کشمیر کا مسئلہ
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
بازار میں اسی چیز کی رسد زیادہ ہوتی ہے ،
جس کی مانگ زیادہ ہو ۔ جس چیز کی مانگ ہی نہ ہو ، تاجر اس کو کیا بیچے گا ۔
بازارِ صحافت میں 5 اور 6 فروری کو "کشمیر " کی مانگ زیادہ تھی ۔ سو اس کے
نام پر شہرت کا خوب کاروبار سجا ۔ جس طرح ہر سال سجتا ہے ۔ 5 فروری کو ٹی
وی پر اور 6 فروری کو اخباروں میں کشمیر کے سلسلے میں بہت کچھ کہا گیا ،
سنا گیا ، لکھا گیا اور پڑھا گیا ۔ اب اس کے بعد طلب اور رسد کا اصول مد ِ
نظر رکھتے ہوئے مجھے کشمیر پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے ۔ ویسے بھی ہمارے عوام
حالات ِ حاضرہ پر مبنی تحریریں پڑھتے ہیں ۔ 5 فروری کے گذ ر جانے کے بعد
کشمیر کا موضوع حالات ِ حاضرہ کا موضوع نہیں رہا ۔ کہاں 6 فروری کی یہ شب ،
جب میں اس موضوع پر چند جملے قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور کہاں 5
فروری ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے ۔ لمحوں
لمحوں میں کئی حادثات و واقعات جنم لیتے ہیں ۔ مجھے فی الحقیقت تازہ سے
تازہ تر اور تازہ تر سے تازہ ترین واقعے پر لکھنا چاہیے ۔ بازار ِ صحافت کا
اصول ِ طلب و رسد بھی مجھ سے اسی عمل کی توقع رکھتا ہے ۔
مگر کیا کروں ۔۔۔ کچھ موضوعات پیچھا ہی نہیں چھوڑتے ۔ لاکھ کوشش کرتا ہوں
کہ ذہن کے پردے سے ان تلخ موضوعات کے نقوش معجزاتی طور پر مٹ جائیں ۔ دامن
ِ دال ان سے چھٹکا رہ پالے ۔ تاکہ میں آگے بڑھوں ۔ خوب سے خوب تر اور خوب
تر سے خوب ترین کی تلاش کروں ۔ مگر ناکامی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے ۔ ان میں
سے ایک موضوع مسئلہ ِ کشمیر ہے۔ میں چاہتے ہوئے بھی اس موضوع سے اغماض نہیں
برت سکتا ۔ سو مجھے اس بات کی کوئی فکر لاحق نہیں کہ ایک پرانے موضوع پر
لکھ کر میں قارئین کو خود اس بات کی دعوت دے رہا ہوں کہ میری تحریر کو کراس
کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں ۔ لیکن میریر دانست میں کشمیر کا موضوع اس وقت تک
پرانا ہو ہی نہیں سکتا ۔ جب تک کشمیر آزاد نہیں ہو جاتا ۔میں عقیدتوں ،
محبتوں اور جذبوں کو محض ایک دن میں مقید کرنے کا قائل نہیں ہوں ۔ عقیدتیں
وہی سچی ہوتی ہیں ، جو ہر وقت دلوں کو گرماتی رہیں ۔ محبتیں وہی حقیقت پر
مبنی ہوتی ہیں ، جن سے قلب و جگر ہمیشہ شاداں و فرحاں رہے ۔ جذبے وہی اصل
ہوتے ہیں ، جن کا تلاطم کبھی نہ تھمے ۔ ہم صرف 5 فروری کو یوم ِ کشمیر کیوں
منائیں ۔ ہمارے لیے تو ہر دن 5 فروری ہونا چاہیے ۔
کہا جاتا ہے کہ 5 فروری کو بہ طور ِ یوم ِ کشمیر منانے کا آغاز 1990 ء میں
جماعت ِ اسلامی کا سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے کیا تھا ۔ 1990 ء سے
یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے ۔ اس دن کشمیر کے نام پر ریلیاں نکلتی ہیں ،
جلسے ہوتے ہیں ، "کشمیر بنے گا پاکستان" کی نعرے بازی ہوتی ہے ۔ بابائے قوم
کے قول "کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے" کو دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بار
بار دہرایا جاتا ہے ۔اقتدار ِ اعلیٰ کی نشستوں پر براجمان شخصیات کشمیر کے
