ن لیگ کا بُرے وقت میں پی پی پی کا ساتھ چھوڑنا نظر آتا ہے ؟
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
1988ء سے لیکر 1999ء تک ن لیگ، پی پی پی ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلتی رہی تھیں۔ 1988ء میں نواز شریف، بی بی شہید جیسی قدآور شخصیت بننے کی خواہش رکھتے تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ہو کر وہ بی بی وزیر اعظم کے استقبال کیلئے لاہور ائرپورٹ جانے میں بھی کتراتے تھے۔ اس زمانے میں انہوں نے پنجاب کیلئے علیحدہ بنک، ٹی وی چینل اور ریڈیو سٹیشن قائم کرنے کا سوچ لیا تھا۔ 1990ء میں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو 1993ء میں بی بی کی تحریک کے بعد فارغ کر دیئے گئے پھر بی بی آئیں تو نواز شریف نے انہیں جینے نہ دیا۔ 1999ء کے بعد پھر دونوں ہی پاکستان کے منظر سے ہٹا دیئے گئے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ٹانگیں گھسیٹنے کا مزہ سمجھ میں آیا اور پھر مشرف کیخلاف لندن میں میثاق جمہوریت تیار کیا۔ 2007ء میں محترمہ کی شہادت کے بعد زرداری کا ستارہ چمکا اور صدر مملکت بن گئے۔ عمران خان کے الفاظ ہیں دونوں پارٹیوں نے باریاں لینے کا سمجھوتہ کر لیا۔ قادری اور عمران خان کے دھرنے رنگ نہ لائے اب کونسی غیبی قوت نے دونوں کا دماغ ہلا دیا ہے کہ اعتزاز احسن نے قومی حکومت کی بات کر ڈالی ہے۔ |
|
وزیر اعظم نواز شریف کے منہ سے آلو کی قیمت
پانچ روپے کلو کیا نکلی پوری دنیا میں دھوم مچا دی گئی کہ وزیر اعظم آلو کی
قیمت سے بھی بے خبر ہیں جبکہ آلو کی قیمت 20سے 30روپے کلو ہے۔ سیاستدانوں
کے مابین منتخب ایوانوں اور ایوانوں سے باہر نوک جھونک الزام تراشی کوئی
انہونی بات نہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی شخصیت کے خدوخال ہر اس
شخص پر واضح ہیں جو انہیں قریب سے دیکھتا اور جانتا ہے۔ وہ خود کو رعب داب
والی شخصیت بنا کر رکھتے ہیں۔ انکے چہرے پر مسکراہٹ کا آنا ایسے ہی ہوتا ہے
جیسے لندن میں سورج نکل آیا ہو۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی حکومت سے
مک مکا کی تصدیق کر دی، اس مک مکا کا الزام تحریک انصاف لگاتی رہی، حکومت
بھی بتائے بدلے میں کیا حاصل کیا؟ چودھری نثار نے زبان کھولی ہے تو مک مکا
کی تفصیل بھی منظر عام پر لے آئیں۔ حکومت کی وہ کونسی کمزوریاں اور کرپشن
تھی یا ہے جس پر پردہ ڈالنے کیلئے خورشید شاہ سے مک مکا کرنا پڑا۔ سید
خورشید شاہ اسمبلی میں چودھری نثار کی عدم موجودگی اور نیشنل ایکشن پلان کے
بعض حصوں پر عملدرآمد نہ ہونے پر اظہار خیال کرنے پر چودھری نثار کی لفظی
بندوق کا نشانہ بنے۔ لفظی جنگ کی پہلی گولی کا ڈائیلاگ تھا جس کے نام کے
ساتھ ’’سید‘‘ لکھا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے۔ چودھری نثار نے 2014ء میں اسلام
آباد میں عمران خان کے دھرنے کے دنوں میں بھی ان کیلئے لفظی بندوق کا بے
دریغ استعمال کیا تھا جس کا جواب اعتزاز احسن نے اپنی لفظی کلاشنکوف سے دیا
تھا۔ اب بھی اعتزاز احسن نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو
اعتماد میں لیں۔ بزدل وزیروں کو ہٹا کر نئی کابینہ بنائیں، ان کا کہنا ہے
ملک حالت جنگ میں ہے یہ وزراء بیمار ہو جاتے ہیں۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں مجھے
وزیر دفاع سے ملنے کی ضرورت ہی نہیں۔ میں فوج اور دیگر اداروں سے ڈائریکٹ
ہوں۔ وزیر دفاع کہتے ہیں میں نے 4سال سے وزیر داخلہ سے ہاتھ نہیں ملایا۔
اعتزاز احسن نے کہا وزراء ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تو پھر وزارتوں کو
کیسے چلائینگے۔ پی پی پی کے رہنما مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں چودھری نثار
طالبان کا احسان نہیں بھول سکے وہ الیکشن بھی ٹی ٹی پی کی چھتری تلے جیتے
ہیں۔ سید خورشید شاہ نے چودھری نثار کو جواب میں چیلنج کیا کہ وہ مجھ پر
فائدوں اور مک مکا کا الزام ثابت کر دیں تو وہ سیاست چھوڑ دینگے۔ اس لڑائی
میں رانا تنویر حسین بھی شامل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ خورشید شاہ
عدالت جائیں یا اسمبلی، انکے کردار کی پہلی گواہی میں دونگا۔ خورشید شاہ نے
