مسٹر اردو کی نثر اور شاعری: تنقیدی جائزہ
(پروفیسر محمد رضا مدنی, kasur)
تحریر
پروفیسر محمد رضا مدنی
پرنسپل'
گورنمنٹ کالج
منچن آباد
پاکستان
مسٹر اردو کی تحریریں سادہ آسان اور عام فہم ہوتی ہیں جسے سمجھنے کے لیے
کسی فلسفانہ یا عالمانہ لیاقت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس ذیل میں مثالیں بھی
سادہ، عام فہم اور روز مرہ کی زندگی سے دیتے ہیں. تاریخ سے بھی اپنے نظریے
کی سچائی ثابت کرتے ہیں مثلا رومن رسم الخط کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
فوج مں رومن رسم الخط رائج تھا۔ انگریز، اردو اور دیونگری رسم الخط نہیں
جانتا تھا۔ محکمانہ ترقی کے لئے رومن اردو اور میپ رڈنگ کے امتحان پاس کرنا
ضروری تھے۔ یہ سلسلہ پاکستان بننےکے بعد ١٩٤٩ء تک جاری رہا اس کے بعد کا
مجھے علم نہیں۔
اسی طرح جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کے داخلہ کے لئے ٹیسٹ پاس کرنا ضروری قرار
دیا گیا ہے جس کو جنرل ٹیسٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے متعلق تحریر کا
عنوان....آگہی کی راہ میں پتھر.... رکھ کر بہت سی باتیں کہھ دی ہیں انہوں
نے اسے کمائی ٹیسٹ کا نام دیا ہے۔
اپنی ایک تحریر میں لوگوں کے ہنر او تجربے سے استفادہ' کو ملکی ترقی کا
وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں انگریزی کی لازمی تعلیم کے ذریعے
لوگوں کو ناخواندگی کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اس ظلم پر انصاف پر مبنی
بحث کی ہے۔ بل کہ اس کا مناسب اور قابل عمل حل بھی پیش کیا ہے۔ عام طور پر
لوگ مرض تو بتاتے ہیں مگر اس کا علاج نہیں بتاتے' مسٹر اردو نے اس کا حل
بھی تجویز کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔
ہاں البتہ اسناد کے اجراء کا ایک معیار بنایا جا سکتا ہے. مثلا میٹرک کے
لئے متعلقہ ہنر کا دو سالہ تجربہ+ دو ہزار الفاظ کی ان کی اپنی زبان میں
تحریر' اٹنرمیڈیٹ کے لئے' میٹرک+ متعلقہ ہنر کا چار سالہ تجربہ + پانچ ہزار
الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان تحریر ہے۔
انگری زبان کے حوالہ سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انگریزی دنیا کی بہترین
زبان نہیں ہے کہ اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔
مسٹر اردو اس نظریے کو بالکل تسلیم نہیں کرتے اور اس سلسلے میں لکھتے ہیں
کہ برصغیر میں مختلف قسم کے لوگ آئے اور ان کی زبان کے متعلق بھی اس قسم کی
باتیں کی گئی تھیں۔ جوسچ ثابت نہیں ہوتی ہیں۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ ان کی
زبانیں بھی ختم ہو گئی ہیں پھر انگریزی زبان کی خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے
مسٹر اردو لکھتے ہیں کہ نہایت اہم آوازیں چ اور ش اس میں نہیں ہیں۔ اگرچہ
کچھ انگریزی مرکبات ضرور موجود ہیں جو یہ آوازیں پیدا کرتے ہیں مگر ان
مرکبات سے کئی دوسری پیدا ہونے والی آوازوں کی صحت خود انگریزی میں پچیدہ
اور مشکوک ہے۔ اس کی نسبت برصغیر کی زبان (ہندی+اردو) کہیں زیادہ آسان اور
کرہ ارض کی زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وقت اس کے تین رسم الخط
:مستعمل ہیں
اردو' دیو ناگری اور رومن
مسٹر اردو کی یہ بات تو سب کے مشاہدے میں ہے کم سے کم تعلیم یافتہ لوگ بھی
موبائل فون کے ذریعے اردو رومن رسم الخط میں بڑی روانی سے اپنا ماضی الضمیر
دوسروں تک پہنچا رہے ہیں۔
زبانوں میں تبدیلیوں کو مسٹر اردو وٹامنز کا درجہ دیتے ہیں ان کا یہ موقف
بھی درست ہے کہ اس سے نئے محاورے اور نئی نئی اصطلاحات جنم لیتی ہیں۔
خود مسٹر اردو نے نئے محاورے استعمال کیے ہیں جو عام فہم ہیں۔ تبدیلی زبان