حق میں گرماگرم تقریریں کرتے ہیں ۔ کشمیر کمیٹی تھوڑی تھوڑی متحرک ہو جاتی
ہے ۔ ہم سب چیختے ہیں کہ کشمیر کو حق ِ خود ارادیت دیا جائے ۔ بھارت اقوام
ِ متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کو یقینی بنائے ۔ لیکن ان سب سے کچھ بھی نہیں
ہوتا ۔ ہمارے جذبات سچے ہوتے ہیں ، لیکن ان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ
کشمیر کی شب ِ غلامی کو صبح ِ آزادی سے متغیر کر دیں ۔ اتنی طاقت تو اقوام
ِ متحدہ کی ان قرار دادوں میں بھی نہیں ہے ، جو کشمیر کے سلسلے میں منظور
کی گئی ہیں ۔ کشمیر کا مسئلہ آج کل کی بات نہیں ہے ۔ کشمیر کے جسم پر یہ
ناسور 67 سال پہلے ظاہر ہوا تھا ، مگر آج تک سیاست کے میدان کا کوئی حکیم
اس کی مسیحائی نہ کر سکا ۔ ہمارے بڑے قائد قیام ِ پاکستان کے فورا بعد ہم
سے روٹھ گئے ۔ ان کے جانے کے بعد کسی سیاست دان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ
وہ اس مسئلے کو حل کر سکے ۔ مسئلہ ِ کشمیر کی سب سے بڑی وجہ اس قیادت کا
فقدان ہے ، جس کے اخلاص میں اتنی طاقت ہوتی تھی کہ آن کی آن میں نہ سہی ،
کچھ تاخیر سے غلامی کی ساری زنجیریں توڑ سکتی تھی ۔ قصہ ِ مختصر یہ کہ بڑے
قائد جیسا کوئی مخلص رہنما نہیں آیا ۔ اس لیے کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو سکا
۔ اب تو ہم اور ہمارے قائدین صرف 5 فروری کو ہی کشمیریوں کو یاد رکھتے ہیں
۔ اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے وفا کا حق ادا کر دیا ۔ اس طرح تو کبھی بھی یہ
مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ۔
دراصل ظلم سےآزادی کی تحریکیں جنم لیتی ہیں ۔ ظلم نہ ہو تو کبھی آزادی کی
تحریک نہیں چلتی ۔ اگر بھارت نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کرنا بند کردے اور
انھیں حق ِ خود ارادیت دے دے تو سب کچھ بدل جائے گا ۔ کشمیر میں ہندوستان
کی پندرہ ہزار سے زائد فوج تعینات ہے ۔ یہ فوج کشمیریوں پر ظلم و ستم کرتی
ہے ۔ ظلم نہ ہو تو چیخنے ، چلانے اور دھاڑنے کا کسی کو شوق نہیں ہوتا ۔
لیکن جب ظلم ہو گا تو مظلوم ضرور چیخ چیخ کر دنیا والوں کو بتائے گا کہ مجھ
پر ظلم کیا جا رہا ہے ۔ کیوں کہ دنیا عالمی گاؤں بن چکی ہے ۔ بھارت نے
کشمیریوں پر اب تک جو ظلم کیا ہے ، اگر اس پر لکھنا شروع کیا جائے تو
ہزاروں صفحات کالے کیے جا سکتے ہیں ۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بھارت نے
کشمیر میں گذشتہ 27 برسوں میں 94 ہزار 305 کشمیریوں کو شہید کیا ۔ یعنی
اوسطا ماہانہ 291 کشمیریوں کو شہید کیا گیا ۔ اسی طرح اوسطا ماہانہ 331 بچے
یتیم ہوئے ، 70 خواتین بیوہ ہوئیں ، 32 خواتین کو بھارتی فوج کی طرف سے ہوس
کا نشانہ بنایا گیا ۔ جب کہ 328 گھر تباہ کیے گئے۔ ایک بار پھر باور کر
ادوں کہ یہ 27 سال کی اوسطا ماہانہ رپورٹ ہے ۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جہاں مخلص قیادت کی اشد ضرورت ہے ، وہاں اس بات
کی بھی ضرورت ہے کشمیر کے سلسلے میں باقاعدہ کا م کیا جائے ۔ ہم توقف کا
شکار ہو جاتے ہیں ۔ اور توقف کشمیر کے مسئلے کو حل ہونے ہی نہیں دیتا ۔
|
|