنیا
خود اپنی عوام کی آشیر باد سے اس قابل ہوں کہ وہ اقوام متحدہ اور امریکہ کو
یہ احساس دلائیں کہ انٹرنیشنل قوانین پر عمل درآمد کس طرح ہوتا ہے اگر چہ
مسلم دنیا کے حکمرانوں کا راہ راست پر آنا مستقبل قریب میں دیکھائی نہیں
دیتا لیکن اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ امریکی عوام مہذب ہیں لیکن
اگر وہ اتنی مہذب،ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہیں تو پھر ان کی عقل و دانش
ان کو اس امر کی طرف راغب کیوں نہیں کرتی کہ امریکہ بھی عالمی قوانین
کااحترام کرئے امریکی عوام کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پوری دنیا میں
امریکہ صرف اِس لیے نفرت کا نشان ہے کہ امریکہ نے خود کو ہر طرح کے قانون
سے بالا تر سمجھ رکھا ہے۔ ایران کے خلاف معاشی پابندیاں اور اسرائیل کو
کھلی چُھٹی بین الاقوامی قوانین کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ امریکہ کی اتنی
ٹانگیں نہیں ہیں کہ وہ ہر معاملے میں اپنے ٹانگ اڑا رہا ہے اِس کا انجام
روس کی طرح ہی ہوگا کہ یہ آخر کار اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھے گا۔ امریکہ کی
جگہ لینے کے لیے چین تیار بیٹھا ہے روس کو ختم کرنے کے لیے جس طرح پوری
دُنیا کے مسلمانوں کو امریکہ نے جہاد کے نام پر اکھٹا کیا اور افغانستان کی
جنگ میں جھونکا اور روس کو شکست دی اور خود واحد سپر بن گیا۔
القائدہ،طالبان امریکہ کے لگا ئے ہوے پودے ہیں جو کانٹے بن چکے ہیں۔اقوام
متحدہ، بین الاقوامی عدالت، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ہونے کے باوجود
امریکہ جانب سے پوری دنیا میں دہشت گردی اور پاکستان میں ڈرون کی شکل میں
تباہی یہ وہ سوالیہ نشان ہیں کہ جو پوری دنیا کے سامنے امریکہ کا چہرہ بے
نقاب کیے ہوئے ہیں کہ امریکہ اِس وقت سب سے بڑا قانون شکن ہے۔ا مریکہ کے
ہوتے ہوئے کشمیر کی آزادی کیسے ممکن ہے۔ پوری مسلمان دنیا میں کوئی بھی
ایسا ملک نہیں جو کہ کشمیریوں کے لیے آواز اُٹھائے۔ موجودہ حالات میں جب کہ
پاکستان دہشت گردوں کی خلاف جنگ لر رہا ہے جان کیری نے اپنے حالیہ دور
جنوری 2015 کے دوران بھاری انتظامیہ کو کہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی حمایت سے
باز آجائے۔ امریکی عہدئے داروں کو مکمل ادراک ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت
گردی کی کاروائیاں کروا رہا ہے اور پینٹاگان اِس کے ساتھ ہے۔کشمیری کی وادی
لہو رنگ وادی اِس وادی میں مسلمانوں کے خون سے سیراب ہونے کے لیے نہ جانے
اتنا حوصلہ کیسے آچکا ہے۔ پاکستان کے اندر جس طرح پاک فوج دہشت گردی کے
خلاف جنگ لڑ رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اصل میں بھارت نے ہی کشمیر کے
معاملے کو دبانے کے لیے پاکستان میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔لیکن
سارئے فیصلے تو امریکہ اور بھارت نے نہیں کرنے خالق بھی تو سب دیکھ رہا ہے۔
دیکھنا اب یہ ہے کہ کشمیر کی سرزمین کو اب مزید کتنے لہو کی ضرورت ہے۔
|