کی مثال دیتے ہوئے مسٹر اردو نے لکھا ہے کہ قلفی سرے سے کوئی لفظ ہی نہیں
لیکن اب قفلی کوئی لفظ نہیں رہا آج اگر کوئی قلفی کو قفلی کہے گا تو اسے
غلط سمجھا جائے گا اسی طرح وضو سجانا کو وضو کرنا لیا جاتا ہے ۔
اپنی لسانی مباحث کا لب لباب مسٹر اردو نے آخری دو تحریرں میں دیا ہے جن کے
:عنوان ہیں
ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے
خدا کے لیے
ان میں مسٹر اردو نے اپنی ایک تحریر پر کیے گئے اعتراضات کا تسلی بخش جواب
دیا ہے۔ درست موقف کو تسلیم کیا ہے۔ اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ مثلا معترض
نے لکھا کہ زبان دوسرے تک اپنا موقف پہنچانےکا ذریعہ ہے۔ اس کو درست تسلیم
کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یقینا ایسا ہی ہے مگر جب معترض نے لکھا کہ کوئی زبان
کسی سے بہتر یا اچھی نہیں ہوتی تو اس کا مسٹر اردو نے جواب دیا کہ اس سے
مراد یہ ہےکہ جو زبان کھردری نہ ہو اور پیچیدگی سے پاک ہو مثلا جو زبان
عوامی شکل اختیار کر گئی ہو' بلاشبہ بہتر زبان ہے۔ مگر ذخیرہ الفاظ دوسری
زبانوں سے کم ہو یا آوازوں کا نظام ناقص ہو لچک پذیری میں کمی ہو یا سوشل
میڈیا نہ ہو تو ہم ایسی زبان کو کن وجوہ کی بنا پر دوسری زبانوں سے بہتر
قرار دے سکتے ہیں۔ البتہ بری کوئی زبان نہیں ہوتی ہاں اس میں کہی گئی بات'
اچھی یا بری ہو سکتی ہے۔
معترض نے ایک اعتراض یہ کیا کہ انگریزی زبان بین الاقوامی زبان کی شکل
اختیار کر رہی ہے تو مسٹر اردو نے اس کا جواب دلائل سے دیتے ہوئے کہا ہے کہ
کسی ملک کی (فوجی) طاقت سے مرعوب ہو کر تو یہ کیا جا سکتا ہے البتہ خود
مغربی ممالک میں بھی کاروبار ان کی اپنی زبان میں ہوتا ہے۔ مغربی ممالک میں
بھی بہت سے لوگ ہندوی زبان (اردو+ہندی) بولنے اور سمجھنے والے مل جائیں گے.
دنیا کے ہر خطے میں ہندوی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ مثلا یو کے اور کینیڈا
میں بہت سے لوگ ہندوی زبان سے واقف ہیں۔ ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ
زیادہ علم اور کتابیں انگریزی میں دستیاب ہیں۔ جس کا مسٹر اردو نے جواب
دیتے ہوئے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ دنیا کی کون سی بڑی کتاب ہے' جس کا
ہندوی میں ترجمہ نہیں ہوا۔ ہر شعبہ سے متعلق مثلا مذہبی لٹریچر' فنون'شعری
ادب اور معاشیات سے متعلق کتابوں کا اس زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
آخر میں مسٹر اردو نے تمام بحث کو سمیٹتے ہوئے( ارباب اختیار سے) اپیل کی
ہے کہ اس قوم کی انگریزی سے جان چھڑائیں۔ ادارے مخدوم نہ بنیں قوم کے خادم
بنیں۔ ادھار کی دکان داری بند کریں اور ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح کی ہے کہ
تخت و تاج اور وقت کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ اپنے سے پہلے لوگوں کے انجام کو
نظر میں رکھیں۔
مسٹراردو لسانی حیثیت سے اس زبان کے روشن مستقبل اور اس کے دور رس اثرات کا
فنکارانہ تجزیہ کرتے ہوئے بہت سے حقائق سامنے لاتے ہیں۔ وسیع مطالعہ' وسعت
نظری' فکری پختگی اور لفظوں کے اندر چھپے امکانات کی دنیا سے گہری واقفیت'
وہ بنیادی عناصر ہیں جو ان کی تحریروں میں نمایاں ہیں۔ اپنی فنی بصیرت
اوراپنے عہد کے بڑے نبض شناس ہونے کی حیثیت سے وہ قوم کے حقیقی مرض سے بھی
واقف ہیں اور علاج بھی جانتے ہیں۔ بلاشبہ ان کی تحریروں سے استفادہ' خیال
کو نئی وسعت عطا کرے گا۔ ان کے نزدیک درست یہ ہے کہ اگر کوئی حادثہ پیش آ
جائے اور کسی کی جان بچانا ضروری ٹھرے تو پھر نماز بھلے قضا ہو جائے جان
ضرور بچائی جائے۔
..............