اپنے بھائی کو پاکستان انجینئرنگ کونسل کا چیئرمین منتخب کرایا وہ اپنے
بھائی کو میرے دفتر لائے اور انکی مدمت ملازمت میں توسیع کیلئے منت سماجت
کی۔ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کے بقول خورشید شاہ کے بھائی
نے کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کی تاریخ رقم کی۔ خورشید شاہ کے بھائی کا
دور پاکستان انجینئرنگ کونسل کی تاریخ کا کرپٹ ترین دور تھا۔ وہ وزارت
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماتحت اداروں کے ٹھیکوں میں کرپشن کرتا رہا۔
خورشید شاہ کے بھائی کیخلاف ثبوت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں لے جائینگے۔ پی اے
سی میں ریفرنس بھیجا جا رہا ہے۔ رانا تنویر نے کہا ڈی چوک میں پی ٹی آئی کے
دھرنے کے دوران پیپلزپارٹی نے حکومت کا ساتھ اس لئے دیا کہ وہ اپنی کرپشن
چھپا سکے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین گرمی ء بیان سے حقائق سامنے آ رہے
ہیں۔ لیاری گینگ وار کنگ عزیر بلوچ کی گرفتاری سے حقائق کی نئی کتاب پڑھنے
کو ملے گی۔ پونے تین سو پاکستانیوں کی گردنیں اڑانے والا عزیر بلوچ پیپلز
پارٹی کا سرتاج تھا۔ سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کا کہنا ہے کہ
اللہ کا شکر ہے کہ عزیر بلوچ زندہ سلامت ہے۔ اسے آج بھی اپنا بھائی سمجھتا
ہوں۔ عزیر بلوچ کے سر کی قیمت 10لاکھ مقرر تھی۔ عزیر بلوچ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ
خوری اور اغواء کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ بلوچ پر مختلف تھانوں میں
53مقدمات درج ہیں، 42میں اشتہاری ہیْ افسوس کی بات یہ ہے کہ پی پی پی، ایم
کیو ایم کی طرح الزامات کی زد میں ہے۔ عزیر بلوچ جیسے خوفناک کردار سیاسی
جماعتوں اور انکے قائدین کیلئے کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ ایسے کرداروں کی پشت
پناہی کی جاتی ہے تو وہ پونے تین سو لوگوں کو موت کا مزہ چکھاتے ہیں۔ سائیں
قائم علی شاہ کی طرح الطاف حسین کو بھی کہنا چاہئے تھا کہ جرائم پیشہ عناصر
سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ
عزیر بلوچ نے امن کو ہی غارت کیا۔ عزیر بلوچ بھی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف
وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کی طرح پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف
وعدہ معاف گواہ بن سکتا ہے۔ اصلاح احوال کیلئے غلطیوں کی نشاندہی قابل
اعتراض نہیں ہوتی لیکن جارحانہ اور ذاتیات کی لفاظی دلوں کے مرض میں اضافہ
کرتی ہے۔ زرداری دور میں نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر عمل کیا، فرینڈلی
اپوزیشن بن کر صبر سے پانچ سال انتظار کیا۔ اب ن لیگ کا بُرے وقت میں پی پی
پی کا ساتھ چھوڑنا نظر آتا ہے۔ 1988ء سے لیکر 1999ء تک ن لیگ، پی پی پی ایک
دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلتی رہی تھیں۔ 1988ء میں نواز شریف، بی
بی شہید جیسی قدآور شخصیت بننے کی خواہش رکھتے تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ہو کر
وہ بی بی وزیر اعظم کے استقبال کیلئے لاہور ائرپورٹ جانے میں بھی کتراتے
تھے۔ اس زمانے میں انہوں نے پنجاب کیلئے علیحدہ بنک، ٹی وی چینل اور ریڈیو
سٹیشن قائم کرنے کا سوچ لیا تھا۔ 1990ء میں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو
1993ء میں بی بی کی تحریک کے بعد فارغ کر دیئے گئے پھر بی بی آئیں تو نواز
شریف نے انہیں جینے نہ دیا۔ 1999ء کے بعد پھر دونوں ہی پاکستان کے منظر سے
ہٹا دیئے گئے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ٹانگیں گھسیٹنے کا مزہ سمجھ میں آیا
اور پھر مشرف کیخلاف لندن میں میثاق جمہوریت تیار کیا۔ 2007ء میں محترمہ کی
شہادت کے بعد زرداری کا ستارہ چمکا اور صدر مملکت بن گئے۔ عمران خان کے
الفاظ ہیں دونوں پارٹیوں نے باریاں لینے کا سمجھوتہ کر لیا۔ قادری اور
عمران خان کے دھرنے رنگ نہ لائے اب کونسی غیبی قوت نے دونوں کا دماغ ہلا
دیا ہے کہ اعتزاز احسن نے قومی حکومت کی بات کر ڈالی ہے۔ |
|