بارہ مئی کی وہ شام

 12 مئی کی وہ شام میرے حافظہ پر ایک سرخ لکیر کی طرح جم گئی ہے، جب شہر میں جگہ جگہ لاشیں تھیں، جلی ہوئی گاڑیاں تھیں، یا اسپتالوں میں بہتے خون کے ساتھ زخمیوں کی بڑی تعداد، پھر اسی شام اسلام آباد میں ایک کرائے کے جلسے میں مکہ لہراتے ہوئے ایک آمر نے کہا کہ کراچی میں اس کے مخالفین نے مشرف کی طاقت دیکھ لی ہے۔12 مئی کے اس دن شہر میں ۰۴ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔50 سے زیادہ زخمی بےشمار گاڑیاں جلی پڑی تھیں۔ اور سارے دن بےگناہ اور معصوم شہریوں پر آگ اور گولیوں کی بارش ہوتی رہی تھی۔ دل جل رہا ہے اور آنکھ میں بے بسی کے آنسو تھے۔ ہلاک ہونے والے کسی بھی قوم اور فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ لیکن یہ کراچی کے باشندے تھے۔ حریت فکر ان کی رگوں میں دوڑ رہی تھی۔ ٹی وی پر ایسے ایسے ہولناک مناظر تھے کہ آج تک نہیں بھولتے۔ بیٹے کی میت پر بین کرتی ماں، اور بہن کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ بات اتنی سی تھی کہ عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو معطل کرنے کے بعد صدر پرویز مشرف کے خلاف وکلاء کا احتجاج زور پکڑ رہا تھا۔ جس میں وکلا کے ساتھ ساتھ حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی شامل ہوتی گئیں۔ 12 مئی کو چیف جسٹس نے کراچی میں وکلاء سے خطاب کرنا تھا۔ پرویز مشرف کے پاس ایک راستہ یہ تھا کہ ملک میں ہنگامی حالت لگا کر مظاہروں پر پابندی لگا دیں۔ یا اپنی طاقت کا مظاہرہ کر کے حزبِ اختلاف کو "سبق" سکھا دیا جائے۔ 11 مئی کو ہی حالات کشیدہ ہوگئے۔ اور اس رات مسلم لیگ نواز کا ایک کارکن شہید کر دیا گیا۔ انتظامیہ نے راتوں رات شہر کی تمام بڑی شاہراہوں پر ٹرک کھڑے کر کے انہیں بند کر دیا۔ صبح تک سارا شہر مفلوج ہو چکا تھا۔ 12 مئی کو دوسری سیاسی جماعتوں کے ان جلوسوں اور قافلوں پر حملہ آور ہوتے رہے، جو چیف جسٹس کے استقبال کے لیے نکالے جا رہے تھے۔ ان حملوں میں 38 کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کراچی ائیرپورٹ پر محصور ہو کر رہ گئے۔ آخر کار شام کو وہ اپنے خطاب کا ارادہ ترک کر کے واپس اسلام آباد لوٹ گئے۔ شام کو اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کراچی میں "عوامی طاقت" کے مظاہرے پر خوشی کا اظہار کیا۔ اس جلسہ میں جو سرکاری خرچ پر لوگوں کو زبردستی جمع کر کے رچایا گیا تھا، اسی دن جب کراچی خون میں نہا گیا تھا، ڈھول پر رقص کیا گیا۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے پولیس کے آئی جی، سندھ، او دوسرے ذمہ داروں کو عدالت میں طلب کیا۔ لیکن کسی نے آنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی سندھ کی عدالت عالیہ کی فائلوں میں یہ مقدمہ بھی ان ہزاروں مقدموں کی طرح لاوارث پڑا ہے۔ جس کا خون کراچی کی گردن پر ہے۔ انسانی خون اس وقت تک پکارتا رہتا ہے۔ جب تک اس پر انصاف نہ ہوجائے12 مئی گزر جائے گی،12 مئی پھر آئے گی۔ رزق خاک ہونے والا لہو اس وقت تک پکارتا رہے گا۔ جب تک اسے انصاف نہیں مل جاتا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 390305 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More