ڈاکٹر مقصود حسنی کی تحریروں پر مبنی کتاب نقطہءنظر کے نام سے جو راقم
الحروف نے مدون کی ہے ۔ اس میں مذاہب اور حقوق العباد کی اہمیت کے عنوان کے
تحت نہایت تفصیل سے حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ تمام عبادات دراصل انسان
کا انسان سے تعلق جوڑنے کا عملی ذریعہ ہیں اور ان خرابیوں کی بھی نشاندہی
کی گئی ہے جس کا آج کل ہر بےعمل شخص شکار ہے مثلا حج کر نے کے بعد بھی
کاروبار میں بدیانتی کرنے والا شخص اپنے آپ کو بے گناہ سمجھتا ہے اسی طرح
ایک شخص نماز باجماعت کا پابند ہے کہ خواہ کسی شخص کی جان چلی جائے مگر اس
کی جماعت قضا نہ ہو۔
ڈاکٹر حسنی کے نزدیک یہ اعمال کیسے درست ہو سکتے ہیں? ان کے نزدیک درست یہ
ہے کہ اگر ایمرجنسی ہو جائے تواسے ہسپتال پہنچانا ضروری ٹھہرے تو اس حالت
میں نماز قضا ہو جائے تو بھلے ہو جائے مگر کسی کی جان ضرور بچائی جائے ۔
ڈاکٹر حسنی لوگوں کے اخلاقی وسماجی حقوق کو بھی قرض قرار دیتے ہیں اور
مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہبی راہنماؤں کے حالات زندگی پڑھنے کا مشورہ
دیتے ہیں۔
عوامی نمائندے منتخب ہونے کے بعد عوام سے جو سلوک کرتے ہیں ڈاکٹر حسنی اس
سے بہت دکھی ہوتے ہیں لہذا وہ اس تحریر کا عنوان اسی طرح لکھتے ہیں کہ
بھگوان ساز کمی کمین کیوں ہو جاتا ہے یوں دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا
ہے۔
وہ پاکستان بننے پر لوگوں کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے نیز پاکستان کے حصول
کے بعد اس کے مقاصد کے حصول کا ذکر کرتے ہوئے عنوان قائم کرتے ہیں پاکستان
کا مطلب کیا اس تحریر میں آپ نے انکشاف کیا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح
نے فرمایا تھا کہ میں نے اور نہ ہی میری ورکنگ کمیٹی نے اور نہ آل مسلم لیگ
کونسل نے ایسا کوئی ریزولیشن پاس کیا ہے کہ میں نے پاکستان کے لوگوں سے
پختہ عہد کیا ہو۔ پاکستان کا مطلب کیا....لاالہ الا الله آپ لوگوں (یعنی
عوام الناس میں سے چند لوگ) نے یہ چند ووٹوں کے لیے یہ نعرہ بلند کیا ہے۔
یہ انکشاف کم نہیں ہے تاہم پاکستانی قوم کو یہ سوچنا چاہیے کہ اتنی بڑی
قربانیاں رائگاں نہیں جانی چاہیں اور پاکستان کی ہر حال میں حفاظت کرنی
چاہیے۔
جاپانی ترقی کی مثال ہوئے ڈاکٹر مقصود حسنی لکھتے ہیں۔ آؤ جاپان جا کر
دیکھیں اس تحریر میں ایک بہت ہی اہم اور حیرت انگیز معلومات سےقاری کو آگاہ
کرتے ہیں کہ سوئس بینک کے ڈائریکٹر سے پوچھا گیا کہ پاکستان ایک غریب ملک
ہے۔? اس نے جواب دیا پاکستان کے98 ارب ڈالر کی رقم سوس بنک میں پڑی ہے جو
کہ تیس سال تک ٹیکس فری بجٹ کے لیے کافی ہے۔
جب چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کے درمیان یہ معاملہ پیش آیا
کہ حکومت سوئس بینک کو خط لکھے سپریم کورٹ نے حکم دیا اور وزیراعظم پاکستان
نے کہا کہ یہ آئین کے خلاف ہے کیونکہ صدر پاکستان کو استثنی حاصل ہے۔ سپریم
کورٹ نے حکم میں کہا کہ اس معاملے میں استثنی حاصل نہیں ہے تو ڈاکٹر مقصود
حسنی نےایک نئے انداز سے اس کی توجیہ کی کہ دونوں ادارے آئین کی بات کرتے
ہیں اور دونوں ادارے کام کر رہے ہیں۔ عدالت بھی اور حکومت بھی' تو کیا اس
صورت میں آئین معطل ہو چکا ہے۔
عوامی نمائندے' مسائل اور بیوروکریسی کے عنوان کے تحت پاکستان کی ترقی کے
اسباب کا امریکہ سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وسائل کی پاکستان میں
بھی کمی نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم پس ماندہ ہیں حکمرانوں کے علاوہ ہر
کوئی امریکہ سے نفرت کرتا ہے مگر ہر کوئی امریکہ جانے کے لیے بے چین ہے۔ اس
کا سبب یہ ہے کہ وہاں عوام کو سہولتیں میسر اور عوام کی مالی اور معاشرتی
حالت بہت اچھی ہے۔
عدلیہ کے وقار کی بحالی پہلی اور آخری ضرورت کے تحت ڈاکٹرحسنی سقراط کی
مثال پیش کرتے ہیں کہ اس نے راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے ریاستی آئین کا
احترام کیا اور زہر کا پیالہ ہونٹوں سے لگا لیا اس طرح سقراط نے ریاستی
آئین کے احترام کو موت پر ترجیح دی۔ اگرچہ اس سلسلے میں مسلمان حکمرانوں کی
مثالیں بھی کچھ کم نہیں۔
اپنی قوم کی کمزوریوں کا تذکرہ بھی بہت دکھ سے کرتے ہیں اس تحریر کا عنوان
ہے ہم زندہ قوم ہیں جس میں ڈاکٹر حسنی ہماری قوم کی نفسیاتی کیفیت کا ذکر
اس انداز میں کرتے ہیں کہ ہم دماغ سے سوچنے کی بجائے پیٹ سے سوچنے کےعادی
