ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی کی
عظیم روایت قائم کرنے والے منوں مٹی تلے جا سوئے مگر 1990سے ہر سال یہ
روایت پورے جوش و جذبہ سے تازہ کرتے ہوئے اس پا ر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ
شب کتنی ہی گہری اور سیاہ کیوں نہ ہو سویرا نہیں رکتا،صبح ہوکے رہتی ہے،ظلم
جب حدیں توڑ دے تو صبر پھل دیتا ہے،نسلوں کی آبیاری مقدس خون سے ہو تو سیسہ
پلائی دیواریں تیار ہوتی ہیں،کالے قوانین میں جکڑو یا فرضی عدالتیں بٹھاؤ
۔۔حق کی راہ پر چلنے والے ختم ہوئے نہ ہو ں گے،آزادی کی بہاریں دیکھنے کے
لیے ڈوگرہ راج میں 16زندہ انسانی جسموں سے کھالیں کھینچ دی گئیں،جیل کے
اندر پھانسی دے کر کال کوٹھڑی میں ہی قبریں بنا دی گئیں،اہل خانہ جسد خاکی
کے لیے درخواستیں لیے پھر رہے ہیں ۔۔کیا کچھ نہیں ہوا اورکیا کچھ نہ ہو
گا۔۔تجارتی غلاف چڑھا کر دوستی کی بسیں چلانے والے ہندو بنیے کی گندی ذہنیت
بھول گئے،ان کے قیدی رحم کی زندگی پا رہے ہیں اور ہمارا جوان بھول کر پار
چلا جائے تو لاش ملتی ہے ۔۔ گمنام قبریں،بھارتی وزیر داخلہ کا سچ۔۔۔اقوام
متحدہ ،امریکہ،برطانیہ کو اور کیا ثبوت درکار ہیں۔منزل کو جانے والا راستہ
کھٹن سہی،سفر صبر آزماء سہی،حریت کا قافلہ رکے گا نہیں،آزادی نہ دی تو لے
لیں گے یہ تو ازل سے طے ہے ۔پھر انکار کیسا،لیت و لعل کیوں۔۔کتنے بٹ کتنے
گورو ماروگے ،ہر بٹ ہر گورو زمین سے خوشبو کی مانند نکلے گا ،یہ خوشبوپھیلے
گی چار سو۔۔آزادی کے گیت گونجیں گے۔۔یہی ہونا ہے اور یہی ہو گا،وقت کا پتہ
نہیں منزل کا سب کو علم ہے۔۔۔ اسلام دشمنی کی عینک لگائے رکھنے والوں کو اب
کھلی آنکھوں سب دیکھنا ہو گا۔یوم یکجہتی کشمیر کے خوف سے مقبوضہ کشمیرمیں
بھارتی فوج اور پولیس نے ضلع بارہمولہ میں رات کا گشت بڑھا دیا ہے ۔ سیلو،
گوری پورہ، آرم پورہ، چنکی پورہ، وارپورہ، چھان کھن، ہردہ شوہ، ماڈل ٹاؤن،
رفیع آباد اور سوپور کے دیگر علاقوں کے لوگوں کی نقل و حرکت پر کڑی نگاہ
رکھی جارہی ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی )کے ایک سابق سپیشل
ڈائریکٹر آر این روی کا کہنا ہے کہ کالا قانون (آرمڈ فورسز سپیشل پاورز
ایکٹ) بھارت جیسے جمہوری ملک کے لیے انتہائی شرمناک ہے۔2011میں آسام
سرفہرست ریاست تھی جہاں سب سے زیادہ ماورائے عدالت ہلاکتیں کی گئیں۔افسپا
کے تحت بھارتی فوجیوں کو بے گناہ لوگوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی ملی ہوئی
ہے۔قارئین، جوہری ایشیاء میں امن کا قیام مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے جب
تک اس دیرینہ تنارعے کا حل نہیں ہو جاتاخطے میں امن و خوشحالی کا قیام ممکن
نہیں۔طاقت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بھارتی کوششیں ناکام ہوں گی ۔حق
خودارادیت کے حصول تک کشمیریوں کی جدوجہد کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔عالمی
برادری کو نیوکلیئر ایشیاء میں امن و خوشحالی ممکن بنانے کیلئے عملی کردار
ادا کرنا ہو گا۔مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارت کے غاصبانہ تسلط سے آزادی
دلوانے کیلئے ہم سب کو اپنی کوششیں منظم و مربوط بنا کر تیز کرنا ہوں گی
تاکہ مہذب دنیا بھارت کا اصل روپ دیکھ کرکشمیریوں کو بین الاقوامی طور
پرتسلیم شدہ حق خودارادیت دلوانے کیلئے اپنا فوری کردار ادا کر سکے۔ بھارت
آٹھ لاکھ فوج کے جابرانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیر پر اپنا جابرانہ تسلط
برقرار نہیں رکھ سکتا، آزادی کشمیر کا مقدر بن چکی ہے، مقبوضہ کشمیر میں
اپنے غیر قانونی قبضے کو دوام دینے کی بھارتی حکمرانوں کی تمام سازشیں
ناکام ہوں گی۔ شہداء کی قربانیوں کی وجہ سے ہی مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر
توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔کشمیر عالمی سطح پر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کے
سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ بھارت کو ہٹ دھرمی پر مبنی رویہ
ترک کر کے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آگے آنا چاہیے۔ عالمی تنظیم The
Reporters With Out Borders کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں صحافیوں کو بھی
نہیں بخشا جاتا، تشدد میں ملوث لوگوں کو سزا نہیں ملتی اور مقبوضہ علاقہ
بھی تیزی سے تنہا رہ جانے والے خطوں میں شامل ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق
بھارت عالمی آزادی صحافت کے حوالے سے 9درجے نیچے جاتے ہوئے 179ممالک کی
فہرست میں 140ویں نمبر پر ہے ۔ مسئلہ کشمیر کو پاکستان،بھارت اور کشمیری
عوام پر مشتمل سہ فریقی بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ پاک بھارت
کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور لائن آف کنٹرول ہو یا ورکنگ باونڈری ۔۔۔ آج
بھی دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے ہیں ،متعدد خلاف ورزیاں بھارت کر چکا
ہے۔۔۔فلیگ میٹنگ کے بہانے بھی دو نوجوان خون میں نہا دیے گئے۔۔۔سکھ پریشان
،دلتوں کا سکوں حرام ،عام شہری بھی محفوظ نہیں اور امریکہ بہادر اسے سلامتی
کی ٹھیکداری سونپنے کے چکر میں ہے۔فرانس دوستی کی آڑ میں بھارتی دفاع مضبوط
کرنا چاہتا ہے،روس کی یاری بھی بنئے سے پکی ہوتی جا رہی ہے۔پھٹان کوٹ کے
واقعہ کے بعدپاک بھارت کشیدگی اب بڑھ چکی ہے۔۔یہ تناؤ کم کرنے کیلئے عا لمی
برادری کردار ادا کرے وگرنہ یہ کشیدگی پورے خطہ میں امن کے لئے خطرہ بن
سکتی ہے۔ بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنے اور پاکستان سے دوستانہ تعلقات قائم
کرنے میں نہ تو مخلص رہا ہے اور نہ ہی سنجیدہ ۔5 فروری کو پاکستان بھر میں
عام تعطیل ہوگی، آزاد کشمیر اور پاکستان کو ملانے والے تمام راستوں پر
انسانی ہاتھوں کی زنجیریں بنائی جائیں گی۔ کشمیری شہداء کو خراج عقیدت پیش
کرنے کیلئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائیگی۔ مساجد میں کشمیر کی آزادی
کیلئے خصوصی دعائیہ تقریب ہو گی، سیمینارز ہو ں گیقوام متحدہ کے دفتر میں
کشمیر پر یادداشت پیش کی جائیگی ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اورہمسایہ
برادر ملک چین مسئلہ کشمیر کے حل بارے اپنا کردار ادا کرنے کا کہہ چکے ہیں
، ان بیانات سے عالمی علاقائی طور پر پاکستان کے اس موقف کو تقویت ملی ہے
کہ کشمیر ایک متنازعہ اور حل طلب مسئلہ ہے۔دنیا بھر میں بسے کشمیریوں سے
دست بستہ عرض ہے کہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی کی عظیم روایت قائم کرنے
والے منوں مٹی تلے جا سوئے مگر انتشار ہے ، اضطراب ہے تو حق کے متوالوں میں
اور یہ اضطراب اسی صورت کم ہو گا ،بے یقینی کے بادل تب ہی چھٹیں گے جب ہمیں
اچھے اور برے کی تمیز،تقلید کے اصولوں کا پتہ ہو گا،کوئی گفتار کا غازی اب
نہ تو ہمارے دلوں میں گھر کر سکتا ہے نہ ہی ہماری اشکال کے خدو خال چراسکتا
ہے ۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اناؤں کی قید ،ذات کے خول اور انفرادی مفادات
کے حصار سے نکل کر اجتماعی خواب کی تکمیل و تعبیر کے لیے جدوجہد کی جائے ۔حوصلے،
ہمت اور لگن کے اینٹ گارے سے کامیابی و کامرانی کا قلعہ تعمیر کیا جائے جس
پر آزادی کا پرچم ہمیشہ لہراتا رہے۔اگر کرپشن اور ایک دوسرے کو جانوروں سے
تشبیہ دینے کی روایت جاری رکھی گئی تو اس پار والے مایوس ہو جائیں گے اور
یہی مایوسی ہمیں سقوط ڈھاکہ کا زخم بھی دے گئی تھی ۔گلگت بلتستان کو صوبہ
بنایا جا رہا ہے،مئی تک آزاد خطہ میں عام انتخابات بھی متوقع ہیں ایسے میں
اپنے اولین مقصد کو سر فہرست رکھنا ہو گا۔پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔۔۔۔۔ |