“ کرپشن کلچر نے پاکستان اور اسکے اداروں کو زوال پذیر کردیا“
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
موجودہ حکمرانوں کا انداز حکمرانی شہنشایانہ ہے جو جمہوریت کی ضد ہے۔ حکومت نے افہام و تفہیم اور گفت و شنید کی بجائے آمرانہ رویہ اختیار کیا۔ لازمی سروس کا ایکٹ نافذ کرکے اور دھمکیاں دے کر ملازمین کے احتجاج اور ہڑتال کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ جب پر امن احتجاج کے دوران پراسرار طور پر پی آئی اے کے دو ملازم جاں بحق اور سترہ زخمی ہوگئے تو وزیراعظم نے اظہار افسوس کی بجائے اشتعال انگیز بیان دے ڈالا اور کہا کہ ’’ہڑتالی ملازم فارغ ہونگے اور جیل جائینگے‘‘۔ وزیراعظم کا یہ مؤقف البتہ درست ہے کہ ہر سال پی آئی اے کا تیس ارب روپے کا خسارہ معیشت پر بوجھ ہے۔ ریاست کو ٹیکس دیکر نظام حکومت چلانے والے عوام دوہرے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ایک جانب وہ ریاستی اداروں کے خسارے کا بوجھ برداشت کرتے ہیں اور دوسری جانب ہڑتال اور احتجاج کی اذیت کا خمیازہ بھی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ پی آئی اے کی جائینٹ ایکشن کمیٹی اپنے مفادات کیلئے احتجاج اور ہڑتال تو کررہی ہے عوام ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے بدانتظامی اور نا اہلی سے پی آئی اے کو اس حد تک انحطاط پذیر کیوں کردیا کہ اس کی نجکاری کی نوبت آگئی۔ سیاستدانوں، حکمرانوں، پی آئی اے کی انتظامیہ اور سٹاف سب کو مشترکہ ذمے داری قبول کرنی پڑے گی۔ البتہ پی آئی اے کی لیبر بے قصور ہے جن کیلئے دو وقت کی روٹی مشکل ہوچکی ہے۔ |
|
پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں ے پیپلز
پالیٹکس کی بجائے پاور پالیٹکس ہورہی ہے۔ عوام اور قوم کے مفاد کے نام پر
وہ المیہ ڈرامے ظہور پذیر ہورہے ہیں کہ الاماں اور الحفیظ کی صدائیں بلند
ہوتی ہیں۔ جب پی آئی اے کی کمان ائیر مارشل اصغر خان اور ائیر مارشل نور
خان جیسے قوم پرست اہل اور دیانتدار لیڈروں کے ہاتھ میں تھی تو اس ادارے کی
پہچان ’’باکمال لوگ لاجواب سروس‘‘ تھی۔ پی آئی اے کے اہل اور پیشہ ور
افراد نے دنیا کی کئی ائیر لائینوں کی تشکیل و تربیت میں قابل ستائش کردار
ادا کیا۔ کرپشن کلچر، ابن الوقتی، حرص و ہوس، اقربا پروری اور نیشلزم کے
فقدان نے پاکستان کی ریاست اور اسکے اداروں کو زوال پذیر کردیا۔ دنیا کے
کئی ممالک میں تجارتی ادارے ریاستی کنٹرول میں کامیابی سے چلائے جارہے ہیں۔
چین کے نوے فیصد ادارے حکومتی کنٹرول میں ہیں جو اس قدر کامیاب ہیں کہ چین
دنیا کی نمبرون معاشی طاقت بننے جارہا ہے۔ اگر حکمران اشرافیہ نیک نیت ہو
تو ہم چین کے تجربات سے سیکھ کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان کے انداز سیاست
اور طرز حکمرانی سے پاکستانی عوام سخت اذیت میں مبتلا ہیں۔ سیاسی رہنما
اپوزیشن میں جو طرز فغاں اختیار کرتے ہیں اقتدار میں آکر اسے یکسر بھول
جاتے ہیں۔ ملائشیاء کے مہاتیر محمد اور سنگا پور کے لی کوان نے عالمی
مالیاتی اداروں کی سازشوں کے باوجود ریاستی اداروں کو کامیابی سے چلا کر
اپنے ملکوں کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنایا۔ جنوبی کوریا کے حکمرانوں نے
1964ء میں سٹیل ملز لگانے کا فیصلہ کیا۔ دنیا کا کوئی ملک کوریا کو مشینری
اور ٹیکنالوجی دینے پر تیار نہیں تھا ان کا خیال تھا کہ کوریا کے پاس سٹیل
ملز چلانے کی اہلیت نہیں ہے۔ آخر کار جاپان نے کوریا کو سٹیل ملز دینے کی
حامی بھر لی۔ کوریا کے لیڈر قومی جذبے سے سرشار تھے انہوں نے سٹیل ملز کو
چلانے کیلئے سٹاف کا انتخاب میرٹ پر کیا اور اسے اعلیٰ فنی تعلیم کیلئے
دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں بھیج دیا۔ سٹاف چار سال میں تعلیم حاصل کرکے
کوریا واپس آگیا۔ 1968ء تک سٹیل ملز کی بلڈنگ تیار اور مشینری نصب ہوچکی
تھی کوریا کے قوم پرست لیڈروں نے سٹیل ملز کامیابی سے چلا کر دنیا کو حیران