ہو گئے ہیں سب پرانے ڈاکوؤں اور موجودہ دور کے سرکاری عہدیداروں کا موازنہ
کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سرکاری عہدیدار دراصل سرکاری ڈاکو کہلانے کے
مستحق ہیں۔ پرانے ڈاکو جنگلوں میں چھپتے پھرتے تھے یہ محلوں میں آباد ہیں۔
پاکستان بنانے والے اصلی ہیروز کو لوگ کم جانتے ہیں لیکن انگریز ساختہ
ہیروز کو لوگ زیادہ جانتے ہیں۔ ضرورت اس مر کی ہے کہ اصل ہیروز اور ان کی
قر بانیوں کو پہچانا جائے اور ان کی قدر کی جائے۔ آخر میں ڈاکٹر مقصود حسنی
تمام بحث کو ان دو عنوانوں میں سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ دن کب آئے گا
جب اصلی مجرم پکڑے جائیں گے۔ مثلا جعلی ادویات بازار میں بک رہی ہیں۔ ان
مجرموں تک کوئی رسائی نہیں ہو رہی جو یہ دھندا کر رہے ہیں۔ میڈیل سٹور سے
لے کر اصلی سرغنہ تک کیوں نہیں پہنچا جا سکتا اور کب ٹیکس کی آمدنی عوام کی
بھلائی پر خرچ ہوگی۔
پھر جمہورت کے بارے میں ڈاکٹر حسنی لکھتے ہیں کہ جب ووٹ ڈالے جا رہے ہوتے
ہیں تو ان میں سے بعض ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ جیسے زندہ لاشیں ہوں۔ کبھی
چودھری کے بندے زبردستی ووٹ ڈلواتے ہیں کبھی ووٹ خریدے جاتے ہیں ۔ جب کوئی
امیدوار کامیاب قرار پاتا ہے تو وہ اکثریت میں ووٹ حاصل کرتا ہے? مثلا پانچ
امیدواروں میں جیتنے والا اپنے کل ووٹوں کا ایک تہائی یا اس سے بھی کم ووٹ
حصل کر پاتا ہے ۔ اس طرح وہ اکثریت کا نہیں بلکہ اقلیت کا نمائندہ ہوتا ہے۔
آخر میں اس تمام بحث کا خلاصہ ڈاکٹر حسنی یہ پیش کرتے ہیں کہ بہتری اور
خوشحالی کی توقع ایماندار اور صاحب تقوی لوگوں سے کی جا سکتی ہے دوسرا
زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق لوگوں کواقتدار میں لایا جائے۔ مثلا صحت کی
وزارت ڈاکٹر ہی بہتر چلا سکتا ہے۔ تعلیم کی وزارت تعلیم سے متعلق لوگوں کے
سپرد کی جائے۔
ڈاکٹر حسنی ایک حقیقی اور سچا مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخلص پاکستانی
ہیں اور اخلاص و ہمدردی پر مبنی اپنا ایک واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں جو
انسانی خدمت انسانی بھلائی اور حقیقی نیکی پر مبنی اور اسلامی تعلیمات کی
اصل روح کے مطابق ہے۔ ڈاکٹر حسنی تقریبا تمام مذاہب عالم سے متعلق معلومات
رکھتے ہیں تبھی وہ تمام ادیان کے لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب کے بانیوں کے
حالات زندگی کے مطالعے کا مشورہ دیتے ہیں اور تمام مذاہب کے بانیوں کو اعلی
اقتدار کا گردانے ہیں۔
..............
مسٹر اردو کی طنزومزاح پر مبنی کچھ تحریروں کو راقم الحروف نے مدون کی ہے
اس میں مسٹر اردو کی تخلیقی صلاحیتوں کو دیکھتے ہی بنتی ہے اور طنزومزاح کی
خوبیاں بھی میرے نزدیک کئی ایک قابل ذکر ہیں۔
مسٹر اردو لسانی مباحث تک ہی اپنے آپ کو محدود نہیں رکھتے۔ بلکہ کئی اہم
موضوعات کے بارے میں اپنا خاص نقطہ نظر بھی رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف سنجیدہ
تحریریں رقم کرتے ہیں بلکہ طنزومزاح کے ذریعے بھی بہت سے اہم موضوعات پر
اظہار قدرت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا بھی زیادہ موزوں ہو گا کہ وہ بعض اوقت ایسی
باتیں طنزو مزاح کے پیرایے میں کہہ جاتے ہیں جو شاید سنجیدگی سے کہنا اگر
ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
ایک تحریر کے عنوان.... بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا.... رکھ کر اس
میں سرمائے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا ذکر بہت اچھے پیرائے میں
کرتے ہوئے آخر کاراس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کون اس کو روکنے کی جسارت کرے
گا جیسے چوہوں کے لیے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا مشکل ہے۔ اسی طرح ان
طاقتور لوگوں یعنی واپڈا ملازمین اور با اثر افراد سے بجلی کے ناجائز
استعمال کا تدراک مشکل ہے۔
امریکہ دہری پالیسی یا دہرا معیار کہ وہ جتنے چاہے معصوم لوگ مارے اسے کوئی
پوچھ نہیں سکتا وہ جس بات کو بنیادی حق قرار دے وہی بنیاد انسانی حق ہے ۔
جس بات کو وہ دہشت گردی قرار دے وہی دہشت گردی ہے۔ اس تحریر کا عنوان ہی
بتاتا ہے کہ اس تحریر میں کیا لکھا گیا ہے۔
ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو سیریاں
