سویڈن میں پاکستان کے سابق سفیر جناب ڈاکٹر
عبد الستار بابر نے افسوس کا اظہار کیا کہ کشمیر کو بھلا دیا گیا ہے اور
مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی پالیسی اب متحرک نہیں رہی۔ ایک سابق سفیر سے
بہتر خارجہ پالیسی پر کوئی اور تبصرہ نہیں کرسکتا۔ مسئلہ کشمیر پر حکومت
پاکستان کی دلچسپی دیکھنا ہو پارلیمانی وکشمیر کمیٹی کو دیکھ لیں جس کی
سربراہی سیاسی رشوت کے طور پر ایسی شخصیت کو دی گئی ہے جو نہ مسئلہ کشمیر
سے واقف ہے اور نہ ہی اپنے طویل دور صدارت میں انہوں نے اس حوالے سے کوئی
فعال کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے
سلسلہ میں سابق حکومت کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔ جموں کشمیر پر بہت مضبوط کیس
ہونے کے باوجود دنیا سے اس کے لیے حمایت کیوں حاصل نہیں کی جاسکی۔ اقوام
متحدہ کی قراردادوں کی موجودگی، بھارت کے غیر قانونی قبضہ، ہزاروں شہادتوں
کے باوجود مسئلہ کشمیر کیوں عالمی توجہ حاصل نہیں کرسکا؟ کیا پالیسی سازوں
نے اس بارے میں سوچا اور کوئی لائحہ عمل تیار کیا۔ یوم یکجہتی کشمیر منانے
کے ساتھ کشمیر پالیسی کا جائیزہ بھی لینا چاہیے اور ہر سال اس دن حکومت کو
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی کارکردگی بتانی چاہیے کہ عالمی سطح پر اس
مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لیے کیا قدامات کیے گئے ہیں۔ یہ بھی واضع کرنا
چاہیے کہ دنیا کے تقریباََ ایک سو ممالک میں موجود پاکستانی سفارت خانوں نے
اس ضمن کیا کرادر ادا کیا ہے۔
کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اچھی بات ہے لیکن یہ اظہار چھٹی کے بغیر
بھی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی تباہ حال معیشت جس پر66457 ملین ڈالر کے صرف
بیرونی قرضے ہیں، ایک دن کی چھٹی 82 ارب روپے کا نقصان کرے گی۔ یہ کہاں کی
عقل مندی اور اس سے مسئلہ کشمیر کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوگا کیونکہ
معاشی طور پر مستحکم پاکستان ہی دفاعی طور پر مضبوط ہوگا جو آزادی کشمیر کا
ضامن ہوسکتا ہے۔ 1974 میں اندرا گاندھی اور شیخ عبداﷲ کے معاہدہ پر
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پورے پاکستان میں ہڑتال کروائی تھی جس پر
اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ پاکستان نے اپنا ہی نقصان ہے۔ 1990 سے 5 فروری
کے دن اب تک 26 چھٹیوں سے تقریباََ 213200 ارب روپے ملک کو تقصان ہوچکا ہے۔
اتنی رقم سے پاکستان کی تقدیر بدلی جاسکتی تھی۔المیہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر
سے آزادکشمیر میں آنے والے مہاجرین بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ یوم
یکجہتی کشمیر کے ساتھ یوم یکجہتی پاکستان منانے کے بھی ضرورت ہے۔ یوم
یکجہتی کشمیر منانا محض ایک جذباتی اقدم ہے۔ جنوبی ایشیا میں مستقل امن کے
لیے بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادیں تسلیم کرنا ہوں گی ۔ اس مسئلہ کو
کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا ہوگا جواٹوٹ انگ اور شہ رگ سے ہٹ
کر ہی ممکن ہے۔
حق خود آرادیت کشمیری عوام کا پیدائشی حق جس کی ضمانت اقوام متحدہ نے بھی
دی ہے ۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے اقوام عالم کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا۔