کردیا۔ سیاسی عزم ہو اور نیت نیک ہو تو راستے کھلتے جاتے ہیں۔ پاکستان کے
وزیر اعظم کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد اور کامیاب تاجروں میں ہوتا ہے۔
انکے پاس حکومت چلانے کا طویل ترین تجربہ ہے اسکے باوجود وہ ریاست اور
ریاستی اداروں کو کامیابی سے چلانے سے قاصر ہیں۔ عوام کی منتخب پارلیمنٹ جس
کو وہ جوابدہ ہیں وزیراعظم کے دیدار کیلئے قراردادیں پیش کررہی ہے جبکہ
عدلیہ کے جج طرز حکمرانی سے اس حد تک عاجز آچکے ہیں کہ وہ یہ ریمارکس دینے
پر مجبور ہوگئے ’’اگر عدالتی احکامات پر عمل نہ کیا گیا تو ہم وزیراعطم کو
بلائیں گے اور وہ سیدھا اڈیالہ جیل جائینگے‘‘۔ وزیراعظم پاکستان میٹرو،
اورنج ٹرین اور موٹر ویز کے نشے سے سرشار ہیں ریاستی اداروں کی ان کو فکر
ہی نہیں ہے۔ موجودہ حکمرانوں کا انداز حکمرانی شہنشایانہ ہے جو جمہوریت کی
ضد ہے۔ حکومت نے افہام و تفہیم اور گفت و شنید کی بجائے آمرانہ رویہ
اختیار کیا۔ لازمی سروس کا ایکٹ نافذ کرکے اور دھمکیاں دے کر ملازمین کے
احتجاج اور ہڑتال کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ جب پر امن احتجاج کے دوران
پراسرار طور پر پی آئی اے کے دو ملازم جاں بحق اور سترہ زخمی ہوگئے تو
وزیراعظم نے اظہار افسوس کی بجائے اشتعال انگیز بیان دے ڈالا اور کہا کہ
’’ہڑتالی ملازم فارغ ہونگے اور جیل جائینگے‘‘۔ وزیراعظم کا یہ مؤقف البتہ
درست ہے کہ ہر سال پی آئی اے کا تیس ارب روپے کا خسارہ معیشت پر بوجھ ہے۔
ریاست کو ٹیکس دیکر نظام حکومت چلانے والے عوام دوہرے عذاب میں مبتلا ہیں۔
ایک جانب وہ ریاستی اداروں کے خسارے کا بوجھ برداشت کرتے ہیں اور دوسری
جانب ہڑتال اور احتجاج کی اذیت کا خمیازہ بھی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
پی آئی اے کی جائینٹ ایکشن کمیٹی اپنے مفادات کیلئے احتجاج اور ہڑتال تو
کررہی ہے عوام ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے بدانتظامی اور نا
اہلی سے پی آئی اے کو اس حد تک انحطاط پذیر کیوں کردیا کہ اس کی نجکاری کی
نوبت آگئی۔ سیاستدانوں، حکمرانوں، پی آئی اے کی انتظامیہ اور سٹاف سب کو
مشترکہ ذمے داری قبول کرنی پڑے گی۔ البتہ پی آئی اے کی لیبر بے قصور ہے جن
کیلئے دو وقت کی روٹی مشکل ہوچکی ہے۔ پر امن احتجاج کے دوران پی آئی اے کے
دو ملازمین کے خون ناحق کی ذمے داری لینے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔ امن و
امان کی بنیادی ذمے داری صوبائی حکومت کی ہے جو حسب روایت جوڈیشل کمیشن بنا
کر ’’مٹی پائو پالیسی‘‘ پر آمادہ نظر آتی ہے۔ عوامی احتجاج کو روکنے
کیلئے رینجرز کا استعمال انتہائی عاقبت نا اندیشانہ فیصلہ ہے۔ ڈی جی رینجرز
نے اعلیٰ سطحی انکوائری کمشن قائم کرکے دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے۔ ادارے کے
وقار کیلئے پر امن ہجوم پر گولیاں چلانے والوں کا تعین لازمی ہے۔ اطلاعات
کیمطابق ایک نقاب پوش شرپسند کی شناخت ہوئی ہے جو احتجاجی اجتماع میں موجود
تھا۔ کراچی کے امن کیلئے ہزاروں شہری اور پولیس و رینجرز کے اہلکار اپنی
جانوں کی قربانیوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ شرپسند عناصر کو یہ موقع نہیں
ملنا چاہیئے کہ وہ امن برباد کرنے کا سبب بنے اور احتساب سے محفوظ رہے۔
پاکستان حالت جنگ میں ہے سیاستدانوں کو اس جنگ کی حساسیت اور گہرائی کا
پورا ادراک نہیں ہے۔ وہ پی آئی اے کی ہڑتال پر اپنی اپنی سیاسی دکان
چمکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ عمران خان نے 6فروری کو پورے ملک میں احتجاج کی
کال دی ہے جس کا ٹھوس جواز موجود نہیں ہے۔ احتجاج جمہوری حق ہے جسے ہر حال
میں آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہنا چاہیئے۔ وزیراعظم پاکستان اگر
آئین اور پارلیمانی جمہوری روایات کے مطابق پارلیمنٹ کے اندر فعال کردار
ادا کرتے تو احتجاج سڑکوں پر کبھی نہ آتا۔ |
|