مسٹر اردو قاری کی معلومات میں بہت زیادہ اضافہ بھی کرتے ہیں۔ دوسیریوں
والا معاملہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ جو تجارت میں' لین دین اور ناپ
تول میں بدیانتی کرتے ہیں۔ ان کے چیز لینے کے اوزان اور ہوتے ہیں اور چیز
دینے کے اوزان اور۔ تاہم یہ کوڈ ورڈ ہمیں ان کی تحریر سے پتہ چلے ہیں کہ جب
حاجی صاحب کو چیز لینے والی دوسیری چاہیے ہوتی تو اپنی بیٹی کو الحمدالله
کہتے ۔ اور جب کوئی چیز دینے والی دوسیری چاہیے ہوتی تو حاجی صاحب اپنی
بیٹی کو سبحان الله کہہ کر آگاہ فرماتے۔
مسٹر اردو الفاظ کا ایسا انتخاب کرتے ہیں کہ شاید اس سے بہتر انتخاب ممکن
نہ ہو۔ ان کے مضامین کے عنوان بھی بڑے اچھوتے ہوتے ہیں۔ مثلا
لوڈ شیڈنگ کی برکات۔۔۔۔۔ اس عنوان کے تحت لوڈ شیڈنگ سے پیدا ہونے والی
خرابیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس موضوع کے لیے اور بھی عنوان ہو سکتے تھے
لیکن جو طنز اس عنوان میں پوشیدہ ہے وہ شاید کسی اور عنوان میں نہیں ہو
سکتا تھا۔
رشوت زندگی کا اہم ترین موضوع ہے۔ یہ ایک ایک ایسا ناسور ہے جو معاشرے میں
اس طرح سرایت کر گیا ہے کہ اب کوئی کہے کہ یہ ختم ہو سکتا ہے تو شاید یقین
ہی نہ آئے۔ مسٹر اردو اس کا ایک حل تجویز کرتے ہیں کہ اس کو طلاق ہو سکتی
ہے۔ بالائی کا ریٹ طے کر دیا جائے گویا اسے باقاعدہ عملی صورت دے دی جائے۔
اس مضمون کا عنوان ۔۔۔۔۔ رشوت کو طلاق ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔ رکھا گیا ہے۔
اس طرح مسٹر اردو نے اپنی ایک تحریر کا عنوان۔۔۔۔۔ جرم کو قانونی حیثیت
دینا ناانصافی نہیں۔۔۔۔۔ درج کیا ہے۔ یہ گویا ناانصافی کی طنزیہ تائید ہے۔
وہ سچ کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ اگر ہم
سچ بولنے لگیں تو ہمارے اسی فی صد مسائل حل ہو جائیں گے۔ پھر مسڑ اردو جھوٹ
کی طنزیہ تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چور کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنا وکیل
کرے۔ اسی طرح وکیل کا فرض ہے کہ وہ پورا زور لگا کر اسے بےگناہ اور معصوم
ثابت کرے۔ یہ ہی اس کے پیشہ کی امانت اور دیانت داری ہے۔ وکیل ایسے ایسے
دلائل دے کہ چور کو بھی اپنے بےگناہ ہونے کا یقین آ جائے۔ وکیل مقدمہ ہار
جائے تو اس سے اس کی ہی نہیں اس کے پیشے کی بھی بدنامی ہوتی ہے۔ اس طرح ہر
آدمی اپنے جھوٹ کے لیے جواز پیدا کر لیتا ہے۔ اس حوالہ جرم کو قانونی حیثیت
سے محروم رکھنا ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسے قانونی حیثیت ملنے سے جرم
ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔
رمضان کے مہینے میں رحمتوں پر نظر ہونی چاہیے۔ رمضان کے مہینے میں ہر قسم
کی چیزوں کا نرخ بڑھ جاتا ہے۔ علاج معالجے اور معالج کے نرخ بھی بڑھ جاتے
ہیں۔ مسٹر اردو اس کا علاج یہ بتاتے ہیں کہ نمک سے روزہ کھول لیا جائے۔
گھروں میں نلکے لگوا لیے جائیں تا کہ بجلی کے آنے جانے شکایت ہی نہ رہے۔
ردی اور خراب کھجوریں جو کم قیمت میں ملتی ہیں سے روزہ افطار کر لیا جائے۔
یہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔
ایک پروفیسر کی صفات بہت اچھے انداز سے کرتے ہیں۔
1 وہ معلومات فراہم کرتا ہے۔
2 وہ سوچتا اوراس کا اظہار بھی کرتا ہے۔
3 وہ غلط صحیح بتاتا اور اس کی تمیز سکھاتا ہے۔
اس تحریر کو پڑھ کر جہاں ایک پروفیسر کی معاشرے کو فراہم کی گئی علمی
معلومات اور اہمیت کا پتہ چلتا ہے وہاں اس امر کا بھی ادراک ہوتا ہے کہ
استاد کے فرائض کیا ہیں۔
مسٹر اردو نے گڑ کی پیسی سے ایک نیا خیال پیش کیا ہے۔ پہلے ہم یہ سنتے آئے
ہیں کہ جہاں بندروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور لوگ ان کی شرارتوں سے تنگ آ
جاتے ہیں۔ ہندو مذہب میں ان کے احترام کے باعث انہیں مار پیٹ بھی نہیں سکتے
تھے تو وہاں لوگ گڑ کی بڑی پیسی بناتے پھر اسے خشک کرتے اور اس کو جنگل میں
رکھ دیتے اور اس کے ساتھ ہی دو یا ڈھائی فٹ کے دس بارہ ڈنڈے رکھ دیتے۔
بندروں کی ٹولی آتی اور وہ گڑ کی پیسی کے اردگرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے۔ بس
اسے دیکھتے رہتے اور کوئی بندر اسے کھانے یا اٹھانے کی جرآت نہ کرتا۔ اگر
کوئی جانے کی کوشش کرتا تو دوسرے بندر پاس پڑے ڈنڈوں سے اس کی خوب مرمت
کرتے۔ بندر اس کام میں مصروف ہو جاتے تو لوگ ان بندروں کے اس کھیل سے لطف
