آج پانچ فروری ہے اور آج پاکستانی قوم اور
پوری دنیا کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو سپورٹ کرنے اور انکے ساتھ اظہار
یکجہتی منا رہی ہے، کشمیرکی آزادی کی تحریک اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان
کی عمر ہے کیونکہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کا آغازقیام پاکستان کے
ساتھ ہی ہوگیا تھا۔بھارتی حکومت کا بد ترین سے بدترین ظلم و جبر بھی حریت
پسندوں کے حوصلے اور عزم کو شکست دینے میں ناکام ثابت ہوا ہے، اور اس امر
کا اعتراف بھارتی دانشور بھی کرتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک بھارتی
فورسز کے تشدد سمیت ہر قسم کے ظلم و بربریت کے مقابلے کے باوجود توانا ہو
رہی ہے۔ ہاں اس عظیم جدوجہد آزادی میں کچھ وقت کے لیے ٹھہراؤ ضرور آیاہے
مگر کشمیری حریت پسندوں کی ہمت ،جرآت ،جذبہ ،جنون اسی طرح برقرار رہا اور
ہے جیسے پہلے روز تھا۔
پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کا آغاز کب ہوا ؟اس بارے بھی مغالطہ سے کام
لیا جا رہا ہے کیونکہ کچھ لوگ اسکی تاریخ بتاتے ہوئے ڈنڈی مارتے ہیں ان کا
کہنا ہے کہ پانچ فروری کی تعطیل نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں 1990 میں
کی گئی لیکن اصل حقیقت اس کے برعکس ہے اس یوم یکجہتی کشمیر کا اعلان مرحوم
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1975میں ہوا تھا۔اس پہلے یوم یکجہتی کشمیر کے
موقعہ پر کشمیر کے دونوں طرف ایسی پہیہ جام ہڑتال ہوئی کہ جس کی نظیر ملنا
یا پیش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔اس کے بعد پھر ہر سال ہڑتال بھی
ہوئی اور یکجہتی بھی کی جاتی رہی ……جو بعد کے حکمرانوں کے ادوار میں بھی
منایا جاتا رہا ہے اور آج تک سلسلہ جاری ہے۔اور انشاء اﷲ تعالی کشمیر کی
آزادی کے آفتاب کے طلوع ہونے تک جاری رہے گا۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ ستمبر کے
موقعہ پر تاریخی تقریر کی جس کے ذکر سے آج تک اقوام متحدہ کے دردیوار لرزتے
اور کانپتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے اس تقریر میں ثابت کیا کہ جموں وکشمیر تاریخی
،جغرافیائی اورثقافتی حوالوں سے ثابت کیا اور دنیا پر واضع کیا جموں و
کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے بلکہ پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے۔بقول حضرت
ابو سعید حیرت جلالپوری ‘‘ بھٹو مرحوم کی یہ تقریر دنیا کی بہترین تقاریر
میں سے ایک تھی۔‘‘ (حوالہ کتاب اعجاز نطق )اس تقریر نے دنیا پر بھارت کی
مکاری عیاں کردی تھی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی یہ تقریر دنیا کے سامنے
کشمیر کا مسلہ احسن طریقے سے پیش کرنے کاباعث قرار پائی۔
دنیا میں شعور کی بیداری کی لہر چل رہی ہے، اس لہر کے سامنے اب جبر ،ظلم
اور بربریت اپنا کر بند نہیں باندھے جا سکتے……دیوار برلن منہدم ہو چکی ہے،
اب آزادی کی تحریکیں کامیاب ہونے کے قریب تر ہیں،بس ان تحریکوں کے
معانین،مددگاروں کے ثابت قدم رہنے کی بات ہے۔ میرے ایک دوست مرزا مبشر بیگ
کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے حکمران عالمی فورمز پر کشمیر کے مسلہ کا ذکر کرتے
وقت ادھر ادھر کی باتیں کرنے کی بجائے ذوالفقار علی بھٹو کی اقوام متحدہ
میں کی جانیوالی تقریر سے راہنمائی حاصل کریں تو زیادہ بہتر ہو۔
کشمیری عوام کی پرامن جدوجہد آزادی عالمی ضمیر کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر بیدار
کرنے کی کوشش کر رہی ہے، بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید کیے جانے والے
کشمیریوں کا لہو ،بھارتی فورسز کے غنڈوں کی وحشت کا شکار خواتین جمہوری
آزادیوں کے ‘‘پرچار کر‘‘ اور خواتین اور بچوں کے حقوق کی چمپیئن تنظیموں کی
راہ دیکھ رہی ہیں۔ فرانس اورامریکہ سمیت دنیا کے کسی کونے میں کسی غیر مسلم
کو خراش تک آئے تو ایک کہرام برپا ہو جاتا ہے لیکن کشمیری عوام کی صدائیں
امریکی یورپی مہذب اقوام اور اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر پر دستخط
کرنے والی دیگر اقوام نہ جانے کیونکر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں؟ لیکن کب
تک مہذب دنیا کشمیرکی آزادی کو نظرانداز کرتی رہے گی؟ بالاآخر ایک نہ ایک
دن کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہو کر رہے گا۔کیونکہ ظلم بڑھتا ہے تو مٹ
جاتا ہے کیونکہ اسے مٹنا ہی ہوتا ہے اور لہو جہاں گرتا ہے جم جاتا ہے۔
کشمیری عوام کا بہایا جانے والا لہو رائیگاں نہیں جائیگا۔ضرور رنگ لانے
والا ہے۔
بھارتی فورسز کے ہاتھوں اب تک ہزاروں مردو خواتین جام شہادت نوش کرچکی
ہیں،کشمیرکی جنت نظیر وادی کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کی روش زیادہ دیر
قائم نہیں رہ سکتی، اسکی وجہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی ہندؤوانہ ذہنیت اور
تنگ نظر سوچ اور مسلمان کش پالیسیاں اس کے سیکولر ہونے کا پردہ چاک کررہی
ہیں۔بھارتی حکومت کا ظلم و تشدداور بربریت آخری سانسیں لے رہی ہے انشاء اﷲ
کشمیری عوام آزادی کی منزل کے قریب پہنچ چکے ہیں، اس موقعہ پر کشمیری عوام
کو اپنے اتحاد کو برقرار رکھنا ہوگا۔ دنیا میں آزادی کی تحریکیں جب کامیابی
اور منزل کے قریب پہنچتی ہیں تو حریت کے دشمن ان میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں جس
سے قریب آئی ہوئی منزل ایکبار پھر کچھ دیر کے لیے ان سے دور ہوجاتی
ہے۔پاکستانی حکومت اور عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی شہ رگ کو آزاد کروانے
کے لیے انکی اخلاقی ،مالی اور سفارتی مدد کرتے رہیں انہیں تنہا مت چھوڑا
جائے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ |