رگ ویدی تہذیبی تناظر میں اردو کی اصطلاحی معنویت

اُردو زبان کی زندہ اور دھڑکتی ہوئی جڑ رگ ویدی تہذیب میں موجود ہے۔ اُ س کی حقیقی جڑ کی تلاش میں ہم کو ویدک تہذیب کی گہرائیوں اور اُونچائیوں میں مستغرق ہونا پڑے گا۔ لفظ ’’اُردو‘‘ مسلسل سفر کرتاہوا جوکبھی ہندوی، ریختہ، ہندوستا نی اور ہندی وغیرہ ناموں سے جانی جاتی تھی اور آخر میں اپنی اوریجنل شکل اُردو میں موجود ہے۔ انگریزوں نے اس خوبصورت اور حسین زبان کو کیمپ(Camp ) کی زبان کہا۔دراصل اُردو کے معنی لشکر، فوج یا بازار کے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ترکی نژاد لفظ ہے بلکہ’’ اُردو‘‘ خالص ویدک لفظ ہے۔’’ اُردو‘‘ دو الفاظ ’’اُر‘‘ اور ’’دُو‘‘ کا مجموعہ ہے۔ ’’اُر‘‘ معنی دل اور ’’دُو‘‘ کے معنی جاننا ہے۔عارف لوگ تمثیلاًدل کوروح اور جان کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ دراصل ’’اُردو‘‘ کے لفظی معنی یہ ہے کہ روح اور جان کو جاننا یعنی خدا کو جاننا ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود شناسی خدا شناسی ہے۔اس کے ایک معنی دل دینا اور دل لینابھی ہے۔ Love begets loveدل دو، دل لو یا محبت دو،محبت لو وغیرہ مراد لیے جا سکتے ہیں ۔اردو (روح کو جاننا) خُدا کو جاننا ہے۔ عرفانِ روح عرفانِ اﷲ ہے۔ معرفتِ نفس معرفتِ روح ِ آفاق ہے۔مجھے اس سلسلے میں جمہوری درویش شاعر نظیرؔ اکبرآبادی کا یہ شعر بے اختیار یاد آ رہا ہے ؂
سب کتابوں کے کھل گئے معانی
جب سے دیکھی نظیر ؔ دل کی کتاب

ویدک ادب میں ’’ اُر ‘‘ لفظ سے اُرن ، اُرو، اُروو، اُروہ، اُوروہ، اُروریہ ، اُرور ، اُروراجتے ، اُروشی ½،اُروشی اِڈ ا ، اُرانہ ،اُرا متھیہ ، اُرجونپات،اُروارو، اُرویا، اُروی، اُروجما، اُروجیوتی، اُرودھار ا، اُروویچا او ر اُروویچسا وغیرہ لفظوں کا متعدد جگہوں پر استعمال کیا گیاہے۔ ویدک لغات،سنسکرت اور ہندی کے مختلف لغات میں ان الفاظ کے لغوی اور لفظی معانی’’ ہردے ، من، امن، دِل ، روح، جان ،طوانائی، قدرت، اُسعتِ زبان،نور، آتش، ہوا، لوگوں کوزندگی دینے والا آفتاب ،آفاق ، عظیم الشان، زیادہ، اندھیرا ختم کرنے والا سورج، بصیرت افروزی، منبعِ نور، چشمِ دِل، عظیم الشان ویدک زبان، عظیم الشان دھرتی ، کائنات اور رفیع ترین تخلیقیت وغیرہ مراد لی جاتی ہیں ۔ویدک ادب میں ’’ اُر ‘‘، ’’ہردے‘‘ اور ’’ من ‘‘ لفظ اور اس سے مشتق الفاظ کا استعمال جگہ جگہ ملتا ہے۔’اُر‘ دو طرح کی توانائیوں کا مَنبع نور ہے۔ ایک عشق کی توانائی ہے اور دوسری شاہدانہ شعور آگہی کی توانائی ہے۔ نور کے معنی اشہد آگہی ہے۔ اس ضمن میں جگرؔمرادآبادی نے کہا ہے ؂
اک لفظ محبّت کا ادنیٰ سا فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

اسی طرح ویدک ادب میں ’’دا‘‘ مصدر سے مشتق ’’ دَو ‘‘ ، ’’ دُو ‘‘ ، ’’ دَیا ‘‘ لفظ ’’ دا ‘‘، دَے ، دَیتے ، دداتی ، دویوہ دویہ دِو، دوا ، دَون، دتّے، ، داتر، داشتی ، دانتم، داتوے اور دوَو وغیرہ لفظوں کا جگہ جگہ استعمال ملتا ہے۔ ویدک لغات ، سنسکرت اور ہندی کے مختلف لغات میں ان الفاظ کے لغوی معانی دینا ( to give) ، جاننا (to know)، قبول کرنا(to accept) ، حفاظت(to save) ، دینے کے قابل، دینے کے لائق، دینے کے لیے، دیتا ہے،دونوں جہاں یعنی زمین و آسمان ، جنّت، عمل اور وجہ، قدرت اور آدمی ، دو یعنی دُگنے، دو مختلف خیالات کو اپنے دل میں رکھنے والا یعنی زبان پر کچھ اور دِل میں کچھ اور رکھنے والا وغیرہ مراد لیے جاتے ہیں ۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ویدک ادب میں ’’ دا ‘‘ مصدر سے مشتق الفاظ کا استعمال جگہ جگہ ملتا ہے۔ مجھے اس سلسلے میں جمہوری درویش شاعر نظیرؔ اکبرآبادی کا یہ شعر بے اختیار یاد آ رہا ہے ؂
سب کتابوں کے کھل گئے معانی
جب سے دیکھی نظیر ؔ دل کی کتاب

انڈو یوروپین آریہ ایران جانے سے قبل تُرکی گئے تھے اور تُرکی زبان وثقافت بھی انڈو آریائی زبان ، ادب اورثقافت سے بہت زیادہ متاثر ہوئی تھی لیکن ایران میں وہ بعد میں داخل ہوئے اور قدیم ایرانی زبان پہلوی زبان ،ادب اور ثقافت خصوصی طور پرآریائی زبان ، ادب اور تہذیب سے بیحد متاثر، متحرّک اور منوّر ہوئی ہے۔ ان کے یہاں بھی روح اور جان کے لیے اُرون(URVAN) لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔ اُس کے لیے وہ اشارتاً روح کا پیکر(SOUL IMAGE) کا علامتی مرّکب استعمال کرتے ہیں۔ گو یہ بُنیادی طور پر تجریدی(ABSTRACT) ہے۔ اسی طرح وہ خُدا کے لیے آہُور مزد(AH,URA MAZDA) لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ جو دراصل نخشتمثالی (ARCH IMAGE)پیکرہے لیکن بُنیادی طور پر تنزیہی (ABSTRACT)ہے۔ دونوں تہذیبوں کے باہمی تاثر پذیری سے تشبیہی رنگ و آہنگ بھی بڑھتا رہا۔ مثلاً ژندو اوستا کا اُرون(URVAN) رگ وید کے اُر سے مشتق ہے اور آہُورمزد بھی رگ وید کے اُریشور سے مشتق ہے لیکن ان دونوں کے تلفظ میں غالب ایرانی اثر کی وجہ سے تبدیلی آئی ہے اور کہیں کہیں ایرانی اثر کی وجہ سے مفہوم میں بھی تبدیلی آئی ہے اور یہ تبدیلی دونوں جگہ آئی ہے۔ مثلاً رگ وید کادیو (DEV) ایران میں شیطان کے معنی میں استعمال ہونے لگا اور اوستا کا اَ ہورا (اَہُور) سام وید اور یجروید میں اَسُرا (اسُر) میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ زمانے کی ایک گردش کے بعد ایران میں ہند یوروپی آریا(INDO EUROPIAN ARYA) اس دور تک ہند ایرانین آریا(INDO IRANIAN ARYA) کہلانے لگے تھے۔ رگ ویدی اندر (INDRA) پہلوی (پارسی) زبان میں انگرا (INGRA)میں تبدیل ہو گیا۔ انگرا کے معنی شیطان کے ہیں۔ پہلوی زبان میں یم زندگی اور انسانیت کا سب سے بڑا اظہاریہ بن گیا۔ جو کہ بعد میں پارسی ادب میں جم میں تبدیل ہو کر جمشید میں بدل گیا ہے۔ جامِ جمشید کا استعمال جدید فارسی ادب سے مستعار اُردو ادب میں بھی استعمال ہونے لگا ہے جب کہ یہ یم لفظ ویدک ادب میں موت کا فرشتہ ہے۔ انڈو ایرانین آریانے جب ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو اُن کے رشیوں (عارف بااﷲ ) کے دانشی اور بینشی پس منظر میں محولہ بالا روحانی صداقتیں روشن و منوّر تھیں۔ اس مقدّس ذہنی پس منظر میں اُنھوں نے لفظ ’اُردو‘ کا استعمال کیا تھا۔ جس کا شعوری استعمال وہ پہلوی زبان (پارسی) میں بہت پہلے سے کر تے آرہے تھے۔ ایران جانے سے قبل وہ تُرکستان گئے تھے اور وہ اُردو کو اسی رفیع ترین معنی میں استعمال کرتے تھے اور یہ اُردو لفظ رگ ویدی عہد سے دسویں صدی تک مسلسل بغیر کسی تغیّر کے استعمال ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔

اس قدیم ترین ویدی پس منظر سے اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میں نئے عہد کی تخلیقیت تک اُردو کی یہ ہر دلعزیز جوڑنے والی گنگا جمنی روح ہر عالم میں غیر مشروط انسانیت کی ہمیشہ علمبردار تھی، ہے اور رہے گی۔ لہٰذا یہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ اُردو اصطلاح کے ضمن میں سوقیانہ لشکر، بازار اور کیمپ کی بگڑی ہوئی اصطلاح قابلِ منسوخ ہے ۔ جو تُرکی افواج اُردو کی مسخ شدہ شکل میں استعمال کرتی تھیں اور جس کو سیاسی مصلحت باختگی کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہوں نے شعوری طور پر قبول کیا اور سیاسی مصلحتوں کے تحت نہایت بد نیتی سے شب و روز تبلیغ کی لیکن یہ بے رحم سچّائی ہے کہ ہندوستان میں ہند ایرانی آریا (INDO IRANIAN ARYA)آہستہ آہستہ ہند آریائی آریا(INDO ARYAN ARYA) کہلانے لگے ، گو کہ یہ ہند آریائی آریا پورے ہندوستان میں اپنے غالب تہذیبی اورروحانی اشرات کے ساتھ پھیل گئے لیکن خصوصی طور پر یہ لاہور پر کئی صدیوں تک چھائے رہے لیکن جب لاہور پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی ۔ مسلم تہذیب و ثقافت کے اثرات کے باوجود بھی ہند آریائی اثرات غالب رہے۔ لہٰذا عربی اور فارسی کے بجائے پنجابی زبان کے اثرات اُردوزبان پر حاوی رہے کیوں کہ پنجابی اور اُردو کی بنیادی قواعد یکساں ہے۔

دسویں صدی میں لاہور کی شاہی اور سرکاری زبان ابتدائی پنجابی زبان تھی۔ جس سے گھُل مِل کررگ ویدی اُردو اپنے مخصوص اور منفرد ہند آریائی تہذیبی اور روحانی حسن اور معنویت کے ساتھ آہستہ آہستہ پھلتی پھولتی رہی اور اب یہی مشترکہ گنگا جمنیزبان اُردو اکیسویں صدی میں اپنی لسانی اور ثقافتی معراج پر پہنچ گئی ہے۔ یہ ہند اُردوئی ثقافت (INDO URDUIAN CULTURE) کی ویدی گہرائیوں اور اونچائیوں کی امین ہے۔ ویدک تہذیب کی عطا کردہ یہ اصطلاح اُردو آج بھی مشترکہ ہندوستانی زبان و تہذیب کا ہمہ رخی روشنی کا مینار ہے۔ یہ اُردو زبان کمالِ محبّت اور کمالِ بصیرت کا آئینہ خانہ ہے۔ دسویں صدی کے بعد پیدا تمام اہم جدید ہندوستانی زبانوں کا باہم موازنہ کرتے ہوئے پر وفیسر گوپی چند نارنگ خصوصی طور پر اُردو زبان کو تمام ہندوستانی زبانوں کا تاج محل کہتے ہیں۔

