جوہری اثاثے ہماری سلامتی کے ضامن

واشنگٹن میں 12-13اپریل کو نیوکلیئر سکیورٹی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ بظاہر تو اس کا مقصد جوہری پھیلاؤ اور سلامتی کو مزید بہتر بنانا تھا۔ مگر درپردہ مقاصد میں جوہری میدان میں اپنی بالادستی اور اجارہ داری قائم رکھنے کے علاوہ ایران، شمالی کوریا اور پاکستان جیسے ممالک کے جوہری ٹیکنالوجی کے حصول میں رکاوٹیں ڈالنا تھا، چاہے وہ سول مقاصد کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ کانفرنس میں 47 ممالک کے سربراہان مملکت نے شرکت کی۔ ایران، شمالی کوریا اور شام کو امریکی حکومت کی جانب سے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے دعوت نامہ موصول نہیں ہوا۔ جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم جنہوں نے عرب ممالک کی طرف سے این پی ٹی(NPT) پر دستخط کے لیے ممکنہ دباؤ کے پیش نظر شرکت سے اجتناب کیا۔ یہ خبر بھی سنی گئی کہ امریکہ نے اسرائیلی وزیر اعظم کو ممکنہ تنقید اور دباؤ سے بچنے کے لیے دورہ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کے سربراہان مملکت نے بھی شرکت کی۔ یاد رہے کہ دونوں ممالک نے این پی ٹی(NPT) پر دستخط نہیں کیے۔”پاکستان کے جوہری اثاثوں کے حفاظتی اقدامات سے پوری طرح مطمئن ہیں مگر بھارت کو یقین نہیں ہے “ ۔ امریکی صدر باراک اوبامہ کے اس بیان سے جہاں پاکستانیوں کو راحت نصیب ہوئی وہاں کمال حیرت بھی۔ پہلے ہم بھارت میں ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی کے لیے جوابدہ تھے اور اب ہم اپنے جوہری ہتھیاروں کے حفاظتی اقدامات کے لیے بھی بھارت کو جوابدہ بنائے جارہے ہیں۔ جبکہ بھارت کی یہ حالت ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق 1984ء سے اب تک بھارت کے ایٹمی پلانٹوں سے یورینیم چوری کے تقریباً154 واقعات پیش آچکے ہیں۔

یورینیم چوری کے واقعات ہوں یا سائنسدانوں کی ہلاکت مغربی میڈیا مکمل طور پر بھارت کا ساتھ دیتا دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کا ایٹمی سائنسدان ماہالنگن جو 8جون 2009ء کو سیر کرتے غائب ہوا، چھ دن کے بعد اس کی لاش کالی دریا سے ملتی ہے۔ شاید ہی کسی نے برطانوی یا امریکن میڈیا پر یہ خبر نشر ہوتی دیکھی یا سنی ہو۔ فرض کریں یہ واقعہ اگر پاکستان میں وقوع پذیر ہوتا تو سارا برطانوی و امریکن میڈیا یہ ڈھول پیٹ رہا ہوتا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔ اور یہ کہ پاکستان کتنا غیر ذمہ دار اور غیر محفوظ ملک ہے۔ اسی طرح 8دسمبر 2009 کو ممبئی کرائم برانچ نے یورینیم کی چوری کے الزام میں تین آدمیوں کو گرفتار کیا جن کے قبضے سے 5 کلو گرام مواد برآمد کیا گیا۔ اس سے زیادہ حیران کن بات کہ یہ واقعہ تارہ پور اٹامک پاور اسٹیشن سے کمپیوٹر کے آلات چوری کرتے 2 افراد کی گرفتاری کے ایک دن بعد عمل میں آیا۔ ان سارے حقائق کے باوجود بھارت میں آئندہ نیوکلیئر مواد کی چوری کے واقعات یا ان کا دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا نہ ہی خدشہ ظاہر کیا گیا اور نہ این پی ٹی پر دستخط کے لیے کوئی دباؤ ڈالا گیا۔ جبکہ پاکستان جہاں اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہوتے، جوہری اثاثوں کی حفاظت زیر بحث رہی۔