کشمیریوں کا نہرو کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو اس مسئلہ کو اقوام متحدہ لے
گیا اور جس وجہ سے یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن گیا۔ یہ اب بھی اقوام
متحدہ کے حل طلب مسائل میں سے ایک ہے اور جموں کشمیر کی خونی لکیر پر اقوام
متحدہ کے فوجی مبصرین کی موجودگی اس کا مظہر ہے۔ دنیا کے سامنے بھارتی
جمہوریت کا اصل چہرہ پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح کشمیری عوام کے
آزادانہ رائے شماری کے جمہوری حق سے انکار کررہا ہے۔ دنیا کے سامنے بھارت
کے پہلے وزیر اعظم نہرو کا لال چوک سر نگر میں اعلان رکھنا ہوگا جس میں
انہوں نے رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ جس اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل کا بھارت مستقل رکن بننا چاہتا ہے اُسی کی قراردوں کو مسترد کرتا ہے
مگر ہم اسے دنیاکے سامنے کیوں اجاگر نہیں کرسکے۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں عدل و انصاف نہیں اور حقوق انسانی کے معیار سب کے
لیے یکساں نہیں۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور دنیا کے دیگر ممالک کے اس کے
ساتھ بہت سے مفادات وابستہ ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے پالیسی سازوں کو
سوچنا چاہیے کہ موجودہ عالمی اور خطہ کے حالات کس حکمت عملی اور کشمیر
پالیسی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم کشمیر پرکیسے عالمی حمایت حاصل کرسکتے ہیں۔
اس امر کا جائیزہ لینا چاہیے کہ ماضی میں کہاں کہاں غطیاں کی گئیں اور اُن
کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔ پالیسی سازوں کے پاس اگر فرصت ہو تو آل انڈیا مسلم
لیگ کے دہلی میں اپریل 1947 کو ہونے والے اجلاس کے ریاستوں کے بارے میں
فیصلہ اور 18جون 1947کے پاکستان ٹائمز کے صفحہ اول پر بانی پاکستان کے
کشمیر پر دیئے گئے پالیسی بیان کا مطالعہ کرلیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی
خارجہ پالیسی کی وجہ سے بھی مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر زندہ ہے لیکن
دنیاتب توجہد دیتی ہے جب کشمیری خود اپنا کیس پیش کرتے ہیں۔ اس امرکا عملی
تجربہ ہمیں اُس وقت ہوتا ہے جب یورپی اراکین پارلیمنٹ، حقوق انسانی کے
عالمی اداروں ، سویڈش حکومتی اور سیاسی رہنماؤں کے پاس مسئلہ کشمیر کی
لابنگ کے لیے جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان اور وزارت خارجہ بھی یہ تسلیم کرتی
ہے کہ مسئلہ کشمیر پر دنیا ہماری بات نہیں سُنتی لیکن جب کشمیری خود بات
کرتے ہیں تو دنیا توجہ سے سُنتی ہے۔جب بھی مسئلہ کشمیر پر لابنگ کی ضرورت
ہو پاکستانی سفارت خانے ان ممالک میں موجود کشمیریوں کوآگے کرتے ہیں کہ آپ
کشمیر پر بات کریں گے تو وہ موثر ہوگی ۔جب صورت حال ایسی ہی ہے تو یہ ذمہ
داری حریت کانفرنس کو اعتماد میں کے کر آزادکشمیر حکومت کو کیوں نہیں دی
جاتی کہ وہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو خودپیش کرے ۔ پاکستانی وزارت خارجہ
اور سفارت خانے اس سلسلہ میں ہر ممکن تعاون کریں۔ جب کشمیری اقوام متحدہ
اور دیگر عالمی اداروں میں اپنا مقدمہ خود لڑیں گے تو دنیا اس پر تووجہ دے
گی ۔ مسئلہ کشمیر کوعالمی سطح پر اجاگر کرنے یہی ایک راستہ ہے جو اس کے حل
کی سمت میں موثر کوشش ہوگا۔ |