دھلی میں آنے سے پہلے تقریباًدو سوبرس تک مسلمان پنجاب میں رہے۔ وہاں کی تہذیب و روایت اور بول چال کی زبان کو اپنی زندگی کا نہایت فطری طور پر زندہ اور دھڑکتا ہوا حصّہ بنایا۔ صوبۂ پنجاب کی زبان پنجابی تھی اور مسلمانوں کے پنجاب میں آمد کے بعد وہاں کی بولی میں نہایت سرعت سے تبدیلی آنا شروع ہو گئی اور مسلمان جب پنجاب سے دہلی اور الہ آباد تک گئے تو اپنے ساتھ وہ قدیم اُردو زبان کو بھی ساتھ میں اپنی ہجرت کے وقت لے گئے تھے۔اسی خیال کا اظہار حافظ محمودخاں شیرانی ، شیر علی سرخوشؔ، جارج گریرسن، ڈاکٹر سنیتی کُمار چٹرجی اور ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ان محققین نے اپنے تحقیقی اور مدلّل افکار کے وسیلے سے اس خورشید نیم روزی حقیقت کو مکمّل طور پر ثابت کر دیا ہے کہ اُردو زبان میں پنجابی پن موجود ہے۔ جب مسلمان لاہور سے دھلی اور دھلی سے الہ آباد تک شمالی ہندوستان میں مسلمان پھیل گئے اور اپنے ساتھ جو زبان ساتھ لے کر کے گئے وہی اُردو زبان ہے۔ ۱۹۲۶؁ء میں ڈاکٹر سنیتی کُمار چٹرجی نے اپنی مایہ ناز لسانی کارنامہ ’’ بنگالی زبان کا آغاز و ارتقاء (THE ORIGIN AND DEVELOPMENT OF THE BENGAL)کے جلد اوّل کے مقدمہ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ نواحِ دھلی کی موجودہ بولیوں کی شناخت مسلمانوں کے داخلۂ دھلی کے وقت تک نہیں ہوئی تھی اور لاہور سے الہ آباد تک تقریباً ایک ہی قسم کی زبان کا چلن عام تھا۔ ٹی۔گراہم بیلی نے بھی اس سلسے میں ان محولہ بالا حقائق کی مزید تصدیق و توثیق اے ہسٹری آف دی اُردو لٹریچر میں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ اُردو ۱۰۲۷ء کے لگ بھگ لاہور میں پیدا ہوئی۔ قدیم پنجابی اس کی ماں ہے اور قدیم کھڑی بولی
سوتیلی ماں۔ برج سے براہ راست اس کا کوئی رشتہ نہیں۔ مسلمان سپاہیوں نے پنجابی کے اس
روپ کو جو اُن دنوں دہلی کی قدیم کھڑی بولی سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ اس کو اختیار کیا اور اس میں
فارسی الفاظ اور فقرے شامل کر دیے۔‘‘

اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی تمام جدید زبانیں مختلف لسانی تبدیلیوں کے ساتھ دسویں صدی میں وجود میں آئیں لیکن ویدک ادب میں استعمال کردہ لفظ اُردو اور امن ( ماورائے دماغ آشتی اور اسلام کے معنی میں )متواتر اکیسویں صدی تک ہو بہو استعمال ہو رہے ہیں اورخصوصاًاُردو کی یہ مقدّس ویدی اصطلاح اکیسویں صدی کے عالمی ، قومی اور مقامی پسِ منظر میں حقیقی معنوں میں بین الاقوامی محبوبیت اور مقبولیت کی امین ہو گئی ہے۔ آج پوری دُنیا سمٹ کر عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب کا خورشید نشان اُردوعالمی گاؤں کا جیتا،جاگتا اورجگمگاتا ہوا عالمی نشانِ امتیاز بن چکا ہے۔
Ajat Malviya
About the Author: Ajat Malviya Read More Articles by Ajat Malviya: 34 Articles with 78748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.