اندوز ہوتے۔ مسٹر اردو نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ طاقتور لوگ ملکی
وسائل کو گڑ کی پیسی سمجھ کر چوس رہے ہیں۔ نتیجہ کے طور ان کے دانت خراب ہو
جائیں گے۔ انہیں نتیجے کی فکر تک نہیں ہے۔ بہرحال معاملے کو پیش کرنے کا یہ
انداز بالکل نیا ہے۔
مسٹر اردو ہمارے سیاسی لیڈروں کی چھوٹی اور ذاتی فائدے پر مبنی سوچ پر چوٹ
کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بغداد میں حلال یا حرام پر بحثیں چل رہی تھیں ادھر
ہلاکو خاں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اسی طرح ہمارے لیڈر اگلے
الیکشن میں جیت جانے کے لیے عوام کی بھوک میں اضافہ کرنے کی فکر میں ہیں
ادھر امریکہ ہماری خود داری کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی فکر میں ہے۔
ایک شخص کی بروقت طبی سہولت نہ میسر آنے کی صورت میں موت واقع ہو گئی جس کے
سبب ایک شادی والا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ مسٹر اردو کے نزدیک یہ بھی دہشت
گردی ہے کہ ڈاکٹر اپنی صحیح ڈیوٹی انجام نہ دیں۔ ادویات جعلی ہوں۔ فصلوں کے
سپرے جعلی ہوں تو مسٹر اردو مہا منشی ۔۔۔۔ چیف سیکرٹری۔۔۔۔'جیون دان منشی
۔۔۔۔ سیکرٹری صحت۔۔۔۔ اعلی شکشا منشی۔۔۔۔سیکرٹری ہائرایجوکیشن' منشی بلدیات
۔۔۔۔۔ سیکرٹری بلدیات ۔۔۔۔ کو بھی اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور یہ حقیقت
بھی ہے کہ تمام محکمے ذمہ دار ہیں۔ ان کے صوبائی سربراہ بھی ذمہ دار ہیں۔
لوگوں کے قول و فعل میں تضاد اور خودنمائی کا تذکرہ بھی ایک مثال دے کر
مسٹر اردو کرتے ہیں کہ ایک مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ جمع کیا جانے لگا۔
ایک صاحب نے پچاس ہزار کا اعلان کر دیا۔ جب دوسرے دن اس سے طلب کیے گیے تو
اس نے کہا کہ چندہ دینا بھی تھا۔ میں نے سمجھا بس لکھوانا ہی تھا۔ یہ بات
عام مشاہدے میں ہے کہ چندہ لکھوانے کے بعد اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ
چندہ مانگنے والے تنگ آ کر چندہ مانگنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ بہت سے سماجی
موضوعات پر مسٹر اردو نے اچھی اور موزوں بات کی ہے اور بڑے فن کارانہ انداز
میں طنز کیا ہے. اکثر اوقات بین السطور طنز کیا ہے کہ طنز کا گمان تک نہیں
گزرتا بل کہ قاری اسے حقیقت سمجھنے لگتا ہے۔
عوامی نمائندوں کا اپنا ووٹ ذاتی مفاد کی خاطر اپنی پارٹی کے خلاف دینے کی
بڑے ہی اچھوتے انداز میں لوٹے کی سماجی حیثیت کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ ان
کی طنزیہ تحریروں میں ظرافت اور سنجیدگی کا خوب صورت امتزاج ہے۔ وہ بڑے
منفرد اور اچھوتے انداز میں انسانی ناہمواریوں کا خاکہ اڑاتے ہیں۔ زندگی
اور سماج کی کمزوریوں' مریضانہ کیفیتوں کو بےنقاب کرتے ہوئے ہدف طنز بناتے
ہیں۔ زبان میں لطافت اور فکر میں مشاہدے کی گہرائی ان کے موضوعات میں دوام
پیدا کرتی ہے۔ ان طنزیہ تحریروں میں تلخی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ منافقت
دہرے معیارات پر انسانوں کے پاریکھ بن کر سامنے آتے ہیں لیکن کمال یہ کہ
تحریر کا حسن اور مزاح کا حسن برقرار رہتا ہے۔
ان کے طنز و مزاح کا رخ عالم گیر ناہمواریوں پر کم اور ہنگامی حالات پر
زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے حالات جو خاص طور پر اثرانداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہاں
وہ اس معاشرے کی سچائیوں کو اس سلیقے سے بیان کرتے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر بے
اختیار ہنسی آجاتی ہے یا پھر جیسے تنہائی میں آئینہ دیکھ لیا ہو۔
مسٹر اردو کی ایک تحریر کے اقتباس سے ختم کرتا ہوں۔
جگہ' قانون' لوگ اور حکومتیں کسی بھی ریاستی وجود کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے
بغیر ریاست وجود میں نہیں آ سکتی۔ ان میں سے ایک عنصربھی کم ہو تو ریاست
وجود میں نہیں آ سکتی۔ ۔۔۔۔۔ اسی طرح ۔۔۔۔۔ حکومتی ایوانوں میں اگر لوٹے نہ
ہوں تو معزز ممبران سوسائٹی میں پھریں گے۔ اس سے ناصرف حسن کو گرہن لگے گا
بل کہ بدبو بھی پھیلے گی۔ لبڑی پینٹوں شلواروں والے ممبران کی کون عزت کرے
گا۔
الغرض مسٹر اردو اہم اور سنجیدہ موضوعات پر طنز و مزاح پر مبنی تحریر لکھنے
پر قدرت رکھتے ہیں اور اگر یہ کہا جائے وہ صرف لسانیات کے ہی طنزیہ اسلوب
تکلم کے بھی شہ سوار ہیں' تو مبالغہ نہ ہو گا۔
............