دنیائے عالم پر پاکستان کا ظہور اور جوہری صلاحیت کا حصول ہمارے ازلی دشمنوں کے لیے بے چینی کا سبب ہیں۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن سے واضع ہوتا ہے کہ ہمارے جوہری اثاثے مخالف طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اور وہ انہیں نشانہ بنانے کی ترکیب سوچتے رہتے ہیں۔ یہاں مجھے اس مور کی کہانی یاد آتی ہے جو جنگل میں کھڑا اپنے خوبصورت پر نوچ کر پھینک رہا تھا۔ ایک عقلمند نے متعجب ہو کر پوچھا۔ اے مور!تیرا دل کس طرح گوارا کرتا ہے کہ تو اپنے خوبصورت پروں کو اکھاڑ کر پھینکے؟ یہ تیری بڑی ناشکری اور گستاخی ہے کہ پُرنقش و نگار پروں کو تو اس بے قدری سے ضائع کر رہا ہے۔ مور کچھ نہ بولا مگر اس کی آنکھوں سے خود بخود آنسو رواں ہوگئے۔ جب آنکھوں کی راہ وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال چکا تو بولا۔ اے دانا انسان! اب میری بات سن۔ تو میرے خوشنما پروں کو دیکھتا ہے مگر میں اپنے عیبوں کو دیکھ کر اشکبار ہوں۔ نہ میرے گوشت میں مزا ہے نہ پاؤں خوبصورت۔ لوگ میرے پروں کی تعریف کرتے ہیں اور میں اپنے عیبوں کی وجہ سے خجل(شرمندہ) ہوں۔ صرف میرے پر ہی ہیں جن کے لیے شکاری میری تلاش میں رہتے ہیں اور مجھے مار گراتے ہیں۔ کاش گوشت اور پاؤں کی طرح میرے پر بھی خراب ہوتے۔ میری نیلگوں گردن بدصورت ہوتی تو شکاریوں کا نشانہ نہ بنتا۔ میں اپنی دُم کے پر نوچ کر پھینک رہا ہوں تاکہ مجھے لنڈورا دیکھ کر شکاری میری جان لینے کے درپے نہ ہوں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کاش ہم جوہری طاقت نہ بنتے مگر اس کہانی سے یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ ہماری اسی خوبی (طاقت)کو شکار کرنے مخالف ہمہ وقت تیاریوں میں مصروف ہیں۔ مور کا اپنے بے مزا گوشت اور بدنما پاؤں جیسے عیبوں کی وجہ سے اشکبار ہونا اور اپنے خوبصورت پروں کو محض اس لیے نوچ پھینکنا کہ شکاریوں کے نشانے سے محفوظ رہے۔ مور کی طرح ہمیں اپنے عیبوں پر اشکبار تو ہونا چاہیے لیکن ایسے اقدامات سے بچنا چاہیے جن سے ہماری خوبیاں ضائع ہونے کا احتمال ہو۔ ہمارے جوہری اثاثے ہماری خوبی ہیں اور ہماری سلامتی کے ضامن بھی۔ شکاریوں سے بچنے کے لیے مور اپنے پر نوچتا ہے لیکن ہم اپنے جوہری اثاثے گروی رکھوا کر یا انہیں ضائع کر کے نہ دشمنوں پر رعب اور دبدبہ ڈال سکتے ہیں اور نہ دشمنوں کے ناپاک عزائم سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ہمیں بالکل خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے اگرچہ ہم جوہری صلاحیت کے حصول کے بعد شکاریوں کے نشانے پر ہیں جو ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کوئی اسلامی ملک حاصل کرے۔ پاکستان نے جوہری صلاحیت حاصل کر کے اسلامی دنیا میں منفرد مقام حاصل کیا اور اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر تو بنایا لیکن ساتھ ہی اس صلاحیت اور طاقت کے حاصل کرتے ہی اسلام مخالف طاقتیں سرگرمِ عمل ہو گئیں۔ اور آج ہم ایسے مقام پر ہیں کہ ہمیں اپنی طاقت جس کو ہماری خوبی میں شمار ہونا تھا ہمارے لیے عیب سیاہ بنا کر ہمارے ماتھے پر لٹکایا جارہا ہے۔ دراصل اسلام مخالف طاقتیں ابھی تک یہ ہضم نہیں کر سکیں کہ پاکستان نے جوہری صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ اور ہر وقت اس درپے ہیں کہ اسکی جوہری صلاحیت کو کسی طرح سے ضائع کیا جائے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان بظاہر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستانی جوہری ہتھیار محفوظ ہیں لیکن اگلے ہی دن وہ قلابازی لگاتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار طالبان اور القاعدہ کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ وہ یہ بیان ایسے دیتے ہیں جیسے ہمارے جوہری ہتھیار راستے میں پڑے ہیں اور کوئی بھی راستے سے گزرنے والا ان پر قبضہ کر لے گا۔ ہم ذمہ دار قوم ہیں اور ہمارے جوہری ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ ہمیں اپنی فوج اور سیکیورٹی ادروں پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے باخوبی واقف و آشنا ہیں۔ ملک اور جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل دور میں ضرور ہے لیکن ہم اپنے دشمنوں سے غافل نہیں۔ آئے روز دہشتگردوں کے حملے ہمارے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتے۔ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان کو ایسی دلدل میں پہنچا دیا جائے جہاں سے نکلنا مشکل بلکہ ناممکن ہو۔ ہنود و یہود چاہے امریکہ یا اسرائیل کی شکل میں ہوں یا روس یا برطانیہ کے روپ میں کوئی ایک بھی کسی مسلمان ملک کا خیر خواہ نہیں۔

امریکہ، روس، بھارت،اسرائیل، افغانستان اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کے خفیہ ادارے متحد ہو کر پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔ یہ ممالک ناصرف پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بلکہ اسلام سے بھی خائف ہیں۔ جہاں کوئی تخریبی کاروائی ہوئی اسلام کو گھسیٹنا شروع کر دیا کہ اسلامی انتہا پسند یا اسلامی دہشتگرداس کارروائی میں ملوث ہیں۔ حالا نکہ دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام سلامتی کا دین ہے اور امن کا درس دیتا ہے۔ ہم امن کے دین کے متوالے ہیں۔ ہم نے جوہری صلاحیت امریکہ کی مخالفت، رکاوٹوں اور سنگین نوعیت کی پابندیوں کے باوجود حاصل کی۔ بھارت اور مغربی ممالک یہ واویلا بند کریں کہ پاکستانی جوہری اثاثے محفوظ نہیں۔ جھوٹی خبریں اور بے بنیاد راگ الاپنے سے جھوٹ سچ نہیں بن سکتا۔ پاکستانی جوہری اثاثوں کی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بہترین اور مؤثر ہے۔ ہم دنیا کی کسی طاقت کو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے یا اس کے وجود کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان اپنی دفاعی صلاحیت برقرار رکھے گا کیونکہ مضبوط دفاع ہی خطے میں قیام امن کی ضمانت ہے۔
Hafiz Mansoor Jagiot
About the Author: Hafiz Mansoor Jagiot Read More Articles by Hafiz Mansoor Jagiot: 22 Articles with 17455 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.