مسٹر اردو کی مختصر نظمیں بھی کمال ہیں۔ جب قاری انہیں پڑھتا ہے تو اسے
گمان گزرتا ہے کہ وہ اس قسم کی نظمیں لکھ سکے گا۔ لیکن عملی صورت میں اسے
ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گویا یہ نظمیں سہل ممتنع کا نمونہ ہیں۔ ان
میں معاشرے میں پائے والے تضادات اور اخلاقی قدروں کی پامالی کا بہترین
انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔ مثلا ان کی یہ نظم ملاحظہ ہو۔
سنا ہے
یوسف کی قیمت
سوت کی انٹی لگی تھی
عصر حاضر کا مرد آزاد
دھویں کے عوض
ضمیر اپنا بیچ دیتا ہے
حکمرانوں کے جبر و استبداد کے ہاتھوں کے جب قلم کاروں اورصحافیوں کے سچ
لکھنے پر پہرے ہوں اور انہیں جھوٹ لکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہو تو اس کو
بہت ہی منفرد انداز میں انہوں نے اس نظم میں تحریر کیا ہے۔
زہر کو تریاق تمہیں کہنا ہو گا
میر سفر نے
بہبود کے نام پر
زبان تیری
بربک کے ہاتھ
گروی رکھ دی ہے
ایک فارسی مقولہ ہے:
کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز
اس مقولے کے مفہوم کو مسٹر اردو ایک اور انداز میں پیش کرتے ہیں کہ جن
سینوں میں پتھر ہے وہ لعل و گوہر سے محبت کرتے ہیں۔ لعل و گوہر بھی پتھر
ہیں لیکن گراں قیمت ہیں۔
گویا پتھر' پتھر کو ہی محبوب بنائے گا۔
پتھر سینے میں
لعل و گوہر
محبوب
پتھر کا پتھر
زندگی کی مشکلات اور مرنے کے خوف کو مسٹر اردو ایک نئے انداز سے پیش کرتے
ہیں۔ انسان کی بےبسی کا منظر ایک مثال کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔
: ذرا یہ نظم ملاحظہ ہو
جینا مشکل
مرنا آسان نہیں
زندگی
سانپ کے منہ میں
چھپکلی ہو جیسے
سچائی کی عظمت اور سچائی کے علم برداروں کا ذکر کرتے ہوئے جھوٹ بولنے والوں
سے پورے اعتماد سے مخاطب ہوتے ہیں اور انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
تمہارے جھوٹے وعدوں سے سچائی یا سچائی کے علم برداروں کو کوئی فرق نہیں پڑے
گا کیوں کہ وہ سچائی کا سورج ہیں اور سورج کی گردش میں فرق نہیں آتا۔
جھوٹے وعدے کرنے والو
سن لو
کربلا کے مسافر
ذات میں اپنی
سچائی کا سورج ہیں
ادب اپنے عہد کا آئینہ دار ہوتا ہےاور ہرادیب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے
کہ وہ کھلی آنکھوں اور شعوری توازن کے ساتھ اپنے عہد کے ساتھ اپنے عہد کے
مسائل کو بتائے۔ ان کا عہد جس آگ میں سلگ رہا ہے اس کی المیہ کہانی بیان
کرے۔ مسٹر اردو نے یہ حق زندہ اور روشن احساس کے ساتھ خوب نبھایا ہے۔
سرمایہ داروں کے استحصالی رویے کو جس بےداری اور شان دار اسلوب میں پیش کیا
ہے وہ انہیں ایک ترقی پسند فن کار کا درجہ عطا کرتا ہے۔ مزدوروں کی مزدوری
کا سرمایہ داروں نے استحصال کیا ہے اور اپنی اجارہ داری قائم کی ہے۔ کہتے
ہیں
قیدیوں کو اس وعدہ پر رہا کر دو
فصل پر وہ
زمین پر ہم
ملکیت کا دعوی نہیں کریں گے
تصوف کا بیان بھی مسٹر اردو اپنی نظموں میں نہایت احسن طریقے سے کرتے ہیں۔
الله جل جلالہ کی عظمت اور اپنی کم مائیگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
میں تیری شناخت ہوں۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ الله جل جلالہ فرماتا ہے
کہ میں چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں پھر میں نے محمد صلی
الله علیہ
: وسلم کو پیدا فرمایا۔ اس ذیل میں ذرا یہ نظم ملاحظہ ہو
کیسے میں تم کو سوچ سکوں گا
تم وہاں جہاں میں نہیں
میں زمین تو آسمان
ہاں یہ تشفی ہے
میں تیری شناخت ہوں
تو مرے ہونے کا ثبوت
اب میں تجھے
تیری اجازت سے سوچتا ہوں
الغرض مسٹر اردو نے اپنی نظموں میں زندگی کے ہر موضوع کو کچھ اس طرح سے
اپنی گرفت میں لیا ہے کہ قاری کو اپنے دل کی آواز لگتی ہے۔
...........
مسٹر اردو نے اردو ہائیکو بھی تحریر کیے ہیں۔ ان میں بھی انسان کا دکھ سکھ
پہلی ترجیع پر ہے۔ اپنے محبوب کی بےنیازی اور اس کی محبت میں بےچینی اور
بےبسی کا ذکر سادہ اور آسان لفظوں میں کرتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوزے
میں دریا بند کر دیا گیا ہے۔
یاد میں ان کی شب بھر تڑپا
محبت کو وہ
دماغ کا بخار کہتے ہیں
محبت کے اظہار کا انداز بھی نرالہ ہے۔ بین السطور بہت سے درد اور راز لکھ
جاتے ہیں۔ محبت کو ظاہر بھی ہونے نہیں دیتے۔
نیند روٹھ گئی ہے
آنکھوں میں شاید
بس گیا ہے کوئی
قرآن مجید کے مطابق رجاء وہ ہے کہ آدمی درست سمت میں درست کوشش کرے پھر اس
کی کامیابی کی الله تعالی جل جلالہ سے امید کرے۔ آرزو وہ ہے کہ جب بندہ غلط
سمت میں غلط کوشش کرے اور پھر بھلائی کی امید رکھے۔ غلط آرزو کرنا منع ہے۔
یہ بھی خام آرزو ہے کہ بندہ سرے سے کوشش ہی نہ کرے اور کامیابی کی امید
باندھے۔ اس معاملے کو مسٹر اردو نے نہایت اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے۔
بھیک کے ٹکڑے پیٹ میں اتار کر
میرا باپ غیرت ایمانی
تلاش رہا تھا مجھ میں
جب محبت چھپائے نہ چھپے اور محبوب کی جگ ہنسائی ہو۔ اس پر بہت ہی فن کارانہ
انداز میں معذرت کرتے ہیں۔
میں نے رسوا کیا ہے تم کو
میں تو چپ کے حصار میں تھا
یہ شرارت تو آنکھوں کی ہے
آدمی سے غیرت اور حمیت کس طرح رخصت ہو جاتی ہے۔ جب وہ ضرورت مند بن کر کسی
کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے پھر اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جب وہ پہلے کی
زندگی گزار رہا تھا تو کیسا انسان تھا اور اب کس طرح کا آدمی ہے۔ اس کو ایک
شاعر ہی بہتر طریقے سے محسوس کر سکتا ہے۔
کشکول گدائی تھامنے سے پہلے
وہ زندگی کی باہوں میں تھا
اب چلتا پھرتا ویرانہ ہے
جب کوئی محبوب کی اداؤں کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کا محبوب اس سے اس کا دل
چرا کر لے جاتا ہے اور وہ کچھ بھی نہیں کر پاتا۔ اس وقت کے تعجب اور حیرت
کے منظر کو مسٹر اردو یوں قلم بند کرتے ہیں۔
عجب چور تھا وہ بھی
جاگتے میں لے گیا
چرا کر لے دل میرا
جب آدمی بھوک سے دوچار ہو اور ایک ایک لقمے کو ترسے تو وہ پیٹ بھرنے کے لیے
کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ذلت کی کسی سطع تک بھی جا سکتا ہے۔ باغیرت مر جاتے ہیں
دست سوال دراز نہی کرتے اور ناہی منفی رستہ اختیار کرتے ہیں۔ پہلی قسم کے
لوگوں سے کسی قسم کی امید نہیں کی جا سکتی۔ اسی تناظر میں مسٹر : اردو نے
کہا ہے
اک لقمہ ہو جس کی قیمت
تم ہی کہو وہ سستا انسان
سوچوں پر جھنڈے گا کیا
مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا ذکر بھی اپنے انداز میں کرتے ہیں۔ حیضرت عمر نے
جو خط دریائے نیل کو لکھا تھا اس کے حوالہ عصری جبر کے تدارک کو موضوع گفت
گو بناتے ہیں۔ کہتے ہیں
فرات جبر
جوش میں ہے
آؤ عمر کا خط تلاش کریں
خودی بیچنے والوں کی جب دنیا میں قدر کی جا رہی ہو اور خودی کے پاسبانوں کے
ساتھ دنیا بےرخی اور بے اعتنائی برت رہی ہو' تو دنیاوی جاہ و جلال کے
دلدادہ خودی کی کیا قدر کریں گے۔ ایسے لوگ خودی کے دام وصول کرتے رہتے ہیں۔
اس معاملے کو مسٹر اردو نے یوں بیان کیا ہے۔
میرے شہر کا دستورہے
خودی بیچنے والے
بڑا نام پاتے ہیں
مسٹر اردو نئی نسل سے بڑے پرامید ہیں اور توقع رکھتے ہیں آتی نسل جبر و
استبداد کا خاتمہ کر دے گی۔ کہتے ہیں
ہم ناکام رہے ہیں لیکن
ہماری نسل
ارضی خداؤں کی قبریں کھودے گی
زمانے کے چلن کے مطابق جو بےوفائی رواج پا گئی ہے اور لوگ جس طرح احسان
فراموش ہو گیے ہیں۔ اپنے محسن کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اس کا ہی گلا
کاٹنے کا جتن کرتے ہیں۔ اس معاملے کو مسٹر اردو نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔
میں نے جس شخص کی خاطر
دشت تنہائی میں عمر گزار دی
وہ مرا ہی سر کاٹنے کی فکر میں تھا
: اس خیال کو کسی اور شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے
جس دی خاطر کن پڑوائے اپنے حال وگاڑے نے
اوہنے سانوں پاگل کہہ کے پہلاں روڑے مارے نے
مسٹر اردو محبوب کی بےوفائی کا گلہ نہیں کرتے بل کہ اس کی بےوفائی کا سبب
اپنی ہی درماندی کو قرار دیتے ہیں اور اس کی بےوفائی کو بھولنے اور اس کو
معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
کہتے ہیں
جاؤ تمہیں بھی معاف کیا
درماندہ لوگوں سے
کون نبھا کرتا ہے
..........
مسٹر اردو کی نظم ہو کہ نثر' اس میں عصری جبریت کو واضح اور کھلے الفاظ میں
بیان کیا گیا ہے۔ ایک ہی لہجہ ایک طور دونوں میں ملتا ہے۔ ان کی نظم اور
نثر عام فہم' واضح' سادہ اور متنوع موضوعات پر محیط ہے۔ قاری کسی سطع پر
بوریت کا شکار نہیں ہوتا بل کہ بلا تکان اول تا آخر پڑھ جاتا ہے۔ ان کی
تحریروں میں وحدت ثاثر بنیادی اور اہم ترین عنصر ہے۔
|
|